کیا شمر ملعون حضرت عباس ع کا ماموں اور مولا علی ع کو پہلا خلیفہ ماننے والا تھا؟

مورخین کا دعویٰ ہےکہ شمر ملعون نے شب عاشور جب وہ حضرت ابو الفضل العباس (ع) کے پاس امان نامہ لے کر آیا تو حضرت کو اپنا بھانجا کہہ کر خطاب کیا، تاہم، مستند اسلامی کتب میں کسی طرح کا حضرت ام البنین (ع) اور شمر بن ذی الجوشن کے قریبی خاندانی تعلقات کا کوئی ذکر نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ انکے درمیان قرابت داری اور رشتہ داری تھی۔ یا یہ کہ قمر بنی ہاشم ع اور شمر ابن ذی الجوشن کے درمیان کسی بھی اعتبار سے رشتہ ملتا ہو، نیز ام البنین ع کے والد حزام بن خالد ربیعہ تھے اور شمر کا باپ جوشن بن شرجیل ابن الاعور تھا۔
البتہ یہ بات صحیح ہے کہ شمر بن ذی الجوشن اور ام البنین (س) دونوں قبیلہ بنی کلاب سے ہیں لیکن وہ کبھی بھائی یا بہن نہیں تھے ۔۔۔۔ عربوں میں یہ رواج تھا کہ لڑکی کسی دوسرے قبیلے سے شادی کر لیتی، چاہے چند نسلیں ہی کیوں نہ گزر جائیں ، اس کی اولاد کو انہی القاب و صفات سے یعنی بھانجا کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔
ام البنین اور شمر دونوں ہی «بنی کلاب» کے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کا ہی شجرہ چند واسطوں سے «کلاب» تک پہنچتا ہے.
«کلاب» کے ۱۱ بیٹے تھے.
جن ۱۱ بیٹوں میں سے ایک کا نام «کعب بن کلاب»
دوسرے کا نام «ضِباب بن کلاب» ہے.
جناب ام البنین «کعب بن کلاب» کی نسل سے ہیں.
شمر «ضِباب بن کلاب» کی نسل سے ہے.
★ أم البنین کا شجرہ:
أم البنين بنت حزام بن خالد بن ربیعة بن الوحيد بن کعب بن کلاب.
★ شمر کا شجرہ:
شمر بن ذی‌ الجوشن (جُميل) بن الأعور (عمرو) بن ضِباب (معاوية) بن کلاب.
💫 جب شمر ملعون نے مولا عباس ع کو بھانجہ کہہ کر امان دینا چاہا تو جناب عباس بن امیر المومنینؑ نے بلند آواز سے جواب میں فرمایا : تیرا ہاتھ ٹوٹے! اور تیری امان پر لعنت ہے کہ جو تو ہمارے لئے لایا ہے. اے دشمن خدا! تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے بھائی اور مولا حسینؑ بن فاطمہ س سے دست بردار ہو جائیں اور ملعون بن ملعون کی اطاعت میں سر تسلیم خم کر دیں. کیا صرف ہمیں ہی امان دے رہے ہو اور رسولخدا (ص) کے فرزند کیلئے کوئی امان نامہ نہیں ہے؟
شمر ان کلمات کو سن کر سخت غضبناک ہوا اور اپنے لشکر میں واپس پلٹ گیا.
