حاکم ثالث ایک ظالم اور جابر بادشاہ تھے جو خلافت پر قابض ہونے کے ساتھ بیت المال پر بھی قابض ہو گیا اور اس میں موجود زکوٰۃ و صدقہ اور مال غنیمت کو اپنے لئے حلال قرار دیا جس نے حرام طریقہ سے اپنے مکانات کی تعمیرات اور اس کی زیبائش کے لئے خرچہ کیا اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی ناجائز طریقہ سے اموال دیتا رہا اور اپنے داماد مروان کو افریقیہ کا خمس دے دیا اور باغ فدک بھی ان کو دے دیا اور اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر کا حاکم مقرر کیا جو لوگوں کو حقوق نہیں دیتا تھا اور عوام پر ظلم و ستم کرتا تھا کیونکہ اسے حاکم ثالث کی طرف سے تائید و سپورٹ حاصل تھی اور انہی کی اجازت سے اس طرح کرتا تھا یہاں تک جب بعض افراد نے عبداللہ بن سعد کے پاس حاضر ہو کر ان سے مکالمہ کیا ، ان سے شکوہ کیا جو لوگوں کو حقوق نہیں دیتا تھا اور مصر کے بیت المال پر قابض تھا تو اس نے ان افراد پر تشدد کروایا اور بعض کو قتل کردیا اور اس جرم میں حاکم ثالث بھی شریک تھے کیونکہ اس نے پوشیدہ طور پر اپنے ایک غلام کے ذریعہ لوگوں کے ساتھ یہی رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا تھا اس لئے وہ بلا خوف و خطر لوگوں پر زیادتی کرتے تھے تو ایسے حالات میں مصر سے 700 افراد مدینہ پہنچے جہاں انہوں نے مسجد نبوی میں قیام کرتے ہوئے اصحابِ رسول سے عبداللہ بن سعد کا شکوہ کیا اور اس کی زیادتی سے آگاہ کیا پھر اس کے بعد طلحہ بن عبیداللہ نے حاکم ثالث سے سخت کلامی کرتے ہوئے سرزنش کی اور اسے یہ سب کرنے سے منع کردیا اور اپنے عامل مصر کو برطرف کرنے کے لئے مطالبہ کیا اور اس کے بعد عائشہ بنت ابی بکر نے بھی حاکم ثالث کو سمجھایا لیکن اس نے یہ جھوٹ بولا کہ میں اسے برطرف کردوں گا جب یہ خبر سننے کے بعد مصر کے لوگ واپس پلٹ رہے تھے جن میں محمد بن ابی بکر (رح) بھی تھے تو انہوں نے راستہ میں یا مصر پہنچنے کے بعد حاکم ثالث کے غلام سے ملاقات کی جس کو پوشیدہ طور پر عبداللہ بن سعد کی طرف ایک خاص پیغام کے لئے بھیجا گیا تو ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ کو عامل مصر کے پاس جانے کا حکم کس نے دیا اور کس مقصد کے لئے ان کے پاس جا رہے ہیں تو اس نے کہا کہ میں عثمان کے حکم پر اس کا پیغام لے کر جا رہا ہوں تو اس نے مزید کچھ نہیں بتایا جب ان سے حاکم ثالث کا خط اخذ کیا گیا تو اس میں لکھا تھا کہ “محمد بن ابی بکر اور ان کے ساتھی تمہارے پاس آ رہے ہیں تم ان سب کو قتل کردو” جب مصر کے لوگوں نے یہ پیغام پڑھا