حضرت امام حسن علیہ السلام پر ایک جھوٹی تہمت
.
مخالفین کے علماء میں سے ڈاکٹر علی محمد الصلابی حضرت امام حسن علیہ السلام کی ازدواج کی کثرت سے متعلق روایات کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
.
آپ رض کی بیویوں کی تعداد سے متعلق ستر، نوے، ڈھائی سو، یا تین سو یا اس سے زیادہ ہونے کی روایات شاذ ہیں اور یہ من گھڑت اور جھوٹی روایات ہیں۔
مزید لکھتے ہیں:
حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی شادیوں کے بارے میں تخیلاتی تعداد ذکر کرنے والی کوئی ایک روایت بھی سند کے اعتبار سے ثابت نہیں ہوتی اس لئے ان روایات پر اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ان میں شبہات اور نقائص پائے جاتے ہیں۔
.
📚 سیرت امیرالمومنین خامس الخلفاء الراشدین الحسن ابن علی رضی اللہ عنہ ، صفحہ : ۲۴ – ۲۶
.
کیا امام حسن مجتبىٰ (ع) نے بهت سارى عورتوں سے ازدواج کر کے انھیں طلاق دی۔؟
جواب:
افسوس کا مقام هے که اسلام کے حدیثى منابع کو درپیش بڑى آفتوں میں سے ایک آفت ، احادیث جعل کرکے انھیں صیحح احادیث کے بیچ میں درج کرنا هےـ اس کام کے پیچھے سیاسى اورمذهبى وغیره عوامل تھے اور کبھى یه کام اموى اور عباسى حکام کے منفور شخصیتوں کو صیحح دکھانے کى غرض سے اور کبھى قابل قدر شخصیتوں کو مسخ کرکے پیش کرنے کى غرض سے آنجام پاتا تھاـ اس لئےجعلى احادیث کے درمیان میں سے صیحح احادیث کو تشخیص دینا بهت هى اهم لیکن مشکل کام هےـ
امام حسن مجتبى علیه اسلام ایک ایسى شخصیت هیں ، جو مسموم اور جعلى احادیث کے حملوں کا نشانه قرار پائے هیں ،
لیکن خوش قسمتى سے احمق دشمنوں نے اب کى بار ان پر تعدد ازدواج اور زیاده اطلاق دینے کى تهمت لگائى هےـ
یه ایک ایسا اتهام هے جس کا امام حسن مجتبى علیئه سلام جیسى شخصیت کے بارے میں بے بنیاد هونا مکمل طور پر واضح هےـ
اس قسم کى بعض روایتوں میں آیا هے که امام على (ع) نے اس مرد کو، جو اپنى بیٹى کے بارے میں حسن(ع) ، حسین(ع) اور عبدالله بن جعفر سے خواستگارى کے سلسله میں مشورت کرنے کے لئے آپ(ع) کى خدمت میں آیا تھا، کو فرمایا:” جان لو که حسن(ع) زیاده طلاق دیتا هےـ اپنى بیٹى کو حسیں (ع) کے ساتھـ ازدواج کرنا کیونکه وه تیرى بیٹى کے لئے بهتر هےـ”[1]
ایک اور روایت میں آیا هے که امام صادق علیه اسلام نے فرمایا: ” حسن بن على(ع) نے پچاس بیویوں کو طلاق دى هے، یهاں تک حضرت على علیه اسلام کوفه میں کھڑے هوئے اور فرمایا:
” اے کوفیو! حسن کو اپنى بیٹى نه دینا کیونکه وه زیاده طلاق دیتا هے”ـ
ایک شخص اٹھا اور کها :
” خدا کى قسم هم ایسا هى کریں گے، کیونکه وه رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم اور فاطمه زهراء(س) کے فرزند هیں، اگر چاهے اپنى بیوى کو رکھے اور اگر نه چاهے تو اسے طلاق دےـ”[2]
ایک اور روایت میں آیا هے که امام باقر علیه اسلام نے فرما یا:” على (ع) نے کوفیوں سے مخاطب هو کر فرمایا:
حسن(ع) کو کوئى عورت نه دے کیونکه وه زیاده طلاق دیتا هےـ”[3]
اهل سنت کى بعض تاریخى کتابوں ، جیسے انساب الا شریف ،[4] قوت القلوب،[5] احیاء العلوم[6] اورابن ابى الحدید معتزلى[7] کى شرح ، نهج البلاغه وغیره میں بھى یهى مطالب تکرار هوئے هیںـ
چونکه کهاوت هے که جھوٹ جتنا بڑا هو اسے قبول کرنا آسان تر هوتا هے، بعض جعلیات میں حضرت (ع) کى طلاق شده بیویوں کى تعداد کو تین سو تک پهنچا دیا گیا هے[8]، که یه سب روایتیں ضعیف ، فاقد اعتبار اور عقل و منطق کے خلاف هیں۔
بهت سے تاریخى اور اعتقادى شواهد موجود هیں جو مزکوره روایتوں کے صحح نه هونے کى دلالت پیش کرتے هیں، جن میں سے چند ایک کى طرف هم ذیل میں اشاره کرتے هیں:
.
