کعبہ میں ولادت

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کعبہ میں ولادت کے متعلق ہیں بعض علماء اہل سنت کے اقوال ملاحظہ فرمائیں
.
◾معروف مؤرخ ابو الحسن علی بن الحسين شافعی المسعودی المتوفی 346
اپنی مشہور زمانہ کتاب مروج الذہب میں لکھتے ہیں
📜 وكان مولده في الكَعبة .
📝 اور آپ (علیہ السلام ) کعبہ میں پیدا ہوئے
📚 مروج الذهب، ج 2 ص 273
.
◾ مؤرخ اسلام علامہ سبط ابن جوزی حنفی المتوفی 654
📜 وروي أن فاطمة بنت أسد كانت تطوف بالبيت وهي حامل بعلي (ع) فضربها الطلق ففتح لها باب الكعبة فدخلت فوضتعه فيها .
📝 روایت کی گئی ہے کہ فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں جبکہ علی (علیہ السلام ) ان کے شکم میں تھے . انہیں درد زہ شروع ہوا تو ان کے لئے کعبہ کے دروازے کھل گئے پس وہ اندر داخل ہوئیں اور وہیں علی (علیہ السلام ) پیدا ہوئے۔
📚 تذکرة الخواص، ص 10
.
◾ شيخ الشافعية شرف الدين ابي محمد عمر بن شجاع الدين محمد بن عبد الواحد الموصلي المتوفی 657
📜 ومولده في الکعبة المعظمة، ولم يولد بها سواه .
📝 اور آپ (علیہ السلام ) کی جائے ولادت کعبہ معظمہ ہیں اور وہاں آپ کے سوا کوئی اور پیدا نہیں ہوا ۔
📚 النعيم المقيم لعترة النبأ العظيم، ص 55
.
◾ امام اہل سنت ابو عبداللہ محمد بن یوسف الشافعي الکنجی المتوفی 658
📜 ولد أمير المؤمنين علي بن أبي طالب بمكة في بيت الله الحرام ليلة الجمعة لثلاث عشرة ليلة خلت من رجب سنة ثلاثين من عام الفيل ولم يولد قبله ولا بعده مولود في بيت الله الحرام سواه إكراما له بذلك ، وإجلالا لمحله في التعظيم .
📝 امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام ) مکہ مشرفہ میں داخل بیت الحرام شب جمعہ تہرا رجب سنہ تیس عامل الفیل کو پیدا ہوئے، اور نہ آپ سے پہلے کوی وہاں پیدا ہوا اور نہ آپ کے بعد کوئی پیدا ہوگا، یہ آپ کے اکرام، جلالت و تعظیم کے سبب تھا
📚 كفاية الطالب، ص 405-406
.
◾ الامام الكبير المحدث، شيخ المشائخ، صدر الدين ،الأوحد الأكمل، فخر الاسلام، صدر الدين إبراهيم بن المؤيد بن حمويه الخراساني المتوفي 722
جن کے سبب غازان خان منگول بادشاہ نے اسلام قبول کیا
📜 روي أنها لما ضربها المخاض اشتد وجعها فأدخلها أبوطالب الکعبة بعد العتمة فولدت فيها علي وقيل لم يولد في الکعبة إلا علي.
📝 اور روایت کی گئی ہے کہ جب ان کا وضع حمل کا وقت قریب آیا درد زہ میں شدت ہوئی تو (حضرت) ابو طالب (علیہ السلام ) ان کو اول شب میں وارد کعبہ کیا جہاں علی (علیہ السلام ) کی ولادت ہوئی، کہا گیا ہے کعبہ میں آپ کے سوا کسی اور کی ولادت نہیں ہوئی
📚 فرائد السمطين، ج1، ص425-426
.
◾ محدث الحرم جمال الدين محمد بن يوسف الزرندي الحنفی المتوفی 750
📜 وولد کرم الله وجهه في جوف الکعبة
📝 آپ کرم اللہ وجہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے
📚 معارج الوصول، ص49
.
نیز اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں
📜 وأمه فاطمة بنت أسد ابن هاشم بن عبد مناف وهي أول هاشمية ولدت لهاشمي روي انه لما ضربها المخاض أدخلها أبو طالب الكعبة بعد العشاة فولدت فيها علي بن أبي طالب .
📝 آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت اسد ابن ہاشم ہیں اور وہ اول ہاشمی خاتون تھیں جنہوں نے ہاشمی بچے کو جنم دیا روایت ہے کہ جب انکو درد زہ ہوا تو ابو طالب (علیہ افضل السلام ) نے ان کو عشاء کے بعد وارد کعبہ کیا جہاں آپ (علیہ السلام )کی ولادت ہوئی
📚 نظم درر السمطين، ص76
.
◾ نور الدين علي بن محمّد المعروف بابن الصبّاغ المالكي المتوفی 855
📜 ولد علي ( عليه السلام ) بمكة المشرفة بداخل البيت الحرام في يوم الجمعة الثالث عشر من شهر الله الأصم رجب الفرد سنة ثلاثين من عام الفيل قبل الهجرة بثلاث وعشرين سنة ، وقيل بخمس وعشرين ، وقبل المبعث باثني عشرة سنة ، وقيل بعشر سنين . ولم يولد في البيت الحرام قبله أحد سواه ، وهي فضيلة خصه الله تعالي بها إجلالا له وإعلاء لمرتبته وإظهارا لتكرمته .
📝 علی (علیہ السلام )مکہ مشرفہ میں داخل بیت الحرام یوم جمعہ تہرا رجب سنہ تیس عامل الفیل کو پیدا ہوئے اور آپ سے پہلے کوی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا، اور یہ خاص فضیلت ہے جو اللہ سبحانہ تعالی نے آپ کو عطاء کی تاکہ آپ کا عظیم مرتبہ، جلالت اور تکریم کا اظہار ہو ۔
📚 الفصول المهمة، ص 29
.
◾ امام عبدالرحمٰن بن عبدالسلام الصفوری الشافعی المتوفي 894
📜 أن عليا ولدته امه بجوف الكعبة شرفها الله تعالي وهي فضيلة خصه الله تعالي بها.
📝 حضرت علی رضی الله عنہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور یہ فضیلت خاص طور پر آپ کے لئے اللہ تعالیٰٰ نے مخصوص فر ما رکھی تھی۔
📚 نزهة المجالس، ص 159
.
◾ مؤرخ، حسين بن محمد بن الحسن الديار بكري المتوفى 966
📜 و في السنة الثلاثين من مولده صلي الله عليه وسلم ولد علي بن أبي طالب رضي الله عنه في الکعبة.
📝 اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے تیس سال بعد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے
📚 تاريخ الخميس، ج1، ص379
.
◾ معروف مؤرخ علي بن برهان الدين الحلبي الشافعي المتوفى 1044
📜 وفي السنة الثلاثين من مولده صلي الله عليه وسلم ولد علي بن أبي طالب کرم الله وجهه في الکعبة.
📝 نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے تیسویں سال علی کرم اللہ وجہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔
📚 السيرة الحلبية، ج3، ص485
.
◾ شاه ولی الله دہلوی المتوفی 1176
📜 و از مناقب وی رضی الله عنه که در حین ولادت او ظاهر شد یکی آن است که در جوف کعبه معظمه تولد یافت.
📝 اور آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں سے ایک یہ بھی ہے جو وقت ولادت ظاہر ہوائی کہ آپ داخل کعبہ معظمہ پیدا ہوئے ۔
📚 إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء، ج 4 ص 262
.
◾ امیر محمد بن إسماعيل الصنعاني المتوفى 1182
📜 وأما مولده فولد بمکة المشرفة في البيت الحرام سنة ثلاثين من عام الفيل في اليوم الجمعة الثالث [عشر] من رجب.
📝 اور ان کی ولادت مکہ مشرفہ میں داخل بیت الحرام تیس عامل الفیل یوم جمعہ تہرا رجب کو ہوئی ۔
📚 الروضة الندية، ص36
.
◾ مؤمن بن حسن بن مؤمن الشبلنجي الشافعي
📜 ولد رضي الله عنه بمکة داخل البيت الحرام علي قول يوم الجمعة ثالث عشر رجب الحرام سنة ثلاثين من عام الفيل قبل الهجرة .
📝 آپ رضی اللہ عنہ مکہ میں داخل بیت الحرام بروز جمعہ تہرا رجب سنہ تیس عامل الفیل قبل کو پیدا ہوئے ۔
📚 نور الابصار، ص158
.
◾ سلفی عالم صالح الغامدي
📜 أمه فاطمة بنت أسد بن هاشم بن عبد مناف. ولدته في جوف الکعبة
📝 آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت اسد ابن ہاشم ہیں انہوں نے آپ کو کعبہ کے اندر جنم دیا ۔
📚 الاکتفاء في اخبار الخلفاء، ج 1 ص 480
.
     

اردو اسکین

      

.

امام حاکم لکھتے ہیں کہ

فقد تواترت الاخبار ان فاطمة بنت أسد ولدت أمير المؤمنين علي بن أبي طالب كرم الله وجهه في جوف الكعبة“

المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص550

متواتر اضبار سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے علی بن ابی طالب کرم اللہ وجھہ کو کعبہ کے اندر جنم دیا

ناصبیوں نے امام حاکم کی اس بات پر یوں ردعمل پیش کیا 👇🏼

.
ولا يعرف ذلك لغيره. وأما ما روي أن عليا ولد فيها فضعيف (تدریب الراوی 360/2)

شیخ الاسلام فرماتے ہیں:۔ کہ یہ خصوصیت ان کے علاوہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں۔مستدرک میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو منقول ہے وہ ضعیف ہے۔

پھر ناصبی حضرات لکھتے ہیں کہ

امام حاکم کو خود ایسا زبردست وہم ہوا ہے کہ جسکی کوئی مثال ہی نہیں ہے،حالانکہ امام حاکم کو اور بھی بڑے بڑے وہم ہوئے ہیں۔

امام حاکم نے متواتر خبروں سے علی رضی اللہ عنہ کا مولود کعبہ ہونا بیان کیا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہلسنت والجماعت کی کسی بھی حدیث یا تاریخ کی کتاب میں ایسی کوئی جھوٹی روایت بھی موجود نہیں ہے،سوائے ایک اکیلی روایت اور وہ بھی ضعیف ہے۔