تو وہ واپس مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور حاکم ثالث تک اپنا یہ پیغام پہنچایا کہ آپ نے اپنے خط میں محمد بن ابی بکر (رح) اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے کا حکم کیوں دیا ہے تو اس نے جھوٹ بولا کہ یہ خط میں نے نہیں بھیجا ہے یعنی اپنے غلام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینے لگا جبکہ ان زمانوں میں لوگوں کے غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے کہیں دور دراز علاقوں یا دوسرے شہروں تک نہیں جاتے تھے اور ان کے غلام کے پاس موجود گھوڑا بھی حاکم ثالث کا تھا اور اس خط میں مہر بھی حاکم ثالث کی تھی پھر بھی وہ جان بوجھ کر اسے جھٹلانے لگا البتہ لوگوں کے سامنے اس کا مکروہ چہرہ مزید بے نقاب ہو گیا اور کئی روز گزر جانے کے بعد بھی اس نے اپنے عامل مصر کو برطرف نہیں کیا اور نہ عوام سے انصاف کیا اور ظلم و ستم کا سلسلہ قائم رکھتے ہوئے عمار بن یاسر (رض) پر اس قدر تشدد کیا کہ اسے ہرنیا ہو گیا اور ابوذر غفاری (رض) کو ربذہ کی طرف جلا وطن کردیا اور عمرو بن حمق خزاعی (رض) ، مالک اشتر نخعی (رح) اور کمیل بن زیاد نخعی (رح) کو شام سے عراق کی جانب نکالے جانے کے لئے معاویہ کی طرف پیغام بھیجا جس کے بعد وہ کوفہ کی جانب چلے گئے کیونکہ وہ لوگوں میں حاکم ثالث کے انحرافات اور اس کی تخریب کاریوں کا تذکرہ کرتے تھے اور اسی طرح جب محمد بن ابی حذیفہ (رض) پر حملہ آور ہوئے تو وہ بھی دوسری جگہ منتقل ہو گئے اور محمد بن سالم کا خون بہایا تو اسی سلسلہ میں حاکم ثالث پر وارد ہونے والے الزامات کے بارے میں حلبی شافعی لکھتے ہیں:
وكان من جملة ما انتقم به على عثمان رضى الله تعالى عنه أنه أعطى ابن عمه مروان بن الحكم مائة ألف وخمسين أوقية وأعطى الحارث عشر ما يباع في السوق أي سوق المدينة وأنه جاء إليه أبو موسى بكيلة ذهب وفضة فقسمها بين نسائه وبناته وأنه انفق أكثر بيت المال في عمارة ضياعه ودوره وأنه حمى لنفسه دون إبل الصدقة وانه حبس عبد الله بن مسعود وهجره وحبس عطاء وأبي بن كعب ونفى أبا ذر إلى الربدة وأشخص عبادة بن الصامت من الشام لما شكاه معاوية وضرب عمار بن ياسر وكعب بن عبدة ضربه عشرين سوطا ونفاه إلى بعض الجبال وقال لعبد الرحمن بن عوف إنك منافق وإنه أقطع أكثر أراضي بيت المال وأن لا يشترى أحد قبل وكيله وأن لا تسير سفينة في البحر إلا في تجارته وأنه احرق الصحف التي فيها القرآن وأنه أتم الصلاة بمنى ولم يقصرها لما حج بالناس وأنه ترك قتل عبيد الله وقد قتل الهرمزان.