1ـ حضرت امام حسن مجتبى علیه اسلام دوسرى یا تیسرى هجرى میں 15 رمضان المبارک کو پیدا هوئے هیں اور 28 سفر49 هجرى کو شهید هوئے هیںـ آپ(ع) کى عمر شریف 46 یا 47 سال سے یاده نهیں تھى ـ با لفرض اگر حضرت(ع) کى پهلى شادى بیس سال کى عمرمیں انجام پائى هو تو آپ(ع) کے والد گرامى کى شهادت کے سال 40 هجرى یعنى 18 یا17 سال کى مدت میں یه شادیاں اور طلاق واقع هوئے هونے چاهئےـ جبکه امام حسن مجتبى علیه اسلام نے اپنے والد گرامى کے پانچ ساله حکومت کے دوران تمام تین جنگوں یعنى جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نهروان میں معلانه طور پر شرکت کى هے اور اس کے پیش نظر که حضرت (ع) نے بیس بار مدینه سے پیدل جاکر حج کے فرائض انجام دئے هیں، تو یه کیسے ممکن هے که ان کے پاس اتنى شادیاں کرنے کى فرصت پیدا هوتى ـ اس لحاظ سے اس قسم کى روایتوں کو قبول کرنا ایک نا معقول امر هےـ
.
2ـ اکثر روایتیں ، جو احادیث کى کتابوں میں نقل هوئى هیں امام صادق علیه اسلام سے منقول هیںـ یعنى یه مطلب امام حسن مجتبى علیه اسلام کے زمانه کے ایک سوسال بعد پیش کیا جاتا هے، کیونکه امام جعفرصادق علیه اسلام کى شهادت 148 هجرى میں اور حضرت امام مجتبىٰ علیه اسلام کى شهادت 48 هجرى میں واقع هوئى هےـ
اگر حقیقت میں یه روایتیں حضرت امام صادق(ع)سے هوں، تو سوچنے کا مقام هے که حضرت امام صادق(ع)ایک صدى گزرنے کے بعد ان روایتوں کو بیان کرنے میں کیا مقصد رکھتے تھے؟
کیا وه حضرت امام حسن مجتبىٰ علیه اسلام کے خاندانى بحران کو طشت از جام کرنا چاهتے تھے؟
تعجب کى بات هے که یه مطلب اسى زمانه میں ، اهل بیت اطهار علیهم اسلام کے جانى دشمن منصور دوانقى کى زبان پر جارى هوتے هیںـ
مشهور مورخ مسعودى نے اپنى کتاب “مروج الزهب” میں، خراسانیوں کے ایک اجتماع میں منصور دوانقى کى ایک تقریر کو یوں نقل کیا هے:
” خدا کى قسم هم نے فرزندان ابوطالب کو خلافت کرنے سے کبھى نهیں روکا هے اور کسى صورت میں ان پر اعتراض نهیں کیا هے ، یهاں تک که على بن ابیطالب نے خلافت کو اپنے هاتھوں میں لے لیا اور جب حکومت کرنے میں کامیاب نه هوئے تو حکمیت کے سامنے هتھیار ڈال دئے ـ لوگوں میں اختلاف پیدا هوا چه مى گوئیاں هونے لگیں ، یهاں تک که ایک گروه نے ان پر حمله کیا اور انھیں قتل کر ڈالاـ ان کے بعد ، حسن بن على اٹھے ـ وه ایسے شخص نهیں تھے که اگر کوئى مال پیش کیا جاتا، تو اسے لیتےـ معاویه نے جالبازى اور حلیه سے انھیں اپنا ولى عهد بنایاـ اور اس کے بعد انھیں معزول کیا ـ انهوں نے عورتوں کى طرف رخ کیاـ کوئى ایسا دن نهیں تھا جب وه ازدواج نه کرتے یا طلاق نه دیتے ـ یهاں تک که بستر پر اس دنیا سے چلے گئےـ”[9]
.
