














































































اردو اسکین
.
امام حاکم لکھتے ہیں کہ
فقد تواترت الاخبار ان فاطمة بنت أسد ولدت أمير المؤمنين علي بن أبي طالب كرم الله وجهه في جوف الكعبة“
المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص550
متواتر اضبار سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے علی بن ابی طالب کرم اللہ وجھہ کو کعبہ کے اندر جنم دیا
ناصبیوں نے امام حاکم کی اس بات پر یوں ردعمل پیش کیا 👇🏼
.
ولا يعرف ذلك لغيره. وأما ما روي أن عليا ولد فيها فضعيف (تدریب الراوی 360/2)
شیخ الاسلام فرماتے ہیں:۔ کہ یہ خصوصیت ان کے علاوہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں۔مستدرک میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو منقول ہے وہ ضعیف ہے۔
پھر ناصبی حضرات لکھتے ہیں کہ
امام حاکم کو خود ایسا زبردست وہم ہوا ہے کہ جسکی کوئی مثال ہی نہیں ہے،حالانکہ امام حاکم کو اور بھی بڑے بڑے وہم ہوئے ہیں۔
امام حاکم نے متواتر خبروں سے علی رضی اللہ عنہ کا مولود کعبہ ہونا بیان کیا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہلسنت والجماعت کی کسی بھی حدیث یا تاریخ کی کتاب میں ایسی کوئی جھوٹی روایت بھی موجود نہیں ہے،سوائے ایک اکیلی روایت اور وہ بھی ضعیف ہے۔
تو پھر تواتر کہنا سراسر ظلم کی بات ھے۔ یا پھر زبردست وھم ھے۔ اور پھر امام حاکم میں شیعت بھی تھی۔ جسکا انکار ممکن نہیں۔
اس قول کو بطور دلیل پیش کرنا کم فہمی ہے کیونکہ حاکم یہاں تو تواتر کا دعویٰ کر رہے ہیں اور فضائل علیؓ کے باب میں ایک بھی صحیح بلکہ صحیح تو دور ایک ضعیف روایت بھی پیش کرنے کی جرأت نہ کرسکے جس میں حاکم کے دعوے کی دلیل ہو تو فقط حاکم کے کہنے پر متواتر کون مانے؟
جب کہ حاکم کی تاریخ وفات ٤٠٥ ھجری ہے اب ایک واقعہ جو کہ حاکم کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے کا ہے اس واقعہ کو حاکم کے کہنے پر تسلیم کرنا اور نہ صرف تسلیم بلکہ متواتر کہنا نا انصافی ہوگا
دوسری بات یہ کہ اس کے تواتر کے دعوے میں حاکم منفرد ہیں ان کے سوا محدثین میں سے کسی نے اس واقعہ کے تواتر کا دعویٰ نہیں کیا۔
تیسری اور اہم بات یہ کہ اہل علم جانتے ہیں کہ حاکم نیم شیعہ تھے اور ان کا تواتر کا دعویٰ اسی سلسلے کی ایک کڑی بھی ہوسکتا ہے۔
جواب
اس سے پہلے کہ اشکالات کے جوابات دیں، حاکم نیسابوری کے مقام و مرتبہ کو ائمہ اہل سنت کی زبانی ہی نقل کرتے ہیں:
ذہبی لکھتا ہے
الإمام الحافظ ، الناقد العلامة ، شيخ المحدثين ، أبو عبد الله بن البيع الضبي الطهماني النيسابوري ، الشافعي
حدث عنه : الدارقطني وهو من شيوخه
وصنف وخرج ، وجرح وعدل ، وصحح وعلل ، وكان من بحور العلم
سمعت الخليل بن عبد الله الحافظ ذكر الحاكم وعظمه ، وقال : له رحلتان إلى العراق والحجاز ، الثانية في سنة ثمان وستين ، وناظر الدارقطني ، فرضيه ، وهو ثقة واسع العلم ، بلغت تصانيفه قريبا من خمسمائة جزء ، يستقصي في ذلك ، يؤلف الغث والسمين
عن عبد الغافر بن إسماعيل قال : الحاكم أبو عبد الله هو إمام أهل الحديث في عصره
واختص بصحبة الإمام أبي بكر الصبغي ، وكان الإمام يراجعه في السؤال والجرح والتعديل
ولقد سمعت مشايخنا يذكرون أيامه ، ويحكون أن مقدمي عصره مثل أبي سهل الصعلوكي والإمام ابن فورك وسائر الأئمة يقدمونه على أنفسهم ، ويراعون حق فضله ، ويعرفون له الحرمة الأكيدة . ثم أطنب عبد الغافر في نحو ذلك من تعظيمه ، وقال : هذه جمل يسيرة هي غيض من فيض سيره وأحواله ، ومن تأمل كلامه في تصانيفه ، وتصرفه في أماليه ، ونظره في طرق الحديث أذعن بفضله ، واعترف له بالمزية [ ص: 171 ] على من تقدمه ، وإتعابه من بعده ، وتعجيزه اللاحقين عن بلوغ شأوه ، وعاش حميدا ، ولم يخلف في وقته مثله ، مضى إلى رحمة الله في ثامن صفر سنة خمس وأربعمائة
قال أبو حازم عمر بن أحمد العبدويي الحافظ : سمعت الحاكم أبا عبد الله إمام أهل الحديث في عصره
وسمعت السلمي يقول : سألت الدارقطني : أيهما أحفظ : ابن منده أو ابن البيع ؟ فقال : ابن البيع أتقن حفظا .