تو پھر تواتر کہنا سراسر ظلم کی بات ھے۔ یا پھر زبردست وھم ھے۔ اور پھر امام حاکم میں شیعت بھی تھی۔ جسکا انکار ممکن نہیں۔
اس قول کو بطور دلیل پیش کرنا کم فہمی ہے کیونکہ حاکم یہاں تو تواتر کا دعویٰ کر رہے ہیں اور فضائل علیؓ کے باب میں ایک بھی صحیح بلکہ صحیح تو دور ایک ضعیف روایت بھی پیش کرنے کی جرأت نہ کرسکے جس میں حاکم کے دعوے کی دلیل ہو تو فقط حاکم کے کہنے پر متواتر کون مانے؟

جب کہ حاکم کی تاریخ وفات ٤٠٥ ھجری ہے اب ایک واقعہ جو کہ حاکم کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے کا ہے اس واقعہ کو حاکم کے کہنے پر تسلیم کرنا اور نہ صرف تسلیم بلکہ متواتر کہنا نا انصافی ہوگا

دوسری بات یہ کہ اس کے تواتر کے دعوے میں حاکم منفرد ہیں ان کے سوا محدثین میں سے کسی نے اس واقعہ کے تواتر کا دعویٰ نہیں کیا۔

تیسری اور اہم بات یہ کہ اہل علم جانتے ہیں کہ حاکم نیم شیعہ تھے اور ان کا تواتر کا دعویٰ اسی سلسلے کی ایک کڑی بھی ہوسکتا ہے۔

جواب

اس سے پہلے کہ اشکالات کے جوابات دیں، حاکم نیسابوری کے مقام و مرتبہ کو ائمہ اہل سنت کی زبانی ہی نقل کرتے ہیں:

ذہبی لکھتا ہے

الإمام الحافظ ، الناقد العلامة ، شيخ المحدثين ، أبو عبد الله بن البيع الضبي الطهماني النيسابوري ، الشافعي
حدث عنه : الدارقطني وهو من شيوخه
وصنف وخرج ، وجرح وعدل ، وصحح وعلل ، وكان من بحور العلم
سمعت الخليل بن عبد الله الحافظ ذكر الحاكم وعظمه ، وقال : له رحلتان إلى العراق والحجاز ، الثانية في سنة ثمان وستين ، وناظر الدارقطني ، فرضيه ، وهو ثقة واسع العلم ، بلغت تصانيفه قريبا من خمسمائة جزء ، يستقصي في ذلك ، يؤلف الغث والسمين
عن عبد الغافر بن إسماعيل قال : الحاكم أبو عبد الله هو إمام أهل الحديث في عصره
واختص بصحبة الإمام أبي بكر الصبغي ، وكان الإمام يراجعه في السؤال والجرح والتعديل
ولقد سمعت مشايخنا يذكرون أيامه ، ويحكون أن مقدمي عصره مثل أبي سهل الصعلوكي والإمام ابن فورك وسائر الأئمة يقدمونه على أنفسهم ، ويراعون حق فضله ، ويعرفون له الحرمة الأكيدة . ثم أطنب عبد الغافر في نحو ذلك من تعظيمه ، وقال : هذه جمل يسيرة هي غيض من فيض سيره وأحواله ، ومن تأمل كلامه في تصانيفه ، وتصرفه في أماليه ، ونظره في طرق الحديث أذعن بفضله ، واعترف له بالمزية [ ص: 171 ] على من تقدمه ، وإتعابه من بعده ، وتعجيزه اللاحقين عن بلوغ شأوه ، وعاش حميدا ، ولم يخلف في وقته مثله ، مضى إلى رحمة الله في ثامن صفر سنة خمس وأربعمائة
قال أبو حازم عمر بن أحمد العبدويي الحافظ : سمعت الحاكم أبا عبد الله إمام أهل الحديث في عصره
وسمعت السلمي يقول : سألت الدارقطني : أيهما أحفظ : ابن منده أو ابن البيع ؟ فقال : ابن البيع أتقن حفظا .
قال أبو حازم : أقمت عند أبي عبد الله العصمي قريبا من ثلاث سنين ، ولم أر في جملة مشايخنا أتقن منه ولا أكثر تنقيرا ، وكان إذا أشكل عليه شيء ، أمرني أن أكتب إلى الحاكم أبي عبد الله ، فإذا ورد جواب كتابه ، حكم به ، وقطع بقوله .
قال ابن طاهر : سألت سعد بن علي الحافظ عن أربعة تعاصروا : أيهم أحفظ ؟ قال : من ؟ قلت : الدارقطني ، وعبد الغني ، وابن منده ، والحاكم . فقال : أما الدارقطني فأعلمهم بالعلل ، وأما عبد الغني فأعلمهم بالأنساب ، وأما ابن منده فأكثرهم حديثا مع معرفة تامة ، وأما الحاكم فأحسنهم تصنيفا .
قال ابن طاهر : ورأيت أنا حديث الطير جمع الحاكم بخطه في جزء ضخم ، فكتبته للتعجب
فقال أبو علي : لا تفعل ، فما رأيت أنت ولا نحن في سنه مثله ، وأنا أقول : إذا رأيته رأيت ألف [ ص: 177 ] رجل من أصحاب الحديث .

ترجمہ

امام، حافظ، احادیث کا محقق، علامہ محدثین کا بزرگ دارقطنی نے اس کے استاد ہونے کے بعد بھی اس سے روایت نقل کی، تصنیف و (احادیث کی )تخریج کرنے والا (راویوں کے متعلق )جرح و تعدیل کرنے والا،(سقیم)و صحیح و علل حدیث کا ماہر علم کا سمندر

خلیل بن عبداللہ نے کہا اس وہ ثقہ بہت زیادہ علم رکھنے والا تھا اس کی تصانیف کی تعداد پانچ سو کے قریب پہنچی،

عبدالغفار نے کہا حاکم ابو عبداللہ اپنے زمانے میں اہل حدیثوں کا امام تھا

امام ابوبکر صبغی راویوں پر جرح و تعدیل کے باب میں حاکم کی طرف رجوع کرتا تھا

میں نے اپنے مشائخ سے سنا ہے کہ وہ حاکم کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اس دور کے کے بزرگان جیسے ابو سہل صعلوکی، امام ابن فورک اور تمام ائمہ حاکم کو اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے اس کے فضل و کمال و اس کی حرمت سے خوب آگاہ تھے

ابو حازم عمر بن أحمد عبدوی کہتا ہے میں نے سنا حاکم ابو عبداللہ سے جو اپنے وقت اہل حدیثوں کا امام تھا

سلمی کا بیان ہے کہ میں نے دارقطنی سے پوچھا ابن مندہ وہ ابن البیع (حاکم )میں کون بڑا حافظ اس نے کہا ابن البیع متقن حافظ ہے

ابو حازم کہتا ہے میں تین سال کے قریب ابو عبداللہ عصمی کے پاس مقیم رہا میں نے اپنے مشائخ میں کسی کو بھی اس کے برابر نہیں دیکھا جب بھی اسے کسی مسئلے میں شک ہوتا تو مجھے حکم دیتا کہ اسے لکھ کر حاکم کی سے دریافت کروں اور جب اس کے خط کا جواب آتا تو اس ہی پر حکم کرتا و یقین کرتا

ابن طاہر کہتا ہے :”میں نے حافظ سعد بن علی سے پوچھا چار حافظ حدیث ہم عصر ہیں ،ان میں بڑا حافظ حدیث کون ہے؟کہنے لگا وہ کون ہیں؟میں نے کہا کہ بغداد میں دارقطنی،مصر میں عبدالغنی،اصفہان میں ابن مندہ،اور نیشاپور میں حاکم،تو کہا دارقطنی علل حدیث ہےکا،عبدالغنی انساب کا بڑا عالم ہے،ابن مندہ پے پاس حدیث کا زیادہ علم ہے اور اسے اس فن میں معرفت تامہ حاصل ہےاور حاکم تصنیف میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔

ابن طاہر کا بیان ہے کہ میں نے حاکم کے ہاتھ سے لکھا اس کا جمع کردہ حدیث طیر کا ضخیم جزء دیکھا

میں کہتا ہوں تونے اسے دیکھا گویا ایسا ہے کہ جیسے ایک ہزار علماء حدیث کو دیکھا

یہ حاکم کے وہ مناقب تھے جنہے ائمہ اہل سنت میں بیان کیا طوالت کے خوف سے اس ہی پر اکتفا کرتے ہیں، قابل غور امر یہ ہے کہ حاکم کی پانچ سو میں سے چند کتابوں کے سوا سب ضائع ہو گئیں تو پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا یہ دعوی بغیر دلیل کے ہے شاہد مثال حدیث طیر ہی ہے بقول ابن طاہر یہ ایک ضخیم مجموعہ تھا جو آج ندارد ہے۔

📚 سیر اعلام النبلاء

https://islamweb.net/ar/library/index.php?page=bookcontents&idfrom=4046&idto=4046&bk_no=60&ID=3905

سوال یہ ہے کہ کیا اس مقام و مرتبہ کا امام جھوٹ بولتا ہے کہ بغیر کسی دلیل کے تواتر کا جھوٹا دعوی کر سکتا ہے، یہ وہم و گمان تو ہرگز نہیں یا حاکم اپنے دعوے میں سچا تھا یا جھوٹا اور ناصبیوں کی اس سے بھی زیادہ بڑی مشکل ذہبی کا حاکم کی تحقیق کو تسلیم کرنا ہے، کیا تقیہ باز ناصبیوں میں اتنی جرات ہے کہ ان دونوں کو جھوٹا کہہ سکیں؟

.

ناسبی مولوی محدث دہلوی کا اعتراف کہ مولا علی ع کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی

 

حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب ع کی ولادت فی الکعبہ پر صحیح السند روایت

.