3ـ اگر یه بات حقیقت هوتى ، تو ان کے جانى دشمنوں اور بهانه تلاش کرنے والوں کو آپ(ع) کى زندگى کے دوران اس پر اعتراض کرنا چاهئے تھا، جبکه وه آپ(ع) کے بارے میں معمولى چیزوں ، یهاں تک که آپ(ع) کے لباس کے رنگ پر بھى اعتراض کرتے تھےـ اگر یه بات صیحح هوتى تو دشمنوں کے لئے ایک بڑا بهانه اور نقطه ضعف هاتھـ آتا اور ضرور اس پر انگلى اٹھا تے ـ
لیکن اس زمانے کے بارے میں ایسى کوئى گزارش نقل نهیں کى گئى هےـ اور پہلی بار اعتراض منصور دوانقى نے کیا۔
.
4ـ تاریخ کى کتابوں میں امام حسن مجتبى علیه اسلام کى بیویوں، فرزندوں اور دامادوں کى جو تعداد نقل کى گئى هے، وه حضرت (ع) کى بیویوں کى اس تعداد سے سازگار نهیں هےـ آپ کے زیاده سے زیاده فرزندوں کى تعداد 22 اور کم سے کم 12 بتائى گئى هے آپ کى بیویوں کے طور پر صرف 13 نام ذکر هوئے هیں لیکن ان میں سے تین بیویون کے حالات کے علاوه کسى کى تفصیلات معلوم نهیں هیںـ اس کے علاوه تاریخ کى کتابوں میں آپ(ع) کے تین داماد وں کے علاوه کسى کا ذکر نهیں هوا هےـ[10]
.
5ـ طلاق کے قبیح هونے کے بارے میں بهت سى روایتیں دلالت کرتى هیںـ یه روایتیں شیعوں اور اهل سنت کى حدیث کى کتابوں میں مکرر طورپر نقل هوئى هیںـ
رسول خدا صلى الله علیه وآله وسلم نے فرمایا:
” خدا کے پاس حلال کاموں میں سب سے قابل نفرت کام طلاق هےـ”[11]
.
امام صادق علیه اسلام نے فرمایا:
” شادى کرنى چاهئے لیکن طلاق نهیں دینا نهیں ، کیونکه طلاق عرش الهىٰ کو هلاکر رکھتا هےـ”[12]
اس کے علاوه حضرت امام صادق علیه اسلام اپنے والد بزرگوار سے نقل کرتے هیں:
” خدا وند متعالى اس شخص کو دشمن رکھتا هے جو زیاده طلاق دیتا هو اور جنسى لذت کے تنوع کے پیچھے جاتا هو”[13]
.
اس کے پیش نظر کیا ممکن هے که ایک معصوم امام مکرر طور پر ایسا کام انجام دے اور ان کے والد بھى انھیں اس کام سے نه روک سکیں !!
.
6ـ امام حسن مجتبى علیه اسلام اپنے زمانے کے عابد تریں اور زاهد ترین انسان تھےـ[14] وه هر وقت اس طرح اپنے پروردگار سے رازو نیاز کرتے تھے:” میں اپنے پروردگار سے رازو نیاز کرتے تھے:
” میں اپنے پروردگار سے شرم و حیا کا احساس کرتا هوں که میں اس حالت میں اس کى ملاقات کروں جبکه میں اس کے گھر کى طرف پیدل نه گیا هوںـ”[15]
آپ(ع) بیس بار مدینه سے پیدل حج پر چلے گئے اور حج کے اعمال بجا لائے هیں، یه کیسے ممکن هے که آپ(ع) اس قسم کے اعمال کے مرتکب هو چکے هو گے؟
.
