جہاں ابن حبان نے یہ کہا کہ امام کی قبر پر جا کر اس کی حاجات پوری ہوتی ہیں
وہی پر اس خبیث نے امام علی رضا [ صلوت اللہ و سلامہ ] کا ترجمہ اپنی کتاب ” المجروحون ” میں نقل کیا اور کہا :
یروی عن ابیه العجائب كانه كان يهم و يخطئ
یہ اپنے والد [ امام موسی کاظم علیہ السلام ] سے عجیب و غریب [ اخبار ] روایت کرتے ہیں گویا وہ وہم کا شکار تھے اور خطا کر جاتے تھے۔
تبصرہ : جس عترت کو تھامے رہنے کا حکم تھا ، جس عترت کی وجہ سے ضلالت و گمراہی سے بچا جا سکتا ہے ان پر یہ ظالم ” کان یھم و یخطئ ” کا الزام لگاتے ہیں۔


” كان يهم و يخطئ [ وہ وہم میں کا شکار تھے اور خطا کر جایا کرتے تھے ” کس کے لیئے ؟
ہم نے اپنی سابقہ پوسٹ میں بیان کیا ابن حبان ملعون نے امام علی رضا [ صلوت اللہ و سلامہ علیہ ] پر جرح کے کلمات منسوب کیئے
اس پر ایک بدزبان شخص بنام ” وقار احمد ” نے کچھ یوں کلام کیا :
رافضی ہو اور جھوٹ نا بولو کیسے ہوسکتا ہے میں تبھی کہتا ہوں آپ کا سارا مذھب اسی جھوٹ پر کھڑا ہے اور جہلاء کا ٹبر اس مذھب میں موجود ہے۔
روی عنہ ابو الصلت والی عبارت بیچ سے اڑا دی اور اسکو عجائب سے متصل کردیا اور ترجمہ کردیا۔۔۔
جس سے پوری عبارت کا مفھوم ہی بدل دیا پوری عبارت کا ترجمہ یہ ہے جسکو تم نے بیچ سے کاٹ کر کیا کیا سے بنادیا
“یہ اپنے والد سے عجائب نقل کرتا ہے اور اس سے ابوصلت روایت کرتا ہے اور وہ ان سے روایت کرنے میں میں وہم اور خطاء کا شکار ہے”
وہم اور خطاء کا تعلق ابوالصلت سے ہے تم نے اسکو اپنا الو ثابت کرنے کے لیے عبارت بیچ سے اڑا دی اور اسکو کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ [ وقاص صاحب کا کلام مکمل ہوا ]
اقول : آپ کو اس طرح کی زبان استعمال کرنا کس سے سیکھی ہے ؟! کیا آپ میں ادب اور تمیز نامی کوئی چیز نہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح الفاظ سے آپ اپنے مخالف کو زیر کر دیں گے ؟
میں اس پر زیادہ کلام نہیں کرتا بس اتنا کہوں گا کہ نبی اکرم [ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ] کی ذات صفات والا میں ہمارے لیے اسوہ ہے۔
اب ہم آتے ہیں اپنے جواب پر
معزز قارئین
یہ صاحب عربی ادب اور کتابوں کے اسلوب سے نابلد معلوم ہوتے ہیں
کتب رجال کی روش یہ ہے کہ راوی کے نام کا ٹائٹل اور اس کے ذیل میں دو اشیاء ہوتی ہیں
روی عن۔۔
روی عنہ۔۔
یعنی وہ کس سے روایت کرتے ہیں
اور ان سے کون روایت کرتا ہے
روی عن اور روی عنہ کے بعد راوی پر کلام ہوتا ہے
تو گویا ” یروی عن ابیہ العجائب و روی عنہ ابو الصلت ” اس جملہ کی حیثیت ” جملہ معترضہ ” کی ہے۔
ہماری مستدلہ دو عبارات تھیں:
1 :- یروی عن ابيه العجائب [ یہ اپنے والد سے عجیب و غریب روایتیں بیان کرتے ہیں ]