عثمان بن عفان پر جو الزامات لگائے گئے اس میں یہ ہے کہ اس نے اپنے چچازاد بھائی مروان کو 150 لاکھ اوقیہ مال دے دیا تھا اور مدینہ میں جو بازاروں میں مال بکتا تھا اس کا دس فیصد حصہ حارث بن حکم بن عاص کو دے دیا اور ابو موسیٰ اشعری ایک مرتبہ کچھال بھر سونا لائے تھے جسے عثمان نے اپنی بیٹیوں اور بیویوں میں تقسیم کردیا اور بیت المال کا بہت سارا حصہ اپنے مکانات کی تعمیر اور ان کی زیبائش میں خرچ کردیا تھا ، اسی طرح انہوں نے اپنے لئے صدقہ حلال کرلیا اور عبداللہ بن مسعود کو قید میں ڈال دیا اور عطاء اور ابی بن کعب کو بھی قید میں ڈال دیا تھا ، ابوذر غفاری کو جلا وطن کر کے ربذہ کے مقام پر بھیج دیا ، عبادہ بن صامت کو شام سے نکال دیا جس کی معاویہ نے شکایت کی ، عمار بن یاسر اور کعب بن عبدة کو بیس بیس کوڑے لگائے گئے اور کعب بن عبدة کو بعض پہاڑوں کی جانب جلا وطن کردیا تھا ، عبدالرحمن بن عوف سے کہا کہ تم منافق ہو اور بیت المال کی اکثر زمینیں قطعات کر کے فروخت کردی گئیں اور حکم دیا کہ ان فروخت شدہ زمینوں کو ان کے نمائندوں اور ان کے وکیل سے پہلے کسی دوسرے شخص کو فروخت نہ کیا جائے اور سمندر میں کوئی سفینہ تجارت کے لئے ان کے مال کے علاوہ کسی دوسرے کا مال نہیں لے جا سکتا ہے اور قرآن مجید کے مقدس اوراق کو جلا ڈالا اور جب حج کرنے کے لئے گئے تو مقام منیٰ میں نماز قصر نہیں بلکہ پوری پڑھی اور عبیداللہ بن عمر سے ہرمزان کے قتل کا قصاص نہیں لیا تھا۔
السيرة الحلبية – الحلبي – ج ٢ – الصفحة ٢٧٣
الغرض پھر حالات کشیدہ ہو گئے اور عوام میں اشتعال بڑھنے لگا تو ان کے خلاف متفقہ طور پر تحریک چلائی گئی جس نے عثمان کے خلافت سے ہٹائے جانے پر اتفاق کرلیا تو یہ ایک گروہ تھا جس میں مصر ، بصرہ ، کوفہ اور مدینہ کے صحابہ اور تابعین شامل تھے اور اس گروہ میں مصر کے 600 افراد کی سربراہی کرنے والے اصحاب رسول میں سے عبدالرحمن بن عدیس بلوی اور عمرو بن حمق خزاعی تھے جن میں کنانة بن بشر کندی بھی شامل ہیں اور کوفہ کے 100 افراد کی سربراہی کرنے والے مالک اشتر نخعی تھے اور بصرہ کے 150 افراد کی سربراہی کرنے والے حکیم بن جبلہ عبدی تھے تو یہ کوئی عبداللہ بن سبا کی سازش نہیں تھی بلکہ صحابہ کا آپس میں اختلاف تھا جنہوں نے حاکم ثالث کی بیعت کی وہ خود ان کو خلافت سے مستعفی کرنا چاہتے تھے جن میں طلحہ و زبیر بھی شامل تھے اور عائشہ بنت ابی بکر بھی ابتداء میں حاکم ثالث کے مخالفین میں سے تھیں جیسا کہ ان کا یہ قول مشہور ہے کہ یہ نعثل کافر ہو گیا ہے اور اسے قتل کردو البتہ اس نے قتل کے بعد اظہار ندامت کرتے ہوئے بغضِ علی میں خروج کیا تھا اور کہنے لگی کہ میری دوسری رائے ، میری پہلی رائے سے بہتر ہے الغرض حاکم ثالث کے خلاف محاصرہ کرنے والوں میں اکثریت انہی کے سابقہ پیروکاروں کی تھی اور ان کے ساتھ کافی شیعہ اصحاب بھی اس محاصرہ میں شامل تھے جیسے عمار بن یاسر (رض) ، عمرو بن حمق خزاعی (رض) ، سہل بن حنیف (رض) ، عدی بن حاتم طائی (رض) ، محمد بن ابی حذیفہ (رض) ، رفاعہ بن رافع بن مالک (رض) ، ابو ایوب انصاری (رض) اور ابو عمرو عبداللہ بن بدیل خزاعی (رض) ہیں کیونکہ حاکم ثالث خلافت پر قابض تھے اور کفر پر قائم رہے اور بے گناہوں کے قاتل اور اپنے زمانے کے بدترین کرپٹ انسان تھے جس نے بیت المال پر ڈاکہ ڈالا ہوا تھا چنانچہ تابعین میں سے أبو جعفر القارئ کہتے ہیں:
كان المصريون الذين حصروا عثمان ستمائة رأسهم عبد الرحمن بن عديس البلوي وكنانة بن بشر بن عتاب الكندي وعمرو بن الحمق الخزاعي والذين قدموا من الكوفة مائتين رأسهم مالك الأشتر النخعي والذين قدموا من البصرة مائة رجل رأسهم حكيم بن جبلة العبدي.