اہلسنت جلیل القدر امام متوفی 334 ہجری صاحب تاریخ موصل نے صحیح السند روایت نقل کی ہے علی ع کے ولادت کعبہ پر
صاحب کتاب کے بارے میرے علامہ ذہبی لکھتے ہیں
الأزدي الحافظ القاضي الإمام أبو زكريا يزيد بن محمد بن إياس الأزدي الموصلي صاحب تاريخ الموصل وقاضيها
الاذی الحافظ القاضی الامام ابو زکریا یزید بن محمد بن ایاس الازدی الموصلی صاحب تاریخ موصل اور قاضی تھے
(تذکرہ الحفاظ ج3ص74 الرقم 862 دوسرے نسخہ کے مطابق ص893)
.
اب ہم آتے سند کی طرف اسکی سند میں پہلا راوی
(1)
عیسی بن فیروز ابو موسیٰ الانباری
اس کا شمار حنبلی علما میں ہوتا ہے جسیاکہ ابو یعلیٰ نے اسے احمد بن حنبل کے شاگردوں میں شمار کیا ہے لکھتے ہیں
عِيسَى بْن فيروز الأنباري أَبُو مُوسَى سمع من إمامنا أشياء
(طبقات الحنابلہ ص 248)
.
دوسرا راوی
(2)
محمد بن وہب بن عطیہ السلمی
اسکے بارے علامہ ذہبی لکھتے ہیں۔
مُحَمَّدُ بنُ وَهْبِ بنِ عَطِيَّةَ السُّلَمِيُّ * (خَ، ق)
الإِمَامُ، المُفْتِي، أَبُو عَبْدِ اللهِ السُّلَمِيُّ، الدِّمَشْقِيُّ.
حَدَّثَ عَنْهُ: بَقِيَّةُ بنُ الوَلِيْدِ، وَمُحَمَّدُ بنُ حَرْبٍ، وَالوَلِيْدُ، وَعِرَاكُ بنُ خَالِدٍ.
وَعَنْهُ: الذُّهْلِيُّ، وَأَبُو حَاتِمٍ، وَالرَّمَادِيُّ، وَعُبَيْدُ بنُ شَرِيْكٍ، وَعَلِيُّ بنُ مُحَمَّدٍ الجَكَّانِيُّ.
وَثَّقَهُ: الدَّارَقُطْنِيُّ
وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: صَالِحُ الحَدِيْثِ
یہ امام ہیں مفتی ہیں پھر فرماتے ہیں اسکو دار قطنی نے ثقہ کہا ہے اور ابو حاتم نے صالح الحدیث کہا ہے
(سیر اعلام النبلا ج10ص669 الرقم246)
.
تیسرا راوی
(3)
ہیثم بن عمران بن عبد اللہ جرول
اسکا ذکر ابن ابی حاتم نے بغیر جرح و تعدیل کے کیا ہے
(الجرح والتعدیل ج9ص،82الرقم 335)
ابن حبان اسے ثقات میں میں شمار کیا ہے
(الثقات ابن حبان ج7ص577 الرقم11553)
.
چوتھا راوی
(4)
عبد اللہ بن جرول العنسی دمشقی تابعی ہے
ابن حبان نے اسکا شمار ثقات میں کیا ہے
(الثقات ج5ص63الرقم 3864)
خطیب نے اسے شام کے افضل ترین لوگوں میں شمار کیا ہے
وعبد الله بن أبي عبد الله العنسي
من أفاضل أهل دمشق
(المتفق والمتفرق ج3ص1427 الرقم 724)
.
ابن عساکر نے اس امر کی تصریح کی ہے اس نے ضحاک بن قیس تابعی سے سماع کیا ہے
عبد الله بن جرول وهو ابن أبي عبد الله العبسي جد الهيثم بن عمران سمع الضحاك بن قيس الفهري على منبر دمشق
(تاریخ مدینہ دمشق ج27ص244الرقم 3219)
.
اس روایت کی سند کے تمام روات ثقہ ہیں
.
(اعتراض)
یہ اشکال ہوسکتا ہے عبداللہ بن جرول تابعی ہے اس نے ولادت امیر المومنین ع کے وقت کو درک نہیں کیا ؟
(الجواب)
تابعی کی مرسل جمہور کے نزدیک حجت ہے جیساکہ ملا علی القاری نے متعدد مقامات پر لکھتے ہیں
مُرْسَلِ التَّابِعِيِّ، فَإِنَّهُ حُجَّةٌ عِنْدَ الْجُمْهُورِ
متعدد حوالہ جات ملاحظہ کریں
(1)مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج5ص1973؛الرقم29 45 کے ذیل میں
(2)مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج7ص2740 الرقم4255 کے ذیل میں
(3)مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج8ص3284 الرقم5247 کے ذیل میں
(4)مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج4ص1489 الرقم2174
(5)مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج8ص3143 الرقم5020 کے ذیل میں
.
(اعتراض)
یہ راوی عبد اللہ بن جرول اہل شام سے یے آیا کسی نے محدث نے اہل شام کی مراسیل سے استدلال کیا ہے
(الجواب)
جی امام اوزاعی کے بارے میں ذہبی لکھتے ہیں یہ اہل شام کی مراسیل سے استدلال کرتے تھے
قُلْتُ: يُرِيْدُ: أَنَّ الأَوْزَاعِيَّ حَدِيْثُه ضَعِيْفٌ مِنْ كَوْنِهِ يَحتَجُّ بِالمَقَاطِيْعِ، وَبِمَرَاسِيْلِ أَهْلِ الشَّامِ
(سیر اعلام النبلا ج7ص114 الرقم 48 )
.
(اعتراض)
ہمارے جید محدثین تابعی کی مراسیل کو نہیں مانتے تھے
(الجواب )
حافظ ابن رجب حنبلی کہتے ہیں مرسل روایت سے دلیل پکڑتے ہیں
امام ابوحنیفہ اور انکے اصحاب امام مالک اور انکے اصحاب امام شافعی اور انکے اصحاب امام احمد اور انکے اصحاب
(المراسیل مع الاسانید امام سجستانی ص39)
.
.
.

حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب ع کی ولادت فی الکعبہ پر صحیح السند روایت (2)

.

