انصار کی ایک جماعت و حضرتِ ایوب انصاریؓ مولا علیؑ کو سردار مانتی ہے ۔
اور دلیل اسی حدیثِ غدیر سے لیتی ہے
حوالہ




علی ( علیہ السلام) : میں تمھارا مولا کیسے تم تو قومِ عرب ہو؟
اس لئے کہ ہم نے غدیر خم پر رسول اللہ کو کہتے سنا تھا :
جس کا میں مولی ہوں اس کے یہ مولا ہیں ۔
اسنادہ صحیح
سوال: اگر مولی کے معانی دوست کے تھے تو حضرت علی کیا انصار صحابہ کہ جن میں ابو ایوب انصاری تھے علی کے دوست نہیں تھے ؟
اور پھر امام علی سے استفسار کا کیا مطلب ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ وہ امام علی کو سردار کے معانی میں مولی کہہ رہے تھے
یہی وجہ ہے کہ امام علی نے پوچھا تم عرب قوم کا میں کیسے مولا ہوں ؟
یہ ایک کھلی دلیل ہے کہ غدیر خم کی حدیث کی دلالت پر اور بلا شبہ صحابہ میں بھی روافض تھے جو امام علی کو رسول اللہ ل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرح مولا مانتے تھے۔
.
.
.
«احادیث رسول (ص) میں حضرت علی (ع) کے لئے لفظ “مولا” کے حوالے سے غیر شیعوں کی جانب سے اردو ترجمہ کرتے ہوئے دہرے معیار و علمی خیانت کی ایک مثال»
اہل سنت کی معتبر، مقبول و معروف کتاب “فضائل صحابہ” [امام احمد بن حنبل// المتوفی:241 ہجری] کی ایک صحیح سند کی روایت (نمبر 967) یوں ہے:
عَنْ رِيَاحٍ الْحَارِثِ قَالَ: جَاءَ رَهْطٌ إِلَى عَلِيٍّ بِالرَّحَبَةِ فَقَالُوا: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلَانَا، فَقَالَ: كَيْفَ أَكُونُ مَوْلَاكُمْ وَأَنْتُمْ قَوْمٌ عُرْبٌ؟ قَالُوا: سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ» . قَالَ رِيَاحٌ: فَلَمَّا مَضَوَا اتَّبَعْتُهُمْ فَسَأَلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالُوا: نَفَرٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ.
ترجمہ:
ریاح بن حارث سے روایت ہے کہ رحبہ کے مقام پر حضرت علی (ع) کے پاس لوگوں کی ایک جماعت آئی، انہوں (اس جماعت) نے کہا: اے ہمارے مولا (سردار)! السلام علیک۔ آپ (ع) نے فرمایا: میں تمہارا مولا (سردار) کیسے ہوا، تم تو عرب قوم ہو؟ انہوں (اس جماعت) نے کہا: ہم نے غدیرِ خم کے روز رسول الله (ص) کو فرماتے سنا: «جس جس کا میں مولا (سردار) ہوں، اس اس کے یہ [علی ع] مولا (سردار) ہیں»۔ ریاح کہتے ہیں کہ جب وہ لوگ چلے گئے تو میں ان کے پیچھے گیا اور پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ انصار کی جماعت ہے اور ان میں حضرت ابو ایوب انصاری (رض) بھی تھے۔
