خطبہ شقشقیہ کی معتبر سند

تدوین : سید علی حیدر شیرازی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
خطبہ شقشقیہ متعدد اسناد سے نقل ہوا ہے ،
تعدد طرق کے اصول کے تحت یہ خطبہ معتبر قرار پاتا ہے اور اس بات کی تصریح شیخ آصف محسنی نے بھی کی ہے
نیز اس خطبے کے شواہد و قرائن بھی اس کے اثبات کےلیے کافی ہیں
علل الشرائع میں خطبہ شقشقیہ کی ایک سند نقل ہوئی ہے
حدثنا محمد ابن علی ماجیلویہ، عن عمہ محمد ابن ابی قاسم، عن احمد بن ابی عبداللہ البرقی، عن ابیہ، عن ابن ابی عمیر، عن ابان ابن عثمان ، عن ابان ابن تغلب عن عکرمہ عن ابن عباس۔۔۔الخ
_____________________________________________
اس کے رواة کی توثیق پیش خدمت ہے
پہلا راوی : محمد ابن علی ماجیلویہ
علامہ اردبیلیؒ کہتے ہیں :
محمد بن علی بن ماجیلویہ القمی روی عنہ محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ (لم) و یفھم من العلامتہ توثیقہ اذ صح طریق الصدوق الی اسماعیل بن رباح و ھو فیہ و کذلک طریق الحسین بن زید و غیر ذلک
محمد ابن علی ابن ماجیلویہ القمی جن سے محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ نے روایت کی، علامہ (حلی) کے قول سے پتا چلتا ہے کہ یہ ثقہ تھے جبکہ علامہ حلی نے شیخ صدوق سے لے کر اسماعیل تک کی سند کو صحیح کہا جس میں محمد ابن علی ابن ماجیلویہ القمی موجود تھے، اسی طرح حسین بن زید اور ان کے علاوہ تک کی سند کو صحیح کہا جس میں محمد ابن علی ابن ماجیلویہ القمی موجود تھے۔
حوالہ: جامع الرواتہ، جلد ۲، صفحہ ۱۵۷، باب المیم ، بعدہ الحاء،
علامہ مجلسیؒ کہتے ہیں :
محمد ابن علی ماجیلویہ القمی ، کثیرا ما یقول الصدوق رضی اللہ عنہ، و حکم العلامتہ بصحتہ حدیث ھو ا فیہ۔
محمد ابن علی ابن ماجیلویہ القمی جن کے بارے میں شیخ صدوقؒ نے کثرت سے لکھا ہے رضی اللہ عنہ، اور علامہ حلیؒ نے ایک روایت کو صحیح کہا جسمیں (سند) یہ موجود تھے۔
: الوجیزتہ فی علم الرجال، صفحہ ۳۱۰
ان دو علماء کی تصریحات سے پتا چلتا ہے کہ علامہ حلیؒ کے نزدیک بھی یہ راوی ثقہ ہے۔
شیخ علی النمازی الشاہرودی لکھتے ہیں :
ثقہ علی الاقوی۔
زیادہ قوی قول کی بنا پر یہ ثقہ ہے۔
حوالہ: مستدرکات علم رجال الحدیث، جلد ۷، صفحہ ۱۴۶، رقم ۱۴۰۵۳،
علامہ علی خاقانی لکھتے ہیں :
وانما استفید توثیقہ من امارات آخر کاستظھار کونہ من مشائخ الصدوق رحمتہ اللہ علیہ لکثرتہ روایتہ عنہ مترضیا عنہ و مترحما علیہ الی غیر ذلک من الموارد التی یستفاد منھا حسن الحال ۔۔الخ
محمد ابن علی ماجیلویہ کی توثیق کا استنباط اس طرح سے بھی ہوسکتا ہے کہ آپ شیخ صدوقؒ کے استادوں میں سے تھے۔ شیخ صدوق ؒ نے بہت سارے مقامات پر روایت لینے میں آپ کے ساتھ رضی اللہ عنہ اور رحمتہ اللہ علیہ جیسے الفاظ استعمال کریں جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ آپ کا حال اچھا تھا
حوالہ: رجال خاقانی، صفحہ ۱۸۳
—————-
دوسرا راوی : محمد ابن ابی قاسم
علامہ نجاشی ان سے متعلق لکھتے ہیں :
ثقة ، عالم ، فقیہ ، عارف بالادب الخ۔۔۔۔
رجال نجاشی ، ص ۳۵۳
—————–
تیسرا راوی : احمد بن محمد بن ابی عبداللہ البرقی
علامہ نجاشی نے انکی توثیق کی ہے ، کہتے ہیں :
وكان ثقة في نفسه،
رجال نجاشی ، ص ۷۶
