تدوین حدیث اور مولاۓ کائنات علی ابن ابی طالب ؑ

قارئین محترم بعد از وفات رسول خدا ﷺ احادیث نبویہ کو یاد رکھنا یا اکٹھا کرنا ایک مشکل ترین مرحلہ تھا کیونکہ آپ ﷺ کے دور رسالت میں آپ ﷺ کا ہر فعل اور قول حدیث کا ہی درجہ رکھتا تھا
اور تدوین حدیث کی ضرورت خلیفہ دوئم جناب عمر کے دور خلافت میں ہی پڑ چکی تھی مگر قرآن سے بے توجہی کے خوف نے مجبوراً خلفاء نے اس سے باز رکھا تھا
اگر احادیث کو بھی قڑآن کی طرح دور خلفاء میں مدون کر دیا چاہتا تو میرا نہیں خیال کہ یہ امت مسلمہ اس قدر فرقہ بندیوں اور گروہ در گروہ میں تقسیم ہو پاتی آج احادیث میں جو بھی شبھات اور شکوک اسناد ہیں اور الفاظ کے اختلاف پیش آتے ہیں وہ ان کی تدوین و جمع کے بعد پیش نہیں آسکتے تھے مگر قدرت کو یہ منظور نہیں تھا
جبکہ جناب مولاۓ کائنات علی ؑ کا نظریہ خلفاء سے مستقل طور پر الگ تھا
کیونکہ آپ فرماتے تھے قیدالعلم فی الکتابہ
علمی مطالب کو قلم بند کرو اور قید تحریر میں لاو
اس سلسلے میں سب سے پہلی تصنیف حضرت امیر المومنینؑ کی ہی ملتی ھے
جو آپ نے حضرت رسول خدا ﷺ کے ارشاد مبارک سے فرمائ تھی
اس کا پتا بخاری شریف کی حدیث سے ملتا ھے
علی ؑچونکہ باب علم نبوت ہیں ، کوفہ کی علمی مجالس ابن مسعود اور آپ کی تعلیمات کی رہین منت تھیں ،آپکے پاس احادیث نبویہ اوراحکام شرعیہ پر مشتمل ایک صحیفہ تھا جسکو خود آپ نے تحریر فرمایا تھا ۔
فرماتے ہیں: ۔
ماکتبنا عن النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الا القرآن وما فی ہذہ الصحیفۃ ۔(الجا مع للبخا ری باب ما یکرہ من العمق الخ ۲/۱۰۸۴)
ہم نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قرآن کریم اوراس صحیفہ کے سوا کچھ نہ لکھا ۔
یہ صحیفہ چمڑے کے ایک تھیلے میں تھا ،اس میں آپکی تلواربھی رہتی تھی ،اس میں خون بہا ، اسیروں کی رہائی ،کافرکے بدلے مسلمان کو قتل نہ کرنا ،حرم مدینہ کے حدود اور اسکی حرمت ،غیرکی طرف انتساب کی ممانعت ،نقض عہد کی برائی کے احکام و مسائل درج تھے ۔(الجا مع البخاری باب مایکرہ من العمق الخ ۲/۱۰۸۴
دوسری حدیث بھی بخاری شریف کی کتاب الفرائض میں موجود ھے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : مَا عِنْدَنَا كِتَابٌ نَقْرَؤُهُ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ غَيْرَ هَذِهِ الصَّحِيفَةِ ، قَالَ : فَأَخْرَجَهَا فَإِذَا فِيهَا أَشْيَاءُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ وَأَسْنَانِ الْإِبِلِ ، قَالَ : وَفِيهَا الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ ، وَمَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ ، وَالْمَلَائِكَةِ ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ ، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ ، يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ ، وَالْمَلَائِكَةِ ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، صَرْفٌ
علی ؑ نے بتایا کہ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھیں، سوا اللہ کی کتاب قرآن کے اور اس کے علاوہ یہ صحیفہ بھی ہے۔ بیان کیا کہ پھر وہ صحیفہ نکالا تو اس میں زخموں ( کے قصاص ) اور اونٹوں کی زکوٰۃ کے مسائل تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ اس میں یہ بھی تھا کے عیر سے ثور تک مدینہ حرم ہے جس نے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی یا نئی بات کرنے والے کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے اور قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہو گا اور جس نے اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر دوسرے لوگوں سے مولات قائم کر لی تو اس پر فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے، قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہو گا اور مسلمانوں کا ذمہ ( قول و قرار، کسی کو پناہ دینا وغیرہ ) ایک ہے۔ ایک ادنی مسلمان کے پناہ دینے کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ پس جس نے کسی مسلمان کی دی ہوئی پناہ کو توڑا، اس پر اللہ کی، فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جائے گا۔
بخاری کتاب الفرائض حدیث 6755
اسی طرح صیح مسلم میں کتاب الحج باب فضل مدینہ میں بھی پانچ طریق سے اس کا تذکرہ موجود ھے
قارئین محترم صحیفہ علی ؑ یا کتاب علی ؑ دوسری صدی ہجری تک اہلبیت اطہار ؑ کے پاس موجود رہی جس کا اثبات کتاب بصائر الدرجات کی ایک روایت سے ملتا ھے
شیخ محمد بن حسن الصفار جو مولا امام حسن عسکری ؑ کے معاصر اور آپ کے اصحاب میں شامل ہیں ان کی کتاب بصائر الدرجات میں عبدالملک سے ایک روایت منقول ھے
لکھتے ہیں دعا ابو جعفر بکتابہ علی فجاء بہ جعفر مثل فخذالرجل مطویا فاذافیہ ان النساء ولیس لمن من عقد الرجل اذاتوفی عنھن یبشی فقال ابو جعفر ھذا واللہ خط علی بیدہ واما رسول اللہ ﷺ
امام باقر ؑ نے جناب امیر ؑ کی کتاب منگوائ امام جعفر صادق ؑ اس کتاب کو لپٹا ہوۓ لاۓ اس میں یہ تھا کہ عورتوں کو اپنے شوہر کی غیر منقولہ جائداد سے کچھ نہیں ملے گا اور جناب رسول اللہ ﷺ کی لکھوائ ہوئ حدثیں تھیں
وسائل الشیعہ
قارئین محترم
تدوین حدیث میں جناب امیر ؑ کے ہاتھ کا قلمی نسخہ یا جس کو کتاب علی ؑ کا نام دیا گیا
اس کو بہت سے علماء نے ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن نہیں مل سکا ایک روایت کے تحت باقر مجلسی ؒ نے اس کو ڈھونڈنے کے لیے زر کثیر خرچ کیا لیکن وہ بھی اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے
سید ساجد بخاری