ممبئ کے نا ص بی کفایت اللہ سنابلی نے اپنی کتاب میں یزید کا دفاع کرتے ہوئے ایک روایت پیش کی جو اس انساب الاشرف میں اس طرح ہے :
حدثنا سعدويه، حدثنا عباد بْن العوام، حَدَّثَنِي حصين، حَدَّثَنِي هلال بن إساف قال:
أمر ابن زياد فأخذ مَا بين واقصة، إِلَى طريق الشَّام إِلَى طريق الْبَصْرَة، فلا يترك أحد يلج وَلا يخرج، فانطلق الْحُسَيْن: يسير نحو طريق الشَّام يريد يزيد بْن مُعَاوِيَة فتلقته الخيول فنزل كربلاء، وَكَانَ فيمن بعث إِلَيْهِ عمر ابن سعد بن أبي وقاص، وشمر ابن ذي الجوشن، وحصين بْن نمير، فناشدهم الْحُسَيْن أن يسيروه إِلَى يزيد فيضع يده فِي يده فأبوا إِلا حكم ابْن زياد.
ترجمہ بقول سنابلی: عبید اللہ بن زیاد نے حکم دیا کہ واقصہ اور شام و بصرہ کے بیچ پہرہ لگا دیا جائے اور کسی کو بھی آنے جانے سے روک دیا جائے ، چنانچہ حسین رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ سے ملنے کے لیے شام کی طرف چل پڑے، پھر راستے میں گھوڑ سواروں نے انھیں روک لیا اور وہ کربلا میں رک گئے ،ان گھوڑ سواروں میں عمر بن سعد بن ابی وقاص ، شمر بن ذی الجوشن ، اور حصین بن نمیر تھے۔حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے التجا کی کہ انھیں یزید کے پاس لے چلیں، تاکہ وہ یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیں، اس پر ان لوگوں نے کہا کہ ہم عبید اللہ ابن زیاد کی اجازت کے بغیر ایسا نہیں کر سکتے۔

سنابلی نے اس روایت کو نقل کرکے بعد حاشیہ پر اسکی سند کو ” مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے”۔

ہم کہتے ہے کہ یہ سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی حصین بن عبدالرحمان السلمی اگرچہ ثقہ تھا لیکن آخری عمر میں یہ اختلاط کا شکار ہوگیا تھا اور اسکے شاگرد عباد بن العوام کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ انہوں نے ان سے احادیث اختلاط سے پہلے لی یا اسکے بعد۔
امام اہل سنت ابو حاتم الرازی انکے بارے میں یوں فرماتے ہیں :
حصین بن عبدالرحمان حدیث میں ثقہ تھا لیکن آخری عمر میں اسکا حافظہ خراب ہوگیا تھا۔

ابن رجب حنبلی نے اپنی کتاب میں اسکو مختلطین میں شمار کیا اور یوں لکھا :
ابن معین نے کہا : یہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگیا تھا۔
ابو حاتم الرازی نے کہا : آخری عمر میں اسکا حافظہ خراب ہوگیا تھا۔
یزید بن ھشیم نے یحیی بن معین کے بارے میں فرمایا کہ : جو کچھ ھثیم و سفیان نے حصین سے نقل کیا وہ صحیح ہے اور اسکے بعد یہ اختلاط کا شکار ہوگیا تھا۔

پاکستان کے اہل حدیث محقق ارشاد الحق الاثری نے بھی حصین بن عبدالرحمان کے اختلاط کو تسلیم کیا۔

خود سنابلی نے حصین کے اختلاط کو تسلیم کیا ہے لیکن بعد میں ایک نامعلوم شخص کے مقالہ کا حوالہ دے کر کہا کہ عباد بن العوام کا سماع حصین بن عبدالرحمان سے قدیم (اختلاط سے پہلے کا) ہے۔

ہم کہتے ہے کہ جنہوں نے عباد بن العوام کا حصین بن عبدالرحمان سے سماع قدیم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے بس ایک دلیل کے بنا پر ایسا کیا ہے وہ عباد بن العوام عن حصین بن عبدالرحمان والی ایک حدیث جو صحیح مسلم میں متابعت کے طور پر امام مسلم نے ذکر کی ہے۔ لہذا کچھ لوگوں نے ایک اصول بنایا کہ صحیحین میں مختلطین کی روایات قدیم (اختلاط سے پہلے کی) ہے۔
مگر افسوس کفایت اللہ سنابلی نے خود اسی کتاب میں اس اصول پر ضرب لگائی ہے۔ چناچہ وہ یوں لکھتا ہے :
عرض ہے کہ زبیر علی زائی صاحب نے یہاں پر امام ابن صلاح کی اندھی تقلید کی ہے کیونکہ ابن صلاح نے محض حسن ظن کی بنیاد پر ایسا کہا ہے جیسا کہ بعض اہل علم نے صراحت کی ہے۔ تحقیق کی روشنی میں درحقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ صحیح بخاری میں مختلطین کی وہ روایات بھی ہے جنہیں انکے شاگردوں نے اختلاط کے بعد بیان کیا ہے۔

لہذا ثابت ہوگیا کہ عباد بن العوام کے بارے میں معلوم نہیں کہ اس نے اپنے استاد حصین بن عبدالرحمان سے اسکے اختلاط سے پہلے سنا یا بعد میں۔
اختلاط والے راوی (مختلط) کے بارے میں اصول اہل سنت محدث ابن کثیر اس طرح بیان بیان کرتا ہے :
خوف، تکلیف، مرض یا حادثے کی وجہ سے راویوں کو اختلاط ہو مثلاً عبداللہ بن لہیعہ کی کتابیں ضائع ہوگئیں تو وہ حافظے میں اختلاط کا شکار ہوگئے۔
ایسے لوگوں سے جس نے اختلاط سے پہلے سنا ہے وہ روایت مقبول (قبول) ہوگی۔ جس نے بعد میں سنا یا شک ہے (آیا پہلے سنا یا بعد میں) تو اسکی روایت مقبول نہیں ہیں۔

اس پوری بحث سے یہ بات بلکل عیان ہے کہ مذکورہ روایت کی سند ضعیف ہے اور اس سے استدلال درست نہیں۔



اب بندہ اس پر روائے یا ہنسے 

