علامہ ابن داؤد نے انکی توثیق نقل کی ہے :
کتاب الرجال ، ص ۴۰
——————–
چوتھا راوی : محمد بن ابی عبداللہ البرقی
شیخ طوسی رح نے انکی توثیق کی ہے
قال طوسی ، ثقة
رجال طوسی ، ص ۳۶۳
علامہ اربیلی کہتے ہیں کہ محمد بن خالد البرقی ثقہ ہے
جامع الرواة ، ج ۲ ، ۱۰۸
———————
پانچواں راوی: ابن ابی عمیر
شیخ نجاشی لکھتے ہیں :
انہیں امام موسیٰ کاظم ع سے ملاقات کا شرف حاصل ہے ، انہوں نے امام ع سے بہت زیادہ احادیث کا سماع کیا ،
انہوں نے امام رضا ع سے بھی احادیث کا سماع کیا
انہیں امامیہ و غیر امامیہ کے درمیان ارفع و اعلیٰ مقام حا ہے
رجال نجاشی ، ص ۳۲۶
شیخ طوسی رح نے بھی انکی توثیق کی ہے
رجال طوسی , ص ۳۶۵
علامہ اردبیلی لکھتے ہیں :
یہ نہایت ہی ثقہ تھے، اور تعریف سے غنی تھے۔
جامع رواتہ، جلد۲، صفحہ ۵۰، باب المیم بعدہ الحاء،
———————
چھٹا راوی : ابان ابن عثمان
شیخ نجاشی کہتے ہیں :
ابان بن عثمان نے امام جعفر صادق ع و امام موسیٰ کاظم ع سے احادیث کا سماع کیا ہے
انکی ایک کتاب حسن تھی اور نہایت ضیغم کتاب تھی
رجال نجاشی ، ص ۱۳
شیخ علی النمازی الشاہرودی لکھتے ہیں :
ابان بن عثمان کا شمار اصحاب الاجماع میں ہوتا ہے
آپ امام صادق ع و امام موسیٰ کاظم ع کے اصحاب میں سے تھے ، ثقہ ہیں
مستدرکات علم رجال الحدیث، جلد ۱, صفحہ ۹۰، رقم ۳۴
————————–
ساتویں راوی : ابان ابن تغلب
آپکی وثاقت روز روشن کی طرح واضح ہے
شیخ نجاشی لکھتے ہیں :
آپ عظیم المنزلت اصحاب میں سے ہیں آپ امام زین العابدین ع ، امام باقر ع اور امام صادق ع کے اصحاب میں سے ہیں
آپ ع سے متعلق امام صادق ع نے فرمایا کہ ابان تم مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کو فتوے دو
رجال نجاشی , ص ۱۲
علامہ اربیلی رح لکھتے ہیں :
ابان بن تغلب عظیم المنزلت تھے ، ثقہ تھے
جامع الرواة ، ج ۱ ، ص ۹
———————-
آٹھواں راوی : عکرمہ
یہ فاسد المذہب راوی ہے
اس کی منفرد روایات ناقابل اعتبار ہیں
البتہ اس کی وہ روایات قابل قبول ہونگی جو یہ اپنے عقیدے کے برخلاف نقل کرے
خطبہ شقشقیہ اس کے عقیدہ کے برخلاف ہے لہذا اس کی یہ روایت قابل قبول ہوگی
نیز اصحاب اجماع کا اس سے روایت نقل کرنا بھی اس روایت کے صحیح ہونے کی دلیل ہے
———————–
نویں راوی : ابن عباس رض
ابن عباس رض ایک عظیم المنزلت شخصیت ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ، ہم یہاں فقط علامہ حلی کا قول نقل کرتے ہیں
علامہ حلی لکھتے ہیں :
عبداللہ بن عباس ، من اصحاب الرسول اللہ ص ، کان محباً لعلی علیہ السلام تلامیذہ ، حالہ فی الجلالتہ و الاخلاص لامیرالمؤمنین اشھر من ان یخفی۔
عبداللہ بن عباس رض کا شمار اصحاب رسول ص میں ہوتا ہے
آپ رض حضرت علی ع کے محبان میں سے تھے آپکی جلالت کسی پر مخفی نہیں
خلاصۃ الاقوال ، ص ۱۹۰
————————-
قارئین ، ہم نے کتاب علل الشرائع سے خطبہ شقشقیہ کی سند کے رواة کی تفصیل آپکے سامنے پیش کردی ہے اور علماء کے اقوال کی روشنی میں واضح ہے کہ یہ خطبہ معتبر سند سے مروی ہے
نیز اس کی تائید میں کئی روایات مل جاتی ہیں اور اس خطبے کے تعدد طرق اس کی تقویت میں اضافے کا باعث ہیں
والسلام علی من اتبع الھدی
علامہ ابن مردویہ نے اپنی سند کے کے ساتھ اس خطبہ کو مکمل نقل کیا ہوا ہے۔