طبرانی نے با سند صحیح عاصم لیثی سے روایت کی ہے
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﺍﻟﻔﻀﻞ ﺍﻷﺳﻔﺎﻃﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ . ﺡ ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ﺍﻟﻌﺎﺑﻮﺭﻱ ﺍﻟﺘﺴﺘﺮﻱ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻘﺒﺔ ﺑﻦ ﺳﻨﺎﻥ ﺍﻟﺪﺍﺭﻉ، ﻗﺎﻻ : ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻀﺮ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺃﺑﻲ ﻣﺴﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺍﻟﻠﻴﺜﻲ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻗﺎﻝ : ﺩﺧﻠﺖ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻟﻤﺪﻳﻨﺔ، ﻓﺈﺫﺍ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻳﻘﻮﻟﻮﻥ ﻧﻌﻮﺫ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﻏﻀﺐ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﻏﻀﺐ ﺭﺳﻮﻟﻪ، ﻗﺎﻝ : ﻗﻠﺖ : ﻣﺎﺫﺍ ﻗﺎﻟﻮﺍ ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺨﻄﺐ ﻋﻠﻰ ﻣﻨﺒﺮﻩ ﻓﻘﺎﻡ ﺭﺟﻞ ﻓﺄﺧﺬ ﺑﻴﺪ ﺍﺑﻨﻪ ﻓﺄﺧﺮﺟﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﻓﻘﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ “: ﻟﻌﻦ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﻘﺎﺋﺪ ﻭﺍﻟﻤﻘﻮﺩ , ﻭﻳﻞ ﻟﻬﺬﻩ ﻳﻮﻣﺎ ﻟﻬﺬﻩ ﺍﻷﻣﺔ ﻣﻦ ﻓﻼﻥ ﺫﻱ ﺍﻻﺳﺘﺎﻩ .
ﺍﻟﻤﻌﺠﻢ ﺍﻟﻜﺒﻴﺮ ﺝ 17 ﺹ 176
عاصم لیثی کا بیان ہے کہ میں وارد مسجد نبوی ہوا تو لوگ (صحابہ )کہہ رہے تھے کہ ہم اللہ کے غضب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غضب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں میں نے پوچھا آخر کیا ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر مسجد سے چلا گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی لعنت ہو آگے چلنے والے اور اس کے پیچھے چلنے والے پر، وایے ہے اس امت پر فلاں موٹے چوتڑ والے سے۔
ائمہ اہل سنت نے روایت کو صحیح تسلیم کیا ہے چنانچہ ہیثمی نے روایت کو نقل کر کے کہا
ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﻄﺒﺮﺍﻧﻲ ﻭﺭﺟﺎﻟﻪ ﺛﻘﺎﺕ
ﻣﺠﻤﻊ ﺍﻟﺰﻭﺍﺋﺪ ﻭﻣﻨﺒﻊ ﺍﻟﻔﻮﺍﺋﺪ ج 2 ص 378
اس کو طبرانی نے روایت کیا اور اس (سند )کے راوی ثقات ہیں
ضیاء مقدسی نے الأحاديث المختارة أو المستخرج من الأحاديث المختارة مما لا يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما میں نقل کیا جو اس کے نزدیک روایت کے صحیح ہونے کا ثبوت ہے،
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺃﻥ ﻓﺎﻃﻤﺔ ﺑﻨﺖ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺃﺧﺒﺮﺗﻬﻢ ﺃﺑﻨﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺍﻟﻄﺒﺮﺍﻧﻲ ﺛﻨﺎ ﺍﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﺍﻟﻔﻀﻞ ﺍﻷﺳﻔﺎﻃﻲ ﺛﻨﺎ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ( ﺡ ) ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻄﺒﺮﺍﻧﻲ ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ﺍﻟﺼﺎﺑﻮﻧﻲ ﺛﻨﺎ ﻋﻘﺒﺔ ﺑﻦ ﺳﻨﺎﻥ ﺍﻟﺬﺍﺭﻉ ﻗﺎﻻ ﺛﻨﺎ ﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻀﺮ ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺃﺑﻲ ﻣﺴﻠﻤﺔ ﻋﻦ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺍﻟﻠﻴﺜﻲ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻗﺎﻝ ﺩﺧﻠﺖ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﻓﺈﺫﺍ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻳﻘﻮﻟﻮﻥ ﻧﻌﻮﺫ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﻏﻀﺐ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﻏﻀﺐ ﺭﺳﻮﻟﻪ ﻗﺎﻝ ﻗﻠﺖ ﻣﺎﺫﺍ ﻗﺎﻟﻮﺍ ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺨﻄﺐ ﻋﻠﻰ