نتیجة : شمر بن ذی الجوش ملعون حضرت علی ع کا نہ سالا تھا اور نہ ہی حضرت عباس ع کا سکا ماموں تھا اور دوسری بات یہ رشتہ داریوں کی فضلیت ہمارے مخالف میں دی جاتی ہے اسی لیے دشمن اہلبیتؑ کو کبھی ماموں اور کبھی خالو کا درجہ دیکر معافی دی جاتی ہے۔
🔥 قاتل امام حسین ع ، شمربن ذالجوشن ملعون امامیہ شیعہ تھا یا سنی ؟
💫 ہم جب سپاہ ِصحابہ کے نواصب کو دیکھتے ہیں جو شمر بن ذالجوشن کو شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہم نے چاہا کہ اس سازش کو بھی ناکام بنا دیا جائے۔ ناصبیوں کا اعتراض :
🚫 جس شخص نے سیدنا حسین ع کو قتل کیا اس کا نام شمر بن ذالجوشن تھا اور وہ شیعہ تھا جیسا شیعہ عالم دین جو کہ مشہور کتاب ‘مفاتح الجنان’ کے مصنف ہیں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
‘میں کہتا ہوں کہ شمر صفین کے روز امیر المومنین کی فوج میں تھا’۔ (القمی، صفینۃ النجات، ج 4 ص 492 ) 🚫
جواب : ٣٧ ھجری میں ہر وہ شخص جو حضرت علی ع کو جائز خلیفہ تسلیم کرتا اور ان کے دشمنوں سے لڑا وہ “شیعہ” ہی کہلایا جاتا تھا جیسا کہ شاہ عبد العزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب میں لکھتے ہیں :
” سب سے پہلے وہ مہاجرین و انصار اور تابعین اس لقب شیعہ سے منقلب تھے جو ہر پہلو میں حضرت مرتضیٰ کی اطاعت و پیروی کرتے تھے اور وقتِ خلافت سے ہی آپ کی صحبت میں رہے، آپ کے مخالفین سے لڑے اور آپ کے امر و نواہی کو مانتے رہے۔ انہی شیعہ کو مخلصین کہتے ہیں۔ انکے اس لقب کی ابتدا ٣٧ ہجری سے ہوئی۔
حوالہ : [ تحفہ اثناء عشری (اردو) – صفحہ ۵٣ ]
در حقیقت صفین میں مولا علی ع کے لشکر میں دو قسم کے لوگ تھے ایک وہ جو کہ اسکو شرعی فرض سمجھتے تھے کہ مولا علی کی نصرت و حمایت کریں کیونکہ وہ رسول اللہ کے بلافصل خلیفہ اور جانشین تھے۔ جنہیں آج امامیہ شیعہ یا اثنا عشریہ کہا جاتا ہے
اور دوسرے وہ جنہیں آج “اہلِ سنت” کہا جاتا ہے ، جو کہ حضرت علی کی حمایت اس نظریہ کے تحت کرتے تھے کہ وہ حضرت علی کو عثمان کے بعد چوتھا جائز خلیفہ تسلیم کرتےتھے اس لئے ان کے دشمنوں سے لڑے۔
شمر ملعون جنگ صفین کے بعد مولا علی ع سے منحرف ہوکر معاویہ سے جا کر ملا شمر ملعون نے امام علیؑ کے بعد معاویہ کی بیعت کر لی تھی کیونکہ شمر جیسوں کا عقیدہ ہی ہر خلیفہ کی بیعت کرنا تھا جیسا کہ آج اہلسنّت جس نظریہ کے مالک ہیں ۔
💫 جب کریم بن عفیف کو گرفتار کر کے معاویہ کے سامنے پیش کیا گیا تو معاویہ نے جناب کریم سے مولا علی ع سے برات کا کہا اور کریم نے جواب نہ دیا تب شمر ذی الجیوش نے اٹھ کر کہا “اے المومنین” یہ میرا ابن عم ہے مجھے بخش دیجیے تو معاویہ نے شمر کے کہنے پر اسے بخش دیا۔
حوالہ : [ تاریخ طبری – جلد ۴ – صفحہ ٩٩ ]
نوٹ: یہاں دیکھ سکتے ہیں شمر لعین معاویہ کو اپنا امیرالمومنین کہہ رہا ہے یہاں سے واضع ہوتا ہے کہ شمر امامیہ نظریہ رکھنے والا شیعیانِ علی نہیں تھا بلکہ وہ ہر خلیفہ کی بیعت کرنے والا شخص تھا کیونکہ اس نے معاویہ کے بعد بننے والے خلیفہ یزید ملعون کی بیعت کرتے ہوئے امام حسین ع کو شہید کیا۔
امام حسین کو قتل کرتے وقت کے عقائد شمر کو سنی ثابت کرتے ہیں ناکہ شیعہ ۔۔ امام ذہبی کی مشہور کتاب “اعتدال المیزان” میں لکھتے ہیں :
💫 ابو اسحاق نے کہا : شمر ہمارے ساتھ نماز پڑھتا اور کہتا : اے اللہ، تو جانتا ہےکہ میں شریف انسان ہوں میری مغفرت فرما۔ میں نے اس سے کہا : تمہیں اللہ کیسے معاف کرسکتا ہے جبکہ تم نے اللہ کے رسول کے فرزند کو قتل کرنے میں حصہ لیا ہے؟۔ اس نے کہا : ‘مرو تم۔ میں اور کیا کرتا؟ ہمارے امراء نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا لہٰذا ہم نے انکی نافرمانی نہیں کی، اگر ہم ان کی نافرمانی کرتے تو ہم جانور سے بھی بدتر ہوتے میں نے کہا: یہ تو ایک بھونڈا بہانہ ہے، اطاعت تو بس اچھی باتوں میں ہوتی ہے۔