اس کو جناب وقار احمد نے تسلیم کیا [ اسی لیے انہوں نے بھئ اس روایت کا وہی ترجمہ کیا ]
2 :- کان یھم و یخطئ [ وہ وہم کا شکار تھے اور خطا کر جایا کرتے تھے ]
اس مورد پر جناب وقاص نے اختلاف کیا اور دعویدار ہوئے کہ یہ ” ابو صلت الھروی ” پر جرح ہے نہ کہ امامِ عالی مقام پر
اب ہم انہیں ، انہیں کے علماء کی تصریحات پیش کرتے ہیں جنہوں نے ان جملوں کو امام ہی کے لیے سمجھا ہے ؛
پہلا حوالہ ؛ کتاب ” زوائد سنن ابی الحسن علی بن عمر دارقطنی علی الکتب الستة “
محقق روایت پر جرح کرتے ہوئے لکھا ہے ؛
علي بن موسی ۔۔۔۔یلقب بالرضی
قلتُ : قال ابو حاتم بن حبان یروی عن ابیه العجائب كانه كان يهم و يخطئ
علي بن موسی الرضا میں کہتا ہوں کہ ابن حبان نے کہا : وہ اپنے باپ سے عجیب و غریب روایات بیان کرتا ہے اور خطا کا ارتکاب کرتا ہے
تبصرہ : وقار صاحب ! انہوں نے بھی ابو صلت والے ” جملہ معترضہ ” کو اڑا دیا اب آپ ان کے کیے کیا القاب استعمال فرمائیں گے؟
دوسرا حوالہ : کتاب ” الروض البسام بترتیب و تخریج فوائد تمام ” جناب جاسم بن سلیمان ” کی
وہ بھی ابو الصلت والے جملہ معترضہ کو اڑا کر ابن حبان کی جرح نقل کرتے ہیں :
و قد تکلم في علی ابن موسی رضا بسبب ھذہ الاحاديث
اور ان [ منکر ] احادیث کی وجہ سے علی بن موسی رضا پر بھی کلام [ طعن ] کہا گیا ہے
قال بن حبان في المجروحین :
یروی عن ابیه العجائب كانه كان يهم و يخطئ
تبصرہ : وقار صاحب دیکھئے گا کہیں یہ محقق ” رافضی ” تو نہیں؟!
تیسرا حوالہ : کتاب ” الوضع في الحدیث ” کا اس کے حاشیہ میں دکتور عمر بن حسن عثمان ” لکھتے ہیں:
قال ابن حبان في علی بن موسی الرضا :
یروی عن ابیه العجائب كانه كان يهم و يخطئ
ترجمہ: ابن حبان نے علی بن موسی الرضا سے متعلق کہا :
یہ اپنے بابا سے۔۔۔۔الخ
تبصرہ : وقار صاحب ذرا دیکھئے گا یہ دکتور ” عمر ” کہیں رافضی اور جھوٹا تو نہیں؟!
چوتھا حوالہ : اتحاف السادة المتقين ” کا
مقدمہ میں ابن حبان کی جرح نقل کرتے ہیں
آپ اسکین پیج دیکھ لیجیے
میرے پاس اس قدر حوالہ ہیں کہ میں پریشان ہوں کہ کیا کیا نقل کروں
مثلا ابن حبان کے ” تعارضات ” میں بھی محققین نے یہ لکھا کہ کیسے ابن حبان ایک طرف ثقات میں امام کا ترجمہ نقل کرتا ہے تو دوسری طرف مجروحین میں لکھتا ہے ” یھم و یخطئ؟! “
اور لوگو نے امام عالی مقام [ علیہ السلام ] پر اس جرح کا دفاع بھئ کیا ہے کہ دراصل امام بری ہونگے روات نے امام پر جھوٹ باندھا ہوگا [ اور یہ دفاع بذات خود دلیل ہے کہ “کلمات جرح ” امام کے لیے وارد ہوئے ہیں ]
لیکن میں اپنے قارئین کو تھکانا نہیں چاہتا اسی پر اکتفاء کرتا ہوں
اجازت دیجئے
و السلام