ﻣﻨﺒﺮﻩ ﻓﻘﺎﻡ ﺭﺟﻞ ﻓﺄﺧﺬ ﺑﻴﺪ ﺃﺑﻴﻪ ﻓﺄﺧﺮﺟﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﻓﻘﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻌﻦ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﻘﺎﻳﺪ ﻭﺍﻟﻤﻘﻮﺩ ﻭﻳﻞ ﻟﻬﺬﻩ ﺍﻷﻣﺔ ﻣﻦ ﻓﻼﻥ ﺫﻱ ﺍﻷﺳﺘﺎﻩ
الأحاديث المختارة أو المستخرج من الأحاديث المختارة مما لا يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما, ج 8 ص 179/180
ان ائمہ اہل سنت کی تصریحات کے بعد سند کی تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں تھی مگر پھر بھی تمام راویوں کی مختصر توثیق ائمہ اہل سنت کی زبانی نقل کئے دیتے ہیں تاکہ نواصب کو فرار کا موقع نہ ملے ۔
1 عباس بن الفضل الاسفاطی
حاکم نے دارقطنی سے اس کی توثیق نقل کی ہے دارقطنی نے صدوق کہا
قال الدارقطنی عباس بن الفضل الاسفاطی صدوق
ﺳﺆﺍﻻﺕ ﺍﻟﺤﺎﻛﻢ ﺍﻟﻨﻴﺴﺎﺑﻮﺭﻱ ﻟﻠﺪﺍﺭﻗﻄﻨﻲ ﻓﻲ ﺍﻟﺠﺮﺡ ﻭ ﺍﻟﺘﻌﺪﻳﻞ ص 143
اسی طرح صفدی نے صدوق حسن الحدیث کہا
ﺍﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﺍﻟﻔﻀﻞ ﺍﻷﺳﻔﺎﻃﻲ ﺍﻟﺒﺼﺮﻱ؛ ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ ﺩﻋﻠﺞ ﻭﻓﺎﺭﻭﻕ ﺍﻟﺨﻄﺎﺑﻲ ﻭﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺍﻟﻄﺒﺮﺍﻧﻲ، ﻭﻛﺎﻥ ﺻﺪﻭﻗﺎً ﺣﺴﻦ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﺟﺎﻭﺭ ﺑﻤﻜﺔ، ﻭﺗﻮﻓﻲ ﺳﻨﺔ ﺛﻼﺙ ﻭﺛﻤﺎﻧﻴﻦ ﻭﻣﺎﺋﺘﻴﻦ
ﺍﻟﻮﺍﻓﻲ ﺑﺎﻟﻮﻓﻴﺎﺕ ﺝ 16 ص 376۔
2 موسی بن اسماعیل
ذہبی نے اس کی توثیق کی ہے کہتا ہے امام، حافظ ،شیخ، صدوق تھا
ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ
ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺍﻟﺤﺎﻓﻆ ﺍﻟﺒﺠﻠﻲ ﺍﻟﺠﺒﻠﻲ ، ﻓﺸﻴﺦ ﺻﺎﺩﻕ
ﺳﻴﺮ ﺃﻋﻼﻡ ﺍﻟﻨﺒﻼﺀ ج10 ص 365۔
3 عقبة بن سنان الدراع
اس کی توثیق ابو حاتم رازی نے کی ہے اس کو صدوق کہا ہے
ﻋﻘﺒﺔ ﺑﻦ ﺳﻨﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻘﺒﺔ ﺑﻦ ﺳﻨﺎﻥ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺟﺎﺑﺮ ( ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ – ) ﺑﻦ ﻣﺤﺼﻦ ( ﺍﻟﻬﺪﺍﺩﻯ – ) ﺑﺼﺮﻯ ﺭﻭﻯ ﻋﻦ ﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻀﺮ ﻭﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺍﻟﻐﻄﻔﺎﻧﻰ ﺳﻤﻊ ﻣﻨﻪ ﺃﺑﻲ ﻓﻲ ﺍﻟﺮﺣﻠﺔ ﺍﻟﺜﺎﻟﺜﺔ، ﻧﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﻗﺎﻝ ﺳﺌﻞ ﺃﺑﻲ ﻋﻨﻪ ﻓﻘﺎﻝ ﺻﺪﻭﻕ
الجرح والتعديل ج 6 ص 246۔
4 غسان بن مضر
یہ اہل سنت کے یہاں جلیل القدر راوی ہے ابن ابی حاتم رازی نے احمد بن حنبل نے اسے ثقہ ثقہ کہا، یحیی بن معین نے ثقہ کہا ابو حاتم نے لا بأس بہ صالح الحديث کہا ابو زرعہ رازی نے صدوق کہا
ﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻀﺮ ﺃﺑﻮ ﻣﻀﺮ ﺍﻻﺯﺩﻱ ﺍﻟﻨﻤﺮﻱ ﺍﻟﺒﺼﺮﻱ ﺭﻭﻯ ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺍﺑﻰ ﻣﺴﻠﻤﺔ ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ ﻣﺴﻠﻢ ﺑﻦ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ ﻭﺍﺑﻨﻪ ﻣﻀﺮ ﻭﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﻭﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ ﻭﻋﻮﻥ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﻜﻢ ﺑﻦ ﺳﻨﺎﻥ ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻬﺮﺍﻥ ﺍﻟﺠﻤﺎﻝ ﻭﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺷﻴﺒﺔ ﻭﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻐﻴﺮﺓ ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻲ ﻳﻘﻮﻝ ﺫﻟﻚ، ﻧﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺃﻧﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻓﻴﻤﺎ ﻛﺘﺐ ﺇﻟﻲ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻲ ﻳﻘﻮﻝ ﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻀﺮ ﺷﻴﺦ ﺛﻘﺔ ﺛﻘﺔ .
ﻧﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﻗﺎﻝ ﺫﻛﺮﻩ ﺃﺑﻲ ﻋﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ ﺍﻧﻪ ﻗﺎﻝ ﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻀﺮ ﺛﻘﺔ، ﻧﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﻗﺎﻝ ﺳﺄﻟﺖ ﺍﺑﻰ ﻋﻦ ﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻀﺮ ﻗﺎﻝ ﻻ ﺑﺄﺱ ﺑﻪ ﺻﺎﻟﺢ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ، ﻧﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﻗﺎﻝ ﺳﺌﻞ ﺃﺑﻮ ﺯﺭﻋﺔ ﻋﻦ ﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻀﺮ ﻓﻘﺎﻝ ﺻﺪﻭﻕ
الجرح والتعديل ج 7 ص 41/42۔
5 سعید بن یزید ابو سلمة
ابن ابی حاتم نے اس کی توثیق یحیی بن معین و ابو حاتم رازی سے نقل کی ہے، ابن معین نے ثقہ اور ابو حاتم نے صالح کہا
ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺃﺑﻮ ﻣﺴﻠﻤﺔ ﻭﻫﻮ ﺍﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻤﺔ ﺍﻷﺯﺩﻱ ﺍﻟﺒﺼﺮﻱ ﺭﻭﻯ ﻋﻦ ﺍﻧﺲ ﻭﺃﺑﻰ ﻧﻀﺮﺓ ﻭﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻏﺎﻟﺐ ﺍﻟﺤﺪﺍﻧﻲ ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ ﺷﻌﺒﺔ ﻭﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﻭﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻀﺮ ﻭﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﺯﺭﻳﻊ ﻭﺑﺸﺮ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻤﻔﻀﻞ ﻭﺍﺑﻦ ﻋﻠﻴﺔ ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻲ ﻳﻘﻮﻝ ﺫﻟﻚ . ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻧﺎ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺧﻴﺜﻤﺔ ﻓﻴﻤﺎ ﻛﺘﺐ ﺇﻟﻰ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ ﻳﻘﻮﻝ : ﺳﻌﻴﺪ ﺍﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺃﺑﻮ ﻣﺴﻠﻤﺔ ﺛﻘﺔ . ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻲ ﻳﻘﻮﻝ : ﺃﺑﻮ ﻣﺴﻠﻤﺔ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺻﺎﻟﺢ
ﺍﻟﺠﺮﺡ ﻭﺍﻟﺘﻌﺪﻳﻞ ﺝ 4 ص 73۔
6 نصر بن عاصم اليثي
اہل سنت کے یہاں جلیل القدر تابعی ہے ابن حجر نے نسائ و ابن حبان سے توثیق نقل کی ہے نسائ نے ثقہ جبکہ ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے ابتدا میں خارجی تھا مگر بعد میں رجوع کر لیا جیسا کہ ابن حجر نے مرزبانی سے نقل کیا ہے
ﻱ ﻡ ﺩ ﺱ ﻕ ( ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻓﻲ ﺟﺰﺀ ﺭﻓﻊ ﺍﻟﻴﺪﻳﻦ ﻭﻣﺴﻠﻢ ﻭﺃﺑﻲ ﺩﺍﻭﺩ ﻭﺍﻟﻨﺴﺎﺋﻲ ﻭﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﺔ ) ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺍﻟﻠﻴﺜﻲ ﺍﻟﺒﺼﺮﻱ .