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحیح سند حدیث موجود ہے جسکو امام اہل سنت محمد بن یوسف کنجی نے متصل سند سے بیان کیا ہے لکھتے ہیں:
.
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺍﻟﺸﻴﺦ ﺍﻟﻤﻘﺮﻱ ﺃﺑﻮ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ ﺑﻦ ﺑﺮﻛﺔ ﺍﻟﻜﺘﺒﻲ ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪﻩ ﺑﻤﺪﻳﻨﺔ ﺍﻟﻤﻮﺻﻞ ﻭﻣﻮﻟﺪﻩ ﺳﻨﺔ ‏« 554 ﻫـ ‏» ، ﻗﺎﻝ : ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺍﻟﻌﻼﺀ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺍﻟﻌﻄﺎﺭ ﺍﻟﻬﻤﺪﺍﻧﻲ ﺇﺟﺎﺯﺓ ﻋﺎﻣﺔ ﺇﻥ ﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﺧﺎﺻﺔ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺍﻟﻔﺎﺭﺳﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺍﻟﺨﻄﺎﺑﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﺤﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻨﻬﺎﻝ ﻋﻦ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺍﺑﻦ ﻣﺮﻭﺍﻥ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﺍﻟﻐﻨﻮﻱ ﻋﻦ ﺷﺎﺫﺍﻥ ﺑﻦ ﺍﻟﻌﻼﺀ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻌﺰﻳﺰ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺼﻤﺪ ﻋﻦ ﻣﺴﻠﻢ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺍﻟﻤﻜﻲ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺑﺎﻟﺰﻧﺠﻲ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺍﻟﺰﺑﻴﺮ ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ : ﺳﺄﻟﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻦ ﻣﻴﻼﺩ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ، ﻓﻘﺎﻝ : ‏« ﻟﻘﺪ ﺳﺄﻟﺘﻨﻲ ﻋﻦ ﺧﻴﺮ ﻣﻮﻟﻮﺩ ﻭُﻟِﺪَ ﻓﻲ ﺷﺒﻪ ﺍﻟﻤﺴﻴﺢ ، ﺇﻥّ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﺒﺎﺭﻙ ﻭﺗﻌﺎﻟﻰ ﺧﻠﻖ ﻋﻠﻴﺎً ﻣﻦ ﻧﻮﺭﻱ ﻭﺧﻠﻘﻨﻲ ﻣﻦ ﻧﻮﺭﻩ ﻭﻛﻼﻧﺎ ﻣﻦ ﻧﻮﺭ ﻭﺍﺣﺪ، ﺛﻢ ﺇﻥّ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﻧﻘﻠﻨﺎ ﻣﻦ ﺻُﻠﺐ ﺁﺩﻡ ﻓﻲ ﺃﺻﻼﺏ ﻃﺎﻫﺮﺓ ﺇﻟﻰ ﺃﺭﺣﺎﻡ ﺯﻛﻴﺔ ﻓﻤﺎ ﻧﻘﻠﺖ ﻣﻦ ﺻﻠﺐ ﺇﻻ ﻭﻧُﻘِﻞَ ﻋﻠﻲٌ ﻣﻌﻲ ﻓﻠﻢ ﻧﺰﻝ ﻛﺬﻟﻚ ﺣﺘﻰ ﺍﺳﺘﻮﺩﻋﻨﻲ ﺧﻴﺮَ ﺭﺣﻢ ٍﻭﻫﻲ ﺁﻣﻨﺔ، ﻭﺍﺳﺘﻮﺩﻉ ﻋﻠﻴﺎً ﺧﻴﺮَ ﺭﺣﻢ ٍﻭﻫﻲ ﻓﺎﻃﻤﺔ ﺑﻨﺖ ﺃﺳﺪ، ﻭﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻧﻨﺎ ﺭﺟﻞ ﺯﺍﻫﺪ ﻋﺎﺑﺪ ﻳﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﺍﻟﻤﺒﺮﻡ ﺑﻦ ﺩﻋﻴﺐ ﺑﻦ ﺍﻟﺸﻘﺒﺎﻥ ﻗﺪ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻣﺄﺗﻴﻦ ﻭﺳﺒﻌﻴﻦ ﺳﻨﺔ، ﻟﻢ ﻳﺴﺄﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺣﺎﺟﺔ ﻓﺒﻌﺚ ﺍﻟﻠﻪ ﺇﻟﻴﻪ ﺃﺑﺎ ﻃﺎﻟﺐ، ﻓﻠﻤﺎ ﺃﺑﺼﺮﻩ ﺍﻟﻤﺒﺮﻡ ﻗﺎﻡ ﺇﻟﻴﻪ، ﻭﻗَﺒَّﻞَ ﺭﺃﺳﻪ ﻭﺃﺟﻠﺲ ﺑﻴﻦ ﻳﺪﻳﻪ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ ﻟﻪ : ﻣﻦ ﺃﻧﺖ؟ ﻓﻘﺎﻝ : ﺭﺟﻞٌ ﻣﻦ ﺗﻬﺎﻣﺔ، ﻓﻘﺎﻝ : ﻣﻦ ﺃﻱ ﺗﻬﺎﻣﺔ؟ ﻓﻘﺎﻝ : ﻣﻦ ﺑﻨﻲ ﻫﺎﺷﻢ، ﻓﻮﺛﺐ ﺍﻟﻌﺎﺑﺪ ﻓﻘﺒَّﻞ ﺭﺃﺳﻪ ﺛﺎﻧﻴﺔ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ : ﻳﺎ ﻫﺬﺍ ﺇﻥّ ﺍﻟﻌﻠﻲ ﺍﻷﻋﻠﻰ ﺃﻟﻬﻤﻨﻲ ﺇﻟﻬﺎﻣﺎً، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻟﺐ : ﻭﻣﺎ ﻫﻮ؟ ﻗﺎﻝ : ﻭﻟﺪ ﻳﻮﻟﺪ ﻣﻦ ﻇﻬﺮﻙ ﻭﻫﻮ ﻭﻟﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ، ﻓﻠﻤﺎ ﻛﺎﻧﺖ ﺍﻟﻠﻴﻠﺔ ﺍﻟﺘﻲ ﻭُﻟِﺪَ ﻓﻴﻬﺎ ﻋﻠﻲٌ ﺃﺷﺮﻗﺖ ﺍﻷﺭﺽ، ﻓﺨﺮﺝ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻟﺐ، ﻭﻫﻮ ﻳﻘﻮﻝ : ﺃﻳﻬﺎ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻭُﻟِﺪَ ﻓﻲ ﺍﻟﻜﻌﺒﺔ ﻭﻟﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ، ﻓﻠﻤﺎ ﺃﺻﺒﺢ ﺩﺧﻞ ﺍﻟﻜﻌﺒﺔ.
.
حضرت جابر بن عبدالله علیہما الرحمہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے امیرالمومنین علیہ السلام کی ولادت کے متعلق سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک تم نے بہترین مولود کے متعلق مجھ سے پوچھا ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح پیدا ہوئے، اللہ سبحانہ تعالی نے علی کو میرے نور سے اور مجھ کو اس کے نور سے اور ہم دونوں کو ایک ہی نور سے خلق کیا اس کے بعد اللہ سبحانہ تعالی نے ہم کو آدم علیہ السلام کی صلب سے طیب و طاہر صلبوں میں اور پاکیزہ رحموں میں منتقل کیا پس میں کسی صلب میں منتقل نہیں ہوا مگر یہ کہ علی (علیہ السلام ) میرے ساتھ تھے پس یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ میں بہترین رحم میں منتقل ہوا اور وہ آمنہ (علیہا السلام ) تھیں اور علی (علیہ السلام ) بھی بہترین رحم میں منتقل ہوئے اور وہ فاطمہ بنت اسد (علیہما السلام )تھیں اور ہمارے زمانے میں ایک زاہد و عابد شخص تھا جس کو مبرم بن دعیب بن شقبان کہا جاتا تھا اس نے اللہ سبحانہ تعالی کی عبادت 270 سال تک کی اور اللہ سے کسی چیز کا سوال نہیں کیا پس اللہ سبحانہ تعالی نے اس کی طرف ابو طالب (علیہ السلام )کو بھیجا پس جیسے ہی مبرم کی نظر ان ان پر گی (ان کے احترام میں) اٹھا اور ان کی طرف بڑھ کر سر کا بوسہ لیا اور ان کو اپنے سامنے بیٹھایا پھر ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ تہامہ کا ایک آدمی پھر اس نے پوچھا کون سے تہامہ سے فرمایا بنی ہاشم سے، پس پھر عابد نے دوبارہ آپ کے سر کو چوما اور کہا اے شخص بلند و بالا (اللہ سبحانہ تعالی ) نے مجھے الہام کیا ہے ابو طالب (علیہ السلام )نے فرمایا کیسا الہام ،کہا تمہاری پشت سے ایک بیٹا ہوگا تو وہ اللہ عزوجل کا ولی ہوگا، پس جس رات علی (علیہ السلام )کی ولادت ہوئی تو تو زمین نورانی ہو گئ، پس ابوطالب (علیہ السلام ) نکلے اور کہا اے لوگوں کعبے میں اللہ کا ولی پیدا ہو گیا، اور جب صبح ہوئی تو کعبہ میں داخل ہوئے۔
(الکفایہ الطالب ص406 حدیث 1088)
کنجی شافعی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اس امر کی وضاحت کر دی ہے کہ وہ
کتاب میں فقط وہی صحیح احادیث نقل کریگا جو اس مختلف شہروں میں اپنے مشايخ سے سنیں جوکہ ائمہ و حفاظ کی کتب میں موجود ہیں
ﺇﻣﻼﺀ ﻛﺘﺎﺏٍ ﻳﺸﺘﻤﻞ ﻋﻠﻰ ﺑﻌﺾ ﻣﺎ ﺭﻭﻳﻨﺎﻩ ﻋﻦ ﻣﺸﺎﻳﺨﻨﺎ ﻓﻲ ﺍﻟﺒﻠﺪﺍﻥ، ﻣﻦ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﺻﺤﻴﺤﺔٍ ﻣﻦ ﻛﺘﺐ ﺍﻷﺋﻤّﺔ ﻭﺍﻟﺤُﻔّﺎﻅ ﻓﻲ ﻣﻨﺎﻗﺐ ﺃﻣﻴﺮ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﻋﻠﻲٍّ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴّﻼﻡ
.
اہل سنت کے یہاں یہ اصول ہے کہ حدیث کی تصحیح اس کے راویوں کی توثیق ہوتی ہے۔
.
ذہبی لکھتا ہے:
الثقة: مَن وثَّقَه كثيرٌ، ولم يُضعَّف. ودُونَه: مَن لم يُوَثَّق ولا ضُعِّف. فإن خُرِّج حديثُ هذا في الصحيحين، فهو مُوَثَّق بذلك. وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة، فجيِّدٌ أيضاً. وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه.”
“ثقہ وہ ہے جسے اکثریت ثقہ کہے، اور اس کی تضعیف نہ کی گئی ہو۔ اُس سے کم درجے میں وہ ہے جس کی نہ توثیق کی گئی اور نہ تضعیف، پس اگر ایسے شخص کی حدیث اگر صحیحین میں مروی ہو تو اس وجہ سے وہ اس کی توثیق ہو گی، اور اگر اس کی حدیث کی ترمذی، اور ابن خزیمہ تصحیح کریں تو وہ بھی اسی طرح جید ہو گی، اور اگر الدارقطنی اور الحاکم اس کی حدیث کی تصحیح کریں تو اس کا کم سے کم حال یہ ہو گا کہ وہ حسن الحدیث ٹھہرے گا”
“الموقظة في علم المصطلح 78”
.
ابن حجرﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﻄﺎﺋﻔﻲ کے متعلق لکھتا ہے :
“قلت صحّح بن خُزَيْمَة حَدِيثه وَمُقْتَضَاهُ أَن يكون عِنْده من الثِّقَات”
“میں کہتا ہوں: ابن خزیمۃ نے ان کی حدیث کی تصحیح کی ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ اس کے نزدیک ثقات میں سے تھا
(تعجيل المنفعة 248)
.
.
اعتراض: کعبہ میں صرف حکیم بن حزام کے پیدا ہونے کی روایت صحیح ہے
.
جواب

ابن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے والی روایات کا جواب دینے سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ

حکیم ابن حزام یہ پورا خاندان دشمن رسول اللّه ص تھا یہاں تک کہ یہ شخص فتح مکہ پر مسلمان ہوا، جنگ بدر پر اسکی والدہ گرفتار ہوئی مگر رہا کر دیا گیا۔

📚 ذهبی سیر: اعلام النبلاء ” ج 3 ص 44 – 45
📚 ابن حجر: الاصابه ” ج 2 ص 98

دوسری طرف حکیم ابن حزم زبیر خاندان کے چچا زاد بھائی ہیں کیونکہ حکیم ابن حزم ابن خویلد بن اسد ابن عبد العزی اور زبیر کا خاندان بھی اسد بن عبد العزی کے پاس جاتا ہے جو کٹر تھے۔ اہل بیت اور بنی ہاشم کے دشمن جیسا کہ ابن سعد الکبریٰ میں لکھتے ہیں:

أخبرنا علي بن عيسى بن عبد الله النوفلي عن أبيه عن عمه إسحاق بن عبد الله عن أبيه عبد الله بن الحارث قال لما كان يوم بدر جمعت قريش بني هاشم وحلفاءهم في قبة وخافوهم فوكلوا بهم من يحفظهم ويشدد عليهم منهم حكيم بن حزام .

📚 الطبقات الكبرى ج 4 ص11

حکیم بن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے والی روایات کی حقیقت

1️⃣ أخبرنا أبو بکر محمد بن أحمد بن بالویه ثنا إبراهیم بن إسحاق الحربی ثنا مصعب بن عبد الله : فذکر نسب حکیم بن حزام و زاد فیه و أمه فاختة بنت زهیر بن أسد بن عبد العزى و کانت ولدت حکیما فی الکعبة و هی حامل فضربها المخاض وهی جوف الکعبة فولدت فیها فحملت فی نطع و غسل ما کان تحتها من الثیاب عند حوض زمرم و لم یولد قبله و لا بعده فی الکعبة أحد ”

2️⃣” سمعت أبا الفضل الحسن بن یعقوب یقول : سمعت أبا أحمد محمد بن عبد الوهاب یقول : سمعت علی بن غنام العامری یقول : ولد حکیم بن حزام فی جوف الکعبة دخلت أمه الکعبة فمخضت فیها فولدت فی البیت ”

📚 مستدرک الصحیحین ج 3 ص 482 و483

3️⃣ حدثنا الزبیر قال، وحدثنی مصعب بن عثمان قال: دخلت أم حکیم ابن حزام الکعبة مع نسوة من قریش، وهی حامل بحکیم بن حزام، فضربها المخاض فی الکعبة، فأتیت بنطح حیث أعجلها الولاد، فولدت حکیم بن حزام فی الکعبة على النطح ”

📚 جمهره نسب قریش و اخبارها ص 77

مستدرک حاکم میں دو روایات جو پائی جاتی ہیں انکے دو راوی مصعب بن عبدالله و علی بن غنام اور زبیر بن بکار سے یہ افسانہ راوی مصعب بن عثمان نے شروع کیا۔

اب پہلے ذرا ان رایوں پر کچھ لکھنے سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ حکیم ابن حزام عام الفیل سے 13 سال پہلے پیدا ہوئے

اب پہلے آتے ہیں زبیر بن بکار کی روایت کی طرف جس میں مصعب بن عثمان ہے

مصعب بن عثمان :

کتب اہل سنت میں یہ راوی مجھول ہے، کتاب التبیین فی انساب القرشیین اسکا نام لکھا ہے۔

مصعب بن عثمان بن عروه بن الزبیر بن العوام ”

📚 التبیین فی انساب القرشیین ص 266

کتب رجالی اهل سنت میں اسکی توثیق یا مدح کچھ بھی ثابت نہیں ، اس مجھول راوی نے عام الفیل سے بھی 13 سال پہلے کا واقعہ نقل کیا ہے جو کہ روایت کو مرسل بنا دیتا ہے۔

.