7ـ مطلاق ” زیاده طلاق دینے ” کى صفت جاهلیت کے زمانے میں بھى قابل مذمت تھىـ جب حضرت خدیجه سلام الله علیها نے اپنے چچا زاد بھائى ورقه سے اپنے خواستگاروں کے بارے میں صلاح مشوره کیا که ان میں سے کس کو مثبت جواب دیں گیں، تو ورقه نے جواب میں کها :
شیبه کافى بدگمان شخص هے، اور عقبه بوڑھا هے، ابو جهل ایک متکبر اور بخیل شخص هے اور صلت ایک مطلاق(زیاده طلاق دینے والا) هےـ اس وقت حضرت خدیجه سلام الله علیها نے کها:”
ان پر خداکى نفرین هو ، کیا تم جانتے هو که کسى اور مرد نے میرى خواستگارى کى هے؟
قابل غور بات هے، یه کیسے ممکن هے که جو خصلت زمانه جاهلیت میں بھى قابل مذت تھى اور اس زمانے کی عورتیں حاضر نهیں تھیں که کسى “مطلاق”( زیاده طلاق دینے والے ) کے ساتھـ شادى کریں، اور حضرت على علیه اسلام نے اپنے ایک زاهد و متقى فرزند کے بارے میں ایسى توصیف کى هوگى؟
اور ایک معصوم امام اس قسم کى ناپسند خصلت سے آلوده هو جائے جو خدا کے غضب کا سبب بنتى هو؟!
.
یه چند ثبوت تھے جو ان روایتوں کے بے بنیاد هونے کى دلالت پیش کرتے هیںـ
اس بنا پر ان ضعیف مضامین اور جعلى روایتوں کو ایک ایسى شخصیت کے بارے میں قبول نهیں کیا جاسکتا هے، جن کى متعدد روایات کے مطابق پیغمبراسلام صلى الله علیه وآله وسلم نے تعریف و تمجید کى هوـ[16]
.
مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مندرجه ذیل کتابوں کا مطالعه کیا جاسکتا هے:
1ـ حیاۃ الا مام الحسن (ع) تالیف :باقر شریف القرشى ج2،ص457ـ472 (دارالکتب العمیه)
2ـ”نظام حقوق زن در اسلام”، تالیف : شهید مطهرى،ص306ـ309 (انتشارات صدرا)
3ـ”زندگى امام حسن(ع) تالیف : مهدى پیشوائى،ص31ـ39(انتشارات جوان)
4ـ” الامام المجتبى” تالیف: حسن المصطفوى، ص228ـ234 (مکتبالمصطفوى)
5ـ”ازگوشه وکنار تاریخ” تالیف: سید على شفیعى،ص88(کتاب خنه صدرا)
6ـ “زندگانى امام مجتبىٰ(ع)” تالیف: سید هاشم رسولى محلاتى،ص469ـ484 (دفتر نشر فرهنگ اسلامى)
7ـ “حقائق و پنهان” تالیف: احمد زمانى،331ـ354 (انتشارات دفتر تبلیغات اسلامى)[17]
.
📚 حوالہ جات
[1] البرقی محاسن،ج2 ،ص601.
[2] الکافی،ج6،ص56،ح5و4
[3] دعائم الاسلام،ج2،ص257،ح980
[4] انساب الاشراف، ج3،ص25.
[5] قوت القلوب،ج2،ص246.
[6] محجھ البیضا،ج3،ص69.
[7] شرح نھج البلاغه،ج3، ص 69.
[8] ملاحظه هو; قوت القلوب ابوطالب مکی.
[9] مروج الزھب،3 ص 300.
[10] حیاۃ الامام الحسن(ع) ،ج 2، ص463ـ469 و ص457.
[11] سنن ابی داود،ج2 ، ص632، ح2178.
[12] وسائل الشیعه ،ج15، ص268; مکارم الاخلاق، ص225 :تزوجوا و لا تطلقوافان الطلاق یھتز منه العرش.
[13] وسائل الشیعه ،ج15،ص 267،ح3، ان الله عزوجل یبغض کل مطلاق و ذواق.
[14] فراید السمطین ،ج2، ص68: بحارلانوار،ج 16، ص 600.
