عبداللہ بن عباس کے مطابق قرآن میں کتابت کی غلطی موجود ہے
تحریر : ذوالفقار مشرقی
ابن ابی حاتم الرازی نے اپنے تفسیر میں اس آیت – اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ (الله آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو) – کے زیل میں یوں لکھا :
📜 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ شِبْلِ بْنِ عَبَّادٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: اللَّهُ نور السماوات والأرض مثل نُورِهِ
قَالَ: هِيَ خَطَأٌ مِنَ الْكَاتِبِ هُوَ أَعْظَمُ مِنْ أَنْ يَكُونَ نُورُهُ مِثْلَ نُورِ الْمِشْكَاةِ قَالَ:
مَثَلُ نُورِ الْمُؤْمِنِ كَمِشْكَاةٍ.
📝 اپنی سند سے ابن عباس سے روایت ہے اس آیت ” اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ ۔۔( الله آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال۔۔۔) کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہاں کاتب سے غلطی ہوئی ہے۔ وہ ذات بلند ہے اس سے کہ اس کے نور کو چراغ سے مثال دی جائے، اور اصل میں یہ آیت اس طرح سے تھی:-
مَثَلُ نُورِ الْمُؤْمِنِ كَمِشْكَاةٍ یعنی مومن کا نور چراغ کی مانند ہے۔
📚 موسوعہ مدرسۃ المکہ فی التفسیر – تفسیر ابن عباس – جمع و ترتیب ا،د العمرانی // جلد ۳ // صفحہ ۱۱۴۶ // طبع دار السلام قاھرہ مصر۔
اسکے راویوں کا حال کچھ اس طرح ہے :
علی بن حسین بن الجنید الرازی، ابو الحسن۔ یہ ابن ابی حاتم کا استاد تھا۔ اسکے بارے میں خود ابن ابی حاتم یوں لکھتا ہے :
“میں نے اس سے لکھا۔ یہ ثقہ اور صدوق تھا۔”
📚 کتاب جرح و تعدیل – ابن ابی حاتم // جلد ۶ // صفحہ ۱۴۰ // رقم ۹۸۱ // طبع دار الفکر بیروت لبنان۔
نصر بن علی بن نصر بن علی جھضمی۔
ابن حجر نے اسکے بارے میں کہا : ثقہ ثبت۔
📚 تقریب التہذیب – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۵۹۰ // رقم ۷۱۲۰ // طبع دار المنھاج بیروت لبنان۔
علی بن نصر بن علی جھضمی۔
ابن حجر نے اسکے بارے میں کہا : ثقہ حافظ۔
📚 تقریب التہذیب – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۴۳۷ // رقم ۴۸۰۸ // طبع دار المنھاج بیروت لبنان۔
شبل بن عباد۔ یہ مکہ کا مشہور قاری تھا۔
احمد بن حنبل نے اپنی کتاب العلل میں اسکو ثقہ قرار دیا۔
📚 کتاب العلل و معرفہ الرجال – عبداللہ بن احمد بن حنبل // جلد ۳ // صفحہ ۲۶۰ // رقم ۵۱۴۸ // طبع دار القبس ریاض سعودیہ۔
قیس بن سعد المکی۔
ابن حجر نے انکے بارے میں یوں کہا : ثقہ۔
📚 تقریب التہذیب – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۴۸۷ // رقم ۵۵۷۷ // طبع دار المنھاج بیروت لبنان۔
عطاء بن ابی رباح۔ یہ عبداللہ بن عباس کے خاص شاگردوں میں سے تھا۔
ابن حجر نے اسکے بارے میں یوں لکھا : ثقہ فقیہ فاضل۔
📚 تقریب التہذیب – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۴۲۲ // رقم ۴۵۹۱ // طبع دار المنھاج بیروت لبنان
لہذا ثابت ہوا کہ یہ روایت بلکل صحیح ہے اور اسکے راوی اونچھے درجے کے ثقہ رواہ ہے۔
جو لوگ کچھ شیعہ پر تحریف قرآن کی وجہ سے کفر کا فتواہ لگاتے ہیں۔ کیا وہی فتواہ عبداللہ بن عباس پر بھی لگے گا یا یہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت سے بالاتر ہے۔