حوالہ : [ اعتدال المیزان – جلد ٣ – رقم ٣٧۴٧ ]
نوٹ : جیسا کہ ہم نے پڑھا شمر کا عقیدہ تھا کہ اپنے حکمرانوں کے احکام پر عمل کرتے ہوئے حسین کو قتل کرنا اسکا فرض تھا۔ آپ مخالفینِ شیعہ کو چیلنج ہے کہ وہ یہ ثابت کردیں کہ شیعان ِعلی کا عقیدہ یہ تھا کہ حکمران کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حسین کو قتل کرنا فرض ہے۔ وہ شیعہ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امامت اہلبیت کا حق ہے جو انہیں اللہ تعالی نے دیا ہے ایسے شیعہ ہمیشہ سے ہی خود ساختہ خلافت و حکمرانی کو رد کرتے آئے ہیں اور یہ مانتے آئے ہیں کہ یہ حق صرف علی اور اولاد ِعلی میں سے انکا ہے جنہیں اللہ تعالی نے چنا ہم صرف ان حضرات کی اطاعت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اب ایسا شخص جو یہ عقیدہ رکھے کہ ناجائز حکمران کے حکم پر عمل کرتے ہوئے جائز امام کو قتل کرنا اس کا فرض ہے، وہ کسی بھی طرح سے عقیدتی امامی شیعہ کے معنوں میں نہیں لیا جا سکتا ۔۔۔ اس کے برعکس ایک برے حکمران کی غیر مشروط اطاعت کرنے کا یہ عقیدہ اہل ِسنت والجماعت کا ضرور ہوسکتا ہے۔
شمر کے خود کے اعتراف سے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جس وجہ سے شمر حضرت علی کا حامی تھا، بالکل اسی وجہ سے وہ یزید کا حامی بھی تھا ۔ یہ وجہ وہ عقیدہ تھی جس کے مطابق حکمران ِوقت یا سربراہ ِمملکت کی اطاعت کرنی لازمی ہے کیونکہ وہ سربراہ ِمملکت ہے۔ شمر کے لئے صفین میں حضرت علی کی طرف داری کرنا اس لئے نہ تھا کو علی رسول اللہ کے بلافصل جانشیں اور امام ِوقت تھے، بلکہ اس لئے تھا کہ وہ خلیفہ تھے۔ جب یزید حکمران بن گیا، شمر نے یہی نظریہ دہرادیا ۔
🚩 مشہور و معروف تابعی اور اہل ِسنت کے عالم ِدین جناب ابو اسحاق السبیعی (متوفی١٢٩ھ) کیلئے شمر کی ذات دینی معلومات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھی یعنی شمر ان کے نزدیک ایک راوی ِحدیث کا درجہ رکھتا تھا۔ علامہ ابواسحاق کے متعلق امام ذہبی اپنی کتاب “سیراعلام النبلاء” ج۵ – ص٣٩٢ میں لکھتے ہیں : ” وہ کوفہ کے شیخ، عالم اور محدث تھے ” اپنی دوسری کتاب ” تذکرہ الحفاظ” ج١ ص١١۴ میں لکھتے ہیں :
فضیل بن غزوان نے کہا ہے کہ ابواسحاق ہر تین روز میں ایک قرآن ختم کرتے تھے اور یہ کہا گیا ہےکہ وہ بہت زیادہ روزے رکھتا کرتے اور راتوں کو بہت زیادہ نماز پڑھا کرتےاور اپنی عزت کی حفاظت کرتے تھے۔ وہ علم کا منبہ تھے ، ان کے کئی مناقب ہیں۔
اب جب ہم شمر کی سوانح پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سنی مذہب کے مندرجہ بالا شیخ ، عالمِ دین و محدث ، نیک و ایماندار انسان شمر کو اپنے مذہب کی کتابوں کا ایک راوی تسلیم کرتے تھے۔ امام ذہبی نے اپنی کتاب “میزان الاعتدال” میں شمر کی سوانح میں لکھا : وعنه أبو إسحاق السبيعي ” اور اس سے روایت کی ابواسحاق السبیعی نے” یہی وجہ ہےکہ اہلسنت مذہب میں بلند مقام رکھنے والی کتاب “مسند احمد بن حنبل” میں موجود روایت کی سند میں اس لعنتی قاتل ِحسین کا نام ساتھ ہے اس کے علاوہ اس کا اہلسنّت کے ساتھ نماز پڑھنا اور شیعیان علی ع کے ہاتھوں واصلِ جہنم ہونا بھی ثابت کرتا ہے کہ اسکا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