عثمان کا محاصرہ کرنے والوں میں سے مصر سے 600 افراد کی سربراہی کرنے والے عبدالرحمن بن عدیس بلوی ، کنانہ بن بشر کندی اور عمرو بن حمق خزاعی تھے اور کوفہ سے قدم رکھنے والے 100 افراد کی سربراہی کرنے والے مالک اشتر نخعی تھے اور بصرہ سے قدم رکھنے والے 100 افراد کی سربراہی کرنے والے حکیم بن جبلہ عبدی تھے۔
تاريخ مدينة دمشق – ابن عساكر – ج ٣٩ – الصفحة ٣٦٠
اور ابن شبہ نمیری لکھتے ہیں:
حدثنا هارون بن عمر قال، حدثنا أسد بن موسى، عن أبي لهيعة قال، حدثنا يزيد بن أبي حبيب قال: كان الركب الذين ساروا إلى عثمان رضي اله عنه فقتلوه من أهل مصر ستمائة رجل، وكان عليهم عبد الرحمن بن عديس البلوي، وكان ممن بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت الشجرة.
یزید بن ابی حبیب بیان کرتے ہیں کہ عثمان کے پاس مصر سے 600 افراد ان کو قتل کرنے کے لئے پہنچے جن میں عبدالرحمن بن عدیس بلوی بھی شامل تھے جس نے ایک درخت کے نیچے رسول اللہ کی بیعت کی تھی۔
تاريخ المدينة – ابن شبة النميري – ج ٤ – الصفحة ١١٥٥
اور حافظ ذهبي لکھتے ہیں:
عبد الرحمن بن عديس أبو محمد البلوي. له صحبة. وبايع تحت الشجرة. وله رواية. سكن مصر. وكان ممن خرج على عثمان وسار إلى قتاله.
عبدالرحمن بن عدیس بلوی کا شمار صحابہ میں ہوتا ہے جس نے (بیعت رضوان) میں ایک درخت کے نیچے رسول اللہ کی بیعت کی ہے تو یہ مصر میں مقیم تھے اور عثمان کو قتل کرنے کے ارادہ سے خروج کرنے والوں میں سے تھے۔
تاريخ الإسلام – الذهبي – ج ٣ – الصفحة ٥٣١
اور ان کے بارے میں حافظ ابو عمر ابن عبد البر لکھتے ہیں:
وقد صلى بالناس في حين حصار عثمان جماعة من الفضلاء الجلة منهم أبو أيوب الأنصاري وطلحة وسهل بن حنيف وأبو أمامة بن سهل وغيرهم.
آپ نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی جب معزز افراد کی ایک جماعت نے عثمان کو محصور کر رکھا تھا جن میں ابو ایوب انصاری ، طلحہ اور ابو امامہ سہل بن حنیف وغیرہ شامل تھے۔
الاستذكار – ابن عبد البر – ج ٢ – الصفحة ٣٩٠
اور عمرو بن حمق خزاعی کے بارے میں زرکلی لکھتے ہیں:
عمرو بن الحمق بن كاهل، أو كاهن، الخزاعي الكعبي: صحابي، من قتلة عثمان. سكن الشام … وشهد مع علي حروبه. وكان على خزاعة يوم صفين.
عمرو بن حمق خزاعی (رض) کا شمار صحابہ میں ہوتا ہے جس نے عثمان کو قتل کیا جو شام میں رہائش پذیر تھے اور یہ علی بن ابی طالب (ع) کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوئے اور جنگ صفین میں بھی موجود تھے۔
الأعلام – خير الدين الزركلي – ج ٥ – الصفحة ٧٧
اور مظاہرین کے بارے میں دمیری لکھتے ہیں:
فأجمعوا على حصاره فحاصروه في داره، و كان من أكبر المؤلبين عليه محمد بن أبي بكر. و كان الحصار في سلخ شوال و اشتد الحصار.