اسی طرح امام حاکم کی 2 عدد روایات میں موجود راوی جن کے نام مصعب بن عبدالله اور علی بن غنام (بن عثام) ہیں

مصعب بن عبدالله

اسکی وفات کا سال 236 هـ ہے اور لکھا گیا کہ یہ 80 سال عمر میں فوت ہوئے جس کا مطلب یہ 156 هـ میں پیدا ہوئے

📚 تهذیب التهذیب ج 10 ص 147 شماره311
📚 الاصابة ” ج1 ص349
📚 الاستیعاب ” ج1 ص320

اسی طرح

علی بن غنام ( بن عثام ) :

ذھبی انکے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ کوفہ کے رہنے والے تھے اور 228 ہجری میں فوت ہوئے

على بن عثام بن على العامرى الکلابى ، أبو الحسن الکوفى می باشد . وی متوفی سال 228 ه .ق می باشد .

📚 سیر اعلام النبلاء ج 10 ص 571 شماره 198

جب کہ

حکیم بن حزام عام الفیل سے 13 سال پہلے پیدا ہوئے

عام الفیل وہ سال ہے جو کہ رسول اللّه ص کے پیدا ہونے سے پہلے کا ہے یا ہجرت سے 53 سال پہلے کا۔

اور

حکیم ابن حزام کی وفات 54 سے 60 ہجری کے درمیان ہوئی۔

جو کہ واضح ثبوت ہے کہ یہ تمام روایات مرسل ہیں

۔

اور ایک روایت جو زبیر بن بکار نے مجھول راوی سے نقل کی وہ بھی مرسل ہے

حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونا تو یہ ایک جھوٹا افسانہ ہے جو دشمنی علی (ع) کی بناء پر ناصبیوں نے تراشا ہے تاکہ حضرت علی (ع) کی اس فضیلت کو کمزور کیا جا سکے

اور زبیرابن بکار متوفای 256 ھے اس سے پھلےکسی کتاب اھل سنت میں حکیم کی کعبہ میں ولادت کا ذکر نہیں ھے

یہ روایت زبیر بن بکار کی گھڑی ھوئی ھے اور وہ دشمن اھل بیت تھا اور اس روایت کو دشمن اھل بیت ھی استعمال کر رھے ھیں آج تک

اس قصہ کو سب سے پہلے بیان کرنے والا زبیر بن بکار ہے اور زبیر کا خاندان ، اولاد علی کی عداوت میں مشہور تھا اور اس کے علاوہ خود زبیر بن بکار اپنی اھل بیت دشمنی اور بد عقیدتی سے سفاک متوکل عباسی اور اس کی اولاد کو درس دینے پر معین تھا اور اولاد علی (ع) سے دشمنی کی وجہ سے اس کو متوکل نے مکہ کا حاکم مقرر کر دیا تھا

چنانچہ حکیم کا کعبہ میں پیدا ہونا غلط ہے اور من گھڑت قصے سے زیادہ اھمیت نہیں رکھتا،

سبط ابن جوزی جیسے افراد نے اس کا رد کیا ہے جبکہ امام علی (ع) کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا متواتر سے ثابت ہے اور یہ دعویٰٰ امام حاکم ،ذہبی ، ملا علی قاری جیسے لوگوں کا ہے (تفصیل انشاء اللّه آگے آئے گی)

مشہور محدث سبط ابن جوزی نے تذکرۃ الاخواص میں حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونے کو اس طرح رد کیا ہے

حکیم بن حزام کی ماں نے اسے کعبہ میں جنا ، اس بارے میں حافظ ابو نعیم اصبہانی نے ایک طویل روایت میں نقل کی ہے مگر اس کی سند میں روح بن صلاح ہے جس کی حافظ ابن عدی نے تضعیف کی ہے

📚 تذکرۃ الخواص// سبط ابن جوزی// ص 30 // طبع نجف عراق

.

آج ہم حکیم بن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے کے اہل سنت محدثین کے اقوال کی حقیقت دیکھے گئے

ابن حزام کی کعبہ میں ولادت کے متعلق دلائل پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے :

1۔امام مسلم بن حجاج ؒ کی شہادت:۔

امام موصوف اپنی مایہ ناز کتاب “صحیح مسلم” میں فرماتے ہیں۔

وُلِد حكيم في جوف الكعبة ، وعاش مئة وعشرين سنة . (باب ثبوت اخیار المجلس للمتبایعین 176/10)

کہ حکیم بن حزام کی ولادت کعبہ مشرفہ کے اندر ہوئی اور انہوں نے ایک سو بیس سال عمر پائی۔

2۔امام سیوطی کی شہادت مولده : وُلِد حكيم في جوف الكعبة

(تدریب الراوی طبع جدید 358/2)

3۔وُلِد حكيم في جوف الكعبة (ریح النسرین للسیوطی ص49)

کہ حکیم کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔

4۔امام نوویؒ کی شہادت:۔

امام موصوف شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں۔

ومن مناقبه أنه ولد في الكعبة! قال بعض العلماء ولا يعرف أحد شاركه في هذا

کہ حکیم بن حزام کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔

بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ “کوئی دوسرا شخص اس خصوصیت میں ان کا شریک نہیں۔”

5۔ ” وُلِد حَكِيم بن حزام رضي الله عنه ولد فِي جَوف الْكَعْبَة ، وَلَا يعرف أحد ولد فِيهَا غَيره ، وَأما مَا رُوِيَ عَن عَلّي رَضي اللهُ عَنهُ أَنه ولد فِيهَا فضعيف

(تہذیب الاسماء اللغات للنووی 166/1)

کہ حکیم کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی کوئی دوسرا شخص اس کے اند مولود نہیں ہوا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو یہ بات بیان کیجاتی ہے۔ تو یہ قول اہل علم کے نزدیک ضعیف ہے۔

یہ ناصبیوں کے اقوال تھے جو اس نے بطور استدلال تحریر کیا ہے۔

ان کا مختصر جواب یہ ہے کہ مسلم سے لیکر سیوطی تک کسی بھی ناصبی نے اپنے موقف کی تائید میں کوئی روایت پیش نہیں کی جس کی سند کسی صحابی یا تابعی تک جاتی ہو بلکہ سب نے مکھی پر مکھی ماری ہے، جب ان کے موقف کے خلاف کوئی بات ہو تو یہ سند کے پجاری سند سند کا رونا شروع کر دیتے ہیں اور بات جب اپنے مزاج کی ہو تو نہ اب سند کی کوئی ضرورت نہ راویوں کی تحقیق کی ضرورت ہے بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ مقام امیرالمومنین علیہ السلام کو کسی طرح گھٹایا جا سکے،

ان خارجیوں کو چیلنج ہے کہ فقط ایک متصل صحیح سند نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا کسی صحابی یا تابعی تک دکھا دیں جس میں ابن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے کا ذکر ہو یہ جماعت جہنم واصل ہو جائے گی مگر ایک صحیح سند حدیث یا صحابی و تابعی کا قول نہیں دکھا سکتی جس سے ان کے موقف کی تائید ہو۔

اور اگر حجت علماء کے اقوال ہیں تو جتنے اقوال ابن حزام کی پیدائش کے متعلق ہیں اس سے کہیں زیادہ تصریحات امیرالمومنین علیہ السلام کے متعلق ہیں

.

