بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
.
❌ کیا امام حســـن مجتبی علیہ السلام زیادہ طلاقیں دیا کرتے تھے ؟ ❌
.
قارئین کرام: اکثر لوگ امام حسـن (ع) کے متعلق یہ سنتے ہیں امام حسـن (ع) زیادہ طلاقیں دیا کرتے تھے ، ہم نے چاھا کہ ان روایات کا مطالعہ کیا جائے کہ اُن روایتوں کی سندی حثییت کیا ہے؟
ہم نے آج اس تحریر میں فقط شیعہ اہم مصادر سے یہ روایت جو امام حسن (ع) کے متعلق وارد ہوئے ہیں ان کو نقل کرکے اس پر تبصرا کریں گئے
ٹوٹل شیعہ معتبر مصادر میں فقط چار روایات ہیں باقی اور کتابوں میں مثلا وسائل الشیعه وغیرہ جہاں پر ہیں وہ ماخذ ہیں اصل مصادر سے۔
.
قارئین
دو روایت اصول الکافی میں ہیں،
ایک روایت المحاسن البرقی میں ہے
اور
ایک روایت دعائم الاسلام قاضی محمد بن منصور مغربی کی کتاب میں موجود ہے
.
1️⃣ سب سے پہلے ہم اصول کافی کی ایک روایت پیش کرتے ہیں 👇
.
📜 حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَمَاعَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ عَلِيّاً قَالَ وَ هُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ لَا تُزَوِّجُوا الْحَسَنَ فَإِنَّهُ رَجُلٌ مِطْلَاقٌ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ هَمْدَانَ فَقَالَ بَلَى وَ اللَّهِ لَنُزَوِّجَنَّهُ وَ هُوَ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ ابْنُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع فَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَ وَ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ.
ترجمہ: بحذف السند….. امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ بتحقیق امام علی علیہ السلام نے ممبر پر جا کر ارشاد فرمایا حسن علیہ السلام سے کوئی بھی شادی نہ کرے بتحقیق یہ بہت زیادہ طلاقیں دینے والا مرد ہے،تو اسی دوراں ایک شخص کھڑا ہو گیا جس کا تعلق ہمدان سے تھا کہنے لگا اے امیر المومنین بھلے حسن علیہ السلام زیادہ طلاقیں دینے والا ہی کیوں نہ ہو پھر بھی ہم ان سے نکاح کروائیں گے کیونکہ یہ رسول خدا کے فرزند ہیں اور یہ فرزند امیر المومنین ہیں پھر یہ اگر چاہیں تو انہیں اپنے پاس رکھ لیں اگر چاہیں تو طلاق دے دیں
📚 حوالہ فروع الکافی دار المرتضی ج 6ص1212 کتاب الطلاق
علامہ مجلسی(رح) نے اپنی مشہور شرح مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول میں اس حدیث کے بارے اِس طرح لکھتا ہے
الحديث الرابع : موثق
يہ چوتھی حدیث مؤثق ہے
قارئین کرام
آپ جانتے ہیں شیعہ اصول کے مطابق مؤثق اس حدیث کو کہتے ہیں جس حدیث کے راویان سب کے سب یا بعض غیر امامی ہو ( مثلا واقفی، فطحی، بتری )
.
جیسا کہ آیت اللہ شیخ محمد باقر الایروانی اپنی کتاب مں لکھتا ہے
📜 المؤثق: وھو ماکان رواته کلهم او بعضهم من غیر الامامية
📚 حوالہ: قوائد الرجالیہ استاد محمد باقر الایروانی دام ظلہ الوارف ص ۲۰۴
مزید تصبرہ
مذکورہ روایت میں دو راوی ایسے ہیں جو شیعہ امامی نہیں ہیں یعنی واقفی ہیں،
.
پہلا راوی ہے حميد بن زياد ہے
.
اگرچہ ثقہ ہے لیکن واقفی ہے جیسا کہ شیخ الجلیل علامہ کشی (رح) نے رجال الکشی میں اس واقفی لکھا ہے
📜 حُمید بن زیاد ابن حماد بن زیاد کوفی سکن سورا وانتقل الی النینوی ..کان ثقة واقفًا
📚 حوالہ: رجال الکشی ص 130
اور علامہ حلی نے بھی خلاصة الاقوال فی معرفة الرجال میں حُمید بن زیاد کو واقفی لکھا ہے
اور علامہ حلی اِس کے بارے مزید لکھتا ہے اس کی روایت اُس صورت میں ٹہیک ہیں جب معارض سے خالی ہو ( اور یہ روایت ،تواتر اور عصمت امام حسن (ع) کے خلاف ہیں )
📚 خلاصة الاقوال فی معرفة الرجال: ص 129
مذکورہ روايت ميں دوسرا راوی الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَمَاعَةَ ہے۔
یہ بھی اگرچہ ثقہ ہے لیکن واقفی ہے
.
