حدیثِ غدیر اور علماءِ اہلِ سنت

حدیثِ غدیر “من کنتُ مولا” جلیل القدر ائمہِ اہلسنت کے نزدیک انتہائی معتبر و مستند احادیث مین شمار ہوتی ہے, اہلسنت محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس حدیث کی توثیق کی ہے.
امام حافظ ابن کثیر اپنے استاد ابن تیمیہ کا رد کرتے ہوئے حافظ امام ذہبی کا قول نقل کرتے ہین: حدیث من کنتُ مولاہ متواتر ہے مین یقین کرتا ہو کہ یہ بیشک رسول اللہ ص کا ہی ارشاد ہے رہا اللھم وال من والاہ کا جملہ تو احادیث مین یہ جملہ بھی قوی السند ہے. اس کے علاوہ حافظ ابن کثیر نے حدیثِ غدیر کو اپنی کتاب مین کئی جگہ درج کیا اور اسے صحیح و حسن قرار دیا. البدایہ والنہایہ امام ابن کثیر ج٧ ص٤٣٣
امام شمس الدین الذہبی نے بھی حدیثِ غدیر کو اپنی کتب مین نقل کیا اور اسے حسن قرار دیا اپنی کتاب تذکرۃ الحفاظ مین محدث جریر طبری کے حالات بیان کرتے ہوئے امام ذہبی بیان کرتے ہین: مین نے جریر طبری کی ایک کتاب دیکھی جس مین انھون نے حدیثِ غدیر کو مختلف طرق و اسناد سے بیان کیا تھا مین (ذہبی) طرق و اسناد کی کثرت دیکھ کر حیران رہ گیا. تذکرۃ الحفاظ امام ذہبی ج ١ ص٢١١
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی حدیثِ غدیر سے متعلق فرماتے ہین: حدیثِ غدیر کو امام ترمذی اور امام نسائی نے روایت کیا ہے اور اس لی بہت ہی زیادہ سندین ہین, ابن عقدہ نے اس کے تمام طرق و اسناد کو ایک مستقل کتاب مین جمع کیا ہے اور اس کی اکثر سندین صحیح اور حسن ہین. فتح الباری شرح صحیح بخاری ج٧ ص٤٣٨
مولا علی علیہ السلام کے فضائل مین امام نسائی کے جمع کردہ
مجموعہ “خصائصِ امام علی ع” کے شارح امام ابو اسحاق الحوینی شیخِ الوہابیہ کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہین: خبردار حدیثِ غدیر صحیح حدیث ہے اور اس کو جھٹلانے والے کا قول قوائدِ حدیثیہ کے خلاف ہے. کتاب الحلی بتخریج خصائص علی ع ص٩٦.
مزید امام محمد جزری المقری الشافعی حدیثِ غدیر کو مختلف طرق سے بیان کرنے کے بعد فرماتے ہین: ایک جمِ غفیر نے اس حدیث کو دوسرے جمِ غفیر سے نقل کیا ہے لہذا اس شخص کی بات لائقِ توجہ نہین جس نے اس حدیث کو ضعیف قرار دینے مین حیلے بازیان کین جس کو اس علم کی اطلاع ہی نہین اس حدیث کو ایسے حضرات نے بھی نقل کیا جن کی خبر سے قطیعت حاصل ہوتی ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ یہ حدیث بنی ص نے غدیر کے دن اُس خطبے مین ارشاد فرمائی تھی جو آپ ص نے حضرت علی ع کے حق مین ١١ ہجری اٹھارہ ذی الحج کو حجتہ الودع کے موقعے پر واپسی پر ارشاد فرمایا. اسنی المطالب فی مناقبِ علی ابن ابی طالب ع امام محمد بن جزری شافعی ص ٥٩
اہلِ حدیث عالم علامہ نواب صدیق حسن قنوجی نے بھی حدیثِ غدیر پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے فرماتے ہین: اس مین کوئی شک نہین کہ یہ حدیث صحیح ہے اس کو محدثین کی ایک جماعت نے روایت کیا انہین مین امام ترمذی, امام نسائی اور امام احمد ابن حنبل ہین اس حدیث کی بہت اسناد ہین اور یہ سولہ صحابہ سے روایت کی گئی ہے نبی ص کے صحابہ نے اسے آپ ص سے سنا تھا اور جب حضرت علی کے ساتھ خلافت مین اختلاف اور نزاع کھڑا ہوا تو اُنہون نے بطورِ شاہد یہ حدیث بیان کی اس کی اکثر اسناد صحیح ہین اور حسن ہین لہذا جس شخص نے اس کی صحت مین اعتراض کیا اس شخص کی بات پر توجہ نہ دی جائے گی اور اس شخص کی بات بھی رد کی جائے گی جس نے کہا کے اس حدیث مین “اللھم وال مین والاہ” کے الفاظ موضوع ہین اس کے لیے کے یہ الفاظ بھی متعدد اسناد سے مروی ہین انہین امام ذہبی نے صحیح کہا ہے.
الدین الخالص صدیق حسن قنوجی بھوپالی ج٣.ص١٠٦
.
.