قال أبو حازم : أقمت عند أبي عبد الله العصمي قريبا من ثلاث سنين ، ولم أر في جملة مشايخنا أتقن منه ولا أكثر تنقيرا ، وكان إذا أشكل عليه شيء ، أمرني أن أكتب إلى الحاكم أبي عبد الله ، فإذا ورد جواب كتابه ، حكم به ، وقطع بقوله .
قال ابن طاهر : سألت سعد بن علي الحافظ عن أربعة تعاصروا : أيهم أحفظ ؟ قال : من ؟ قلت : الدارقطني ، وعبد الغني ، وابن منده ، والحاكم . فقال : أما الدارقطني فأعلمهم بالعلل ، وأما عبد الغني فأعلمهم بالأنساب ، وأما ابن منده فأكثرهم حديثا مع معرفة تامة ، وأما الحاكم فأحسنهم تصنيفا .
قال ابن طاهر : ورأيت أنا حديث الطير جمع الحاكم بخطه في جزء ضخم ، فكتبته للتعجب
فقال أبو علي : لا تفعل ، فما رأيت أنت ولا نحن في سنه مثله ، وأنا أقول : إذا رأيته رأيت ألف [ ص: 177 ] رجل من أصحاب الحديث .
ترجمہ
امام، حافظ، احادیث کا محقق، علامہ محدثین کا بزرگ دارقطنی نے اس کے استاد ہونے کے بعد بھی اس سے روایت نقل کی، تصنیف و (احادیث کی )تخریج کرنے والا (راویوں کے متعلق )جرح و تعدیل کرنے والا،(سقیم)و صحیح و علل حدیث کا ماہر علم کا سمندر
خلیل بن عبداللہ نے کہا اس وہ ثقہ بہت زیادہ علم رکھنے والا تھا اس کی تصانیف کی تعداد پانچ سو کے قریب پہنچی،
عبدالغفار نے کہا حاکم ابو عبداللہ اپنے زمانے میں اہل حدیثوں کا امام تھا
امام ابوبکر صبغی راویوں پر جرح و تعدیل کے باب میں حاکم کی طرف رجوع کرتا تھا
میں نے اپنے مشائخ سے سنا ہے کہ وہ حاکم کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اس دور کے کے بزرگان جیسے ابو سہل صعلوکی، امام ابن فورک اور تمام ائمہ حاکم کو اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے اس کے فضل و کمال و اس کی حرمت سے خوب آگاہ تھے
ابو حازم عمر بن أحمد عبدوی کہتا ہے میں نے سنا حاکم ابو عبداللہ سے جو اپنے وقت اہل حدیثوں کا امام تھا
سلمی کا بیان ہے کہ میں نے دارقطنی سے پوچھا ابن مندہ وہ ابن البیع (حاکم )میں کون بڑا حافظ اس نے کہا ابن البیع متقن حافظ ہے
ابو حازم کہتا ہے میں تین سال کے قریب ابو عبداللہ عصمی کے پاس مقیم رہا میں نے اپنے مشائخ میں کسی کو بھی اس کے برابر نہیں دیکھا جب بھی اسے کسی مسئلے میں شک ہوتا تو مجھے حکم دیتا کہ اسے لکھ کر حاکم کی سے دریافت کروں اور جب اس کے خط کا جواب آتا تو اس ہی پر حکم کرتا و یقین کرتا
ابن طاہر کہتا ہے :”میں نے حافظ سعد بن علی سے پوچھا چار حافظ حدیث ہم عصر ہیں ،ان میں بڑا حافظ حدیث کون ہے؟کہنے لگا وہ کون ہیں؟میں نے کہا کہ بغداد میں دارقطنی،مصر میں عبدالغنی،اصفہان میں ابن مندہ،اور نیشاپور میں حاکم،تو کہا دارقطنی علل حدیث ہےکا،عبدالغنی انساب کا بڑا عالم ہے،ابن مندہ پے پاس حدیث کا زیادہ علم ہے اور اسے اس فن میں معرفت تامہ حاصل ہےاور حاکم تصنیف میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔
ابن طاہر کا بیان ہے کہ میں نے حاکم کے ہاتھ سے لکھا اس کا جمع کردہ حدیث طیر کا ضخیم جزء دیکھا
میں کہتا ہوں تونے اسے دیکھا گویا ایسا ہے کہ جیسے ایک ہزار علماء حدیث کو دیکھا
یہ حاکم کے وہ مناقب تھے جنہے ائمہ اہل سنت میں بیان کیا طوالت کے خوف سے اس ہی پر اکتفا کرتے ہیں، قابل غور امر یہ ہے کہ حاکم کی پانچ سو میں سے چند کتابوں کے سوا سب ضائع ہو گئیں تو پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا یہ دعوی بغیر دلیل کے ہے شاہد مثال حدیث طیر ہی ہے بقول ابن طاہر یہ ایک ضخیم مجموعہ تھا جو آج ندارد ہے۔
📚 سیر اعلام النبلاء
https://islamweb.net/ar/library/index.php?page=bookcontents&idfrom=4046&idto=4046&bk_no=60&ID=3905
سوال یہ ہے کہ کیا اس مقام و مرتبہ کا امام جھوٹ بولتا ہے کہ بغیر کسی دلیل کے تواتر کا جھوٹا دعوی کر سکتا ہے، یہ وہم و گمان تو ہرگز نہیں یا حاکم اپنے دعوے میں سچا تھا یا جھوٹا اور ناصبیوں کی اس سے بھی زیادہ بڑی مشکل ذہبی کا حاکم کی تحقیق کو تسلیم کرنا ہے، کیا تقیہ باز ناصبیوں میں اتنی جرات ہے کہ ان دونوں کو جھوٹا کہہ سکیں؟
.
ناسبی مولوی محدث دہلوی کا اعتراف کہ مولا علی ع کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی
حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب ع کی ولادت فی الکعبہ پر صحیح السند روایت
.


حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب ع کی ولادت فی الکعبہ پر صحیح السند روایت (2)
.

ابن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے والی روایات کا جواب دینے سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ
حکیم ابن حزام یہ پورا خاندان دشمن رسول اللّه ص تھا یہاں تک کہ یہ شخص فتح مکہ پر مسلمان ہوا، جنگ بدر پر اسکی والدہ گرفتار ہوئی مگر رہا کر دیا گیا۔
📚 ذهبی سیر: اعلام النبلاء ” ج 3 ص 44 – 45
📚 ابن حجر: الاصابه ” ج 2 ص 98
دوسری طرف حکیم ابن حزم زبیر خاندان کے چچا زاد بھائی ہیں کیونکہ حکیم ابن حزم ابن خویلد بن اسد ابن عبد العزی اور زبیر کا خاندان بھی اسد بن عبد العزی کے پاس جاتا ہے جو کٹر تھے۔ اہل بیت اور بنی ہاشم کے دشمن جیسا کہ ابن سعد الکبریٰ میں لکھتے ہیں:
أخبرنا علي بن عيسى بن عبد الله النوفلي عن أبيه عن عمه إسحاق بن عبد الله عن أبيه عبد الله بن الحارث قال لما كان يوم بدر جمعت قريش بني هاشم وحلفاءهم في قبة وخافوهم فوكلوا بهم من يحفظهم ويشدد عليهم منهم حكيم بن حزام .