.
.
موکود کعبہ ہونے پر حکیم بن حزام کے بارے وارد روایات کی حقیقت
.
جیسے ہی ماہ رجب المرجب اور خاص طور پر 13 رجب نزدیک آتی ھے تو مخالفین کو بے چینی شروع ہو جاتی ھے اور ان کے معدے کی تبخیر ان کو بیٹھنے نہیں دیتی ایک اعتراضات کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں کہ مولود کعبہ علی ؑ نہیں بلکہ حکیم بن حزام ہیں
اس پر ایک دلچسپ تحریر پیش خدمت ھے جس میں ہم ان روایات اور اقوال کا جائزہ لیں گے جو کہ عمومی طور پر اھلسنت کتب میں موجود ہیں
کتب تشیع میں یہ بات تواتر کی حد تک ھے کہ مولا علی ؑ ہی کعبہ میں متولد ہوۓ حتی کہ کئ اھلسنت فقھاء نے بھی اسی طرف اشارہ دیا ھے جیسے کہ امام حاکم ؒ مستدرک میں لکھا
حکیم بن حزام والی روایات یا تو صیغہ تمریض کے ساتھ ہیں یا پھر اقوال ہیں اور جن کے اقوال ہیں انکا زمانہ بہت بعد کا ھے
اس سلسلے میں پہلی روایت تیسری صدی ھجری کے ایک محدث علامہ
ارزقی (متوفی ٢٥٠هـ) أخبار مكة جلد1 ص 174میں نقل کرتے ہیں
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ فَاخِتَةَ ابْنَةَ زُهَيْرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، – وَهِيَ أُمُّ ‌حَكِيمِ ‌بْنِ ‌حِزَامٍ – دَخَلَتِ ‌الْكَعْبَةَ وَهِيَ حَامِلٌ، فَأَدْرَكَهَا الْمَخَاضُ فِيهَا، فَوَلَدَتْ حَكِيمًا فِي ‌الْكَعْبَةِ۔۔۔
ارزقی کی سند سے ہی خطابی نے غریب الحدیث میں نقل کیا ھے
حَدَّثَنِيهُ مُحَمَّدُ بْنُ نافع أخبرنا إسحاق بن أحمد الخزاعي أخبرنا الأَزْرُقِيُّ به.
احوال سند
اگر بات کو شروع کرنا چاہیں تو ارزقی سے ہی کر سکتے ہیں لیکن اس روایت کے رجال پر نظر کرتے ہیں
پہلا راوی
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: یہ محمد بن یحیی ابو غسان ہیں۔ بخاری نے ان سے حدیث لی۔ سلیمانی نے ان کی تضعیف کی ھے
دوسرا راوی
عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ یہ عبد العزیز بن عمران الزھری ہے۔
حافظ ابن حجر تھذیب التہذیب میں لکھتے ہیں
كان صاحب نسب ولم يكن من أصحاب الحديث
وقال عثمان الدارمي عن يحيى ليس بثقة إنما كان صاحب شعر وقال الحسين بن حبان عن يحيى قد رأيته ببغداد كان يشتم الناس ويطعن في احسابهم ليس حديثه بشيء
وقال محمد بن يحيى الذهلي علي بدنة أن حدثت عنه حديثا وضعفه جدا
وقال البخاري منكر الحديث لا يكتب حديثه
وقال النسائي متروك الحديث وقال مرة لا يكتب حديثه
وقال ابن حبان يروي المناكير عن المشاهير
وقال أبو حاتم ضعيف الحديث منكر الحديث جدا قيل له يكتب حديثه قال على الاعتبار
وقال ابن أبي حاتم أمتنع أبو زرعة من قراءة حديثه وترك الرواية عنه
وقال الترمذي والدارقطني ضعيف
وقال عمر بن شبة في أخبار المدينة كان كثير الغلط في حديثه لأنه احترقت كتبه فكان يحدث من حفظه۔ ا ھ۔
ابنِ حجر نے تقریب میں ان کو متروک کہا: متروك احترقت كتبه فحدث من حفظه فاشتد غلطه ، و كان عارفا بالأنساب۔
تیسرا راوی: عبد اللہ بن ابی سلیمان صدوق ہے،
لیکن اس کا والد کون ہے جس سے یہ روایت بیان کر رہا ہے؟
یہ تو ہے پہلی روایت کا حال ھے
دوسری روایت
اس کو زبیر بن بکار(ت ٢٥٦هـ) نے
جمهرة نسب قريش وأخبارها ص353میں نقل کیا ہے:
وحدثني مصعب بن عثمان قال: دخلت أم ‌حكيم ‌ابن ‌حزام ‌الكعبة مع نسوة من قريش، وهي حامل بحكيم بن حزام، فضربها المخاض في ‌الكعبة، فأتيت بنطح حيث أعجلها الولاد، فولدت ‌حكيم ‌بن ‌حزام في ‌الكعبة على النطح…
اور زبیر کی کتاب سے ابنِ عساکر نے تاريخ دمشق جلد 15ص 99 میں یہ قول نقل کیا ہے
أخبرنا أبو غالب أحمد بن الحسن وأخوه أبو عبد الله يحيى قالا أنبأنا أبو جعفر بن المسلمة أنا أبو طاهر المخلص أنبأنا أحمد بن سليمان الطوسي أنبأنا الزبير بن بكار حدثني مصعب بن عثمان قال دخلت أم ‌حكيم ‌بن ‌حزام ‌الكعبة۔۔۔ الخ
اس روایت کا مرکزی راوی زبیر بن بکار ھے جو کہ خود بہت بعد کا ماہر انساب ھے
میں کہتا ہوں کہ زبیر بن بکار 256 ھ میں فوت ہوا اور وہ مصعب بن عثمان سے نقل کر رہا ھے اور اگر اس اعتبار سے دیکھا جاۓ تو مصعب کی پیدائش بھی پہلی صدی ہجری میں نظر نہیں آتی بلکہ اس کا زمانہ بخاری کے شیوخ کا زمانہ بنتا ہے۔
لہذا یہ ایک قول سے زیادہ کچھ بھی نہیں
تیسری روایت بھی قول ھے
المستدرك على الصحيحين للحاكم – ط العلمية» جلد 3ص 550
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَرْبِيُّ، ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَذَكَرَ نَسَبَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَزَادَ فِيهِ، «وَأُمُّهُ فَاخِتَةُ بِنْتُ زُهَيْرِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، وَكَانَتْ وَلَدَتْ حَكِيمًا فِي الْكَعْبَةِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، وَهِيَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، فَوَلَدَتْ فِيهَا فَحُمِلَتْ فِي نِطَعٍ، وَغُسِلَ مَا كَانَ تَحْتَهَا مِنَ الثِّيَابِ عِنْدَ حَوْضِ زَمْزَمَ، وَلَمْ يُولَدْ قَبْلَهُ، وَلَا بَعْدَهُ فِي الْكَعْبَةِ أَحَدٌ» قَالَ الْحَاكِمُ: «وَهَمُّ مُصْعَبٍ فِي الْحَرْفِ الْأَخِيرِ، فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ»
میں کہتا ہوں کہ مصعب بن عبد الله صدوق ہے۔ لیکن اس کا وصال 236 ھ میں ہوا۔ جو کہ بہت بعد کا راوی ھے
لہذا یہ بھی فقط ایک قول ہی ہے، جوکہ منقطع ہے
چھوتھی روایت قول
اس کو حاکم المستدرک جلد 3ص 549 میں نقل کرتے ہیں
سَمِعْتُ أَبَا الْفَضْلِ الْحَسَنَ بْنَ يَعْقُوبَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا أَحْمَدَ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الْوَهَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ غَنَّامٍ الْعَامِرِيَّ، يَقُولُ: «وُلِدَ ‌حَكِيمُ ‌بْنُ ‌حِزَامٍ فِي جَوْفِ ‌الْكَعْبَةِ، دَخَلَتْ أُمُّهُ ‌الْكَعْبَةَ فَمَخَضَتْ فِيهَا فَوَلَدَتْ فِي الْبَيْتِ
اس کو ابو نعیم بھی ((معرفة الصحابة جلد2ص 702 میں نقل کیا ھے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الْوَهَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَثَّامٍ به.
امام حاکم کے اس نسخے میں (یا طباعت) میں نام کی تحریف ہوئی ہے۔ نام علی بن غنام نہیں، بلکہ علی بن عثام ہے، جیسا کہ ابو نعیم نے ذکر کیا ہے۔
یہ علی بن عثام ثقہ ہیں۔ 228 ھجری میں انکا وصال ہوا۔
لہذا یہ بھی فقط ایک قول ہی ہے، منقطع ہے
پانچویں روایت قول ھے
امام مسلم اپنی صحیح میں کہا ھے قَالَ مُسْلِم بْن الْحَجَّاج وُلِدَ حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ وَعَاشَ مِائَةً وَعِشْرِينَ سَنَةً
یہ بھی ایک قول ہے۔
پھر اسی طرح کی بات ابنِ مندہ نے بھی من عاش مائة وعشرين سنة من الصحابة میں کی ہے۔
‌حَكِيمُ ‌بْنُ ‌حِزَام۔۔ وُلِدَ فِي جَوْفِ ‌الْكَعْبَةِ
اور ابنِ مندہ کی کتاب سے ابنِ عساکر نے
تاریخ دمشق جلد15ص 98
گو کہ روایات کرنے والے ثقہ ہیں لیکن انہوں نے کس سے سنا اسکا کوئ ثبوت ہمیں نہیں ملتا اور محض انکی بات یقینی نہیں ہاں اگر اس پر کسی صحابی کا قول کتب اھلسنت میں پایا جاتا رو ایک الگ بات ہوتی
.
.
.
.

*حضرت علی کا کعبہ میں پیدا ہونا امامی مکتب سے*

.