جیسا کہ شیخ الجلیل احمد بن العباس النجاشی (رح)نے اپنی کتاب رجال النجاشی میں لکھا ہے
📜 48 الحسن بن محمد بن سماعة، ابو محمد الکندی الصیرفی من شیوخ الواقفة: …کان یعاند الوقف ویتعصب،
📝 شیخ النجاش لکھتا ہے: الحسن بن محمد بن سماعة واقفی مذھب کا بڑا شیخ ( استاد ) تھا اور مذھب واقفیت سے اس کا بہت لگاؤ تھا اور بڑا اپنے مذھب میں بڑا متششدد تھا یعنی دوسرے مذاھب سے تعصب رکھتا تھا
📚 حوالہ: رجال الکشی ص 41
❓اب سوال پيدا ہوتا ہے کیا واقفی ثقہ کی روایت قبول اور قابل استدلال ہے
.
اس کے بارے ہم شیخ الطائفہ الشیخ الطوسی (رح) کا قول پیش کرتے ہیں جو اپنی کتاب عدة الأصول میں لکھتے ہیں 👇
📜 كان الراوي من فرق الشيعة مثل الفطحية، والواقفة، والناووسية وغيرهم نظر فيما يرويه:فان كان هناك قرنية تعضده أو خبر آخر من جهة الموثوقين بهم، وجب العمل به.
وان كان هناك خبر آخر يخالفه من طريق الموثوقين، وجب اطراح ما اختصوا بروايته والعمل بما رواه الثقة
📝 مختصر ترجمہ: شیخ صاحب لکھتا ہے اگرچہ کوئی راوی شیعہ فرقے سے ہو مثلا فطحی واقفی وغیرہ ان لوگوں کی روایات اس صورت میں قبول ہیں جب اُن کی روایات ثقہ روایات کے خلاف نہ ہو اگر ثقہ روایات کے خلاف کوئی واقفی، فطحی ، روایت نقل کرے تو اُس کی روایت قبول نہیں ہے
📚 عدة الأصول الشيخ الطوسي – ج ١ – الصفحة ١٥٠
✔ معلوم ہوا یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے اور قابل استدلال بہی نہیں ہے
.
2️⃣ قارئین کرام: اب ہم اصول کافی سے دوسری روایت کے بارے بحث کریں گے پہلے روایت ملاحضہ کریں
.
📜 عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد ، عن محمد بن إسماعيل بن بزيع ، عن جعفر بن بشير ، عن يحيى بن أبي العلاء ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : إن الحسن بن علي عليهما السلام طلق خمسين امرأة فقام علي عليه السلام بالكوفة فقال : يا معاشر أهل الكوفة لا تنكحوا الحسن فإنه رجل مطلاق فقام إليه رجل فقال : بلى والله لننكحنه فإنه ابن رسول الله صلى الله عليه وآله وابن فاطمة عليها السلام فإن أعجبته أمسك وإن كره طلق
📝 ترجمہ: بحذف السند ،امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے فرماتے ہیں جب امام حسن ابن علی علیہما السلام پچاس عورتوں کو طلاق دے چکے تو امام علی علیہ السلام نے اہل کوفہ سے مخاطب ہو کر فرمایا اے کوفہ والو کوئی بھی شخص حسن علیہ السلام سے شادی نہ کروائے کیونکہ یہ مرد بہت زیادہ طلاقیں دینے والا ہے یہ سن ایک شخص حضرت علی علیہ السلام کی طرف بڑھا اور کہنے لگا بھلے حسن علیہ السلام زیادہ طلاقیں دینے والا ہی کیوں نہ ہو پھر بھی ہم اسی سے ہی نکاح کروائیں گے کیونکہ یہ رسول اللہ کے بیٹے اور فاطمہ زہراء کا بیٹے ہیں اگر وہ پسند کرے تو رکھ لے اور اگر اسے پسند نہ آئے تو طلاق دیدے
📚 حوالہ: فروع الکافی دار المرتضی ج 6ص1212 کتاب الطلاق
قارئین کرام اس حدیث کے بارے علامہ مجلسی( رح) لکھتے ہیں
📜 الحديث الخامس مجھول :
📝 پانچویں حدیث مجھول ہے
کیوں کے اس روایت کے اندر ایک راوی ہے جس کا نام يحيى بن أبي العلاء ہے جو مجھول ہے اس کے بارے میں رجال شیعہ کے کوئی تذکرہ نہیں ہے جیسا کہ سید خوئی (رح) نے اس کو مجھول لکھا ہے
📜 یحیی بن أبی العلاء مجھول
📚 حوالہ: معجم الرجال سید الخوئی (رح): جلد 21صفحہ 27
لحاظہ دوسری روایت بھی سند کے لحاظ سے بلکل مردود اور ضعیف ہے
.
