چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے ایک عالم محمد بن علی بن الفتح ابو طالب مشہور العشاری جو کہ دار قطنی کے تلامذہ میں سے تھا اس نے اپنی کتاب فضائل ابو بکر ؓ میں اس روایت کو نقل کیا ھے
حدثنا علي حدثنا علي بن محمد المصري حدثنا علي بن سعيد الرازي حدثنا هناد . بن السري حدثنا محمد بن فضيل عن إسماعيل بن أبي خالد عن قيس قال قال علي بن أبي طالب رضي الله عنه وهل أنا إلا حسنة من حسنات أبي بكر. رضي الله عنهما.
حضرت علی بن ابی طالب ؑفرماتے ہیں میں حضرت ابو بکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں
فضائل أبي بكر الصديق، برقم 29، ابن العشاري الحنبلي متوفى 451هـ
اس روایت کی سند پر کلام کرنے سے پہلے ہم کہتے ہیں کہ اس روایت کو کسی بھی مشہور محدث نے اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا بلکہ عشاری نے اس کو اپنی سند سے بیان کیا ھے اس خبر واحد کا کوئ اور طریق نہیں ھے ماسواۓ اس کے جو اوپر نقل کیا ھے یا پھر اس روایت کو صاحب کنز العمال جو کہ دسویں صدی ہجری کا مولف ھے اس نے نقل کیا ھے وہ بھی بغیر سند کے اس کی سند وہی ھے جو اعشاری متوفی 451 ھجری کی ھے
اب دیکھنا یہ ھے کہ کیا علی جیسے امام سے یہ بات ثابت ہو سکتی بھی ھے یا نہیں تو یقینا جواب نفی میں ملے گا
کیونکہ یہ روایت متن کے لحاظ سے ہی فٹ نہیں بیٹھتی
یہ روایت دیگر فضائل علی ؑ میں وارد روایت سے متن کے لحاظ سے بھی سخت اختلاف رکھتی ھے
ملاحظہ ہو ہم ایک روایت پیش کر دیتے ہیں
انس بن مالک کا بیان ہے کہ میں ایک روز رسول اسلام (ص) کی خدمت میں ایک بھنا ہوا پرندہ لے کر حاضر ہوا، رسول اسلام (ص)نے فرمایا بسم اللہ کہہ کر اس میں سے کچھ تناول فرمایا اس کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور عرض کی بار الہا
تو اپنے اور میرے نزدیک بہترین شخص کو میرے پاس بھیج دے
اسی اثناء میں اچانک علی علیہ السلام تشریف لائے اور دروازہ پر دستک دی میں نے دروازہ پر جا کر پوچھا کہ تم کون ہو تو انھوں نے جواب دیا میں علی ؑ ہوں ، میں نے ان سے کہا کہ پیغمبر اسلام (ص)اس وقت مشغول ہیں ، انس بیان کرتا ہے کہ رسول اسلام (ص)نے دوسرا لقمہ لیا اور وہی دعا کی، پھر دوبارہ دق الباب ہوا میں نے پوچھا کون ہے کہا میں علی ہوں ، میں نے دوبارہ کہدیا کہ رسول اسلام (ص)کام میں مشغول ہیں اس کے بعد رسول اسلام پھر ایک اور لقمہ تناول فرمایا اور وہی دعا کی، اسی وقت بار دیگر دق الباب ہوا میں نے پوچھا کون ہے ۔انہوں نے دوبارہ بلند آواز سے فرمایا میں علی ہوں اسی اثناء میں پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا اے انس دروازہ کھولو ، انس بیان کرتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) گھر میں داخل ہوگئے تو رسول اسلام (ص)نے میری اور علی (علیہ السلام )کی طرف نظریں اٹھاکے دیکھا اور علی (علیہ السلام )سے مخاطب ہو کر فرمایا میں حمد خاص کرتا ہوں اپنے پروردگار کی جو میں نے اس سے چاہا تھا اسنے مجھے دیدیا ۔ میں ہر لقمہ پر خدا سے دعا کررہا تھا کہ اے پروردگاراپنے اور میرے نزدیک اپنی مخلوق میں سے بہترین اورمحبوب ترین شخص کو میرے پاس بھیجدے اور ، تم وہی شخص ہو جس کو میں بلانا چاہتا تھا
اس حدیث کواحمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ میں ترمذی نے سنن ترمذی میں طبرانی نے المعجم الکبیر میں ّ حاکم نے اپنی کتاب المستد رک الصحیحین میں اور اسی طرح دوسرے لوگوں نے نقل کیاہے ۔