[15] بحارالانوار،ج43، ص399،انی لاستحیی من ربى ان القاه ولم امش الی بیته ، فمشی عشرین مرۃ من المدینۃ على رجلیه.
16 مقاله : تاملى دراحادیت کثرت طلاق ، مھدی مھریزى ، مجله پیام زن ، تیر 77 ، شماره 76.
.
.
امام حسن بہت زیادہ طلاقیں دیا کرتے تھے ؟
یہ ایک بے بنیاد بہتان ہے اور اس کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔
کیونکہ:
- 1۔ یہ روایت ریحانۃ الرسول امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شان کے خلاف ہے۔
- 2۔ یہ روایت اور اس قسم کی دیگر روایات تین ہی راویوں سے نقل ہوئی ہیں اور یہ تینوں غاصب عباسی حکمرانوں کے درباری کاتب یا مؤرخ تھے۔
- 3۔ یہ روایات اگر درست ہوتیں تو بنو امیہ کے درباری اسے کیوں بھول گئے تھے اور عباسیوں کے دور میں کیوں سامنے آئیں؟
- 4۔ عباسی بادشاہ منصور دوانیقی کے دور میں جب حسنی سادات نے اس کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تو امام حسن علیہ السلام کے خلاف زہر افشانی اسی سفاک اور غاصب بادشاہ کے حکم پر ہی شروع ہوئی اور نکاح و طلاق کثیر والی روایات بھی اسی سازش کے تحت وضع کی گئیں اور مقصد حسنیوں کی تحریک کو نقصان پہنچانا تھا۔
اسناد کا جائزہ
.
1۔ اکثر مؤرخین نے اس تاریخی واقعے کو سند و ثبوت ذکر کئے بغیر نقل کیا ہے اور اس کو “ابوالحسن مدائنى”، “محمد بن عمر واقدى” اور “ابوطالب مكّى”۔
دونوں صورتوں میں قابل جرح اور حامل اشکال ہے کیونکہ:
ابن عساکر لکھتا ہے: و روى محمد بن سیرین ۔۔۔ اور محمد بن سیرین نے روایت کی ہے کہ۔۔۔1
میرخواند شافعى لکھتا ہے: “نقل است كه۔۔۔ نقل ہے کہ ۔۔۔” 2
سیوطى کہتا ہے کہ: “كان الحسن یتزوج۔۔۔ امام حسن (ع) شادیاں کرتی تھے۔۔۔”3
ابوطالب مكّى لکھتا ہے: “انّه تزوّج۔۔۔ بتحقیق کے اس نے شادی کی۔۔۔”4
سبط بن الجوزى نے لکھا ہے: “و فى روایة انّه تزوّج۔۔۔ اور روایت ہے کہ بتحقیق انھوں نے شادی کی۔۔۔”5
ابوالحسن مدائنى نے لکھا ہے: “كان الحسن كثیرالتزویج۔۔۔ حسن (ع) کثیرالتزویج تھے۔۔۔”6
یہ تمام روایتیں مرسل ہیں اور ان کا سلسلۂ سند ذکر نہیں ہوا ہے۔ اور جن لوگوں نے ان تین مؤرخین پر اعتماد کیا ہے ان سے بس یہی کہنا چاہئے کہ: یہ تینوں مؤرخین بھی امام حسن علیہ السلام کے زمانے میں نہ تھے اور ان تینوں نے بھی تمہاری طرح یہ روایتیں سلسلہ سند ذکر کئے بغیر نقل کی ہیں جس طرح کے ہم نے مدائنى اور مكّى سے نقل کیا چنانچہ ہم یہاں کہتے ہیں کہ اس طرح کے ناقابل اعتماد راویوں کی بے اعتمادی اور بے ثبوتی کو دیکھ کر اعلان کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی طرف سے امام حسن علیہ السلام کی شادیوں، زوجات کی تعداد، طلاقوں، تزویج و طلاق وغیرہ وغیرہ کے بارے میں منقولہ ہر قسم کی روایات جھوٹی اور بے بنیاد ہیں۔
2۔ ارباب جرح و تعدیل میں سے بہت سوں نے ان تین راویوں کو کلی طور پر ناقابل اعتماد و اعتبار قرار دیا ہے۔ جن لوگوں نے ان افراد کو ناقابل استناد و اعتماد قرار دیا ہے ان میں