اہل سنت کی اس صحیح سند کی روایت میں، جو کہ ظاہر ہے اہل تشیع پر حجت نہیں، دو باتیں اہم ہیں: لوگوں کا حضرت علی (ع) کو “اے ہمارے مولا” کہہ کر مخاطب کر کے سلام کرنا (السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلَانَا) اور حضرت علی (ع) کا ان لوگوں سے کہنا کہ “تم تو عرب قوم ہو، میں تمہارا مولا کیسے ہوا؟” (كَيْفَ أَكُونُ مَوْلَاكُمْ وَأَنْتُمْ قَوْمٌ عُرْبٌ؟)… اب اگر یہاں، اس روایت میں مولا سے مراد “سردار” لیں تو ہی ان لوگوں کے اس عمل [طرزِ تخاطب] اور مولا علی (ع) کا اس پر ردعمل [اس طرزِ تخاطب پر سوال کرنا] معقول و معنی خیز ہوگا… مدعے کو مزید آسان کرنے کے لیے ہم لفظ “مولا” کے مشہور و معروف معنی لے لیتے ہیں اور ان کو اس روایت میں مطابقت و موزونیت کے لحاظ سے دیکھتے ہیں:
مولا = بغیر کسی لفظی مطلب کے
انہوں نے کہا: اے ہمارے مولا! السلام علیک۔ آپ (ع) نے فرمایا: میں تمہارا مولا کیسے ہوا، تم تو عرب قوم ہو؟ انہوں (اس جماعت) نے کہا: ہم نے غدیرِ خم کے روز رسول الله (ص) کو فرماتے سنا: «جس جس کا میں مولا ہوں، اس اس کے یہ [علی ع] مولا ہیں»۔
[1] مولا = سردار (آقا/حاکم)
انہوں نے کہا: اے ہمارے سردار! السلام علیک۔ آپ (ع) نے فرمایا: میں تمہارا سردار کیسے ہوا، تم تو عرب قوم ہو؟ انہوں (اس جماعت) نے کہا: ہم نے غدیرِ خم کے روز رسول الله (ص) کو فرماتے سنا: «جس جس کا میں سردار ہوں، اس اس کے یہ [علی ع] سردار ہیں»۔
[2] مولا = دوست
انہوں نے کہا: اے ہمارے دوست! السلام علیک۔ آپ (ع) نے فرمایا: میں تمہارا دوست کیسے ہوا، تم تو عرب قوم ہو؟ انہوں (اس جماعت) نے کہا: ہم نے غدیرِ خم کے روز رسول الله (ص) کو فرماتے سنا: «جس جس کا میں دوست ہوں، اس اس کے یہ [علی ع] دوست ہیں»۔
[3] مولا = محبوب
انہوں نے کہا: اے ہمارے محبوب! السلام علیک۔ آپ (ع) نے فرمایا: میں تمہارا محبوب کیسے ہوا، تم تو عرب قوم ہو؟ انہوں (اس جماعت) نے کہا: ہم نے غدیرِ خم کے روز رسول الله (ص) کو فرماتے سنا: «جس جس کا میں محبوب ہوں، اس اس کے یہ [علی ع] محبوب ہیں»۔
[4] مولا = مددگار
انہوں نے کہا: اے ہمارے مددگار! السلام علیک۔ آپ (ع) نے فرمایا: میں تمہارا مددگار کیسے ہوا، تم تو عرب قوم ہو؟ انہوں (اس جماعت) نے کہا: ہم نے غدیرِ خم کے روز رسول الله (ص) کو فرماتے سنا: «جس جس کا میں مددگار ہوں، اس اس کے یہ [علی ع] مددگار ہیں»۔
اہل سنت کی اس صحیح سند کی روایت میں لفظ “مولا” کے ان چاروں معنوں میں سے وہی معنی صحیح و درست ہوسکتے ہیں جو لوگوں کی جانب سے عمل [طرزِ تخاطب] پر مولا علی (ع) کے اس پر ردعمل [اس طرزِ تخاطب پر سوال کرنا] کو علمی و عقلی طور پر جسٹیفائی کرے!
