بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
.
اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں لکھا ہے کہ
.
معاذ اللہ نبی کریم ص نے زید بن عمرو کے سامنے دستر خوان بچھایا جس پر بتوں کے نام پر کی گئی قربانی کا گوشت رکھا تھا
.
📜 عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ زید بن عمرو بن نفیل سے بلدح کے نشیب میں ملے۔ اس اس وقت کا ذکر ہے جب آپ پر وحی نہیں اتری تھی۔
آںحضرت ﷺ نے زید کے سامنے ایک دستر خوان بچھایا جس پر گوشت رکھا تھا زید نے اس کے کھانے سے انکار کیا
پھر کہنے لگے میں ان جانوروں کا گوشت نہیں کھاتا جن کو تم بتوں کے تھانوں پر ذبح کرتے ہو میں تو اسی جانور کا گوشت کھاتا ہوں جو اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے
📚 صحیح بخاری شریف
👈🏼 معاذ اللہ زید بن عمرو دور جاھلیت اور قبل بعثت رسول(ص) سے زیادہ توحید والے تھے
معاذ اللہ رسول اسلام (ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرح بت و اصنام رکھتے تھے، اور انھیں کے نام پر حیوانوں کو ذبح کر کے ان کا گوشت تناول فرماتے تھے۔
”انی لا آکل مما تذ بحون علی انصابکم ولا آکل الا مما ذکراسم اللّٰہ علیہ “
لیکن زید ان بتوں اور بت پرستی سے دور وادیِ توحید کے باشندہ تھے!!
اس سے بھی صریح تر ایک اور دوسری حدیث ھے جس کو احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں نوفل بن ھشام بن سعد بن زید سے نقل کیا ھے
📜 ایک مرتبہ رسول خدا(ص) ابو سفیان کے ساتھ ایسے حیوان کے گوشت کو تناول فرمارھے تھے جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا تھا، جب زید کو کھانے کے لئے بلایا گیا تو زید نے انکار کر دیا، اور اس کے بعدرسول اسلام (ص) بھی زید کی پیروی کرتے هوئے اٹھ کھڑے هوئے، اور اس کے بعد سے رسول اکرم (ص) نے اعلان ِ بعثت تک اس گوشت کو نھیں کھایا جو اصنام و ازلام کے نام پر ذبح کیا جاتا
📚 مسند احمد بن حنبل،ص۱۸۹
معاذاللہ رسول پاک ص حالت حیض میں عائشہ کی گود میں سر رکھ کر قرآن پڑھتے تھے
اہلسنت کی بہت ہی مشہور کتاب صحیح بخاری شریف کی اس روایت میں رسول پاک ص کی توہین کی گئی ہے:
حائضہ عورت ایام حیض میں نماز نہیں پڑھ سکتی۔‼
قرآن اور دوسری مقدس چیزوں کو ہاتھ نہیں لگاسکتی۔‼
اور یہاں رسول پاک ص کی یہ توہین کی جا رہی ہے کہ بجائے دوسری جگہ قرآن پڑھنے کے وہ ایام حیض میں عائشہ ہی کی گود میں سر رکھ کر قرآن پاک پڑھتے تھے۔(معاذاللہ)
توہین رسولﷺ: رسولﷺ کی نمازیں قضا ہوجاتی، بغیر وضو نماز پڑھا دیتے ، زیادہ رکعتیں پڑھا دیتے۔ ( معاذاللہ )
.
معاذالله رسولﷺ کی نمازیں قضا ہو جاتیں تھی
📜 ہم ( خیبر سے لوٹ کر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات میں سفر کر رہے تھے۔ کسی نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ اب پڑاؤ ڈال دیتے تو بہتر ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں نماز کے وقت بھی تم سوتے نہ رہ جاؤ۔ اس پر بلال رضی اللہ عنہ بولے کہ میں آپ سب لوگوں کو جگا دوں گا۔ چنانچہ سب لوگ لیٹ گئے۔ اور بلال رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی پیٹھ کجاوہ سے لگا لی۔ اور ان کی بھی آنکھ لگ گئی اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو سورج کے اوپر کا حصہ نکل چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال! تو نے کیا کہا تھا۔ وہ بولے آج جیسی نیند مجھے کبھی نہیں آئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ارواح کو جب چاہتا ہے قبض کر لیتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے واپس کر دیتا ہے۔ اے بلال! اٹھ اور اذان دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جب سورج بلند ہو کر روشن ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی۔
.
📜 عمر بن خطاب غزوہ خندق کے موقع پر ( ایک مرتبہ ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ اور آپ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! سورج غروب ہو گیا، اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہو سکا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں نے بھی نہیں پڑھی۔ پھر ہم وادی بطحان میں گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا، ہم نے بھی وضو بنایا۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔
📚 حوالہ : [ حدیث نمبر ۵٩۵ ؛ ۵٩٦ ]
معاذالله رسولﷺ نے بغیر وضو کیے نماز پڑھی۔
📜 میں ایک رات ام المؤمنین میمونہ کے ہاں سو گیا۔ اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وہیں سونے کی باری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکڑ کر دائیں طرف کر دیا۔ پھر تیرہ رکعت ( وتر سمیت ) نماز پڑھی اور سو گئے۔ یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے اور نبی کریمؐ جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے۔ پھر مؤذن آیا تو آپؐ باہر تشریف لے گئے۔ آپؐ نے اس کے بعد ( فجر کی ) نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ عمرو نے بیان کیا میں نے یہ حدیث بکیر بن عبداللہ کے سامنے بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث مجھ سے کریب نے بھی بیان کی تھی۔
📚 حوالہ : [ حدیث نمبر ٦٩٨ ]
معاذالله رسولﷺ نےظہر کی چار رکعتوں کے بجائے پانچ پڑھادیں
📜 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بھولے سے ) ظہر کی نماز ( ایک مرتبہ ) پانچ رکعت پڑھی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر آپ نے اپنے پاؤں موڑ لیے اور ( سہو کے ) دو سجدے کئے۔
📚 حوالہ : [ حدیث نمبر ۴٠۴ ]
🖋نتیجہ : معاذالله رسول ﷺ رکعتیں بھول جانا چار کی پانچ پڑھاناسب ایک سازش کےتحت ہےحقیقت یہ ہے کہ کوئی اور جمعہ کی نماز بدھ کو پڑھا رہا تھا توضروری تھا کہ منافق کی غلطی کو صحیح کرنے کے لیے رسولؐ سے غلطی کرائی جائے۔
.
