کیا رسول اللّه ص نے ابو طالب ع کا دودھ پیا ؟

کیا رسول اللّه ص نے ابو طالب ع کا دودھ پیا ؟

ناصبیوں کا اعتراض 👇🏼

جواب

جواب سے پہلے ہم انہی کے سینڈ کئے گئے اسکین پیجز سے آپکو اسکی سند دکھا دیتے ہیں تاکہ جواب دینے میں آسانی رہے

یہ روایت اصول کافی میں کچھ اس طرح کے سند کے ساتھ ذکر ہے

محمد بن یحیى، عن سعد بن عبدالله، عن إبراهیم بن محمد الثقفی، عن علی بن المعلى، عن أخیه محمد، عن درست بن أبی منصور، عن علی بن أبی حمزة عن أبی بصیر، عن أبی عبدالله علیه السلام قال: لما ولد النبی صلى الله علیه وآله مکث أیاما لیس له لبن، فألقاه أبوطالب على ثدی نفسه، فأنزل الله فیه لبنا فرضع منه أیاما حتى وقع أبوطالب على حلیمة السعدیة فدفعه إلیها

.

ترجمہ :

جب رسول اللہ پیدا ہوئے تو چند دن تک ان کی والدہ کے دودھ نہ اترا ۔ ابوطالب نے ان کو اپنی چھاتی سے لگایا خدا نے دودھ اتار دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی رضاعت اس سے ہوئی پھر ابوطالب نے ان کو حلیمہ سعدیہ کے سپرد کیا،

.

اصول کافی کتاب حجت باب مولد النبی و وفاتہ حدیث نمبر ۲۷

.

اس روایت میں دو راوی مجہول ہیں ،

.

1: علی بن معلی،

علی بن المعلى : روى عدة روایات مجهول.

المفید من معجم رجال الحدیث،ص414

علی بن معلی نے کئی روایات نقل کی ہیں مجہول راوی ہے،

2: محمد بن معلی:

محمد بن المعلی : لم یذکروه.

مستدرکات علم رجال الحدیث،ج7،ص334

محمد بن المعلی : روى روایة فی الکافی ج 1 کتاب الحجة ، باب مولد النبی ( ص ) ووفاته ح 27 – مجهول.

المفید من معجم رجال الحدیث،ص579

محمد بن معلی کہ جس نے کافی کے کتاب حجت ، باب مولد النبی و وفاتہ میں ایک روایت نقل کی ہے، مجہول راوی ہے،

اسکے علاوہ

شیخ شعرانی نے شرح اصول کافی جلد 7 ص 181 میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد حاشیہ پر لکھا کہ

اس کا راوی علی ابن ابی حمزہ ملعون متھم بالکزاب ہے

علامہ علی غفاری رح نے اس روایت کو اپنی تحقیق میں الکافی کے حاشیہ پر

اس روایت کے راوی علی ابن ابی حمزہ کو ملعون اور جھوٹا کہا۔

.

علي بن أبي حمزة البطائني
المصدر الأول – الرجال لإبن الغضائري – صفحة

المصدر الأول – رجال النجاشي – صفحة 239

المصدر الثالث – الفهرست – الشيخ الطوسي – صفحة 96

المصدر الرابع – التحرير الطاووسي – صفحة 175

رجال بن داود الحلي – صفحة 477

خلاصة الأقوال – العلامة الحلي – صفحة 362

.

اسی طرح ایک راوی درست بن أبي منصور – واقفي المذهب تھا یعنی غیر شیعہ تھا

المصدر الثاني – رجال الطوسي – صفحة 336

رجال الكشي – صفحة 459

التحرير الطاووسي – صفحة 101

اسی طرح اصول کافی کا فارسی میں ترجمہ کرنے والے حجت الاسلام والمسلمین استاد صفوی لکھتے ہیں کہ

این روایت از لحاظ سند ضعیف و غیر قابل اعتماد است،

اصول کافی – ترجمه ی مصطفوی،ج2،ص339

.

یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف اور قابل قبول نہیں ہے،

اسی طرح بحار الانوار کے محقق نے بھی لکھا ہے کہ

الحدیث لا تخلو عن غرابة، و فی إسناده جماعة لا یحتج بحدیثهم‏.

بحار الانوار،ج15،ص340

یہ حدیث غرابت سے خالی نہیں ، اس کی سند میں ایسے لوگ ہیں کہ جن کی روایات سے احتجاج نہیں کیا جاسکے گا۔

علامہ مجلسی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب مراۃ العقول میں اس روایت کو ضعیف لکھا ہے۔

مراۃ العقول ج ۵ ص ۲۵۲

پس یہ روایت ضعیف ہے اور ایسی روایات کو پیش کرکے کسی مذھب کو زیر سوال اٹھانا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔

.

البتہ اگر اہل سنت اپنی کتابوں کو پڑھتے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ یہ باتیں صحیح اسناد کے ساتھ خود ان کی کتابوں میں لکھی ہیں ، تاریخ بغداد میں روایت ہے کہ

.

أَخْبَرَنَاها أبو الحسن محمد بن أسد بن علی بن سعید الکاتب، والحسن بن أبی بکر قالا: أَخْبَرَنَا أبو عمرو عبد الملک بن الحسن بن یوسف المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا أحمد بن أبی عوف، قَالَ: سمعت أبی وعمی، یقولان کنا فی مجلس یزید بن هارون فی بستان أم جعفر، فرأینا فیه رجلا خلاسیا طوالا، وعلى یدیه صبی یرضع منه، فقال ذاک الرجل: إن أم هذا الصبی ولدته وتوفیت بأرض مفازة، أو أرض فلاة، فألقیته على ثدیی أعلله، فأجرى الله له هذا الرزق، فرأیناه والثدی یدر علیه

تاریخ بغداد،ج15،ص146و147 ط دار الغرب الاسلامی

احمد بن ابی عوف نے اپنے والد اور چچا سے روایت کی ہے وہ کہہ رہے تھے کہ ہم یزید بن ہارون کے ہاں ام جعفر کے باغ میں بیٹھے تھے ، کہ ہم نے بلند قد کا خلاسی[ مخلوط یورپی اور حبشی نسل] آدمی دیکھا کہ اس کے ہاتھوں میں ایک بچہ تھا اور وہ اس مرد کا دودھ پی رہا تھا، اس آدمی نے کہا کہ اس بچے کی ماں نے اس کو پیدا کیا اور پھر وہ مفازہ یا فلاۃ کی سرزمین پر فوت ہوئی، میں نے بہلاوے کے لئے اسے اپنے سینے کے قریب کیا تو اللہ نے اس کو یہ رزق دیا ، [راوی کہتے ہیں] ہم نے دیکھا کہ اس کے پستانوں سے دودھ بہہ رہا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خطیب بغدادی نے یہ واقعہ اس شخص پر اللہ کی طرف سے لطف و عنایت کے باب سے ذکر کیا ہے، کہ خود ان کی تصریح کے مطابق یہ شخص مکی بن مرزوق ہے ،

اب اس روایت کی سند کو ملاحظہ فرمائیں

.

أبو الحسن محمد بن أسد بن علی بن سعید الکاتب :

محمد بن أسد بن علی بن سعید أبو الحسن الکاتب المقرئ سمع أبا بکر أحمد بن سلمان النجاد وعلی بن محمد بن الزبیر الکوفی، وجعفر الخلدی، وعبد الملک بن الحسن السقطی، وجماعة من هذه الطبقة. کتبت عنه وکان صدوقا.

تاریخ بغداد،ج2،ص430 ط دار الغرب الاسلامی

.

الحسن بن ابی بکر :

الْحَسَن بْن أَحْمَد بْن إِبْرَاهِیم بْن الْحَسَن بن مُحَمَّد بن شاذان بْن حرب بْن مهران أَبُو عَلِیّ البزاز ….. کتبنا عنه، وکان صدوقا صحیح الکتاب ….. سمعت أبا الْحَسَن بن رزقویه، یقول: أَبُو عَلِیّ بن شاذان ثقة. وسمعت الأزهری، یقول: أَبُو عَلِیّ بن شاذان من أوثق من برأ اللَّه فِی الحدیث، وسماعی منه أحب إلی من السماع من غیره، أو کما قَالَ.

