التحقیق الکافی علی عطیہ بن سعد العوفی

ایک انتہائ محترم دوست نے جناب عطیہ بن سعد پر تحقیق کرنے کے بارے میں لکھا کہ ان کی ثقات پر عمومی طور پر حرف اٹھایا جاتا ھے
جب ہم فریقین سے فدک پر بات کرتے ہیں کیونکہ اس روایت کے ایک راوی جناب عطیہ بن سعد العوفی بھی ہیں
ناصبیوں کو ہمیشہ سے ہی میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کرنے کی عادت ھے
یہ تحریر انشاء اللہ امید ھے کہ جناب عطیہ کی ثقاہت ثابت کرنے کے لیے کار گر ثابت ہو گی
پہلے کچھ جناب عطیہ العوفی کا تعارف پیش کرتے ہیں اس کے بعد اگلی بات شروع کریں گے
ابن سعد اور جناب طبری نے اپنی کتب میں نقل کیا ھے
کہ عطیہ کے والد سعد بن جنادۃ صحابی رسول ص تھے اور سب سے پہلے طائف میں آپ نے اسلام قبول کیا، اس کے بعد آپ کوفہ تشریف لے گئے۔ ابن سعد بیان کرتا ہے کہ آپ نے حضرت علی ع سے فرمایا کہ خدا نے مجھے ایک بیٹا عنایت کیا ہے پس آپ اس کا نام رکھیں۔ حضرت علی ع نے فرمایا یہ خدا کی طرف سے عطيہ ہے سو حضرت علی ع نے اس کا نام عطيہ رکھ دیا۔ طبقات جلد ٨ ص ٤٢١
تاریخ طبری جلد ١١ ص ٦٤١
اس کے بعد ہم پیش کریں گے کہ جناب عطیہ پر مدلس ہونے کا رد اس کے بعد جناب عطیہ کی ثقات کو کتب اھلسنت سے سکین کی شکل میں پیش کریں گے انشاء اللہ عزوجل
پوسٹ لمبی ھے لہذا قارئین سے التماس ھے کہ اگر کوئ محنت کر کے تحقیق سامنے پیش کرے تو اس کی حوصلہ افزائ ضرور کی جاۓ اور اس کی تحقیق کو پڑھا جاۓ
جہاں تک عطیہ کی تدلیس کا معاملہ ھے اور جہاں تک عطیہ کی تدلیس کی جرح کا تعلق ہے تو اُس کی بنیاد صرف ایک شخص کی روایت پے ہے جس کا نام ہے محمد بن السائب الکلبی ، ابن حبان نے کتاب المجروحین میں لکھا ہے کہ عطیہ نے ابی سعید الخدری سے احادیث کی سماعت کی اور جب ابی سعید الخدری وفات پا گئے تو عطیہ نے کلبی کی روایات کو سُنا اور اور کلبی کو ابو سعید کی کُنیت دے کر اُس سے روایت کرنا شروع کر دیا۔ عطیہ کہتا ہے میں نے یہ حدیث ابو سعید سے سُنی ہے ، لوگوں کو وھم ہوتا کہ ابو سعید الخدری نے بیان کی ہے جب کہ اُس کی مُراد کلبی سے ہوتی تھی۔
جنہوں نے عطیہ پے تدلیس کی تہمت کو قبول کیا ہے انہوں نے کلبی کی اسی حکایت پر اعتماد کیا ہے، جیسا کہ عبداللہ بن احمد سے روایت ہے کہ اُس نے اپنے ابا جی سے سُنا کہ اُس نے عطیہ کو ضعیف قرار دیا اور کہا کہ اُس تک یہ اطلاع پہنچی ہے کہ عطیہ کلبی کو ابو سعید کہہ کر اُس سے روایت کرتا تھا، اسی طرح ایا اور روایت جس کو نقل کیا ہے اس میں امام احمد بن حنبل نے جس طریق سے اُس کو خبر پہنچی وہ بتاتا ہے کہ عبداللہ نے اپنے باپ سے اُس نے ابو احمد الزبیری سے اُس کو سفیان الثوری نے بتایا کہ کلبی نے کہا عطیہ نے اُسے یعنی کلبی کو ابو سعید کی کنیت دی۔وقال عبد الله بن أحمد حدثنا أبي ثنا أبو أحمد الزبيري سمعت الثوري قال: سمعت الكلبي قال: كناني عطية بأبي سعيد.الكامل لابن عدي جلد ٥ /٢٠٠٧
اسی طرح ابن حبان نے ایک اور روایت ابن نضیر کے واسطہ سے نقل کی کہ ابو خالد کو کلبی نے کہا کہ عطیہ نے مجھے ابو سعید کی کنیت دی ہے اور وہ مجھ سے ایسے روایت کرتا ہے حدثنا ابو سعید۔۔۔۔ المجروحين لابن حبان جلد ٢ صفحہ ١٦٨
پس معلوم ہوا جن افراد نے عطیہ پے تدلیس کی تہمت لگائ ہے اُن کی جرح کا دارومدار تنہا کلبی کی روایت پر ہے، احمد بن حنبل نے بھی وہی سند بیان کی جس کی بناء پر اُس نے عطیہ کی تضعیف کا کہا اور وہ سفیان ثوری کے واسطہ سے کلبی کی ہی روایت ہے۔