الذہبى،7
العسقلانى8
ابن الجوزى9
عماد الحنبلى10
الرازى11
ابن الاثیر الجزرى12
زركلى13
علامه امینى14
سیدمحسن الامین15
هاشم معروف الحسنى16
وغیرہ کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔
3۔ ان تین مؤرخین نے ایسے راویوں سے روایت کی یعنی ایسے استادوں کے شاگرد تھے جو یا تو بنو امیہ کے پیروکار تھے یا بالکل مجہول اور ضعیف تھے؛
مثلاً مدائنی عَوانة بن حَکَم کلبی سے نقل روایت کرتا ہے جبکہ عوانہ معاویہ اور بنی امیہ کی سوانح لکھنے اور ان کے فائدے میں وضع حدیث کا ملزم ہے اور اس کی روایات بہر کیف بنوامیہ کی جانب رجحان رکھتی ہیں۔ 17
اور اس کے بعض مشائخ اور اساتذہ منجملہ جعفر بن ہلال18 عاصم بن سلیمان احول19 و ابن عثمان20، ضعیف یا مجہول ہیں۔ یحیی بن معین کہتے ہیں کہ واقدی جو روایات مدنیوں سے نقل کرتے ہیں ان میں مجہول رواة کی بھرمار ہے۔ 21
ہاشم معروف الحسنى لکھتے ہیں: مدائنى، عباسی بادشاہوں کا معاصر تھا اور اس پر دروغگوئی اور جعل حدیث کا الزام ہے۔
ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ مسلم بن حجاج قشیری نے اپنی صحیح میں مدائنی سے روایت نقل کرنے سے اجتناب کیا ہے اور ابن عدی نے اس کو ضعیف گردانا ہے
اور اصمعی نے اس سے کہا ہے: اللہ کی قسم! اسلام میں سے کچھ بھی تیرے وجود میں باقی نہیں بچا ہے۔۔۔
لسان المیزان کے مصنف نے اس کے بارے میں کہا ہے: وہ عبدالرحمن بن سمرہ بن حیبب اموی کے غلاموں میں سے تھا اور دوسری طرف سے اس کی بیشتر روایات مرسل ہیں جن کا کوئی سلسلۂ سند موجود نہیں ہے۔
ان سب حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 70 شادیوں والی روایت جو مدائنی کے سوا کسی نے نقل نہیں کی ہے اس زمانے کی حکمرانوں کی جعلیات میں سے ایک ہے اور اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ وہی جو علویوں اور آل رسول اللہ (ص) کے دشمن تھے یہ روایتیں وضع کرلیا کرتے تھے اور یہ بات بھی مسلمات تاریخ میں سے ہے۔۔۔22
اس شبہے کا بانی کون ہے؟
موجودہ دلائل اور شواہد سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ عباسی بادشاہ منصور دوانیقی کے دور میں حسنی سادات کی عباسی مخالف تحریک شروع ہونے سے پہلے کسی بھی کتاب میں یہ روایت نقل نہیں ہوئی ہیں اور منصور عباسی ہی تھا جس نے علویوں کی تحریک اور امام حسن مجتبی کے پوتوں کے حکومت مخالف اقدامات کو بے اثر کرنے کے لئے یہ تہمت ابلیس کی مدد سے گڑھ لی اور فرزند رسول (ص) امام حسن مجتبی کے خلاف اس شبہے کی بنیاد رکھی جو آج اہل بیت (ع) کے دشمنوں کے ہاتھوں میں دستاویز بنی ہوئی ہے۔
منصور علویوں اور حسنیوں کی تحریک سے سخت خوفزدہ تھا اس نے اور اس کے پاس اپنی تشویش کے خاتمے کے لئے اس سے زیادہ بہتر حربہ نہیں تھا کہ امام حسن علیہ السلام کا پاک اور معصوم چہرہ اپنی ناصبیت کا نشانہ بنائے۔