اہل بیت علیہم السلام کی روایات سے اخذ شیعیان حیدر کرار علیہ السلام کا یہ مسلم عقیدہ ہے اور سلف سے خلف تک تمام علماء رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے تسلیم کیا ہے بلکہ یہ بات ہمارے یہاں تواتر سے ثابت ہے، بعض علمائے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تحقیق کو قارئین کرام کی نظر کرتے ہیں۔
.
1شیخ صدوق علیہ السلام (المتوفی ۳۸۱ھ)
آپ نے ایک مستقل کتاب اس موضوع پر لکھی تھی (مولد مولانا علي عليه السلام بالبيت) اس کا ذکر ابن طاووس علیہ الرحمہ نے کیا ہے۔
📚 اليقين باختصاص مولانا علي عليه السلام بإمرة المؤمنين، ، ص: 191.
اس علاوہ بھی آپ کی کتاب العلل وغیرہ میں تفصیلی روایات موجود ہیں۔
.
2 شیخ مفید علیہ الرحمہ (المتوفی ۴۱۳ھ)
📜 ولد بمكة في البيت الحرام يوم الجمعة الثالث عشر من رجب سنة ثلاثين من عام الفيل ولم يولد قبله ولا بعده مولود في بيت الله تعالى سواه إكراما من الله تعالى له بذلك وإجلالا لمحله في التعظيم
📝 (آپ علیہ السلام ) کی ولادت مکہ مکرمہ میں بیت الحرام میں بروز جمعہ 13 رجب 30 عامل الفیل کو ہوئی نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کسی کی ولادت بیت اللہ میں نہیں ہوئی یہ اللہ سبحانہ تعالی کی طرف سے آپ کے اکرم و تعظیم کے سبب تھا ۔
📚 الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد ج 1 ص 5
.
3 جامع نہج البلاغہ سید رضی علیہ الرحمہ : (المتوفی ۴۰۶ھ)
ولد ع بمكة في البيت الحرام لثلاث عشرة ليلة خلت من رجب بعد عام الفيل بثلاثين سنة و لا نعلم مولودا ولد في الكعبة غيره‏.
📚 خصائص الأئمة، ص 39۔
.
4 شیخ الطائفة طوسی علیہ الرحمہ (المتوفی ۴۶۰ھ)
📜 وُلِدَ بِمَكَّةَ فِي الْبَيْتِ الْحَرَامِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ لِثَلَاثَ عَشْرَةَ خَلَتْ مِنْ رَجَبٍ بَعْدَ عَامِ الْفِيلِ بِثَلَاثِينَ سَنَة
📝 آپکی ولادت مکہ مکرمہ میں بیت الحرام میں بروز جمعہ ۱۳ رجب ۳۰ عامل الفیل کو ہوئی
📚 تهذيب الأحكام، ج 6 ص 19
.
5 ابن شہر آشوب علیہ الرحمہ :
ليس المولود في سيد الأيام يوم الجمعة في الشهر الحرام في البيت الحرام سوى أمير المؤمنين عليه السلام.
📚 مناقب آل أبي طالب، ج 2 ص 200،
.
.
امیر ع کی ولادت کعبہ پر بہت ساری اسناد موجود ہیں ہم فقط شیخ طوسی رح کی نقل کردہ اسناد کے بارے بحث کرتے ہیں
ایک اصول پہلے ذہن نشین کرلیں اہل سنت کے ہاں اصول ہے تعدد طرق ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں
.
👈 علامہ الخفاجی فرماتے ہیں:
📜 وقول الخفاجي عن حديث رد الشمس: “إن تعدد طرقه شاهد صدق على صحته
📃 ” حدیث رد الشمس کے باب میں فرماتے ہیں کثرت طرق شاہد بن جاتے ہیں روایت کی صحت پر “
📚 حوالہ : [ نسیم الریاض – جلد ٣ – صفحہ ١١ ]
.
👈 علامہ الزرقانی فرماتے ہیں :
📜 بقول الزرقاني الذي صرح بأن: “من القواعد:أن تعدد الطرق يفيد: أن للحديث أصلاً
📃 ” الزرقانی کے مطابق، فرماتے ہیں : “قواعد میں سے : کہ طرق کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حدیث کی اصل ہے۔”
📚 حوالہ : [ شرح مواہب اللدینہ – جلد ٦ – صفحہ ۴٩٠ ]
.
👈 الشیخ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں :
📜 يقوي بعضها بعضا
📃 ” (متعدد طرق) ایک دوسرے کو قوی کرتے ہیں “
📚 حوالہ : [ تمام المنة فی تعلق علی فقہ السنہ – ص١٠٢ ؛ ٣٨٧ ؛ ٣٩٣ ]
.
👈 السيد سابق فرماتے ہیں :
📜 طرق متعددة يقوي بعضها بعضا
📃 ” متعدد طرق ایک دوسرے کو قوی کردیتے ہیں “
📚 حوالہ : [ فقہ السنہ – جلد١ – صفحہ ٣٠٦ ]
.
دوسری جگہ پر فرماتے ہیں
📜 إلا أنه جاء فيه آثار يقوي بعضها بعضا
📃 ” یہ آثار ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں “
📚 حوالہ : [ فقہ السنہ – صفحہ ٣٦٣ ]
.
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں
📜 والاحاديث وإن كانت ضعيفة الا أنه يقوي بعضها بعضا
📃 ” اگرچہ حدیث ضعیف ہے لیکن متعدد طرق ایک دوسرے کو قوی کررہے ہیں”
📚 حوالہ : [ فقہ السنہ – جلد ١ – صفحہ ۵٧ ]
.
👈 محمد بن اسماعیل الصنعانی فرماتے ہیں :
📜 لَهُ طُرُقًا يُقَوِّي بَعْضُهَا بَعْضًا
📃 ” طرق ایک دوسرے کو قوی کردیتے ہیں “
📚 حوالہ : [ سبسل السلام شرح بلوغ المرام – جلد ٣ – صفحہ ١٧٩ ]
.
👈 ابن تیمہ فرماتے ہیں :
📜 فَإِنَّ تَعَدُّدَ الطُّرُقِ وَكَثْرَتَهَا يُقَوِّي بَعْضَهَا بَعْضًا
📃 ” تعدد طرق اور انکی کثرت ایک دوسرے کو قوی کردیتے ہیں “
📚 حوالہ : [ المجموع الفتاوی – جلد ١٨ – صفحہ ٢٦ ]
.
👈 ” شیعہ محققین میں سے آیت اللہ العظمی الشیخ محمد آصف محسنی رح کا منہج تھا ایک متن پر تین اسناد آجائیں تو روایت معتبر ٹھہرتی ہے “
📜 ولكن إدّعى‌ ان كثرة اسناده البالغة الى ثلاثين سنداً تكفي ‌للاعتماد عليها
📚 حوالہ : [ معجم الأحاديث المعتبرة – جلد ١ – صفحہ ٢٦ ]
.
👈 مشرعہ میں فرماتے ہیں :
📜 ثم ان ما دل على وقوع ولادته الشريفة في بيت الله (الكعبة) و ان كان غير معتبر سنداً لكنها مشهورة أو مسلمة عند الشيعة
📃 ” علی ع کی ولادت فی بیت اللہ مسلمات شیعہ میں سے ہے “
📚 حوالہ : [ مشرعہ – جلد ٢ – صفحہ ٨۴ ]
.
👈 السید جعفر مرتضی عاملی ولادت فی الکعبہ بارے میں فرماتے ہیں :
📜 وظهر أيضاً: أن الرواية به مستفيضة
📃 ” یہ روایات مستفیض ہیں “
📚 حوالہ : [ الصحیح من سیرہ امام علی – جلد ١ – صفحہ ٨٩ ]
.
👈 آیت السید مرعشی نجفی رح فرماتے ہیں :
📜 ” حديث شق الجدار.. مستفيض
📚 حوالہ : [ الصیحیح من سیرہ امام علی ع – صفحہ ٨٦ ، ٨٧ ]
.
امیر المومنین ع کی ولادت فی الکعبہ پر متعدد اسناد موجود ہیں لیکن شیخ طوسی رح نےاکٹھے تین طرق ایک متن پردیئےہیں جس سے یہ متن معتبر ٹہرتا ہے ملاحظہ کریں ۔
.
📜 (1)حَدَّثَنَا الشَّيْخُ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ الطُّوسِيُّ (رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ)، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَاذَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، قَالَ:حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَبِيبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ.
📜 (2)قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ شَاذَانَ: وَ حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ الرُّبَيْعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ.
📜 (3)قَالَ ابْنُ شَاذَانَ: وَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ، بِإِسْنَادِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ (عَلَيْهِمَا السَّلَامُ)، عَنْ آبَائِهِ (عَلَيْهِمُ السَّلَامُ)، قَالَ: كَانَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ يَزِيدُ بْنُ قَعْنَبٍ جَالِسَيْنِ مَا بَيْنَ فَرِيقِ بَنِي هَاشِمٍ إِلَى فَرِيقِ عَبْدِ الْعُزَّى بِإِزَاءِ بَيْتِ اللَّهِ الْحَرَامِ، إِذْ أَتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدِ بْنِ هَاشِمٍ أُمِّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)، وَ كَانَتْ حَامِلَةً بِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلَامُ) لِتِسْعَةِ أَشْهُرٍ، وَ كَانَ يَوْمَ التَّمَامِ، قَالَ: فَوَقَفَتْ بِإِزَاءِ الْبَيْتِ الْحَرَامِ، وَ قَدْ أَخَذَهَا الطَّلْقُ، فَرَمَتْ بِطَرْفِهَا نَحْوَ السَّمَاءِ، وَ قَالَتْ: أَيْ رَبِّ، إِنِّي مُؤْمِنَةٌ بِكَ، وَ بِمَا جَاءَ بِهِ مِنْ عِنْدِكَ الرَّسُولُ، وَ بِكُلِّ نَبِيٍّ مِنْ أَنْبِيَائِكَ، وَ بِكُلِّ كِتَابٍ أَنْزَلْتَهُ، وَ إِنِّي مُصَدِّقَةٌ بِكَلَامٍ جَدِّي إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ، وَ إِنَّهُ بَنَى بَيْتَكَ الْعَتِيقَ، فَأَسْأَلُكَ بِحَقِّ هَذَا الْبَيْتِ وَ مَنْ بَنَاهُ، وَ بِهَذَا الْمَوْلُودِ الَّذِي فِي أَحْشَائِي الَّذِي يُكَلِّمُنِي وَ يُؤْنِسُنِي بِحَدِيثِهِ، وَ أَنَا مُوقِنَةٌ أَنَّهُ إِحْدَى آيَاتِكَ وَ دَلَائِلِكَ لَمَّا يَسَّرْتَ عَلَيَّ وِلَادَتِي.
قَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ يَزِيدُ بْنُ قَعْنَبٍ: لَمَّا تَكَلَّمَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدٍ وَ دَعَتْ بِهَذَا الدُّعَاءِ، رَأَيْنَا الْبَيْتَ قَدِ انْفَتَحَ مِنْ ظَهْرِهِ، وَ دَخَلَتْ فَاطِمَةُ فِيهِ، وَ غَابَتْ عَنْ أَبْصَارِنَا، ثُمَّ عَادَتِ الْفَتْحَةُ وَ الْتَزَقَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ (تَعَالَى)، فَرُمْنَا أَنْ نَفْتَحَ الْبَابَ لِيَصِلَ إِلَيْهَا بَعْضُ نِسَائِنَا، فَلَمْ يَنْفَتِحِ الْبَابُ، فَعَلِمْنَا أَنَّ ذَلِكَ أَمْرٌ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ (تَعَالَى)، وَ بَقِيَتْ فَاطِمَةُ فِي الْبَيْتِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ. قَالَ: وَ أَهْلُ مَكَّةَ يَتَحَدَّثُونَ بِذَلِكَ فِي أَفْوَاهِ السِّكَكِ، وَ تَتَحَدَّثُ الْمُخَدَّرَاتُ فِي خُدُورِهِنَّ.
