حضرت قیس بن سعد کا حضرت محمد بن ابی بکر کو ان کی شہادت کی خبر کرنا
دور پیغمبر(ص) کے زمانہ میں قیس ایک نوخیز جوان تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر وہ پرچمدار پیامبر(ص) تھے۔ یہ حدیث لو كان العلم متعلقا بالثریا لنالہ ناس من فارس؛دانش اگر ثریا میں بھی ہوتی تو فارس کے جوان اس تک رسائی حاصل کر لیتے۔ قیس نے رسول اللہ سے روایت کی ہے
الاستیعاب، ج۳، ۱۲۹۰؛ ابن اثیر، أسدالغابۃ، ج۴، ص۱۲۶.
حضرت علی علیہ السلام نے حضرت سعد بن قیس کو معزول کرکے حضرت محمد بن ابی بکر کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا ۔ جب حضرت محمد بن ابی بکر قیس بن سعد کے پاس کوفہ پہنچے تو قیس نے فرمایا میری بات غور سے سنو اگر معاویہ تمہاری طرف اس مضمون کا خط لکھے تو تم یہ بات لکھ کر جواب دینا اور جب وہ یہ کام کرے تو تم اسطرح کرنا اور خبردار میرے اس حکم کی مخالفت نہ کرنا اللہ کی قسم میں تمہیں دیکھ رھا ھوں کہ اگر تم میرے حکم کی مخالفت کرو گے تو تم قتل کردیے جاؤ گے اور پھر گدھے کے پیٹ میں ڈال کرچلادیے جاؤ گے راوی کہتا ھے کہ بعد میں ایسا ھی ھوا
مصنف ابن ابی شیبہ جلد 9 کتاب الامراء حدیث نمبر 31352 صفحہ 143
.
.
.

عثمان کی بڑھتی ہوئی بد اعمالیوں سے مجبور ہو کر مدینے میں موجود اصحاب نے مدینہ سے باہر مقیم صاحب کو خط لکھا کہ آپ تو دنیا کی سر بلندی کی خاطر جہاد کے لیے چلے گئے اور یہاں آپ کے خلیفہ نے دینِ خدا کے احکام کو پامال کر دیا ہے مدینہ آئیں اور جس دین کی جڑوں کو خلیفہ کھوکھلا کر رہا ہے اس کے ستون کو مضبوط کیجئے ۔ یہ تمام اصحاب اتفاق رائے سے جمع ہوئے اور عثمان کو قتل کر دیا۔
حوالہ : [ تاریخ طبری – جلد ۴ – صفحہ ٣٦٧ ]

جب حضرت عثمان محاصرے میں لیے گئے تو ( اپنے گھر کے ) اوپر چڑھ کر آپ نے باغیوں سے فرمایا میں تم کو خدا کی قسم دےکر پوچھتا ہوں اور صرف نبی کریم ﷺ کے اصحاب سے قسمیہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہےکہ جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ : [ صحیح بخاری – روایت ٢٧٧٨ ]

ابو سعید خدری سے منقول روایت ہےجو کہ رسول کے بزرگ صحابی ہیں اور اہلسنّت کے نزدیک معتبر اور قابل احترام ہیں ان سے قتلِ عثمان کے متعلق پوچھا گیا کہ کیا اصحاب پیغمبر میں سے کوئی قتل عثمان میں شامل تھا؟ انہوں نے جواب دیا ہاں! میں ٨٠٠ ایسے صحابہ کو جانتا ہوں جو قتل عثمان میں شریک تھے۔
حوالہ : [ تاریخ مدینة المنورہ – جلد۴ – صفحہ١١٧۵ ]

حضرت محمد بن ابی بکر رض ( ابوبکر کے فرزند ) کا کردار :

شمس الدین ذھبی صاحب لکھتے ہیں : محمد بن ابوبکر یہ ان افراد میں سے ہیں جو عثمان کے گھر پر حملہ کرتے ہیں اور یہاں تک کہ عثمان قتل کر دیے جاتے ہیں۔
حوالہ : [ سیر الاعلام النبلاء – جلد ٣ – صفحہ ۴٨٢ ]

محمد بن ابی بکر حضرت عثمان کے پاس پہنچے اور انہوں نے ان کی داڑھی پکڑ لی، اس پر آپ نے فرمایا :
” تم نے جس چہز کو پکڑا ہے اور جس طرح میرے ساتھ سلوک کیا ہے ابوبکر اسے نہیں پکڑتے تھے اور نہ میرے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے”۔
حوالہ : [ تاریخ طبری – جلد ٣ – صفحہ ۴٣٩ ]

امام تابعین حسن بصری اہلسنّت کے ماموں جان محمد بن ابی بکر کو فاسق ابن ابی بکر کہتے تھے ابو الاشھب صاحب کہتے ہیں کہ حسن بصری محمد کا نام نہیں لیتے بلکہ فاسق کہتے تھے ۔
حوالہ : [ الطبقات الکبری ]

جب حضرت عائشہ کو خبر دی گئی کہ عثمان قتل کر دیے گئے ہیں تو حضرت عائشہ نے کہا الله لعنت کرے قاتلینِ عثمان پر اور الله لعنت کرے محمد بن ابی بکر پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت کی سند صحیح ہے۔
حوالہ : [ مجمع الزوائد – روایت ١۴۵٧١ ]

امام بخاری اپنی کتب ” التاریخ الاوسط ” میں روایت بیان کی ہے حضرت کو پتہ چلا کے عثمان قتل ہوگئے ہیں تو حضرت عائشہ نے کہا عثمان مظوم قتل ہوئے الله لعنت کرے عثمان کے قاتلوں پر اور الله لعنت کرے محمد بن ابی بکر پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ : [ التاریخ الاوسط – جلد ١ – صفحہ ١٩٨ – روایت ٣٣٠ ]

السید محمود شکری الالوسی کہتا ہے ابن سباء نے کچھ ایسے افراد کی تربیت کی جو دھوکہ دینے میں بڑی مہارت رکھتے تھے وہ جھوٹی خبریں لکھنے اور جھوٹ بولنے میں مہارت رکھتے تھے وہ لوگوں کو اپنی طرف کرنے کے لیے بہت سے ہاتھکنڈے استعمال کرتے تھے۔ پھر ابن سباء نے ان لوگوں کو کوفہ ، بصرہ اور دیگر قریب قریب علاقوں میں پھیلا دیا ۔۔۔۔۔ ان افراد کی فہرست میں ١) عبدالرحمن بن عدیس ، ٢) کنانة بن بشر ، ٣) سودان بن حمران ، ۴) عبدالله بن زید بن ورقاء ، ۵) عمرو بن الحمو الخزاعی ، ٦) حرقوص بن زھیر ، ٧) حکیم ابن جبلہ ، ٨) مالک اشتر ٩) محمد بن ابی بکر {فرزند ابوبکر} ، ١٠) محمد بن ابی حذیفہ ، ١١) عمار بن یاسر وغیرہ شامل تھے۔
حوالہ : [ مختصر تحفہ اثنا عشریہ – صفحہ ٣٣٧ ، ٣٣٨ ]
.
.
.