حديث غدير امام حنبل کي نگاہ ميں
امام احمد حنبل نے اپني مسند ميں حديث غدير کو سلسلہ روات کے ساتھ يوں بيان کيا ہے:
حدثنا عبد اللہ، حدثني ابي، ثنا عفان، ثنا حماد بن سلمہ، انا علي بن زيد، عن عدي بن ثابت ، عن البراء بن عازب، قال: کنا مع رسول اللہ[ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم] في سفر فنزلنا بغدير خم فنودي فينا: الصلاۃ جامعۃ، و کسح لرسول اللہ[ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم] تحت شجرتين فصلي الظھر و اخذ بيد علي [رضي اللہ عنہ] فقال: الستم تعلمون اني اولي بکل مومن من نفسہ؟ قالوا: بلي ، قال فاخذ بيد علي فقال: من کنت مولاہ فعلي مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ- قال فلقيہ عمر بعد ذلک فقال لہ: ھنيئا يابن ابي طالب اصبحت و امسيت مولي کل مومن و مومنۃ- [امدي، علي‌ بن محمد؛ الاحكام؛ بيروت: موسسه النور، 1387ق.]
براء بن عازب کا کہنا ہے: ايک سفر ميں ہم رسول خدا [ ص] کے ہمراہ تھے غدير خم کے مقام پر پہنچے ايک آواز دي گئي: الصلاۃ جامعۃ، [ نماز جماعت کے ليے تيار ہو جاو] دو درختوں کے نيچے رسول خدا [ص] کے ليے انتظام کيا گيا رسول خدا نماز بجا لائے اور پھر حضرت علي کا ہاتھ پکڑ کر فرمايا کيا ميں سب کي جان و مال کا مالک نہيں ہوں؟ سب نے کہا ہاں آپ ہماري جان و مال کے مالک ہيں- پھر آپ نے فرمايا جس جس کا ميں مولا ہوں اس اس کے يہ علي مولا ہيں خدايا اس کو دوست رکھ جو علي کو دوست رکھےاور اس سےد شمني رکھ جو علي سے دشمني کرے- پھرعمرآپ کے گلے ملے اور کہا مبارک ہو اے ابو طالب کے بيٹے تم نے صبح وشام کي ہے اس حالت ميں کہ تم ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہو-
يہ روايت[مسند احمد ] ميں مختلف مقامات پربہت زيادہ سندوں کے ساتھ نقل ہوئي ہے-[ابن ابي‌ الحديد؛ شرح نهج‌البلاغه؛ بيروت: داراحياء الكتب العربيه،]
حافظ ابن عبداللہ نيشاپوري نے بھي مستدرک ميں مختلف الفاظ ميں مختلف مقامات پر حديث غدير کو نقل کيا ہے-منجملہ:
حدثنا ابوالحسين محمد بن احمد بن تميم الحنظلى ببغداد، ثنا ابوقلابة عبدالملک بن محمد الرقاشى، ثنا يحيى بن حماد، وحدثنى ابوبکر محمد بن احمد بن بالويه وابوبکر احمد بن جعفر البزاز، قالا ثنا عبدالله بن احمد بن حنبل، حدثنى ابى، ثنا يحيى بن حماد و ثنا ابونصر احمد بن سهل الفقيه ببخارى، ثنا صالح بن محمد الحافظ البغدادى، ثنا خلف بن سالم المخرمى، ثنا يحيى بن حماد، ثنا ابوعوانة، عن سليمان الاعمش، قال ثنا حبيب بن ابى ثابت عن ابى الطفيل، عن زيد بن ارقم ـ رضى اللّه عنه ـ قال: لمّا رجع رسول اللّه ـ صلى اللّه عليه وآله وسلم ـ من حجة الوداع ونزل غديرخم امر بدوحات فقممن فقال: کانّى قد دعيت فاجبت. انى قد ترکت فيکم الثقلين احدهما اکبر من الآخر: کتاب اللّه تعالى وعترتى فانظروا کيف تخلفونى فيهما فانّهما لن يفترقا حتى يردا علىّ الحوض. ثم قال: ان اللّه ـ عزّ وجلّ ـ مولاى وانا مولى کل مومن. ثم اخذ بيد علي ـ رضى اللّه عنه ـ فقال: من کنت مولاه فهذا وليّه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه. و ذکر الحديث بطوله. هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه بطوله.[ابن ابي‌ شيبه كوفي؛ لامصنف؛ بيروت: دارالفكر]
اسي کتاب ميں اس حديث کے نقل کرنے کے بعد دوسري سندوں کے ساتھ اسي روايت کو تکرار کيا ہے دونوں ميں صرف اتنا فرق ہے کہ جملہ” من کنت مولاہ ” سے پہلے کہتے ہيں:
ثم قال: أن تعلمون انى اولى بالمومنين من انفسهم ثلاث مرات قالوا: نعم فقال: رسول اللّه ـ صلى اللّه عليه وآله ـ من کنت مولاه فعلى مولاه.[ابن‌ اثير، علي؛ اسدالغابه؛ تهران: اسماعيليان]
حديث غدير سنن ابن ماجہ اور ترمذي ميں
ابن ماجہ لکھتے ہيں:
حدثنا على بن محمد، ثنا ابوالحسين، اخبرنى حماد بن سلمه، عن على ابن زيد بن جدعان، عن عدىّ بن ثابت، عن البراء بن عازب، قال: اقبلنا مع رسول اللّه ـ صلى اللّه عليه وآله ـ فى حجّته التى حجّ فنزل فى بعض الطريق فامر الصلاة جامعة فأخذ بيد علي فقال: ألست اولى بالمومنين من انفسهم؟ قالوا: بلى قال: الست اولى بکل مومن من نفسه؟ قالوا: بلى. قال: فهذا ولىّ من أنا مولاه، اللهم وال من والاه اللهم عاد من عاداه-[ابن‌ الجارود نيشابوري؛ المنتقي؛ بيروت: موسسه الكتب الثقافيه، ]
ترمذي بھي ” سنن” ميں اسي مضمون کے ساتھ اس حديث کو نقل کرتے ہيں-[ابن الدمياطي، المستفاد؛ بيروت: دارالكتب العلميه]
.
.