چنانچہ وہ متفقہ طور پر اس کا محاصرہ کرنے پر راضی ہو گئے تو انہوں نے اس کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور اس کے سب سے بڑے مخالفوں میں سے محمد بن ابی بکر تھے تو یہ محاصرہ شوال کے دنوں میں ہوا جو شدت اختیار کرگیا۔
حياة الحيوان – الدميري – ج ۱ – الصفحة ۸۳
اور یہ محاصرہ تقریباً چالیس روز تک جاری رہا جب حاکم ثالث نے مظاہرین کے مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اپنے عہدہ سے برطرف نہ ہوئے تو محمد بن ابی بکر (رض) اور عمرو بن حمق خزاعی (رض) سمیت دیگر افراد اس کے گھر میں داخل ہو گئے جہاں اس کو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے قتل کردیا گیا اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے حاکم ثالث کے قتل کا حکم نہیں دیا اور نہ اس سے منع کیا ، نہ اس کے قتل پر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا اور نہ ناراضگی کا اظہار کیا بلکہ فتنہ و فساد کے خوف سے مصلحت کے پیش نظر خاموشی اختیار کرلی اور مظاہرین کو اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ حاکم اول کے زمانہ میں خلافت کے غصب ہو جانے ، باغ فدک کے ہاتھوں سے نکلنے جانے اور سیدہ شہیدہ بنت رسول اللہ پر ظلم و ستم کئے جانے کی وجہ سے اصحاب ثلاثہ سے جنگ کرنا چاہتے تھے لیکن اس وقت ان کے پاس مددگار نہ تھے اور قلت انصار کی وجہ سے جنگ کرنے سے گریز کیا جس طرح حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی مددگاروں کے قلیل ہونے کی وجہ سے کفار مکہ سے جہاد کرنے کے بجائے مدینہ کی طرف ہجرت کرلی یا جیسے غزوہ خندق میں قلت انصار کی وجہ سے خندق کھودنے کا حکم دیا تھا یا جیسے صلح حدیبیہ میں کفار مکہ سے صلح کرلی جبکہ سرزمین مکہ میں حکومت کرنے کا اختیار صرف آنحضرت (ص) کو حاصل تھا تو اسی طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان دین محمد سے ظاہری طور پر مرتد ہو رہے ہیں اور اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے ، فتنوں کا دور وقوع پذیر ہو چکا ہے اور لوگوں میں انحرافات بڑھتے جا رہے ہیں نیز اس وقت سیدہ شہیدہ بنت رسول اللہ بھی دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں اور جب مسیلمہ کذاب ، طلیحہ اسدی اور اسود عنسی جیسے لوگوں نے اپنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور اپنے صاحب شریعت ہونے کا اعلان کردیا اور بغاوت برپا کرنے لگے جو حقیقی مسلمان اور اپنی طرح ظاہری مسلمانوں کو قتل کرنا چاہتے تھے تو ان حالات میں ان مرتد باغیوں کے خلاف حاکم اول کی طرف سے جنگ کی تیاریاں شروع کی گئی اور ایسی صورتحال میں آنحضرت (ع) نے اسلام اور شریعت محمدیہ کے تحفظ کی خاطر اور اپنی شرعی تجاویز اور دین حق کی ترویج اور اس کے دفاع کے لئے حاکم اول سے صلح کرتے ہوئے اتحاد قائم کرلیا تھا کیونکہ آنحضرت (ع) کے پاس مددگار نہ تھے تو ظاہر ہے جب شیخین