📚 الطبقات الكبرى ج 4 ص11
حکیم بن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے والی روایات کی حقیقت
1️⃣ أخبرنا أبو بکر محمد بن أحمد بن بالویه ثنا إبراهیم بن إسحاق الحربی ثنا مصعب بن عبد الله : فذکر نسب حکیم بن حزام و زاد فیه و أمه فاختة بنت زهیر بن أسد بن عبد العزى و کانت ولدت حکیما فی الکعبة و هی حامل فضربها المخاض وهی جوف الکعبة فولدت فیها فحملت فی نطع و غسل ما کان تحتها من الثیاب عند حوض زمرم و لم یولد قبله و لا بعده فی الکعبة أحد ”
2️⃣” سمعت أبا الفضل الحسن بن یعقوب یقول : سمعت أبا أحمد محمد بن عبد الوهاب یقول : سمعت علی بن غنام العامری یقول : ولد حکیم بن حزام فی جوف الکعبة دخلت أمه الکعبة فمخضت فیها فولدت فی البیت ”
📚 مستدرک الصحیحین ج 3 ص 482 و483
3️⃣ حدثنا الزبیر قال، وحدثنی مصعب بن عثمان قال: دخلت أم حکیم ابن حزام الکعبة مع نسوة من قریش، وهی حامل بحکیم بن حزام، فضربها المخاض فی الکعبة، فأتیت بنطح حیث أعجلها الولاد، فولدت حکیم بن حزام فی الکعبة على النطح ”
📚 جمهره نسب قریش و اخبارها ص 77
مستدرک حاکم میں دو روایات جو پائی جاتی ہیں انکے دو راوی مصعب بن عبدالله و علی بن غنام اور زبیر بن بکار سے یہ افسانہ راوی مصعب بن عثمان نے شروع کیا۔
اب پہلے ذرا ان رایوں پر کچھ لکھنے سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ حکیم ابن حزام عام الفیل سے 13 سال پہلے پیدا ہوئے
اب پہلے آتے ہیں زبیر بن بکار کی روایت کی طرف جس میں مصعب بن عثمان ہے
مصعب بن عثمان :
کتب اہل سنت میں یہ راوی مجھول ہے، کتاب التبیین فی انساب القرشیین اسکا نام لکھا ہے۔
مصعب بن عثمان بن عروه بن الزبیر بن العوام ”
📚 التبیین فی انساب القرشیین ص 266
کتب رجالی اهل سنت میں اسکی توثیق یا مدح کچھ بھی ثابت نہیں ، اس مجھول راوی نے عام الفیل سے بھی 13 سال پہلے کا واقعہ نقل کیا ہے جو کہ روایت کو مرسل بنا دیتا ہے۔
.
اسی طرح امام حاکم کی 2 عدد روایات میں موجود راوی جن کے نام مصعب بن عبدالله اور علی بن غنام (بن عثام) ہیں
مصعب بن عبدالله
اسکی وفات کا سال 236 هـ ہے اور لکھا گیا کہ یہ 80 سال عمر میں فوت ہوئے جس کا مطلب یہ 156 هـ میں پیدا ہوئے
📚 تهذیب التهذیب ج 10 ص 147 شماره311
📚 الاصابة ” ج1 ص349
📚 الاستیعاب ” ج1 ص320
اسی طرح
علی بن غنام ( بن عثام ) :
ذھبی انکے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ کوفہ کے رہنے والے تھے اور 228 ہجری میں فوت ہوئے
على بن عثام بن على العامرى الکلابى ، أبو الحسن الکوفى می باشد . وی متوفی سال 228 ه .ق می باشد .
📚 سیر اعلام النبلاء ج 10 ص 571 شماره 198
جب کہ
حکیم بن حزام عام الفیل سے 13 سال پہلے پیدا ہوئے
عام الفیل وہ سال ہے جو کہ رسول اللّه ص کے پیدا ہونے سے پہلے کا ہے یا ہجرت سے 53 سال پہلے کا۔
اور
حکیم ابن حزام کی وفات 54 سے 60 ہجری کے درمیان ہوئی۔
جو کہ واضح ثبوت ہے کہ یہ تمام روایات مرسل ہیں
۔
اور ایک روایت جو زبیر بن بکار نے مجھول راوی سے نقل کی وہ بھی مرسل ہے
حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونا تو یہ ایک جھوٹا افسانہ ہے جو دشمنی علی (ع) کی بناء پر ناصبیوں نے تراشا ہے تاکہ حضرت علی (ع) کی اس فضیلت کو کمزور کیا جا سکے
اور زبیرابن بکار متوفای 256 ھے اس سے پھلےکسی کتاب اھل سنت میں حکیم کی کعبہ میں ولادت کا ذکر نہیں ھے
یہ روایت زبیر بن بکار کی گھڑی ھوئی ھے اور وہ دشمن اھل بیت تھا اور اس روایت کو دشمن اھل بیت ھی استعمال کر رھے ھیں آج تک
اس قصہ کو سب سے پہلے بیان کرنے والا زبیر بن بکار ہے اور زبیر کا خاندان ، اولاد علی کی عداوت میں مشہور تھا اور اس کے علاوہ خود زبیر بن بکار اپنی اھل بیت دشمنی اور بد عقیدتی سے سفاک متوکل عباسی اور اس کی اولاد کو درس دینے پر معین تھا اور اولاد علی (ع) سے دشمنی کی وجہ سے اس کو متوکل نے مکہ کا حاکم مقرر کر دیا تھا
چنانچہ حکیم کا کعبہ میں پیدا ہونا غلط ہے اور من گھڑت قصے سے زیادہ اھمیت نہیں رکھتا،
سبط ابن جوزی جیسے افراد نے اس کا رد کیا ہے جبکہ امام علی (ع) کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا متواتر سے ثابت ہے اور یہ دعویٰٰ امام حاکم ،ذہبی ، ملا علی قاری جیسے لوگوں کا ہے (تفصیل انشاء اللّه آگے آئے گی)
مشہور محدث سبط ابن جوزی نے تذکرۃ الاخواص میں حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونے کو اس طرح رد کیا ہے
حکیم بن حزام کی ماں نے اسے کعبہ میں جنا ، اس بارے میں حافظ ابو نعیم اصبہانی نے ایک طویل روایت میں نقل کی ہے مگر اس کی سند میں روح بن صلاح ہے جس کی حافظ ابن عدی نے تضعیف کی ہے
📚 تذکرۃ الخواص// سبط ابن جوزی// ص 30 // طبع نجف عراق
.