منصور نے عباسی ظلم و جبر کے خلاف قیام کرنے والے عبداللہ بن حسن کو گرفتار کرنے کے بعد لوگوں سے خطاب کیا اور اس نے اپنی ناصبیت کا ثبوت دیتے ہوئے علی ابن ابیطالب اور امام حسن علیہماالسلام سمیت ابوطالب علیہ السلام کے تمام فرزندوں کے خلاف دشنام طرازی کی اور گستاخی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا:
اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے کہ ہم نے ابوطالب کے فرزندوں کے خلافت میں تنہا چھوڑا اور ہم نے ان سے کوئی سروکار نہیں رکھا؛ ابتداء میں علی ابن ابیطالب نے خلافت کی اور ان کے بعد حسن بن علی اٹھے ۔۔۔۔ (منصور نے یہاں جھوٹ کا سہارا لے کر کہا) اور معاویہ نے مکاری کرکے ان کو ولیعہدی کا وعدہ دیا اور معاویہ نے سفید و سیاہ پر قبضہ کیا اور انہیں بے دخل کردیا۔ حسن بن علی نے بھی تمام امور معاویہ کے سپرد کئے اور (معاذاللہ) حسن بن علی نے عورتوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کردی۔٭ اور وہ آج ایک سے شادی کرتے اور دوسرے روز طلاق دیدیتے اور اسی کام میں مصروف تھے کہ اپنے بستر میں دنیا سے اٹھ گئے۔۔۔23
اپنی بات: یہاں ناصبی منصور عباسی نے ایک فنی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور وہ یوں کے اس کے دسترخوانوں پر پلنے والے راویوں نے امام حسن علیہ السلام پر الزام لگایا ہے کہ آپ (ع) کوفہ میں اپنے والد امیرالمؤمنین علیہ السلام کی حکومت کے زمانے میں شادیوں اور طلاقوں کے چکر میں پڑ گئے تھے لیکن منصور نے اپنے ہی منشیوں کی بات رد کرتے ہوئے کہا کہ “جب معاویہ نے اقتدار پر مکاری سے قبضہ کیا تو امام (ع) نے عورتوں کو توجہ دینا شروع کردی اور اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹے بھلکڑ ہوتے ہيں”۔
استاد هاشم معروف الحسنی اس بے بنیاد اور نامردی پر مبنی تہمت کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
ستر اور نوے اور ان سے کم یا زیادہ شادیوں سے متعلق روایات اور آپ پر (معاذاللہ) زن پرستی کا الزام لگانے والی روایات نیز امیرالمؤمنین علیہ السلام کی جانب سے امام حسن (ع) کی ملامت پر مبنی روایات کی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا منبع و ثبوت صرف وہ روایات ہیں جو مدائنی اور اسی جیسے جھوٹوں سے نقل ہوئی ہیں۔
ہاشم معروف الحسنی مزید لکھتے ہیں: مدائنی، واقدی اور ان جیسے دیگر مؤرخین نے تاریخ ایسی جابر حکمرانوں کے سائے میں لکھی ہے جو اہل بیت علیہم السلام کے دشمن تھے، اور اہل بیت (ع) کے حقائق کو متنازعہ بنانے اور انہیں نقصان پہنچانے کے سلسلے میں کسی بھی کوشش و سازش سے فروگذاشت نہیں کرتے تھے۔ جبار عباسی حکمران بھی تعصب اور نیت کی پلیدی کے حوالے سے اپنے اموی اسلاف سے کسی طور بھی کم نہ تھے۔ عباسی بھی علویوں کے خلاف جعل حدیث کے حوالے سے امویوں کے ہمدست تھے (اور عباسیوں نے اہل بیت (ع) کے خلاف جعلی روایات و احادیث بنانے کا اموی سلسلہ جاری رکھا) عباسی حسنی سادات کے خلاف خاص قسم کا کینہ رکھتے تھے کیونکہ جن علویوں نے عباسی ستم کے خلاف جہاد کیا ان میں حسنی سادات سر فہرست تھے۔ 24