ﺭﻭﻯ ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺍﻟﺨﻄﺎﺏ ﻭﻣﺎﻟﻚ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﻮﻳﺮﺙ ﺍﻟﻠﻴﺜﻲ ﻭﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮﺓ ﻭﺧﺎﻟﺪ ﻭﻳﻘﺎﻝ ﺳﺒﻴﻊ ﺍﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﻭﻓﺮﻭﺓ ﺑﻦ ﻧﻮﻓﻞ ﻭﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻓﻄﻴﻤﺔ ﻛﺎﺗﺐ ﺍﻟﻤﺼﺎﺣﻒ ﻭﺃﺑﻲ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺍﻟﻠﻴﺜﻲ ﻭﺍﻟﻤﺴﺘﻮﺭﺩ ﺍﻟﺘﻴﻤﻲ . ﻭﻋﻨﻪ ﺣﻤﻴﺪ ﺑﻦ
ﻫﻼﻝ ﻭﻗﺘﺎﺩﺓ ﻭﻋﻤﺮﺍﻥ ﺑﻦ ﺣﺪﻳﺮ ﻭﺑﺸﺮ ﺑﻦ ﺍﻟﺸﻌﺜﺎﺀ ﻭﺑﺸﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ ﻭﺃﺑﻮ ﺳﻌﻴﺪ ﺍﻟﺒﻘﺎﻝ . ﺫﻛﺮﻩ ﺧﻠﻴﻔﺔ ﻓﻲ ﺍﻟﻄﺒﻘﺔ ﺍﻟﺜﺎﻧﻴﺔ ﻣﻦ ﻗﺮﺍﺀ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﺒﺼﺮﺓ . ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩﺍﻭﺩ ﻛﺎﻥ ﺧﺎﺭﺟﻴﺎ ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﻨﺴﺎﺋﻲ ﺛﻘﺔ ﺫﻛﺮﻩ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻓﻲ ﺍﻟﺜﻘﺎﺕ ﻭﻗﺎﻝ ﺳﻬﻞ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻋﻴﻴﻨﺔ ﻋﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺩﻳﻨﺎﺭ ﺟﻠﺴﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﺍﻟﺰﻫﺮﻱ ﺇﻟﻰ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﻓﻠﻤﺎ ﻗﻤﺖ ﻣﻦ ﻋﻨﺪﻩ ﻗﺎﻝ ﺇﻥ ﻫﺬﺍ ﻟﻴﻘﻠﻊ ﺍﻟﻌﺮﺑﻴﺔ ﺗﻘﻠﻴﻌﺎ . ﻗﻠﺖ : ﻧﺴﺒﻪ ﺧﻠﻴﻔﺔ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﻓﻘﺎﻟﻮﺍ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺍﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﺣﺰﺍﻡ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻭﺩﻳﻌﺔ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﺑﻦ ﻗﻴﺲ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﻟﻴﺚ ﺯﺍﺩ ﺧﻠﻴﻔﺔ ﻣﺎﺕ ﺑﻌﺪ ﺍﻟﺜﻤﺎﻧﻴﻦ ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﻤﺮﺯﺑﺎﻧﻲ ﻓﻲ ﻣﻌﺠﻢ ﺍﻟﺸﻌﺮﺍﺀ ﻛﺎﻥ ﻋﻠﻰ ﺭﺃﻱ ﺍﻟﺨﻮﺍﺭﺝ ﺛﻢ ﺗﺮﻛﻬﻢ ﻭﺃﻧﺸﺪ ﻟﻪ :
ﻓﺎﺭﻗﺖ ﻧﺠﺪﺓ ﻭﺍﻟﺬﻳﻦ ﺗﺰﺭﻗﻮﺍ * ﻭﺍﺑﻦ ﺍﻟﺰﺑﻴﺮ ﻭﺷﻴﻌﺔ ﺍﻟﻜﺬﺍﺏ ﻓﻲ ﺃﺑﻴﺎﺕ ﻭﻓﻲ ﻃﺒﻘﺎﺕ ﺍﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﺭﻭﻯ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻭﻟﻪ ﺻﺤﺒﺔ
تهذيب التهذيب ج 10 ص 381۔
7 ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺍﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﺣﺰﺍﻡ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻭﺩﻳﻌﺔ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﺑﻦ ﻗﻴﺲ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﻟﻴﺚ
صحابی ہے ابن حجر اس کے بیٹے نصر کے متعلق لکھتا ہے (نصر )اپنے باپ سے روایت کرتا ہے اور وہ صحابی ہے
ﺭﻭﻯ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻭﻟﻪ ﺻﺤﺒﺔ
تهذيب التهذيب ج 10 ص 381۔
اسی روایت کو دیگر نواصب نے مزید تحریف کر کے روایت کیا ہے
ابن ابی عاصم نے با سند صحیح نقل کیا مگر پورا واقعہ ہی حذف کر دیا عاصم کے پوچھنے پر کہ کیا ہوا صحابہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی لعنت ہو آگے چلنے والے اور اس کے پیچھے چلنے والے پر ۔
ﻗﺎﻝ ﻗﻴﺲ ﺑﻦ ﺣﻔﺺ ﻧﺎ ﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻀﺮ ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺍﻟﻠﻴﺜﻲ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻗﺎﻝ ﺩﺧﻠﺖ ﻣﺴﺠﺪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﺃﺻﺤﺎﺑﻪ ﻳﻘﻮﻟﻮﻥ ﻧﻌﻮﺫ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﻣﻦ ﻏﻀﺐ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺭﺳﻮﻟﻪ ﻗﻠﺖ ﻣﺎ ﺷﺄﻧﻜﻢ ﻗﺎﻟﻮﺍ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻌﻦ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﻘﺎﺋﺪ ﻭﺍﻟﻤﻘﻮﺩ ﺑﻪ
ﺍﻵﺣﺎﺩ ﻭﺍﻟﻤﺜﺎﻧﻲ ج 2 ص 192
ابن ابی عاصم کا شیخ قیس بن حفص ثقہ ہے ابن حجر نے ثقہ کہا
ﻗﻴﺲ ﺍﺑﻦ ﺣﻔﺺ ﺍﻟﺘﻤﻴﻤﻲ ﺍﻟﺪﺍﺭﻣﻲ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﺒﺼﺮﻱ ﺛﻘﺔ
ﺗﻘﺮﻳﺐ ﺍﻟﺘﻬﺬﻳﺐ ج 2 ص 33
باقی راویوں کی توثیق طبرانی کی سند کی تحقیق میں بیان ہوئی ۔
ابو نعیم اصفہانی نے بھی با سند صحیح عین طبرانی کے متن کی طرح روایت کیا،
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺣﻤﺪﺍﻥ ، ﺛﻨﺎ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﻌﻼﻑ ، ﺛﻨﺎ ﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻀﺮ ، ﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺍﻟﻄﺎﺣﻲ ، ﻋﻦ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ، ﻗﺎﻝ : ﺩﺧﻠﺖ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﻭﺃﺻﺤﺎﺏ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪﻋﻠﻲﻩ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻟﻮﻥ : ﻧﻌﻮﺫ ﺏﺍﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﻏﻀﺐ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺭﺳﻮﻟﻪ ، ﻗﺎﻝ : ﻗﻠﺖ : ﻣﻢ ﺫﺍﻙ ؟ ﻗﺎﻝ : ﺇﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪﻋﻠﻲﻩ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻳﺨﻄﺐ ﺁﻧﻔﺎ ، ﻓﻘﺎﻡ ﺭﺟﻞ ﻓﺄﺧﺬ ﺑﻴﺪ ﺃﺑﻴﻪ ، ﺛﻢ ﺧﺮﺟﺎ ، ﻓﻘﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻲﻩ ﻭﺳﻠﻢ : « ﻟﻌﻦ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﻘﺎﺋﺪ ﻭﺍﻟﻤﻘﻮﺩ ، ﻭﻳﻞ ﻟﻬﺬﻩ ﺍﻷﻣﺔ ﻣﻦ ﻓﻼﻥ ﺫﻱ ﺍﻻﺳﺘﺎﻩ
