ایک حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ رسول ص کے خلفاء 12 امام نہیں بلکہ اس امت کے علماء و محدثین ہیں ۔
اس حوالے سے یہ حدیث پیش کی گئی ہے :
حدثنا الحسين بن احمد بن إدريس، قال: حدثنا أبي، عن محمد بن أحمد بن يحيى بن عمران الأشعري، عن محمد بن حسان الرازي، عن محمد بن على عن عيسى بن عبد الله العلوي العمري، عن أبيه، عن آبائه، عن علي (عليه السلام) قال:
” قال رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم): ” اللهم ارحم خلفائي ” – ثلاثا – قيل: يا رسول الله، ومن خلفاؤك؟ قال:
” الذين يبلغون حديثي وسنتي ثم يعلمونها أمتي۔
حضرت علی ع سے روایت ہے کہ رسول ص نے تین مرتبہ فرمایا اے اللہ میری خلفاء پر رحم فرما ۔ عرض کہ گئی آپ کے خلفاء کون ہیں ، آپ ص نے فرمایا وہ لوگ جو میری حدیث اور سنت کی تبلیغ کریں گے اور امت کو سکھائیں گے ۔

سند کی علت :
1) سلسلہ سند میں راوی ” عيسى بن عبد الله العلوي العمري ” مجہول التوثیق ہے ۔
آیت اللہ جواہری لکھتے ہیں :
عیسی بن عبد الله العمري – مجھول
عیسیٰ بن عبداللہ العمری مجہول ہے ۔

2) راوی ” محمد بن حسان الرازي ” بھی غیر معتمد ہے :
علامہ باقر مجلسی لکھتے ہیں
1603- محمد بن حسان الرازي : ض (ضعیف)
محمد بن حسان رازی ضعیف ہے ۔

شیخ نجاشی ان کے متعلق لکھتے ہیں
محمد بن حسان الرازي أبو عبد الله الزينبي يعرف وينكر، بين بين، يروي عن الضعفاء كثيرا۔
محمد بن حسان رازی ، ان کی بات کبھی قبول ہوتی ہے اور کبھی رد ہوتی ہے ۔ بیچ بیچ میں ہے (یعنی مختلف فیہ راوی ہے ) ۔ یہ ضعفاء سے بکثرت روایت کرتے تھے ۔

علامہ ابن داؤد حلی ان کے متعلق لکھتے ہیں
محمد بن حسان الرازي أبو عبدالله الزيدي [جش] يعرف وينكر بين بين ، يروي عن الضعفاء كثيراً ، ضعيف جدا.
محمد بن حسان رازی ان کی بات کبھی قبول ہوتی ہے کبھی رد ، یہ ضعفاء سے کثرت سے روایت کرتے ہیں ( علامہ نے یہ شیخ نجاشی کا کلام نقل کیا ہے اس کے بعد لکھتے ہیں ) ، یہ سخت ضعیف ہے ۔

علامہ ابن غضائری سے منسوب کتاب میں بھی ان پر جرح ہے
23 – محمد بن حسان، الرازي، أبو جعفر. ضعيف
محمد بن حسان رازی ، ضعیف ہے۔

متن پر بحث :
احادیث سے استدلال کرتے ہوئے تمام احادیث جو مدنظر رکھ کر ان سے مفہوم اخذ کیا جاتا ہے نا کہ کسی ایک حدیث سے ایک مطلب نکال لیا جائے۔ متواتر احادیث میں رسول ص نے حضرت علی ع اور دیگر آئمہ کی خلافت و امامت پر نص فرمائی ہے جن میں کچھ صحیح السند احادیث نکل کی جارہی ہیں :
1) امالی الصدوق:
علي امام الخليقة بعدي من تقدم علياً (على علي) فقد تقدم علي ومن فارقه فقد فارقني (اسکی سند سکین میں ملاحظہ فرمائیں)
علی میرے بعد میرا خلیفہ و امام ہے ، جو اس کی عظمت گھٹاتا ہے وہ میری عظمت گھٹاتا ہے اور جو اس سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوا ۔
2) امالی الصدوق / عیون الاخبار الرضا:
يا علي أنت وصيي وأبو ولدي وزوج إبنتي وخليفتي على أمتي في حياتي وبعد موتي، أمرك أمري ونهيك نهيي (اسکی سند سکین میں ملاحظہ فرمائیں)
اے علی ع تم میرے وصی ہو اور میری امت پر میری زندگی میں اور میرے وصال کے بعد خلیفہ ہو ۔ تیرا فرمان میرا فرمان ہے اور تیری نہی میری نہی ہے ۔
ان دونوں احادیث کو دیکھ کر یہ بات واضح ہے کہ جس حدیث میں علماء کو خلفاء کہا گیا ہے وہ ایک عام معنی میں ہے نا کہ خاص معنی میں ۔ جیسے لفظ امام کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ امامِ منصوص کے لئے بھی ، کسی حکمران کے لئے بھی ، کسی محدث کے لئے اور پیش امام کے لئے بھی ۔ یعنی رسول ص کے اصل خلفاء تو 12 امام ہی ہیں لیکن علماء حضرات بھی چونکہ رسول ص کے مشن پر ہیں تو وہ بھی رسول ص کے خلفاء کہلائے ۔
اس کی مثال ایسے سمجھیں کہ لفظ “صحابی” ایک خاص معنی میں استعمال ہوتا ہے کہ رسول ص کا مومن مخلص ساتھی اور ایک عام معنی میں بھی کہ ایسا شخص جو محض رسول ص کے ساتھ موجود ہے لیکن اس کے ایمان کی کوئی گارنٹی نہیں جیسے کہ کئی مناف—- قین رسول ص کے صحابہ میں شامل تھے ۔
اس مضمون کی روایات کتبِ اہلسنت میں بھی موجود ہیں :
حدثنا محمود بن خداش البغدادي حدثنا محمد بن يزيد الواسطي حدثنا عاصم بن رجاء بن حيوة عن قيس بن كثير قال: قدم رجل من المدينة على ابي الدرداء وهو بدمشق ، فقال: ما اقدمك يا اخي؟ فقال۔۔۔ إن العلماء ورثة الانبياء إن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما إنما ورثوا العلم فمن اخذ به اخذ بحظ وافر
حضرت ابو درداء سے روایت ہے رسول ص نے فرمایا بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی (عالم) کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے پورا پورا حصہ لیا.
جامع ترمذی – حدیث نمبر: 2682
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (223)
اب حدیث سے بھی ایسا نتیجہ نہیں نکل سکتا ہے ان علماء کے انبیا کے وارث یا ہونے سے اہلسنت کے خلفائے راشدین کی خلافت کی نفی ہو جائے ۔ مذکورہ حدیث کا بھی یہی حال ہے ۔
.