اب یہاں بہت سنگین صورتحال ہے کیوں کہ اہل سنت پر جب کوئ بات آتی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ کلبی متھم بالکذب ہے جو کہ جرح مفسر ہے تھذیب الکمال جلد ٢٥ صفحہ ٢٤٦ نمبر ٥٢٣٤ اور اس لئے اُس کی روایت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، مگر عجیب دوغلا پن اور منافقت ہے کہ جب کلبی نسب حضرت عمر کے متعلق بتاتا ہے کہ اُن کے ماں باپ بہن بھائ چچا بھتیجی، ماموں بھانجی تھے [الصلابة في معرفة الصحابة٣/٢١٢ اور دیگر شرفاء کی شرافت کو آشکار کرے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے والد محترم عفان کے حالات زندگی بیان کرے تو یہی کلبی متروک الحدیث اور جب ناصبیت چاروں شانے چِت ہونے لگے تو اسی جھوٹے راوی پے اعتماد کر لیا جاتا ہے۔
جیسے کہ صیح مسلم میں لیث ابن سلیم کی روایات ہیں جس کو تمام علماۓ رجال نے ضعیف لکھا ھے
امام یحیی ابن معین نے عطیہ کی تعدیل کی ھے اور پوچھا گیا عطیہ کی حدیث کیسی ھے کہا صالح ھے اور اسی بات کو ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں ابن معین کے قول کی مناسبت سے نقل کیا ھے
ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب جلد ٧ صحفہ ٢٢٥
اسی طرح ثابت ہو جاتا ھے کہ ابن معین کے نزدیک عطیہ کی روایت سے احتجاج کرنا درست ھے کیونکہ ابن معین نے ابی خالد الدقاق کی روایت میں عطیہ کے متعلق کہا ھے لیس بہ باس
کلام یحیحی ابن معین فی الرجال روایت ابن طھمان ص ٨٤
اس کے علاوہ ابن شاھین نے نے عطیہ کو اپنی کتاب الثقات میں درج کیا ھے تاریخ الثقات ممن نقل عنھم العلم ابن شاھین صحفہ ٢٤٧
اس کے علاوہ ابن خزیمہ نے عطیہ کی روایت اپنی صیح میں درج کی ہیں جو کہ ثقہ ہونے پر دلالت رکھتی ہیں ابن حجر کہتے ہیں کہ کتاب ابن خزیمہ بھی قابل احتجاج ھے اسی طرح عطیہ امام ترمذی کے نزدیک بھی صدوق ھے
جیسا کہ ابن حجر نے تعجیل المنفة ص ١٥٣ میں لکھا ھے
طبری نے بھی عطیہ سے روایات کو لیا ھے بلکہ ان روایات کو قوی کا درجہ دیا ھے جس میں عطیہ ھے اور ابن تیمیہ کے نزدیک تفسیر طبری صیح تفسیر ھے جیسا کہ وہ کہتا ھے وأما التفسیر التی فی ایدی الناس
اب ہم ان علماء اھلسنت کے اقوال کو پیش کریں گے جنہوں نے جناب عطیہ کی توثییق کی ھے
اور ثبوت سکین کی صورت میں نیچے پیش کیے جائیں گے
چونکہ روایت میں یہ بھی ملتا ھے جب عطیہ ایران یا فارس کی طرف گئے تو اس وقت حاکم وقت کے حکم سے گرفتار کیے گئے حاکم وقت نے کہا علی ؑ کو گالیاں دو تو چھوڑ دوں گا نہیں تو تمہارے سر کے بال اور آبرو مونڈوا دوں گا لیکن جناب عطیہ نے اپنے سر اور آبرو مونڈوا لیے لیکن علی ع کو گالی نہ دی
سلام ہو ایسے تابعین پر
اہل سنت منابع کے طرازِ اول کے علماءِ رجال و محدثین نے عطیہ عوفی کو ثقہ اور صالح قرار دیا ہے جن میں نامور شخصیات کو بیان کیے دیتا ہوں
۱۔ یحیی ابن معین نے صالح قرار دیا۔
۲۔ ابن جریر طبری نے ثقہ لکھا ہے۔
۳۔ ابن سعد نے طبقات میں توثیق کی ہے۔
٤۔ ابن عدی نے الکامل میں تحریر کیا ہے کہ عطیہ کی احادیث کو لکھا اور نقل کیا جائے گا۔
۵۔ یزید بن ہیثم نے تصریح کی ہے کہ عطیہ کی احادیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔
٦۔ ملا علی قاری نے جلیل القدر تابعی قرار دیا ہے۔
٧۔ ابن حجر عسقلانی نے صدوق قرار دیا ہے۔ البتہ بہت سے موارد میں عطیہ سے خطائیں وارد ہوئی ہیں۔
