بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
.
وہابیوں کا امام ابن تیمیہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے
۔
📜 ومن قال أن النبى صلى الله عليه و سلم كان نبيا قبل أن يوحى إليه فهو كافر بإتفاق المسلمين
۔
📝 ترجمہ: اور جس نے کہا کہ حضرت محمد ص وحی نازل ہونے سے پہلے نبی تھے وہ کافر ہے اس پرتمام مسلمانوں کا اتقاق ( اجماع ) ہے.
۔
📚 مجموع فتاوى شيخ الإسلام أحمد بن تيمية جلد 8 صفحہ 283 الناشر:
مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف

جبکہ اس کے برعکس
۔
صحیح حدیث میں آیا ہے کہ کسی صحابی نے نبی ص سے پوچھا : آپ کب سے نبی ہیں؟
آپ ص نے کہا جب حضرت آدم ع جسم اور روح کے درمیان تھے۔
۔
📜 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: ” وآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ “
📚 مسند الإمام أحمد بن حنبل – ج 34 ص 202 ح 20596
تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح رجاله ثقات رجال الصحيح


۔
ناصر البانی نے اس کو إسناده صحيح رجاله ثقات رجال الصحيح کہا ہے
📚 كتاب السنة ومعه ظلال الجنة في تخريج السنة ح 410 صفحہ 189

۔
نیز اس کو سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها – ج4 ح 1856 صفحہ 471 پر درج کیا ہے۔
📜 قال حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا سريج بن النعمان قال ثنا حماد عن خالد الحذاء عن عبد الله بن شقيق عن رجل قال قلت : يا رسول الله متى جعلت نبيا قال وآدم بين الروح والجسد
ناصر البانی نے اس کوإسناده صحيح کہا ہے
📚 كتاب السنة ومعه ظلال الجنة في تخريج السنة ح 411 صفحہ 189

copy from Shiatiger.com
.
.
سیدنا میسرہ الفجر رضی اللہ عنہ (عبداللہ بن ابی جدعاء تمیمی) فرماتے ہیں :
📜 قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَتٰی کُنْتَ نَبِیًّا؟ قَالَ : کُنْتُ نَبِیًّا وَّآدَمُ بَیْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ .
📝 ”میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ( تقدیر میں) کب سے لکھا گیا تھا آپ نبی ہیں؟ فرمایا : آدم ابھی روح و جسم کے مراحل میں تھے، میری نبوت لکھی جا چکی تھی۔”
📚 التاریخ الکبیر للبخاري : ٧/٣٧٤، مسند الإمام أحمد : ٥/٥٩، المعجم الکبیر للطبراني : ٢٠/٣٥٣، القدرللفریابي : ١٧، وسندہ، صحیحٌ
اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں:
📜 وَہٰذَا سَنَدٌ قَوِيٌّ .
📝 ”یہ سند قوی ہے۔”
📚 الإصابۃ في تمییز الصحابۃ : ٦/١٨٩
.
👈🏼 امام حاکم رحمہ اللہ (٢/٦٠٨۔٦٠٩) نے ”صحیح الاسناد”
.
👈🏼 اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ”صحیح ” کہا ہے۔
.
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
📜 وَسَنَدہ، صَحِیحٌ .
📝 ”اس کی سند ”صحیح” ہے۔”
📚 الإصابۃ في تمییز الصحابۃ : ٦/١٨٩
.
.
.
.
اہل سنت قرآن مجید پہ بہت زور دیتے ہیں۔ آئیـے آج ان کے (مل، عون) مفسرین سے تفسیر لیتے ہیں جنہوں نے قرآن مجید سے انبیاء کرام علیھم السلام کا “ک،ف،ر” ثابت کیا ھے۔
ابن تیمیہ (احمد بن عبد الحلیم) م728ھ لکھتا ھے:
كتاب تفسير آيات أشكلت لإبن تيمية (م٧٢٨ه)
قلت : (۱) (۲) وكثير من أهل السنة يقولون : [إن] (۳) [الأنبياء] ) معصومون من الكفر قبل النبوة، كما قال ذلك : ابن الأنباري ) ، والزجاج ) ، وابن عطية (7) ، وابن الجوزي (۸) ، والبغوي (4) .