کے بعد حاکم ثالث سے مصالحت کا زمانہ اپنے دورانیہ میں تھا تو اسی مصلحت کی بناء پر ان کو قتل کرنے کا حکم صادر نہیں کیا تھا البتہ جو لوگ ان کو قتل کرنا چاہتے تھے ان میں اکثریت انہی کے اپنے سابقہ پیروکاروں کی تھی جو آنحضرت (ع) کی امامت اور ان کی خلافت بلا فصل کے منکر تھے اور سیرت شیخین پر عمل پیرا ہونا پسند کرتے تھے اور جب انہی لوگوں نے آنحضرت (ع) کی بیعت کی تو بعض نے اپنی بیعت سے انحراف کرتے ہوئے جنگ جمل میں خروج کیا جیسے طلحہ و زبیر ہیں اور بعض نے اپنی بیعت سے انحراف کرتے ہوئے مدینہ سمیت دوسرے شہروں سے منتقل ہو کر جنگ صفین میں خروج کیا اور بعض نے اپنی بیعت سے انحراف کرتے ہوئے نہروان میں خروج کیا تو آنحضرت (ع) ان وقوع پذیر ہونے والے فتنوں سے باخبر تھے جو ایک شیطان کے واصل جہنم ہو جانے کی وجہ سے نمودار ہوئے تھے جس میں بے گناہ مومنین کا قتل عام ہوا اور عمار بن یاسر (رض) ، خزیمہ بن ثابت (رض) ، ابو الہیثم بن تیہان (رض) اور بشیر بن عمرو (رض) جیسے جلیل القدر اصحاب شیعہ شہید ہو گئے تھے تو انہی فتنوں کی روک تھام کے لئے خاموشی اختیار کرلی تا کہ مومنین کی جانیں ضائع نہ ہوں لیکن اس کے ساتھ اصولی طور پر حاکم ثالث کا خون شرعاً حلال بھی سمجھتے تھے تو اس قتل پر اپنے غم و غصہ یا اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خلافت و حکومت صرف آنحضرت (ع) کا حق تھا جس کو غصب کیا گیا تو حاکم ثالث کے قتل کئے جانے کے سلسلہ میں چند روایات کی رو سے آنحضرت (ع) کا موقف پیش کرتے ہیں جن میں ابتدائی دو روایات کتب مخالفین سے اخذ کی گئی ہیں۔
حدثنا سلم بن إبراهيم قال، حدثنا جميل بن عبيد الطائي قال: سمعت أبا خلدة الحنفي يقول: سمعت عليا رضي الله عنه وهو على المنبر يقول: ما أمرت ولا نهيت ولا سرني ولا ساءني قتل عثمان رضي الله عنه.
ابو خالد بیان کرتے ہیں میں نے علی بن ابی طالب (ع) کو منبر پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
میں نے لوگوں کو عثمان کے قتل کا نہ حکم دیا اور نہ اس سے منع کیا ، نہ خوشی کا اظہار کیا اور نہ افسوس کا اظہار کیا۔
تاريخ المدينة – ابن شبة النميري – ج ٤ – الصفحة ١٢٦٣
فقال أبو ثور ، كنت فيمن حاصر عثمان فكنت آخذ سلاحي وأضعه، وعلي ينظر إلى لا يأمرني ولا ينهاني.
ابوثور کہتے ہیں کہ میں عثمان کا محاصرہ کرنے والوں میں سے تھا تو میں اپنا ہتھیار اٹھا کر نیچے رکھ دیتا تھا اس وقت علی بن ابی طالب (ع) میری طرف دیکھ رہے تھے تو نہ انہوں نے مجھے اس کا حکم دیا اور نہ اس سے منع کیا۔
الامامة والسياسة – ابن قتيبة الدينوري – ج ١ – الصفحة ٤٧
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے خطبہ شقشقیہ میں حاکم ثالث کے بارے میں ارشاد فرمایا:
إلى أن قام ثالث القوم نافجا حضنيه بين نثيله ومعتلفه. و قام معه بنو أبيه يخضمون مال الله خضمة الإبل نبتة الربيع إلى أن انتكث فتله. و أجهز عليه عمله و كبت به بطنته.
اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے . جو الله کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصلِ ربیع کا چارہ چرتا ہے. یہاں تک کہ وہ وقت آگیا. جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کی بد اعمالیوں نے اسی کا کام تمام کر دیا. اور شکم صری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔
نهج البلاغة ، خطبہ : 3
ما رواه الثقفي من عدة طرق، عن قيس بن أبي حازم قال: أتيت عليا عليه السلام أستشفع به إلى عثمان، فقال: إلى حمال الخطايا!
قیس بن ابی حازم بیان کرتے ہیں کہ جب میں علی بن ابی طالب (ع) کے پاس عثمان کے حق میں سفارش کے لئے آیا ، تو (طنزاً) فرمایا : گناہوں کے اٹھانے والے کے لئے !
تقريب المعارف – أبو الصلاح الحلبي – الصفحة ٢٦١
توضیح : حمال الخطایا یعنی عثمان دوسروں کی خطائوں کا بوجھ اٹھانے والا ہے کیونکہ اس نے حرام طریقہ سے مال وصول کیا جس پر قابض ہو گیا اور اسی طریقہ سے اموال لوگوں کو دیتا تھا جس میں کافی ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کو وصول ہونے والا مال حرام ہے جس پر ان کو کوئی تصرف حاصل نہیں تھا جب وہ اپنی بے خبری کی بناء پر اسے استعمال کرتے تھے تو ظاہر ہے ان کی خطائوں کا بوجھ حاکم ثالث بھی اٹھائے گا البتہ وہ خود جانتے ہوئے بھی حرام مال استعمال کرتا تھا۔
أحمد بن محمد وعبد الله بن عامر بن سعد عن محمد بن خالد البرقي عن أبي حمزة الثمالي قال قال أبو جعفر عليه السلام كان أمير المؤمنين ” ع ” يقول من أراد أن يقاتل شيعة الدجال فليقاتل الباكي على دم عثمان والباكي على أهل النهروان ان من لقي الله عز وجل مؤمنا بان عثمان قتل مظلوما لقي الله عز وجل ساخطا عليه ويدرك الدجال فقال رجل يا أمير المؤمنين فان مات قبل ذلك قال يبعث من قبره حتى يؤمن به وان رغم انفه.
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
جو شخص دجال کے پیروکاروں سے قتال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ عثمان کے خون پر رونے والوں اور اہل نہروان پر رونے والوں سے قتال کرے ، جو شخص الله تعالیٰ سے اس ایمان کے ساتھ ملاقات کرے گا کہ وہ عثمان کے خون کو ناحق سمجھتا ہے تو خدا اس پر ناراض ہوگا اور جب وہ دجال کو درک کرے گا تو اس پر ایمان لائے گا تو ایک شخص نے کہا : اے امیر المومنین اگر وہ اس کے ظاہر ہونے سے پہلے مرجائے ؟ تو آنحضرت (ع) نے فرمایا : جب وہ یوم آخرت میں اپنی قبر سے اٹھایا جائے گا تو اس پر ایمان لائے گا خواہ اسے ناپسند کرتا ہو (یعنی انہی کے پیروکاروں میں شمار کیا جائے گا کیونکہ عثمان نے بھی لوگوں کو دجل و فریب دیا تھا)۔
مختصر بصائر – الحسن بن سليمان الحلي – الصفحة ٢٠
وروي فيه، عن مالك بن خالد الأسدي، عن الحسن بن إبراهيم، عن آبائه قال:
كان الحسن بن علي عليهما السلام يقول: معشر الشيعة علموا أولادكم بغض عثمان، فإنه من كان في قلبه حب لعثمان فأدرك الدجال آمن به، فإن لم يدركه آمن به في قبره.