اہل سنت کی اس صحیح روایت میں لفظ “مولا” کے غلط و نادرست معنوں کی بحث کی بجائے ہم سیدھا صحیح و درست معنی کی طرف آتے ہیں جو کہ “سردار” (آقا و حاکم) کے ہیں۔ اس (مولا = سردار) کی علمی طور پر جسٹیفیکیشن کے سلسلے میں خود اہل سنت ہی کی معروف و مقبول کتابیں شاہد ہیں جو کہ بتاتی ہیں کہ عرب قوم بالخصوص قریش اس بات کو قبول نہیں کرنا چاہتے تھے کہ قریش قبیلہ میں سے بنو ہاشم خاندان سے رسول الله (ص) کے سردار رہنے کے بعد بھی کوئی [حضرت علی ع] بنو ہاشم خاندان ہی سے تمام قوم عرب/قریش پر سردار ہوجائے… یعنی قوم عرب/قریش یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ نبوت و خلافت [حکومت بعد رسول الله ص] ایک ہی خاندان [بنو ہاشم] میں آ جائیں… اس سلسلے میں آپ اہل سنت کی کتاب “الفاروق” [شبلی نعمانی] میں حضرت عمر اور ابن عباس کا مکالمہ ملاحظہ فرمائیں کہ جس میں حضرت عمر ابن عباس پر واضح کرتے ہیں کہ کیوں مولا علی (ع) و خاندان بنو ہاشم کو ان کی قوم “سردار” ماننا گوارا نہیں کرتی تھی [صفحہ نمبر 172، مکتبہ رحمانیہ، لاہور اور اس کے علاؤہ ان کتب میں بھی یہ روایت موجود ہے؛ تاریخ طبری، کامل فی التاریخ و تاریخ ابن خلدون]… یہ اور بات ہے کہ مولا علی (ع) کو جب رسول الله (ص) نے الله تعالیٰ کے حکم سے غدیر خم میں “سردار/مولا” متعین فرما دیا تو بعد میں قوم عرب/قریش نے اس امر کو تسلیم نہیں کیا کہ نبوت کے بعد سرداری (خلافت) بھی خاندان بنو ہاشم میں رہے اور یہی وجہ ہے کہ رسول الله (ص) نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میرے بعد امت حضرت علی (ع) سے غداری کرے گی… یہ حدیث اہل سنت کی کتاب “مستدرک علی صحیحین” [حاکم نیشاپوری] میں صحیح سند سے یوں نقل ہوئی ہے:
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:
« إِنَّ مِمَّا عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ الْأُمَّةَ سَتَغْدِرُ بِي بَعْدَهُ »
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ
حضرت علی (ع) نے فرمایا:
بے شک یہ نبی امی (ص) کے مجھ سے لئے جملہ عہد میں سے ہے «یہ امت میرے بعد آپ سے غداری کرے گی»
[یہ حدیث حاکم نیشاپوری کے نزدیک صحیح السند ہے اور ذھبی نے بھی اپنی تلخیص میں اسکو صحیح کہا ہے]
حوالہ: مستدرک علی الصحیحین (حاکم نیشاپوری)// حدیث نمبر 4676
پس عقلی و منطقی طور پر یہی وجہ صحیح و درست معلوم ہوتی ہے کہ جب مولا علی (ع) جانتے تھے کہ رسول الله (ص) نے انہیں غدیر خم میں تمام قوم عرب/قریش پر “سردار/مولا” مقرر فرما دیا تھا مگر چونکہ یہ قوم (عرب/قریش) بطور اکثریتِ امت، مولا علی (ع) کا سردار ہونا گوارا نہیں کرتی تھی سو انہوں نے بعد رسول الله (ص) مولا علی (ع) سے غداری کی اور اعلان غدیر خم کو فراموش کر دیا کہ “جس جس کا میں سردار، اس اس کا یہ (علی ع) سردار”… سو مولا علی (ع) قوم عرب/امت کی اکثریت/قریش کی روش کو جانتے تھے کہ یہ لوگ مجھے منصوص، احق و حقدار ہونے کے باوجود سردار نہیں مانتے اور کیوں نہیں مانتے… پس اسی سبب