اس حدیث کا سلسلہ سنداتنا معتبر ہے کہ اہلسنت کے بعض علماء نے صراحت سے اس حدیث کی سند کو صحیح بتایا ہے جیسا کہ حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب (مستدرک ) اور ذھبی نے اپنی کتاب (تذکر ة الحفاظ) میں اس حدیث کے صحیح ہو نے کی تصریح کی ہے ۔
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی (علیہ السلام) اللہ تعالی کے نزدیک محبوب ترین مخلوق ہیں اور علی (علیہ السلام ) کی یہ برتری اور فضیلت عام ہے جس میں انبیاء (علیہم السلام)کو بھی شامل ہے خصوصاً بعض روایات میں اس طرح سے وارد ہوا ہے
(اللھمّ اتینی باحبّ خلقک الیک من الاولین و لآخرین )اے پروردگار اولین اورآخرین مخلوق میں جو تیرا محبوب ترین بندہ ہو اس کو میرے پاس بھیجدے
تعجب اس امر پر ھے کہ علی ؑ کو اللہ کے رسول ﷺ نے مخلوق سب سے زیادہ برتری اور فضلیت والا قرار دیا ھے تو اسی علی ؑ سے کیسے یہ روایت ممکن ھے کہ میں حضرت ابو بکر ؓ کی نیکی ہوں
اور بھی ایسی کئ روایات ہیں جو کہ اگر بیان کی جائیں تو اس روایت کا موضوع ہونا ثابت ہو جاۓ گا
اس روایت کے رجال کی حقیقت
طحاوی نقل۔کرتا ھے کہ ذھبی نے سیر اعلام النبلاء میں اسی راوی کے متعلق لکھا ھے
امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں : الشیخ الجليل، الأمين، أبو طالب محمد بن علي بن الفتح الحربي العشاري یہ جلیل شیوخ میں سے ہیں پھر فرماتے ہیں : قلت: قد كان أبو طالب فقيها، عالما، زاهدا، خيرا، مكثرا، صحب أبا عبد بطة، وأبا عبد الله بن حامد، وتفقه لأحمد ۔ میں کہتا ہوں ابو طالب (العشاری) فقیہ ، عالم اور پرہیزگار تھے کثیر الروایات تھے ، انہوں نے ابن بطہ و امام ابن حامد المقری) کی صحبت پائی ہے اور حنبلی فقہ سیکھی
۔ سیر اعلام النبلاء برقم 21
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ یہی ذھبی میزان الاعتدال میں العشاری کے متعلق کیا لکھتا ھے
۷۹۸۹ – محمد بن على بن الفتح ، أبو طالب العشاري . شيخ صدوق معروف، لكن أدخلوا عليه أشياء فحدث بها بسلامة باطن ، منها حديث موضوع في فضل ليلة عاشوراء . ومنها عقيدة للشافعي . ومنها : قال : حدثنا ابن شاهين ، حدثنا أبو بكر بن أبي داود ، حدثنا شاذان، حدثنا سعد بن الصلت ، حدثنا هارون بن الجهم ، عن جعفر بن محمد ، عن أبيه ، عن على ، قال : أتى النبي صلى الله عليه وسلم بسبعة فأمر عليا أَنْ يَضْرِبَ أعناقهم؛ فهبط جبرائيل فقال : لا تضرب عنق هذا . قال : لم ؟ قال : لأنه حسن الخلق سمع الكف . قال : يا جبرائيل، أنى عنك أو عن ربك ؟ قال : بل ربي أمرنى بذلك. هارون أيضاً ليس بمعتمد . المشاري ، حدثنا أحمد بن منصور البوشرى حدثنا أبو بكر النجاد ، حدثنا الحربي ، حدثنا سريج بن النعمان ، حدثنا ابن أبي الزناد، عن أبيه ، عن الأعرج، عن أبي هريرة – مرفوعا : صُومُوا عاشوراء ووسموا على أهاليكم ، ، فقد تاب على آدم إلى أن قال : فمن صامه كان كفارة أربعين سنة ، وأعطى ثواب ألف شهيد، وكتب له أجر سبع سموات … إلى أن قال : وفيه خلق الله السموات والأرض والعرش والقلم ، وأول يوم خلق يوم عاشوراء . فتيح الله من وضعه، والعتب إنما هو على محدثى بغداد كيف تركوا المشاري يروى هذه الأباطيل . الله فيه البرشهرى ففيه تاب الله على آدم .
مات سنة إحدى وخمسين وأربعمائة .
قلت : ليس بحجة .