میں (ابن تیمیہ) کہتا ہوں اور اہل سنت میں اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ انبیاء (علیھم السلام) نبوت سے پہلے “ک،ف،ر” سے معصوم ہوتے ہیں، جیسے کہ ایسا کہا ھے ابن الانباری نے اور الزجاج اور ابن عطیہ اور ابن الجوزی اور بغوی وغیرہ نے۔
قال البغوي : وأهل [الأصول (١٠) على أن الأنبياء كانوا مؤمنين قبل الوحي، [ وكان ] (١١) [النبي (١٢) يعبد الله قبل الوحي على دين إبراهيم، ولم تبين (۱۳) له شرائع دينه » (١٤) .
بغوی (ابو محمد الحسین بن مسعود البغوی م516ھ) نے کہا ھے اور اور اصول یہ ھے کہ انبیاء (علیھم السلام) وحی آنے سے پہلے مومن تھے اور نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی سے پہلے دین ابراہیم (علیہ السلام) پر اللہ کی عبادت کرتے تھے اور (ابھی) آپ ص پر دین کے علومِ شریعت ظاھر نہیں ہوئے تھے۔ (یعنی محمد ص کی شریعت اور دین ابھی نہیں اترا تھا)
قلت : (١٥) وقوله [هذا ] يناقض ما ذكره في قوله : ﴿ وَوَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَى ) (۱۷) ، [ قال / ] (۱۸) : ومعنى الآية : وجدك (١٩) ضالاً عما أنت عليه اليوم فهداك لتوحيده والنبوة (۱) (٢) . فجعل التوحيد مما كان ضالا عنه فهداه إليه
میں (ابن تیمیہ) کہتا ہوں کہ بغوی کا یہ قول اس قول کے خلاف ہے جو اس نے اللہ کے اس ارشاد میں ذکر کیا ہے کہ ﴿وَوَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَى﴾ اور اس نے آپ ص کو گمراہ پایا تو ہدایت دی۔ (سورہ الضحیٰ آیت 7) بغوی نے کہا: “اور آیت کا معنی یہ ھے کہ اس (یعنی اللہ) نے آپ ص کو گمراہ پایا جس پر آپ ص اِس دن تھے تو پھر آپ ص کو توحید اور نبوت کی ہدایت دی۔ تو اللہ نے توحید کو وہ چیز قرار دیا جس سے آپ ص گمراہ تھے۔ تو پھر اللہ نے آپ ص کو توحید کی طرف ہدایت دی۔”
(٣) ، وأيضاً فقوله تعالى : مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ﴾ (٥) / يناقض هذا . وقد روي عن أحمد (7) أنه قال : من قال [ إنه ] كان النبي ﷺ على دين قومه، فهو قول سوء (۸) ، ولكن قد قال السدي وغيره : «كان على دين قومه أربعين سنة (1)
اور بھی، تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ﴾ آپ ص نہیں پہچانتے تھے کہ کتاب کیا ھے اور ایمان کیا ھے۔ (سورہ الشوریٰ آیت 52) اس کی مخالفت کرتا ہے۔ اور احمد بن حنبل سے مروی ھے کہ احمد بن حنبل نے کہا: جو کوئی یہ کہتا ھے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم کے دین پر تھے تو اس کا قول بُرا ھے۔ اور لیکن یقیناً السدی (اسماعیل بن عبد الرحمن بن ابی کریمہ السدی الکبیر ابو محمد الحجازی م127ھ) وغیرہ نے کہا ھے کہ چالیس سال تک نبی پاک ص اپنی قوم کے دین پر تھے۔
[قلت] وقد روى ابن أبي حاتم : حدثني عبد الله بن (4) أبي بكر (4) عن عثمان بن أبي سليمان بن جبير بن مطعم (۱) ، عن عمه نافع بن جبير بن مطعم (۲) ، عن أبيه (3) جبير بن مطعم (4) قال : لقد رأيت رسول الله ﷺ وهو على دين قومه، وهو واقف على بعير له بعرفات بين قومه يدفع مع الناس توفيقاً من الله له (٢) ، وقد رواه أحمد من طريق ابن إسحاق (۳) به (4) ، ورواه أيضاً من طريق سفيان (٥) ، عن أبيه (٦) (٧) ، ولم يقل : على دين قومه ]
میں (ابن تیمیہ) کہتا ہوں: ابن ابی حاتم نے بیان کیا : عبداللہ بن ابی بکر سے اور وہ عثمان بن ابی سلیمان بن جبیر بن مطعم سے ۔ اور وہ اپنے چچا نافع بن جبیر بن مطعم کی سند سے، اور وہ اپنے والد کی سند سے کہ جبیر بن مطعم کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس وقت دیکھا جب آپ ص اپنی قوم کے دین پر تھے۔ اور وہ عرفات میں اپنے اونٹ پر اپنی قوم کے درمیان کھڑے تھے، اللہ کی آپ ص پر نازل کردہ توفیق سے آپ ص لوگوں کیساتھ ہی چلے گئے۔ اور احمد نے اسے ابن اسحاق سے روایت کیا ہے اور ابن اسحاق نے بھی اسے روایت کیا ہے سفیان کے طریق سے اور وہ اپنے والد سے اور انھوں نے نہیں کہا “اپنی قوم کے دین پر۔”