٨۔ ابو بکر بزّار نے تصریح کی ہے کہ عطیہ شیعہ تھے اور تمام بزرگان عطیہ سے حدیث لیتے اور نقل کرتے ہیں۔
٩ عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے۔
١٠۔ سبط ابن جوزی نے اپنی کتاب مرآۃ الزمان میں عطیہ کو صرف ابن سعد كا قول كر كـ عطيہ کی وثاقت کو بیان کیا ہے
نیچے دئیے گئے سکین جو کہ کتب اھلسنت سے پیش کیے گئے ہیں وہ ثابت کریں گے کہ جناب عطیہ بن سعد العوفی ایک ثقہ راوی اور تابعین میں سے ہیں جن کا نام خود حضرت علی ؑ نے عطیہ رکھا اس لیے ان کی ثقاہت کے لیے یہی قول کافی ھے
کہ قال علی ؑ ھذا عطیة اللہ
تحریر و تحقیق سید ساجد بخاری
فدک کے حوالے سے جب ہم جناب عطیہ العوفی کی ثقاہت کتب فریقین سے ثابت کرتے ہیں تو ان کو جرح مفسر یاد آجاتی ھے پھر ان کو اپنے قواعد حدیث یاد آجاتے ہیں ان کے قواعد حدیث اتنے گھٹیا ہیں کہ بندہ پریشان ہو جاۓ آسان الفاظ میں سمجھا دیتا ہوں جو روایات اہلبیت ع کی شان و فضائل میں وارد ہیں ان میں کسی بھی طرح کے نقائص نکالنا ان کا شیوہ ھے ورنہ ان کے نزدیک ہر اہل بدعت سے روایت جائز ھے
آئیے دیکھتے ہیں کہ ان کی پٹاری سے آج کیا نکلتا ھے
ذہبی جو ان کا فن حدیث اور مایر رجال ھے لکھتا ھے کہ یزید بن ہارون کا مذہب ھے کہ ہر اہل بدعت سے روایت جائز ھے ذہبی نے میزان الاعتدال میں ترجمہ ابراہیم بن الحکم میں نقل کیا ھے ھے کہ قال ابن اھاب سمعت یزید بن ھارون یقول تکتب عن کل صاحب بدعة اذ لم یکن داعیة الا الرافضة فانھم یکذبون
یعنی کہ یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ہر بدعت والے سے روایت درست ھے اگر وہ اپنے مذہب کی تائید میں نہ لایا ہو سواۓ روافض کے کیونکہ وہ جھوٹ کہا کرتے ہیں
روافض سے روایت نہ لینے پر اکثر محدثین جن میں شافعی و شریک ابن مبارک کا اتفاق ھے اسی طرح ذہبی نے توثیق کی کہ اشہاب نے امام مالک سے پوچھا روافض سے حدیث لے سکتے ہیں تو مالک نے کہا نہ انکی بات سنو اور نہ ہی ان سے روایت لو کیونکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں
شافعی محترم جن پے خود رافضیت کا فتوی لگا وہ کہتے ہیں کہ رافضیوں سے جھوٹی گواہی دینے والا میں نے نہیں دیکھا
اگر اہلسنت کے محدثین کا اجماع ھے کہ راوفض سے روایت نہیں لینی تو پھر بخاری اور دیگر کتب صحاح میں ان کی روایات کیوں موجود ہیں
اب ہم مثال دیتے ہیں
عباد بن یعقوب اسدی اور عبدالملک بن اعین کی روایات کو صیحین میں داخل کیا
ان کے متعلق ذہبی میزان میں لکھتا ھے کہ وہ رافضی تھے اور سلف کو گالیاں دیتے تھے
عباد بن یعقوب تو جناب عثمان اور دوسرے اصحاب کو برا بھلا کہتا تھا
اور اس سے ترمذی نسائ بخاری نے روایات کو لیا ھے
دوسرا عبدالملک ابم اعین بھی رافضی تھا
یہاں قواعد حدیث اھلسنت کا شیرازہ بکھرتا نظر آتا ھے ایک طرف تو ان کے آئمہ حدیث روافض سے حدیث لینا مطلقاً حرام سمجھتے ہیں دوسری طرف ان سے روایات لے کر صیحین میں داخل کرتے ہیں
یہ ان کا اصل چہرہ
اور دوسرا جو عطیہ العوفی پر الزام ھے کہ ان کی روایت قابل قبول ہو گی اگر اپنے مذہب کی تائید میں نہ ہو تو یہ قول تو جناب آپ کا اہل بدعت کے لیے ہے روافض سے تو آپ کے قواعد کے مطابق روایت لینا ھی ممنوع ھے
لہذا پہلے اپنے قواعد حدیث کو سنبھال کے رکھیں
ہم سے الجھو گے تو منہ دیکھانے کے بھی قابل نہیں چھوڑیں گے
تحقیق عاجز سید ساجد بخاری