توہینِ رسولﷺ : حضورؐ کا اپنی ازواجؓ کو پردہ نہ کروانا۔
پردہ عمر کی وجہ سے واجب ہوا۔
📜 عائشہؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں رات میں مناصع کی طرف قضاء حاجت کے لیے جاتیں اور مناصع ایک کھلا میدان ہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ اپنی بیویوں کو پردہ کرائیے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل نہیں کیا۔ ایک روز رات کو عشاء کے وقت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ جو دراز قد عورت تھیں، ( باہر ) گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں آواز دی ( اور کہا ) ہم نے تمہیں پہچان لیا اور ان کی خواہش یہ تھی کہ پردہ ( کا حکم ) نازل ہو جائے۔ چنانچہ ( اس کے بعد ) اللہ نے پردہ ( کا حکم ) نازل فرما دیا۔
📚 حوالہ : حدیث نمبر ١۴٦
🖋نتیجہ : اس روایت سے یہ ثابت ہوتا یے کہ معاذالله رسولﷺ سے زیادہ حضرت عمر کو غیرت آتی تھی کہ حضورﷺ کی بیویاں باہر نکلتی تھی۔ حضرت عمر کی بھی کیا بات یے کبھی نبی کی بیویوں کو آوازیں لگاتے ہیں تو کبھی گلی میں نماز کےلیے جاتی ہوئی اپنی بیوی کی دبرشریف پر ہاتھ لگا کر بھاگ جاتےہیں۔ استغفرالله
رسول ﷺ اپنی نبوت سے لاعلم اور گناہگار تھے۔
.
*معاذالله رسولﷺکو علم نہیں تھا کہ وہ نبی بن گئے *
📜 ہم کو یحییٰ بن بکیر نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ہم کو لیث نے خبر دی، لیث عقیل سے روایت کرتے ہیں۔ عقیل ابن شہاب سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا۔ پھر من جانب قدرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی پسند ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت اور یاد الٰہی و ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔ جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لیے ہوئے وہاں رہتے۔ توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے اور کچھ توشہ ہمراہ لے کر پھر وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے، یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حق منکشف ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے کہ اچانک جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! پڑھو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے۔ پس یہی آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اڑھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر جاتا رہا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ پھر مزید تسلی کے لیے خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے، چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ ( انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔ ورقہ اسی کو لکھتے تھے ) وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کیے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجیئے وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کی تفصیل سناؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا، جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس ( معزز راز دان فرشتہ ) ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ ( حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں ) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے۔ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔ پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔
📚 حوالہ : حدیث نمبر ٣
.
🖋 نتیجہ : بخاری شریف کی اس روایت کو پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ:
١۔ معاذالله رسولﷺ کو جبرئیل زور زور سے دبا کر زبردستی پڑھنےکو کہہ رہےہیں۔ ایک طرف قرآن کہہ رہاہے کہ “دین میں کوئی جبر نہیں” اور دوسری طرف دین پہنچانے والے نبی پر ہی جبر کر رہے ہیں ۔
٢۔ اس روایت سے دوسری بات یہ سامنے آرہی ہےکہ معاذالله رسولﷺکو رسالت ملنے کی وجہ سے جان خطرے میں نظر آرہی ہے اور ان کو علم ہی نہیں کہ وہ نبی بن گئے ہیں اور اس پر تماشہ یہ کہ ایک عیسائی ان کی نبوت کی تصدق کررہا ہے۔ایک طرف حضرت عیسیٰؑ اپنی نبوت کا اعلان آغوشِ مادر میں کررہے ہیں دوسری طرف قرآن لانے والے کی نبوت کا اعلان ایک عیسائی کررہا ہے۔
اس روایت میں ایک یہ بھی منظر ہےکہ معاذالله رسولﷺ فرشتہ کو دیکھ کر ڈر گئے اور گھر چلے آئے جبکہ قرآن میں بھی اسی ڈرنے والے کو ڈرانے والا بتارہا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہےکہ نبی کا ڈر جانا کچھ بزدلوں کےڈر کو جائز بنانے کے لیےگڑھا گیا ہے ۔
معاذالله رسولﷺ گناہگار تھے۔
📜 عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی ( اس پر ) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں ( آپ تو معصوم ہیں ) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ ( اس لیے ہمیں اپنے سے کچھ زیادہ عبادت کرنے کا حکم فرمائیے ) ( یہ سن کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے حتیٰ کہ خفگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہونے لگی۔ پھر فرمایا کہ بیشک میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اسے جانتا ہوں۔ ( پس تم مجھ سے بڑھ کر عبادت نہیں کر سکتے ) ۔
📚حوالہ : حدیث نمبر ٢٠
🖋 نتیجہ : اس روایت سے معاذاللہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی معصوم نہیں گناہگار تھےاور ان میں اور امت میں یہی فرق تھاکہ الله نے ان کے گناہ معاف کردے تھے ۔