تاریخ بغداد،ج8،ص223 ط دار الغرب الاسلامی

.

أبو عمرو عبد الملک بن الحسن بن یوسف المعدل :

عبد الملک بن الحسن بن یوسف بن الفضل أبو عمرو المعدل، ویعرف بابن السقطی ….. حَدَّثَنَا عنه محمد بن أسد الکاتب، والحسن بْن أبی بَکْر، وأبو علی بن شاذان، وأبو نعیم الحافظ، وکان ثقة ….. سألت أبا نعیم الحافظ عن عبد الملک بن الحسن، فقال: ثقة …..

تاریخ بغداد،ج12،ص185 ط دار الغرب الاسلامی

.

احمد بن ابی عوف و پدر و عمویش :

قال السهمی: سألت الدَّارَقُطْنِیّ عن أبی عبد الله أحمد بن أبی عوف البزوری العدل؟ فقال: ثقة هو وأبوه وعمه وإنما یحکى عنه حکایة.

موسوعة أقوال أبی الحسن الدارقطنی فی رجال الحدیث وعلله،ج2،ص662 ط عالم الکتب

.

ابو محمد دلاصی کے لئے بھی اہل سنت نے یہی کچھ لکھا ہے،

ومنها أنه کان عنده طفل غابت أمه عنه، فبکى فدر ثدیه باللبن، فأرضع ذلک الطفل حتى سکت، وله کرامات أخرى کثیرة شهیرة.

مرآة الجنان،ج4،ص200 ط دار الکتب العلمیة
العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین،ج5،ص198 ط موسسة الرسالة

ابومحمد دلاصی کے کرامات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے بچے کی ماں غائب ہوئی تو وہ رونے لگا ، ابومحمد دلاصی کے پستانوں سے دودھ آنا شروع ہوا، بچے نے دودھ پیا اور خاموش ہوا، ابومحمد دلاصی کے اور بھی بہت زیادہ مشہور کرامات ہیں،

.

قارئین کرام ، آپ نے دیکھ لیا کہ یہ بات اگر شیعہ کی کتاب میں ضعیف سند کے ساتھ ہو تو شیعہ کا مزاق اڑایا جاتا ہے اور اسے خرافات کہا جاتا ہے لیکن اگر یہی باتیں اہل سنت کی کتابوں میں ہوں تو پھر یہ اہل سنت کے لئے کرامات ہوتی ہیں،

تحریر سید ابو عماد حیدری

.

الزامی جواب

افسوس که اپنے بزرگوں کی کتابوں سے بھی تهوڑی آشنائی هوتی،

امام شافعی نے اپنی معروف کتاب «الام » میں اسی مسئله کو مستقل ایک باب تشکیل دیکر مطرح کیا هے پهر قرآن سے استدلال کرتے هوے صریح فتوا دیا هے که

اگر بالفرض کوئی ایسا مسئله پیش آئے (مرد کسی کو دودھ پلائے) تو اس سے نه تنها محرمیت نهیں هوتی بلکه وه دونوں بچے ایک دوسرے سے شادی بهی کرسکتے هیں یه بلکل جائز هے مگر ایسا کرنا مکروه هے ، انسان هر مکروه کا مرتکب هو سکتا هے کوئی عقوبت نهیں.

.

امام شافعی کی عبارت یه هے:

.