والمقصود أن هذا النزاع في وقوع الذنوب منهم قبل النبوة ليس هو قول المعتزلة فقط ، بل هو بين أصحاب الحديث (۱) وأهل السنة . قال أبو بكر بن الطيب (۲) (۳) : وقال كثير منهم (٤) ومن أصحابنا وأهل الحق : إنه لا تمتنع بعثة من كان كافراً أو مصيباً للكبائر قبل بعثته قال : ولا شيء عندنا يمنع من ذلك على ما نبين (۸) القول فيه
اور مقصود (حاصل) یہ ھے کہ یہ اختلاف کہ نبوت سے پہلے انبیاء (علیھم السلام) سے گناہوں کا ہو جانا، یہ صرف معتزلہ کے درمیان نہیں ھے۔ ہاں یہ اصحاب حدیث (وھابی) اور اہل سنت کے درمیان بھی اختلاف ھے۔ ابو بکر بن الطیب نے کہا اور ان میں سے اکثر لوگوں نے کہا اور ہمارے اصحاب (مشائخ) اور اہل حق نے کہا: نبی کی بعثت کو یہ بات مانع نہیں ھے کہ وہ اپنی بعثت سے پہلے “کا،ف،ر” ہو۔ یا وہ اپنی بعثت سے پہلے کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہوا ہو۔ اور کوئی چیز ہمارے نزدیک مانع نہیں ھے اس بات سے کہ جس پر ہم نے اپنا قول واضح کر دیا ھے۔
ماشاءاللہ سے یہ حق پرست لوگ ہیں جو ہم شیعہ خیز البریہ والفائزون علی الحق کی تکف،یر کرتے ہیں۔ جبکہ انکے مفسرین نے انبیاء کرام علیھم السلام کی تکف،یر کر چھوڑی ھے۔ یعنی اہل سنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو نبوت دی جو (نعوذ باللہ) “کا،ف،ر” تھے۔ نعوذ بالله من ذلك الجماعة الجهال الذين فيهم الأئمة المضلين لا عقل لهم
یہ اہل سنت کے امام ہیں۔ اور بلاشبہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے اپنی امت پر دجال سے بھی بڑھ کر ایک خوف ہوتا ھے اور وہ ہیں آئمہ مضلین ، گمراہ کرنے والے گمراہ کُن امام
مسند أحمد بن حنبل – ط الرسالة ٣٥/٢٢۲ — أحمد بن حنبل (ت ٢٤١)
21296 – حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ هُبَيْرَةَ، أَخْبَرَنِي أَبُو تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو ذَرٍّ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: «لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي» قَالَهَا ثَلَاثًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ: «أَئِمَّةً مُضِلِّينَ» (١)
ابو ذر غفاری علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چہل قدمی کر رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دجال کے علاوہ ایک اور چیز ہے جس سے مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا میں نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سی چیز ہے جس سے آپ کو اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے اور وہ دجال کے علاوہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ گمراہ کرنے والے گمراہ کُن امام ہیں۔
صحيح لغيره، وهذا إسناده ضعيف، ابن لهيعة -وهو عبد الله- سيئ الحفظ. أبو تميم الجيشاني: هو عبد الله بن مالك بن أبي الأسحم.
وأخرجه ابن عبد الحكم في «فتوح مصر» ص٢٨٥ عن طلق بن السمح ويحيى بن عبد الله بن بكير وهانئ بن المتوكل، ثلاثتهم عن ابن لهيعة، بهذا الإسناد.
وانظر ما بعده.
وفي الباب عن عمر بن الخطاب، سلف برقم (٢٩٣) .
وعن شداد بن أوس، سلف برقم (١٧١١٥)، وروي حديثه عن ثوبان وهو الصواب كما سيأتي ٥/٢٧٨.
وعن أبي الدرداء، سيأتي ٦/٤٤١.