جب لوگوں کی اس جماعت نے جو کہ قوم عرب سے تھی، حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کو ہمارے “مولا/سردار” کہہ کر سلام کیا (عمل) تو اس پر مولا علی (ع) نے مصلحتاً یہ رد عمل دیا کہ «تم تو قوم عرب ہو [جنہوں نے میری سرداری کو قبول نہیں کیا] تو میں تمہارا “مولا/سردار” کیسے ہوا» تاکہ وہ لوگ جواباً سب کے سامنے یوم غدیر خم کے اس اعلان کی گواہی دیں جو بحکم الٰہی، رسول الله (ص) نے فرمایا کہ “جس جس کا میں سردار/مولا، اس اس کے یہ (علی ع) سردار/مولا “…
دوسری جانب ہمیں غیر شیعہ اردو مترجمین کا اضطراب نظر آتا ہے کہ جن کا علم و عقل ان کو اسی امر پر جھکاتا ہے کہ وہ اپنی کتاب سے اپنی اس صحیح روایت میں لوگوں کی جانب سے مولا علی (ع) کو “مولانا” کہہ کر سلام کرنے کا ترجمہ کرنے کے لئے اس روایت میں لفظ “مولا” کے تناظر کے مطابق صحیح و درست ترجمہ یعنی “مولا = سردار” ہی کریں یا پھر اس لفظ “مولا” کا ترجمہ ہی نہ کریں اور اس کو یوں ہی ترجمے میں “مولا” لکھ دیں … مگر ان غیر شیعہ مترجمین کی مکتب پرستی و مسلکی تعصب ان کو مجبور کرتے ہیں کہ اس روایت میں لوگوں کی جانب سے مولا علی (ع) کے لئے اس طرز تخاطب (مولانا = ہمارے سردار) کی جسٹیفیکیشن میں سنائی گئی غدیر خم کی حدیثِ رسول (ص) میں لفظ “مولا” کا بے ربط، غیر منطقی و غیر معقول ترجمہ یعنی “مولا = دوست” کریں اور یوں ایک ہی روایت میں 2 مواقع پر کہے جانے والے ایک ہی معنوں والے لفظ “مولا” کے دو الگ الگ ترجمے (سردار اور دوست) کر ڈالیں…! لا حول ولا قوۃ الا بالله العلی العظیم … اب ہم ان غیر شیعہ مترجمین کی اس روایت کے ترجمے کے لحاظ سے علمی ڈنڈیوں (خیانتوں) کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں؛
{{ یاد رہے کہ اہل سنت کی اس صحیح سند کی روایت میں لوگوں کی جماعت نے حضرت علی (ع) کو ہمارے مولا/سردار اس لئے کہا تھا کہ انہوں نے رسول الله (ص) کی غدیر خم پر حدیث سن رکھی تھی کہ «جس جس کا میں سردار/مولا، اس اس کے یہ (علی ع) سردار/مولا»… یعنی علمی و عقلی طور پر اس روایت میں لفظ “مولا” کا 1 ہی معنی ہوسکتا ہے}}
اہل سنت کی کتاب “فضائل صحابہ” کے اردو مترجم، نوید احمد بشار [بک کارنر، جہلم پاکستان] نے اس صحیح سند کی روایت میں لوگوں کی جماعت کی جانب سے مولا علی (ع) کو مخاطب کرنے و سلام کرنے «السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلَانَا» کا ترجمہ “اے ہمارے سردار السلام علیکم!” کیا ہے اور مولا علی (ع) کے ان لوگوں سے سوال «كَيْفَ أَكُونُ مَوْلَاكُمْ» کا ترجمہ “میں تمہارا سردار کیسے ہوا؟” کیا ہے جو کہ علمی و عقلی طور پر بالکل صحیح و درست ہے جیسا کہ ہم اوپر دیکھ آئے ہیں [مکالمہ مابین حضرت عمر و ابن عباس]۔ جبکہ پھر اسی مترجم نے اپنے مسلکی تعصب و مکتب پرستی کے سبب بالکل غیر منطقی انداز میں اور علمی خیانت کا سہارا لیتے ہوئے دہرا معیار اختیار کیا اور اسی روایت کے دوسرے حصے میں حدیث غدیر خم میں لفظ “مولا” کا ترجمہ “دوست” کردیا ہے…؟؟؟ عجیب!!!