الرَّجُلُ يُرْضِعُ من ثَدْيِهِ
– ( قال الشَّافِعِيُّ ) رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَي وَلَا اَحْسَبُهُ يَنْزِلُ لِلرَّجُلِ لَبَنٌ فَاِنْ نَزَلَ له لَبَنٌ فَاَرْضَعَ بِهِ مَوْلُودَةً كَرِهْتُ له نِكَاحَهَا وَلِوَلَدِهِ فَاِنْ نَكَحَهَا لم اَفْسَخْهُ لِاَنَّ اللَّهَ تَعَالَي ذَكَرَ رَضَاعَ الْوَالِدَاتِ وَالْوَالِدَاتُ انَاثٌ وَالْوَالِدُونَ غَيْرُ الْوَالِدَاتِ وَذَكَرَ الْوَالِدَ بِاَنَّ عليه مُؤْنَةَ الرَّضَاعِ فقال عز وجل ) وَعَلَي الْمَوْلُودِ له رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ( ( قال الشَّافِعِيُّ ) فلم يَجُزْ اَنْ يَكُونَ حُكْمُ الْآبَاءِ حُكْمَ الْاُمَّهَاتِ وَلَا حُكْمُ الْاُمَّهَاتِ حُكْمَ الْآبَاءِ وقد فَرَّقَ اللَّهُ عز وجل بين اَحْكَامِهِمْ

کتاب الام امام شافعی ج 5 ص 36، طبع دار النشر بیروت

.

اسی طرح فقه حنفی کی معتبر کتاب میں یہ مسئلہ کچھ یوں درج ہے۔

اذا نزل للرجال لبن فارضع به صبيا لا تثبت به حرمة الرضاع۔

اگر مرد کا دودھ اتر آیا اور ایک بچے کو پلا دیا گیا تو حرمت ثابت نہیں ہو گی۔

(عالمگیری ص: ٣٤٤)

معروف فتوا ساز فیکٹری دارالعلوم دیوبند.بنوری ٹاون کے شعبه افتاء سے ان کے مکتب کے کسی شخص نے اس مسئلے پر استفتاء کیا تو ان کا فتوا بھی قابل غور هے.

سائل پوچھتا هے که ایک غیر مقلد نے فقہ حنفی کی کتاب عالمگیری سے ایک مسئلہ پیش کیا ہے ۔ اس کی کیا وجہ کی ایسا کیسے ممکن ہے جو ایسا مسئلہ لکھا گیا۔ میرے پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم بھی غیر مقلد کو جواب دینے کے قابل ہوں۔
اذا نزل للرجال لبن فارضع بہ صبیا لا تثبت بہ حرمة الرضاع۔
اگر مرد کا دودھ اتر آیا اور ایک بچے کو پلا دیا گیا تو حرمت ثابت نہیں ہو گی۔

عالمگیری ص: ۴۴۳

(Published on: Aug 12, 2017

تو دارالعلوم کا جواب یه تھا

جواب# 153377

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa:1263-1158/H=11/1438

مرد کے پستان سے جو مادہ نکلتا ہے خواہ دودھ جیسی رنگت ہی کا ہو اُس مادہ پر شرعاً دودھ کا حکم نہیں ہوتا اور جب وہ دودھ نہیں ہے تو اس پر دودھ کے احکام بھی متفرع نہیں ہوتے من جملہ دیگر احکام کے یہ بھی ہے کہ اس سے حرمت کا تحقق نہیں ہوتا

واللہ تعالیٰ اعلم، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند.

.

کیا اس سے مشابه نمونے اهل سنت کتاب سے دکهادوں تو وهاں کیا تبصره کروگے۔؟

.

ابن ابی الحزم معروف به ابن النفیس اپنی کتاب تشریح القانون

جو بو علی سینا کی کتاب قانون کا شرح هے میں رقمطراز هے که

اس کا ایک همسایه تها جس کی بیوی ایک دودھ پیتا بچه چهوڑکر چل بسی اور کوئی دودھ پلانے والی عورت بهی نهیں تهی تو اس نے اپنی چهاتی سے بچه کو دودھ پلانا شروع کیا تو بهت سارے دودھ نکل آیا۔

وكان لنا جار توفيت زوجته عن طفل رضيع . ولم يكن له جدة يتخذها مرضعة . فتولد اللبن في ثديه . وكان اذا عصر ثديه خرج منه لبن كثير .

شرح تشریح القانون ج 1 ص 391، دار النشر قاهره.

.

تحفہ 👇🏼👇🏼