محرم آتے ہی ناصبی حضرات اپنی بلوں سے باہر نکل آتے ہیں وہ شیعہ کے کبھی تعزیے پر اعتراض کرتے ہیں تو شبیہ پر تو کبھی سبیل اور نیاز کو حرام قرار دیتے ہیں اور خود ان کی نیاز سبیلیں لگاتے ہیں جنکے نام پر کبھی کسی فقیر نے خیرات تک نہیں مانگی انہی دیو بندریوں کی امام حسینؑ کی نیاز سے دشمنی اور ہندوؤں دوستی ملاحظہ فرمائیں۔

رشید احمد گنگوی صاحب کہتے ہیں کہ محرم میں ذکر شہادت حسین علیہ السلام کرنا اگرچہ بروایات صحیحہ ہو یا سبیل لگانا شربت پلانا یا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب نادرست اور تشبہ روافض کی وجہ سے حرام ہیں۔
حوالہ : [ فتاویٰ رشیدیہ – صفحہ ١۴٩ ]

گنگوی صاحب لکھتے ہیں کہ ہندو تہوار ہولی یا دیوالی میں اپنے استاذ یا حاکم یا نوکر کو کھیلیں یا پوری یا اور کچھ کھانا بطور تحفہ بھیجتے ہیں ان چیزوں کا لینا اور کھانا استاد و حاکم و نوکر مسلمان کو درست ہے۔
حوالہ : [ فتاویٰ رشیدیہ – صفحہ ١۴٩ ]

تھانوی لکھتے ہیں : بوقت مجلس جب مثنوی مولانا روم ختم ہوگئی ۔ بعد ختم کہ شربت بنانے کا حکم دیا اور ارشاد ہوا کہ اس (شربت) پر مولانا روم کی نیاز بھی کی جائے گی ۔ گیارہ گیارہ بار سورۂ اخلاص پڑھ کر نیاز کی گئی اور شربت بٹنا شروع ہوا ۔ آپ (حاجی امداد ﷲ صاحب نے فرمایا کہ نیاز کے دو معنی ہیں ، ایک عجز و بندگی اور سوائے خدا کے دوسروں کے واسطے نہیں ہے بلکہ ناجائز و شرک ہے، دوسری خدا کی نذر اور ثواب خدا کے بندوں کو پہنچانا یہ جائز ہے۔ لوگ انکار کرتے ہیں، اس میں کیا خرابی ہے۔ ہر شخص کو اختیار ہے کہ (نیک) عمل کا ثواب مردے کو یا زندہ کو کردے ۔ جس طرح مردے کو ثواب پہنچتا ہے اسی طرح زندہ کو بھی ثواب پہنچ جاتا ہے ۔
حوالہ : [ امداد المشتاق – صفحہ ٨٦ ]
کمنٹ : آج کل کچھ یزید کی نسل سے تعلق رکھنے والے دبربلندی مولوی جو امام عالی مقام سید الشہدا امام حسین علیہ اسلام کی بارگاہ ناز میں ایصال ثواب کی گئی نذر و نیاز کو حرام کہتے ہیں۔ اپنے ہندو بھائیوں کی دیوالی اور ہولی کا کھانا اور تحائف جائز ہیں اور اگر مولانا روم کے لئے ایصال ثواب کے لئے نیاز جائز ہے اور شیخین و معاویہ کے جلوس نکالنا ان کے نام کی سبیلیں لگانا ان کے علم و گھوڑے نکالنا جائز ہے تو کیا سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے لئے ایصال ثواب کی نیاز جائز نہیں ۔؟