– محمد بن علی بن فتح ابوطالب عشاری یہ ایک صدوق اور معروف بزرگ ہے تا ہم لوگ اس پر کچھ اشیاء داخل کر دیتے تھے جنہیں یہ باطن کی سلامتی کے ہمراہ حدیث کے طور پر بیان کر دیتا تھا، اُن میں سے ایک موضوع حدیث بھی ہے جو عاشوراء کی رات کی فضیلت کے بارے میں ہے۔ اور ان میں سے ایک وہ روایت ہے جو امام شافعی کے عقیدے کے بارے میں ہے۔ اُن میں سے ایک روایت یہ ہے جو اس نے اپنی سند کے ساتھ امام جعفر صادق ؑ کے حوالے سے اُن کے والد کے حوالے سے حضرت علی ؑ ان سے نقل کی ہے وہ بیان کرتے ہیں: اتى النبي صلى الله عليه وسلم بسبعة فأمر عليا ان يضرب اعناقهم، فهبط جبرائيل فقال :لا تضرب عنق هذا. قال : لم ؟ قال : لانه حسن الخلق سبع الكف. قال : يا جبرائیل اش عنك او عن ربك ؟ قال : بل ربي امرني بذلك. نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سات آدمی لائے گئے آپ نے حضرت علی ؑ کو یہ حکم دیا کہ وہ اُن کی گردنیں اتار دیں۔ حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور انہوں نے کہا: آپ اس کی گردن نہ اُڑائیں نبی اکرم ﷺ نے دریافت کیا: وہ کیوں؟ اُنہوں نے عرض کی: کیونکہ اچھے اخلاق اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ ہاتھ روک لیا جائے ۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اے جبرائیل! کیا یہ تمہاری طرف سے ہے یا تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے؟ تو انہوں نے عرض کی: بلکہ میرے پروردگار اس راوی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ ہی کی نظر کے حوالے سے یہ مرفوع حدیث نقل کی ہے: صوموا عاشوراء ووسعوا على اهاليكم، فقد تاب الله فيه على آدم … الى ان قال : فمن صامه كان كفارة اربعين سنة واعطى ثواب الف شهيد، وكتب له اجر سبع سموات ..
. الى ان قال : وفيه خلق
الله السموات والأرض والعرش والقلم، واول يوم خلق يوم عاشوراء
. “عاشوراء کے دن روزہ رکھو اور اُس اپنے اہل خانہ پر کھل کر خرچ کرو کیونکہ اللہ تعالی نے اس دن میں حضرت آدم کی تو بہ قبول کی تھی۔ آگے چل کر اس روایت میں یہ الفاظ ہیں: ” جو شخص اس دن میں روزہ رکھتا ہے تو یہ اس کے لیے چالیس سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور ایسے شخص کو ایک ہزار شہیدوں کا ثواب عطا کیا جاتا ہے اور اُس کے لیے سات سال کی عبادت کا ثواب نوٹ کیا جاتا ہے”۔ آگے چل کر اس روایت میں یہ الفاظ ہیں : ” اسی دن میں اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو عرش اور قلم کو پیدا کیا اور جو دن سب سے پہلے پیدا ہوا وہ عاشوراء کا دن ہے۔
تو اللہ تعالیٰ اسے شخص کو رسوا کرے جس نے اس روایت کو ایجاد کیا ہے اور اس میں سارا ملبہ بغداد کے محدثین پر گرتا ہے کہ انہوں نے عشاری کو کیسے ترک کر دیا، جس نے ایسی جھوٹی روایات نقل کی ہیں ۔ خطیب کہتے ہیں: میں نے اس سے روایت نوٹ کی ہے یہ ثقہ اور صالح تھا۔ اس کا انتقال 451 ہجری میں ہوا۔
میں یہ کہتا ہوں یہ حجت نہیں ہے۔
ذھبی کہتے ہیں یہ صدوق تو تھا لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ یہ حجت نہیں ھے کیونکہ اس نے عاشور کی روایت گھڑی
میزان الاعتدال الرقم ٧٩٤٩
حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی کہا ھے کہ یہ میرے نزدیک حجت نہیں ھے
ملاحظہ ہو لسان المیزان جلد ٧ ص ٣٧٧
2 قیس بن ابی حازم مشہور تابعی ہیں انہوں نے خلفاء کا زمانہ پایا ھے ہماری تحقیق کے مطابق انہوں نے نہروان میں امیر المومنین علی ؑ کا ساتھ دیا تھا
مشہور حدیث کلاب حوأب کے بھی یہی راوی ہیں
علی بن مدینی نے ان کو منکر الحدیث لکھا ھے
یہ منفرد روایت کسی بھی اھلسنت کے معتبر مصدر میں نقل نہیں ہوئ
تحقیق سید ساجد بخاری