اسی طرح اسی کتاب “فضائل صحابہ” کے ایک اور اردو مترجم “حافظ فیض الله ناصر” [ادارہ اسلامیات، پاکستان] نے مناسب سمجھا کہ لوگوں کی جماعت کی جانب سے مولا علی (ع) کو مخاطب کرنے و سلام کرنے «السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلَانَا» کا ترجمہ “اے ہمارے مولا! السلام علیک” کر دیا جائے اور مولا علی (ع) کے ان لوگوں سے سوال «كَيْفَ أَكُونُ مَوْلَاكُمْ» کا ترجمہ “میں تمہارا مولا کیسے ہوسکتا ہوں؟” کر دیا جائے اور یوں لفظ “مولا” کو بلا ترجمہ ہی رہنے دیا جائے… جبکہ پھر روایت کے اگلے ہی حصے میں ان صاحب نے اپنے معیار میں دہرا پن اختیار کیا اور اس روایت میں موجود حدیث رسول (ص) میں لفظ “مولا” کا ترجمہ کرنا بلکہ ترجمہ “مولا = دوست” کرنا ضروری سمجھا اور مکتب پرستی و مسلکی تعصب کے سبب علمی خیانت کا سہارا لیا…
اب کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ دونوں اردو مترجمین [نوید احمد بشار اور حافظ فیض الله ناصر] یہ نہیں جانتے ہونگے کہ اس روایت میں لوگوں نے مولا علی (ع) کو “ہمارے مولا” کہنے کا سبب حدیث رسول (ص) “من کنت مولاہ فھذا مولاہ” بتایا ہے؟ کیا یہ دونوں مترجمین یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ مَوْلَانَا/مَوْلَاكُمْ اور «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ» میں ایک لفظ “مولا” ایک ہی معنوں میں وارد ہوا ہے؟ کیا یہ دونوں مترجمین یہ نہیں جانتے ہونگے کہ مَوْلَانَا/مَوْلَاكُمْ میں لفظ “مولا” کا ترجمہ “دوست” نہیں کیا جاسکتا؟ کیا یہ دونوں مترجمین یہ نہیں جانتے ہونگے کہ ہم “غیر شیعہ” اس روایت کے دوسرے حصے میں موجود حدیث غدیر خم میں لفظ “مولا” کا ترجمہ “سردار” نہیں کرسکتے؟ [کہ اگر ایسا کریں «مولا = سردار» تو منصوص خلافت رسول ص ثابت ہوجاتی ہے اور مولا علی ع خلیفة الرسول بلا فصل ثابت ہوجاتے ہیں اور اہل تشیع کا عقیدہ صحیح ثابت ہوجاتا ہے)… ؟؟؟ کیا لفظ “مولا” کے اس روایت میں یہ دو الگ الگ انداز سے ترجمے کئے جانا محض ایک اتفاقی و حادثاتی غلطی ہے یا پھر سوچا سمجھا، دانستہ و شعوری دہرا معیار و علمی خیانت ہے کہ جس کہ پس منظر میں مکتب پرستی و مسلکی تعصب کار فرماں ہے؟؟؟
خیر… الله تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے اتنا کم ہے کہ ہم اہل تشیع نے مولا علی (ع) کو انہی “معنوں” میں “مولا” مانا جن معنوں میں ہم نے رسول الله (ص) کو مولا مانا یعنی “مولا = سردار/حاکم و آقا” کے اور اس رحمن و رحیم نے ہمیں ان لوگوں میں سے قرار نہیں دیا جو یہ گوارا نہ کرسکتے ہوں کہ نبوت و سرداری بعد از نبوت ایک ہی خاندان بنو ہاشم میں اکٹھے ہو جائیں اور مولا علی (ع) کو سردار ماننا پڑے… الله تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس امت میں قرار نہیں دیا جس کے بارے مولا علی (ع) سے رسول الله (ص) نے فرمایا « أَنَّ الْأُمَّةَ سَتَغْدِرُ بِي بَعْدَهُ » …
الحمدلله الذي جعلنا من المتمسكين بولاية أميرالمؤمنين (ع)







علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ
امام نفطویہ نے فرمایا کہ امام اسماعیل القاضی ، محمد بن عبداللہ بن طاھر کے کاتب تھے ، انہوں نے کہ مجھ سے محمد نے حدیث شریف : انت مني بمنزلة هارون من موسي اور حدیث : من كنت مولاه کے متعلق دریافت کیا تو میں نے کہا : پہلی حدیث زیادہ صحیح ہے اور دوسری اس سے کچھ کم درجہ کی ہے ۔ پھر میں نے امام اسماعیل سے عرض کیا : کیا اس حدیث کی بھی سندیں ہیں ، اور کیا اس کو بصریوں اور کوفیوں نے روایت کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، پھر فرمایا :
⚘وقد خاب وخسر من لم يكن علي مولاه . ⚘
” اور یقیناً وہ شخص خائب و خاسر ( نامراد و ناکام) ہے جس کے حضرت علی ع مولا نہیں ” ۔
