بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
.
امام حسن علیہ السلام کی شہادت پر معاویہ کی خوشی……!
.
مقدام بن معدی کرب، عمرو بن اسود اور بنی اسد کے قنسرین کے رہنے والے ایک شخص معاویہ بن ابی سفیان کے پاس آئے، تو معاویہ نے مقدام سے کہا: کیا آپ کو خبر ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا انتقال ہو گیا؟ مقدام نے یہ سن کر «انا لله وانا اليه راجعون» پڑھا تو ان معاویہ نے کہا: کیا آپ اسے کوئی مصیبت سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں اسے مصیبت کیوں نہ سمجھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی گود میں بٹھایا، اور فرمایا: یہ میرے مشابہ ہے، اور حسین علی کے ۔ یہ سن کر اسدی نے کہا: ایک انگارہ تھا جسے اللہ نے بجھا دیا تو مقدام نے کہا: آج میں آپ کو ناپسندیدہ بات سنائے، اور ناراض کئے بغیر نہیں رہ سکتا، پھر انہوں نے کہا: معاویہ! اگر میں سچ کہوں تو میری تصدیق کریں، اور اگر میں جھوٹ کہوں تو جھٹلا دیں، معاویہ بولے: میں ایسا ہی کروں گا۔ مقدام نے کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ معاویہ نے کہا: ہاں۔ پھر کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ کہا: ہاں معلوم ہے، پھر کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھال پہننے اور اس پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے؟ کہا: ہاں معلوم ہے۔ تو انہوں نے کہا: معاویہ! قسم اللہ کی میں یہ ساری چیزیں آپ کے گھر میں دیکھ رہا ہوں؟ تو معاویہ نے کہا: مقدام! مجھے معلوم تھا کہ میں تمہاری نکتہ چینیوں سے بچ نہ سکوں گا۔ خالد کہتے ہیں: پھر معاویہ نے مقدام کو اتنا مال دینے کا حکم دیا جتنا ان کے اور دونوں ساتھیوں کو نہیں دیا تھا اور ان کے بیٹے کا حصہ دو سو والوں میں مقرر کیا، مقدام نے وہ سارا مال اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیا، اسدی نے اپنے مال میں سے کسی کو کچھ نہ دیا، یہ خبر معاویہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا: مقدام سخی آدمی ہیں جو اپنا ہاتھ کھلا رکھتے ہیں، اور اسدی اپنی چیزیں اچھی طرح روکنے والے آدمی ہیں۔
.
سنن ابی داؤد رقم حدیث 4131
قال الشیخ الالبانی و الشیخ زبیر علی زئی اسناد صحيح
.
اہل سنت کے بہت سے مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب معاویہ ابن ابو سفیان کو امام حسن علیہ السلام کی شہادت کی خبر ملی تو اس نے سجدہ شکر ادا کیا۔
.
ابن سمعون بغدادی نے امالی میں،
زمخشری نے ربيع الأبرار میں،
انصاری تلمستانی نے الجوهرة فی النسب
اور
ابن خلكان نے وفيات الأعيان، ميں لکھا ہے کہ:
📝 جب معاویہ کو امام حسن (ع) کی شہادت کی خبر ملی تو اس نے اتنی بلند آواز سے تکبیر کہی کہ اس کے سبز محل سے اس کی آواز کو سنا گیا اور شام کے لوگوں نے بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے تکبیر کہی۔
معاویہ کی بیوی فاختہ بنت قریظہ نے معاویہ سے کہا کہ تم بہت خوش نظر آ رہے ہو کیا ہوا ہے کہ اس طرح سے تکبیر کہہ رہے ہو ؟
معاویہ نے کہا حسن ابن علی قتل ہو گیا ہے۔
فاختہ نے کہا کہ کیا تم فاطمہ کے بیٹے کے مرنے پر تکبیر کہہ رہے ہو ؟
معاویہ نے کہا خدا کی قسم اس کے مرنے نے میرے دل کو اتنا خوشحال کیا ہے کہ میں خوشی سے تکبیر کہہ رہا ہوں۔
ابن عباس معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا کہ
جو واقعہ تمہارے خاندان میں پیش آیا ہے کیا تمہیں اس کی کوئی خبر ہے ؟
ابن عباس نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا ہے لیکن تم بہت ہی خوشحال نظر آ رہے ہو اور میں نے تمہاری تکبیر کہنے اور سجدہ شکر ادا کرنے کے بارے میں بھی سنا ہے۔
معاویہ نے کہا: حسن دنیا سے چلا گیا ہے۔
ابن عباس نے تین مرتبہ کہا خداوند ابو محمد پر رحمت کرے
پھر معاویہ سے کہا کہ خدا کی قسم اے معاویہ اس کا قبر میں جانا تمہیں قبر سے رہائی نہیں دے گا اور اس کی عمر کا کم ہونا تیری عمر کو زیادہ نہیں کرے گا۔ اگر ہم امام حسن کے ساتھ محشور ہو جاتے ہیں تو گویا ہم پرہیز گاروں اور رسول خدا کے ساتھ محشور ہوئے ہیں اور خداوند اس دوری کی تلافی اور اس غم کو سکون کی حالت میں بدلے گا اور اس کے بعد خداوند ہمارے لیے اپنے جانشین کو انتخاب کرے گا۔
.
📚 ابن سمعون البغدادي، أبو الحسين محمد بن أحمد بن إسماعيل بن عنبس (متوفی387هـ)، أمالي ابن سمعون، ج1، ص165،
📚 ربيع الأبرار، زمخشري، ج1، ص438، باب الموت و ما يتصل به من ذكر القبر،
📚 الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفی644هـ) الجوهرة في نسب النبي و أصحابه العشرة، ج1، ص282،
📚 إبن خلكان، ابو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفی681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج2، ص66، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة – لبنان.
التماس دعا ریاض قادری