حقیقت کیا ہے؟
اب تک ہم نے امام حسن علیہ السلام کی شادیوں اور طلاقوں کی کثرت سے متعلق تہمتوں کا جواب دیا اور ثات کیا گیا کہ یہ بہتان امام حسن علیہ السلام کے زمانے اور امویوں کی طویل بادشاہت کے زمانے میں کہیں بھی نقل نہیں ہوا ہے اور عباسیوں کے دور میں منصور نے اس کی بنیاد رکھی ہے۔
حقیقت یہ ہے امام حسن علیہ السلام کی ازواج کی تعداد آٹھ یا دس25 سے زیادہ نہ تھی جن میں اکثریت کنیزوں کی تھی اور اس زمانے میں یہ ایک معمول کی بات تھی اور ہر آدمی کی بیویاں بھی ہوتی تھیں اور کنیزیں بھی تھیں جن کی تعداد کئی اشخاص کے ہاں اس تعداد سے کہیں زیادہ ہوتی تھی لیکن کسی نے کسی پر اس حوالے سے کوئی اعتراض نہیں کیا ہے اب کیا واقعہ رونما ہوا کہ زمانے کے معمول کے مطابق شادی کرنا اور کنیزیں رکھنا رسول اللہ (ص) کی آنکھوں کے تارے امام حسن علیہ السلام کے لئے عیب قرار پایا اور انہیں اس بے شرمانہ یلغار کا نشانہ بنایا گیا؟ کیا شادیوں کی اتنی تعداد روایت کے جعلی پن کی علامت نہیں ہے؟ اور پھر ہم نے ابتداء میں ہی ذکر کیا کہ رسول اللہ (ص) اور آل رسول اللہ (ص) کے گھوڑوں، خچروں، گدھوں، اونٹوں، تلواروں، دستاروں اور جوتوں تک کے نام ذکر کرنے والے مؤرخین نے آپ (ع) کی بیویوں کے نام اور ان کے خاندانوں کے نام ذکر کیوں ذکر نہيں کئے کیا یہ بات ان روایات کے جعلی پن کا ثبوت نہيں ہے؟
ابوطالب مكّى نے امام حسن علیہ السلام کی زوجات کی تعداد دو سو پچاس بتائی ہے ہم پوچھتے ہیں کہ اس نے ان زوجات میں سے چند ہی زوجات کا نام پتہ کیوں نہیں بتایا؟ اور ہاں! واقدی اور ابوالحسن کی راہ پر گامزن مؤرخین امام (ع) کے لئے اتنی ساری شادیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام (ع) کے فرزندوں کی تعداد 22 یا 31 سے زیادہ کیوں نہیں بتاسکے ہیں؟26
ابوطالب مکی سے پوچھتے ہیں کہ اگر امام علیہ السلام کی زوجات کی تعداد چارسو سے زیادہ تھی تو آپ کے فرزندوں کی تعداد اکتیس سے زيادہ کیوں نہیں ہوئی؟ کیا ان زوجات میں سے اکثریت بانجھ خواتین کی تھی؟ یا پھر یہ روایت ایک بہتان اور ایک ناروا تہمت ہے؟
1 تاریخ دمشق، (ترجمه امام حسن(ع))، ص 155۔
2 روضةالصفا، ج 3، ص 20۔
3 تاریخ الخلفاء، ص 191۔
4 بحارالانوار، ج 44، ص 169۔
5 تذكرةالخواص، ص 121۔
6 بحارالانوار، ج 44، ص 173۔
7 میزان الاعتدال، ج 3، ص 107۔
8 لسان المیزان، ج 4، ص 386۔
9 المنتظم، ج 7، ص 189۔
10 شذرات الذهب، ج 3، ص 120۔
11 الجرح والتعدیل، ج 4، ص 21۔
12 الكامل فىالتاریخ، ج 9، ص 44۔
13 الأعلام، ج 7، ص 160۔
14 الغدیر، ج 5، ص 290۔
15 اعیان الشیعه، ج 46، ص 172۔
16 سیرةالائمة الاثنى عشر، ج 1، ص 620۔
17 لسان المیزان، ج 4، ص 386۔
18 میزان الاعتدال، ج 1، ص 430۔
19 وہی منبع، ج 4، ص 350۔
20 وہی منبع، ج 6، ص 198۔
21 تذكرة الحفاظ، ج 1، ص 348۔
22 زندگى دوازده امام، ج 1، ص 604۔
23 جامع الرواة، ج 1، ص 225 و 284۔
24 الخلاصة، ص ؟
25 مرآةالعقول، ج 21، ص 96۔
26 وہی منبع۔