باغی گروہ
★امام ابن خزيمة اور امام شافعی کا نظریہ اور معاویه باغی★
وَكُلُّ مَنْ نَازَعَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي إِمَارَتِهِ فَهُوَ بَاغٍ، عَلَى هَذَا عَهِدْتُ مشَايِخَنَا وَبهُ قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ يَعْنِي الشَّافِعِيَّ رَحِمَهُ اللَّهُ.
جــس نــے مــیں حکــومت کــے مــعامــلے مــیں أمیــرالمؤمنــین عــلی ابــن ابـی طالـب علــیہ الســلام ســے جنــگ کــی وہ باغــی ہے۔ اور ہمــارے مشــائخ کا نظــریہ بــھی یــہی ہــے اور ابــن ادریــس شــافعــی نــے بھــی یــہی کــہا ہــے۔



.
حضرت علی ع سے جھگڑنے والے ظا- لم تھے اس پر اجماعِ امت ہے 

وَقَالَ الْإِمَامُ عَبْدُ الْقَاهِرِ الْجُرْجَانِيُّ فِي كِتَابِ الإْمَامَةِ أَجْمَعَ فُقَهَاءُ الْحِجَازِ وَالْعِرَاقِ مِنْ فَرِيْقَيِ الْحَدِيْثِ وَالرَّاْيِ مِنْهُمْ: مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَبُوْ حَنِيْفَةَ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَالْجَمْهُوْرُ الأَعْظَمُ مِنَ الْمُتَكَلِّمِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ أَنَّ عَلِيًّا مُصِيْبٌ فِي قِتَا– لِهِ لِأَهْلِ صِفِّيْنَ كَمَا هُوَ مُصِيْبٌ فِي أَهْلِ الْجَمَلِ، وَأَنَّ الَّذِيْنَ قَا– تَلُوْهُ بُغَاةٌ ظَا– لِمُوْنَ .
امام عبدالقاہر الجرجانی اپنی کتاب ’’الإمامة‘‘ میں فرماتے ہیں: فقہائے اسلام نے فرمایا ہے: حجاز اور عراق کے محدثین اور فقہاء کرام کی دونوں طرف کی جماعتیں جن میں امام مالک، امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام اوزاعی اور متکلمین اور جمیع مسلمین کے جمہورِ اعظم کا اجماع ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام اہلِ صفین کے خلاف جن– گ میں حق پر تھے، جیسا کہ آپ اہلِ جَمل کے ساتھ قتا– ل میں حق پر تھے، نیز انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کے خلاف ج—نگ کی وہ با— غی اور ظا— لم تھے۔
القرطبي في التذكرة، 2/626، والمناوي في فيض القدير، 6/366
.