قَالَ: فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ انْفَتَحَ الْبَيْتُ مِنَ الْمَوْضِعِ الَّذِي كَانَتْ دَخَلَتْ فِيهِ، فَخَرَجَتْ فَاطِمَةُ وَ عَلِيٌّ (عَلَيْهِ السَّلَامُ) عَلَى يَدَيْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: مَعَاشِرَ النَّاسِ، إِنَّ اللَّهَ (عَزَّ وَ جَلَّ) اخْتَارَنِي مِنْ خَلْقِهِ، وَ فَضَّلَنِي عَلَى الْمُخْتَارَاتِ مِمَّنْ مَضَى قَبْلِي، وَ قَدِ اخْتَارَ اللَّهُ آسِيَةَ بِنْتَ مُزَاحِمٍ فَإِنَّهَا عَبَدَتِ اللَّهَ سِرّاً فِي مَوْضِعٍ لَا يُحَبُّ أَنْ يُعْبَدَ اللَّهُ فِيهِ إِلَّا اضْطِرَاراً، وَ مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ حَيْثُ اخْتَارَهَا اللَّهُ، وَ يَسَّرَ عَلَيْهَا وِلَادَةَ عِيسَى، فَهَزَّتِ الْجِذْعَ الْيَابِسَ مِنَ النَّخْلَةِ فِي فَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ حَتَّى تُسَاقِطَ عَلَيْهَا رُطَباً جَنِيًّا، وَ إِنَّ اللَّهَ (تَعَالَى) اخْتَارَنِي وَ فَضَّلَنِي عَلَيْهِمَا، وَ عَلَى كُلِّ مَنْ مَضَى قَبْلِي مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ، لِأَنِّي وَلَدْتُ فِي بَيْتِهِ الْعَتِيقِ، وَ بَقِيتُ فِيهِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ آكُلُ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ وَ أَوْرَاقِهَا، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَخْرُجَ وَ وَلَدِي عَلَى يَدَيَّ هَتَفَ بِي هَاتِفٌ وَ قَالَ: يَا فَاطِمَةُ، سَمِّيهِ عَلِيّاً، فَأَنَا الْعَلِيُّ الْأَعْلَى، وَ إِنِّي خَلَقْتُهُ مِنْ قُدْرَتِي، وَ عِزِّ جَلَالِي، وَ قِسْطِ عَدْلِي، وَ اشْتَقَقْتُ اسْمَهُ مِنْ اسْمِي، وَ أَدَّبْتُهُ بِأَدَبِي، وَ فَوَّضْتُ إِلَيْهِ أَمْرِي، وَ وَقَّفْتُهُ عَلَى غَامِضِ عِلْمِي، وَ وُلِدَ فِي بَيْتِي، وَ هُوَ أَوَّلُ مَنْ يُؤَذِّنُ فَوْقَ بَيْتِي، وَ يَكْسِرُ الْأَصْنَامَ وَ يَرْمِيهَا عَلَى وَجْهِهَا، وَ يُعَظِّمُنِي وَ يُمَجِّدُنِي وَ يُهَلِّلُنِي، وَ هُوَ الْإِمَامُ بَعْدَ حَبِيبِي وَ نَبِيِّي وَ خِيَرَتِي مِنْ خَلْقِي مُحَمَّدٍ رَسُولِي، وَ وَصِيُّهُ
.
📃 عباس بن عبد المطلب، يزيد بن قعنب بنی ہاشم اور عبد العزی کے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے تھے کہ فاطمہ بنت اسد کہ جو نو مہینے سے حاملہ تھیں، آئیں اور وہ حمل کے درد سے بے چین تھیں۔ اسی حالت انھوں نے کہا کہ : خدایا میں آپ پر اور آپکی طرف سے آنے والی ہر چیز پر ایمان لاتی ہوں، میں آپکے انبیاء اور آسمانی کتابوں پر بھی ایمان لاتی ہوں اور اپنے جدّ حضرت ابراہیم خلیل کی تعلیمات کی تصدیق کرتی ہوں، وہ ہیں کہ جہنوں نے اس کعبہ کو تعمیر کیا ہے۔ خدایا میں آپکو اسی کے حق کا اور اس بچے کا واسطہ دیتی ہوں کہ جو ابھی میرے شکم میں ہے، مجھ پر اس ولادت کے مرحلے کو آسان فرما۔ یزید ابن قعنب کہتا ہے کہ : ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خانہ کعبہ کی دیوار پھٹ گئی اور فاطمہ بنت اسد اسکے اندر چلی گئیں اور ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئیں اور دیوار بھی اپنی پہلی حالت میں آپس میں مل کر صحیح ہو گئی۔ ہم نے چاہا کہ خانہ کعبے کا تالا کھول کر اندر جائیں، لیکن ہم اسکا تالا نہ کھول سکے۔ یہ دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ یہ کام خداوند کی طرف سے ہے اور ایک عادی و معمولی واقعہ نہیں ہے۔ فاطمہ بنت اسد چار دنوں کے بعد کعبہ سے باہر آئیں، اس حالت میں کہ علی کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ آپ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: اے لوگو! بے شک خداوند نے اپنی مخلوق میں سے مجھے انتخاب کیا ہے اور مجھ سے پہلی عورتوں میں سے بھی مجھے انتخاب کیا ہے اور فضیلت و برتری عطا کی ہے…….، کیونکہ میں نے اپنے بیٹے کو خانہ کعبہ میں جنم دیا ہے، اور جب میں نے اس مقدس گھر سے اپنے بچے کے ساتھ نکلنے کا ارادہ کیا تو ، غیب سے آواز آئی کہ: اے فاطمہ اس بچے کا نام نام علی رکھو، کیونکہ وہ علی ہے اور خداوند اعلی نے فرمایا ہے کہ میں نے اسکے نام کو اپنے نام سے مشتق کیا ہے اور اپنے آداب سے اسکو مؤدب بنایا ہے اور اپنے پنہان علم سے اسکو علم دیا ہے، اور اسکو اپنے گھر میں دنیا میں لایا ہے، وہ پہلا شخص ہے کہ جو خانہ کعبہ کی چھت پر اذان دے گا اور بتوں کو توڑے گا اور وہ میرے حبیب و میرے نبی ( محمد ص ) کے بعد امام ہو گا
📚 حوالہ : [ امالی طوسی رح – صفحہ ٧٠٦ ، ٧٠٧ – مجلس ۴٢ ]
👈 اس روایت کو السید جعفر مرتضی عاملی معتبر مانتے ہیں جیسا کہ انہوں نے الصحیح من سیرہ امام علی میں اسکو نقل کیا ہے۔
📚 حوالہ : [ الصحیح من سیرہ امام علی ع – جلد ١ – صفحہ ٨٦ تا ٨٨ ]
شیخ صدوقؒ
آپ نے امام علیؑ کی کعبہ میں ولادت کی داستان کو اپنی تالیفات میں سے تین کتابوں میں نقل کیا ہے۔ اسی طرح نجاشی نے شیخ صدوقؒ کی اس موضوع پر مستقل کتاب مولد امیرالمؤمنین (علیه‌السّلام) کا ذکر کیا ہے۔
رجال النجاشی ، ص 392
.
سید بن طاؤس نے اسی کتاب کو “مولد مولانا علی (علیه‌السّلام) بالبیت” کے نام سے شیخ صدوقؒ کی کتاب قرار دیا ہے۔
بزرگ شیعہ عالم شیخ مفیدؒ لکھتے ہیں:
ولد بمکة فی البیت الحرام یوم الجمعة الثالث عشر من رجب سنة ثلاثین من عام الفیل ولم یولد قبله ولا بعده مولود فی بیت الله تعالی سواه اکراما من الله تعالی له بذلک واجلالا لمحله فی التعظیم
حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی‌طالبؑ بروز جمعہ تیس عام الفیل کو مکہ شہر میں واقع بیت اللہ میں پیدا ہوئے۔ خانہ خدا میں نہ آپ سے پہلے کسی کی ولادت ہوئی اور نہ ہی آپؑ کے بعد۔ یہ عظیم امر خدا تعالیٰ کی جانب سے امام علیؑ کیلئے مخصوص تھا۔
الارشاد , ص ۵
.
شیخ الطائفہ لکھتے ہیں:
وُلِدَ بِمَکَّةَ فِی الْبَیْتِ الْحَرَامِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ لِثَلَاثَ عَشْرَةَ خَلَتْ مِنْ رَجَبٍ بَعْدَ عَامِ الْفِیلِ بِثَلَاثِینَ سَنَة
امام علیؑ تیرا رجب بروز جمعۃ المبارک بمطابق ۳۰ عام الفیل کو بیت اللہ شریف میں پیدا ہوئے
تہذیب الاحکام ، ج ۶ ، ص ۲۲
.
مرحوم سید رضیؒ اس فضیلت کے بارے میں یہ لکھتے ہیں:
ولد بمکة فی البیت الحرام لثلاث عشرة لیلة خلت من رجب بعد عام الفیل بثلاثین سنة و لا نعلم مولودا ولد فی الکعبة غیره‌
آپؑ تیرہ رجب تیس عام الفیل کو مکہ کے اندر خانہ خدا میں پیدا ہوئے۔ ہمیں آپؑ کے علاوہ کسی ایسے مولود کے بارے میں علم نہیں ہے جس کی ولادت خانہ خدا میں ہوئی ہو
خصائص الائمہ
.
ابن‌شہر آشوب حضرت علیؑ کی کعبہ میں ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں:
لیس المولود فی سید الایام یوم الجمعة فی الشهر الحرام فی البیت الحرام سوی امیرالمؤمنین
امام علیؑ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جو برترین دن یعنی روز جمعہ کو اور ماہ حرام (رجب) میں خانہ خدا کے اندر پیدا ہوا ہو
مناقب آل ابی طالب ع ، ج ۲ ، ص ۲۰۰
.
مرحوم طبرسی لکھتے ہیں:
وُلِدَ بِمَکَّةَ فِی الْبَیْتِ الْحَرَامِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ الثَّالِثَ عَشَرَ مِنْ شَهْرِ اللَّهِ الْاَصَمِّ رَجَبٍ بَعْدَ عَامِ الْفِیلِ بِثَلَاثِینَ سَنَةً وَ لَمْ یُولَدْ قَطُّ فِی بَیْتِ اللَّهِ تَعَالَی مَوْلُودٌ سِوَاهُ لَا قَبْلَهُ وَ لَا بَعْدَهُ وَ هَذِهِ فَضِیلَةٌ خَصَّهُ اللَّهُ تَعَالَی بِهَا اِجْلَالًا لِمَحَلِّهِ وَ مَنْزِلَتِهِ وَ اِعْلَاءً لِقَدْرِهِ
آپؑ تیرہ رجب تیس عام الفیل بروز جمعۃ المبارک کو مکہ کے اندر بیت اللہ میں پیدا ہوئے۔ آپؑ سے پہلے اور بعد میں کوئی بھی بچہ بیت اللہ میں پیدا نہیں ہوا۔ یہ وہ فضیلت ہے جو خدا نے علیؑ کے مقام کی تجلیل اور ان کی شان و منزلت کی بلندی کی وجہ سے آپؑ سے مخصوص فرمائی۔
اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱ ص۳۰۶
.
سید ہاشم بحرانی فرماتے ہیں :
اجمعت الشیعة على انه ( ع ) ولد في الكعبة
شیعہ کا اس پر اجماع ہے کہ علی ع کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی
مدینة المعاجز ، ج ١ ، ص ٣٠
.
مشہور شیعہ متکلم مرحوم علامہ حلیؒ بھی تحریر فرماتے ہیں:
ولد امیرالمؤمنین ع یوم الجمعة الثالث عشر من شهر رجب بعد عام الفیل بثلاثین سنة فی الکعبة و لم یولد احد سواه فیها لا قبله‌ و لا بعده‌
امیر المومنینؑ تیرہ رجب بروز جمعۃ المبارک بمطابق تیس عام الفیل کو خانہ خدا میں پیدا ہوئے اور آپؑ سے نہ پہلے کوئی وہاں پیدا ہوا اور نہ ہی آپؑ کے بعد۔
کشف الیقین فی فضائل امیر المؤمنین، ص۱۷
.
شیخ یوسف بحرانی، صاحب حدائق اس فضیلت کے بارے میں لکھتے ہیں:
ولد بمکة فی البیت الحرام ولم یولد فیه احد قبله ولا بعده وهی فضیلة خص بها علیه الصلاة والسلام وکان ذلک یوم الجمعة لثلاث عشر لیلة خلت من رجب
امام علیؑ خانہ خدا میں پیدا ہوئے اور آپؑ سے پہلے اور بعد میں کوئی وہاں پیدا نہیں ہوا ہے۔ یہ ایسی فضیلت ہے جو آپؑ سے مخصوص ہے۔
الحدائق الناضرة فی احکام العترة الطاهرة، ‌ ج۱۷ ص۴۳۲ و ۴۳۳