ﻣﻌﺮﻓﺔ ﺍﻟﺼﺤﺎﺑﺔ ﻷﺑﻲ ﻧﻌﻴﻢ ﺍﻷﺻﺒﻬﺎﻧﻲ ص 2143 رقم 2231
ابو نعیم کے شیخ ابو عمرو کی توثیق ذہبی نے کی اس کو امام، محدث، ثقہ وغیرہ کہا
ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺍﻟﻤﺤﺪﺙ ﺍﻟﺜﻘﺔ ، ﺍﻟﻨﺤﻮﻱ ﺍﻟﺒﺎﺭﻉ ، ﺍﻟﺰﺍﻫﺪ ﺍﻟﻌﺎﺑﺪ ، ﻣﺴﻨﺪ ﺧﺮﺍﺳﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﻋﻤﺮﻭ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﺪﺍﻥ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺳﻨﺎﻥ ﺍﻟﺤﻴﺮﻱ
ﺳﻴﺮ ﺃﻋﻼﻡ ﺍﻟﻨﺒﻼﺀ ج 16 ص356،
دوسرا راوی حسن بن سفیان بھی جلیل القدر محدث ہے ذہبی نے اس کو امام، حافظ ثبت کہا
ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ
ﺍﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻌﺰﻳﺰ ﺑﻦ ﺍﻟﻨﻌﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻄﺎﺀ ، ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺍﻟﺤﺎﻓﻆ ﺍﻟﺜﺒﺖ ﺃﺑﻮ ﺍﻟﻌﺒﺎﺱ ﺍﻟﺸﻴﺒﺎﻧﻲ ﺍﻟﺨﺮﺍﺳﺎﻧﻲ ﺍﻟﻨﺴﻮﻱ ، ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ
سیر اعلام النبلاء ج 14 ص 157۔
تیسرا راوی محمد بن عبدالرحمن العلاف ہے اس کو ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے
ﻣُﺤَﻤَّﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮَّﺣْﻤَﻦ ﺍﻟﻌﻼﻑ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ ﺍﻟْﺒَﺼْﺮَﺓ ﻳﺮﻭﻱ ﻋَﻦ ﻣُﺤَﻤَّﺪ ﺑﻦ ﺳَﻮَﺍﺀ ﻭﺃﺑﻰ ﻋَﺎﺻِﻢ ﺣَﺪَّﺛﻨﺎ ﻋَﻨﻪُ ﺍﻟْﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺳُﻔْﻴَﺎﻥ
الثقات ج 5 ص 457
باقی سند طبرانی والی ہے۔
عبدالبر اندلسی نے بھی با سند صحیح روایت کیا ہے
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻗﺎﺳﻢ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺯﻫﻴﺮ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻀﺮ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺳﻠﻤﺔ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺍﻟﻠﻴﺜﻲ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻳﻞ ﻟﻬﺬﻩ ﺍﻷﻣﺔ ﻣﻦ ﺫﻱ ﺍﻷﺳﺘﺎﻩ ﻭﻗﺎﻝ ﻣﺮﺓ ﺃﺧﺮﻯ ﻭﻳﻞ ﻷﻣﺘﻲ ﻣﻦ ﻓﻼﻥ ﺫﻱ ﺍﻷﺳﺘﺎﻩ ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺣﻤﺪ ﻻ ﺃﺩﺭﻱ ﺃﺳﻤﻊ ﻋﺎﺻﻢ ﻫﺬﺍ ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻡ ﻻ .
ﺍﻻﺳﺘﻴﻌﺎﺏ ج 2 ص 784/785
تمام مطالب کو حذف کر کے فقط اتنا لکھا اس امت کی خرابی ہے فلاں موٹے چوتڑ والے سے، البتہ قابل غور امر یہ ہے کہ اس کی بعد احمد بن زہیر کا قول نقل کیا وہ کہتا ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس عاصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ سنا ہے یا نہیں ،گویا احمد نے دفاع معاویہ میں عاطم کے صحابی ہونے کوئی مشکور بنا دیا، نہ رہے گا بانس نہ بجے کی بانسوری ۔
ابن ابی خیثمہ نے بھی تحریف کر کے روایت کیا ہے
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ، ﻗﺎﻝ : ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻏﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻣﻄﺮ ، ﻗﺎﻝ : ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ، ﻋﻦ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺍﻟﻠﻴﺜﻲ ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ؛ ﻗﺎﻝ : ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻳﻞ ﻟﻬﺬﻩ ﺍﻷﻣﺔ ﻣﻦ ﻓﻼﻥ ، ﻛﻠﻤﺔ
ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺧﻴﺜﻤﺔ ﺝ 1 ﺹ 276
ملاحظہ فرمایا ناصبیوں نے روایت کو کس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر کے روایت کیا،
آپ نے ملاحظہ فرمایا ناصبیوں نے ان دونوں ملعونوں کے نام چھپانے کی کتنی کوشش کی، آخر کیا وجہ تھی جو ان کے نام چھپائے گیے کیوں اتنی پردہ داری کی گئی، ان سوالات کے جواب کسی حد تک ابن سعد کی روایت سے مل جاتے ہیں، ابن سعد نے با سند صحیح روایت کیا ہے
أخبرت عن أبي مالك كثير بن يحيى البصري قال حدثنا غسان بن مضر قال حدثنا سعيد بن يزيد عن نصر بن عاصم الليثي عن أبيه قال دخلت مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يقولون نعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله قلت ما هذا قالوا معاوية مر قبيل أخذ بيد أبيه ورسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر يخرجان من المسجد فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيهما قولا
الطبقات الكبرى ج 7 ص 78
عاصم لیثی کا بیان ہے کہ میں وارد مسجد نبوی ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کہہ رہے تھے کہ ہم اللہ کے غضب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غضب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں میں نے پوچھا آخر کیا ہوا تو صحابہ نے کہا کہ معاویہ اپنے باپ کا ہاتھ تھام کر مسجد سے نکل گیا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر تھے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں کے متعلق کچھ فرمایا۔
ابن سعد کا شیخ کثیر بن یحیی بن کثیر ابو مالک صدوق ہے، ابو حاتم نے محلہ صدق، ابو زرعہ نے صدوق و ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے
كثير بن يحيى بن كثير أبو مالك البصري روى عن أبي عوانة ومطر بن عبد الرحمن الاعنق وواهب بن سوار وسعيد بن عبد الكريم بن سليط سمعت أبي يقول ذلك، قال أبو محمد روى عنه أبي وأبو زرعة، نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن كثير بن يحيى بن كثير فقال محله الصدق وكان يتشيع، نا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن كثير بن يحيى فقال صدوق.
الجرح والتعديل ج 7 ص 127
كثير بن يحيى بن النَّضر أَبُو مَالك صَاحب الْبَصْرِيّ يروي عَن حَمَّاد بن زيد حَدَّثنا عَنهُ مُحَمَّد بن يحيى الْعَمى بِبَغْدَاد وَغَيره
الثقات ج 9 ص 26،
باقی راویوں کی توثیق طبرانی کی سند کی تحقیق میں بیان ہوئی،
ابن سعد نے نام تو بتلا دئے مگر یہ حذف کر دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوسفیان و معاویہ کے متعلق کیا فرمایا، خیر اتنا ہی کافی ہے اب طبرانی و ابن سعد کی روایتوں کو ملا کر پڑھا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو سفیان و معاویہ پر لعنت کی جبکہ وہ مسجد سے نکلے، اور معاویہ کی حکومت کی پیش گوئی بھی فرمائی کہ ایک دن امت کی خرابی اس موٹے چوتڑ والے کے سبب ہوگی