حسن بن ابراہیم اپنے آباء سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
اے گروہ شیعہ اپنی اولاد کو عثمان سے برات و بیزاری اختیار کرنے کا حکم دیا کرو کیونکہ جس کے دل میں عثمان کی محبت ہو تو جب وہ دجال کو درک کرے گا تو اس پر ایمان لائے گا اور اگر اسے درک نہ کیا تو وہ اپنی قبر میں اس پر ایمان لائے گا (یعنی اس پر ایمان لانے والوں میں سمجھا جائے گا اور انہی کے پیروکاروں میں شمار کیا جائے گا)۔
تقريب المعارف – أبو الصلاح الحلبي – الصفحة ٢٩٤
اور اسی طرح علماء مخالفین میں سے حافظ ذهبي نے دجال کے متعلق ایک روایت کے راوی زيد بن وهب کے بارے میں لکھتے ہیں “من أجلة التابعين وثقاتهم. ومتفق على الاحتجاج به إلا ما كان من يعقوب الفسوي” یعنی یہ جلالت والے تابعین میں سے ہیں اور ان کی توثیق کی گئی ہے جس پر سب کا اتفاق ہے سوائے یعقوب فسوی کے ، پھر اس کے ضمن میں یہ روایت لکھتے ہیں:
روايته عن حذيفة : إن خرج الدجال تبعه من كان يحب عثمان.
زيد بن وهب نے حذیفہ بن یمان سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ جب دجال خروج کرے گا تو اس کی اتباع وہ کرے گا جو عثمان سے محبت رکھتا ہوگا۔
ميزان الاعتدال – الذهبي – ج ٢ – الصفحة ١٠٧
اور جہاں تک قتل عثمان پر فیصلہ کرنے کا تعلق ہے تو آنحضرت (ع) نے اس کے لئے معاویہ ناصبی کو ایک پیغام بھیجا جس میں تحریر فرمایا:
وقد أكثرت في قتلة عثمان فادخل فيما دخل فيه الناس ثم حاكم القوم إلي أحملك وإياهم على كتاب الله تعالى. وأما تلك التي تريد فإنها خدعة الصبي عن اللبن في أول الفصال والسلام لأهله.
اور تم نے عثمان کے قتل کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے تو پہلے میری بیعت میں داخل ہو جائو جس میں سب داخل ہو چکے ہیں پھر میری عدالت میں ان لوگوں پر مقدمہ دائرہ کرنا تو میں کتاب خدا کی رو سے تمہارا اور ان کا فیصلہ کردوں گا لیکن یہ جو تم چاہ رہے ہو تو یہ دھوکہ ہے جو بچہ کے دودھ سے روکنے کے لئے دیا جاتا ہے۔
نهج البلاغة ، مکتوب : 64
اور آنحضرت (ع) نے اس مکتوب میں اپنی بیعت کرنے کا حکم اس لئے دیا ہے تا کہ جب حاکم ثالث کے خلاف فیصلہ سنایا جائے تو معاویہ اسے رد نہ کرے بلکہ میری حاکمیت کو اپنے لئے ضروری قرار دیتے ہوئے میرے فیصلہ پر راضی ہو جائے اور اصحاب شیعہ حاکم ثالث کا خون حلال سمجھتے تھے اور یہی ابو صلاح حلبی اور ملا محمد طاہر قمی کا نظریہ ہے چنانچہ ملا طاہر قمی لکھتے ہیں:
أقول: كفانا معشر الشيعة إباحة دمه ، لأن إباحة دمه دليل على بطلان خلافته و بيعته.
میں کہتا ہوں: گروہ شیعہ کے لئے اس کے خون کا حلال ہونا اس امر کے لئے کافی ہے کہ اس کے خون کا حلال ہونا اس کی خلافت اور اس کی بیعت کے باطل ہونے کی دلیل ہے۔
كتاب الأربعين – محمد طاهر القمي الشيرازي – الصفحة ٦١١
اور اگر حاکم ثالث مظلوم ہوتے تو آنحضرت (ع) کے لئے یہ جائز نہ ہوتا کہ وہ محمد بن ابی بکر (رح) کو مصر کا حاکم مقرر کریں اور اسی طرح مالک اشتر (رح) کو بھی اپنے لشکر کا سربراہ مقرر نہ کرتے ، نہ ان کی شہادتوں پر غمزدہ ہونے کا اظہار کرتے بلکہ ان کی تعریف بیان فرمائی ہے۔
ــــــــــــــــــــ
تحریر : محمد بشیر توحیدی