آج ہم حکیم بن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے کے اہل سنت محدثین کے اقوال کی حقیقت دیکھے گئے
ابن حزام کی کعبہ میں ولادت کے متعلق دلائل پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے :
1۔امام مسلم بن حجاج ؒ کی شہادت:۔
امام موصوف اپنی مایہ ناز کتاب “صحیح مسلم” میں فرماتے ہیں۔
وُلِد حكيم في جوف الكعبة ، وعاش مئة وعشرين سنة . (باب ثبوت اخیار المجلس للمتبایعین 176/10)
کہ حکیم بن حزام کی ولادت کعبہ مشرفہ کے اندر ہوئی اور انہوں نے ایک سو بیس سال عمر پائی۔
2۔امام سیوطی کی شہادت مولده : وُلِد حكيم في جوف الكعبة
(تدریب الراوی طبع جدید 358/2)
3۔وُلِد حكيم في جوف الكعبة (ریح النسرین للسیوطی ص49)
کہ حکیم کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔
4۔امام نوویؒ کی شہادت:۔
امام موصوف شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں۔
ومن مناقبه أنه ولد في الكعبة! قال بعض العلماء ولا يعرف أحد شاركه في هذا
کہ حکیم بن حزام کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ “کوئی دوسرا شخص اس خصوصیت میں ان کا شریک نہیں۔”
5۔ ” وُلِد حَكِيم بن حزام رضي الله عنه ولد فِي جَوف الْكَعْبَة ، وَلَا يعرف أحد ولد فِيهَا غَيره ، وَأما مَا رُوِيَ عَن عَلّي رَضي اللهُ عَنهُ أَنه ولد فِيهَا فضعيف
(تہذیب الاسماء اللغات للنووی 166/1)
کہ حکیم کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی کوئی دوسرا شخص اس کے اند مولود نہیں ہوا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو یہ بات بیان کیجاتی ہے۔ تو یہ قول اہل علم کے نزدیک ضعیف ہے۔
یہ ناصبیوں کے اقوال تھے جو اس نے بطور استدلال تحریر کیا ہے۔
ان کا مختصر جواب یہ ہے کہ مسلم سے لیکر سیوطی تک کسی بھی ناصبی نے اپنے موقف کی تائید میں کوئی روایت پیش نہیں کی جس کی سند کسی صحابی یا تابعی تک جاتی ہو بلکہ سب نے مکھی پر مکھی ماری ہے، جب ان کے موقف کے خلاف کوئی بات ہو تو یہ سند کے پجاری سند سند کا رونا شروع کر دیتے ہیں اور بات جب اپنے مزاج کی ہو تو نہ اب سند کی کوئی ضرورت نہ راویوں کی تحقیق کی ضرورت ہے بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ مقام امیرالمومنین علیہ السلام کو کسی طرح گھٹایا جا سکے،
ان خارجیوں کو چیلنج ہے کہ فقط ایک متصل صحیح سند نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا کسی صحابی یا تابعی تک دکھا دیں جس میں ابن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے کا ذکر ہو یہ جماعت جہنم واصل ہو جائے گی مگر ایک صحیح سند حدیث یا صحابی و تابعی کا قول نہیں دکھا سکتی جس سے ان کے موقف کی تائید ہو۔
اور اگر حجت علماء کے اقوال ہیں تو جتنے اقوال ابن حزام کی پیدائش کے متعلق ہیں اس سے کہیں زیادہ تصریحات امیرالمومنین علیہ السلام کے متعلق ہیں
.
*حضرت علی کا کعبہ میں پیدا ہونا امامی مکتب سے*
.
































































