3️⃣ تیسری روایت : جس کو قاضی النعمان مغربی نے اپني کتاب دعائم الإسلام وذكر الحلال والحرام میں بغیر سند کے نقل کیا ہے ملاحضہ فرمائیں
📜 قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍ قَالَ عَلِيٌّ ع لِأَهْلِ الْكُوفَةِ لَا تُزَوِّجُوا حَسَناً فَإِنَّهُ رَجُلٌ مِطْلَاقٌ.
📝 ترجمہ: امام محمد باقر فرماتے ہیں علی (ع) نے فرمایا تھا اے اہل کوفہ اپنی بیٹیوں کی نکاح (میرے بیٹے) حسن( ع) سے نہ کرو کیوں کے وہ زیادہ طلاق دینے والے ہیں
📚 حوالہ: دعائم الإسلام ج 2 ص258
قارئین کرام : آپ نے ملاحضہ کیا یہ تیسری روایت بھی بغیر سند کہ ہے لحاظہ یہ بھی مرسل يعني ضعیف اور مردود ہے
.
4️⃣ چوتھی روایت المحاسن میں ہے‼
📜 أحمد بن مُحمد بن خالِد البَرقي عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: أَتَى رَجُلٌ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيّاً عليه السلام فَقَالَ لَهُ جِئْتُكَ مُسْتَشِيراً أَنَّ الْحَسَنَ عليه السلام وَ الْحُسَيْنَ عليه السلام وَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ خَطَبُوا إِلَيَّ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ أَمَّا الْحَسَنُ فَإِنَّهُ مِطْلَاقٌ لِلنِّسَاءِ وَ لَكِنْ زَوِّجْهَا الْحُسَيْنَ فَإِنَّهُ خَيْرٌ لِابْنَتِكَ.
📝 ترجمہ: امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ امام نے فرمایا ایک مرتبہ ایک شخص امام علی کے پاس آیا اور مولا علی علیہ السلام سے کہنے لگا کے میں آپ کے پاس ایک مشورہ لینے آیا ہوں (کہ میں اپنی بیٹی کی منگنی؟ یا شادی؟آپ کے بیٹوں) یعنی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام اور آپ بھتیجے عبداللہ بن جعفر میں سے کس سے کرواؤں؟ تو امام علی علیہ نے فرمایا مشورہ دینے والا معتمد ہوتا ہے میر بیٹا حسن بہت زیادہ طلاقیں دینے والا ہے آپ اپنی بیٹی کی شادی حسین علیہ السلام کروا دیں پس یہ آپ کی بیٹی کے لیے بہتر ہے
📚 حوالہ: المحاسن جلد 2 ص 417
قارئین کرام: اگرچہ یہ روایت سند کے اعتبار صحیح ہے لیکن شاذ اور نادر ہے
دوسری بات: عصمت امام حسن (ع) کے خلاف ہے
تیسری بات: اس روایت کے متن میں بہت اضطراب ہے
.
المحاسن والی روایت کا پہلے آپ خلاصہ دیکھیں
مشورا لینے والا جو شخص تھا وہ “مسيب بن نجبه” تھا جس نے امام سے مشورہ پوچھا میں اپنی بیٹی “جمانه بنت مسیب” کی شادی آپ کے بھتیجے عبداللہ بن جعفر (رض) سے کراؤں یا آپ کے بیٹے حســن (ع) سے کراؤں یا آپ کے بیٹے حسین (ع) سے کراوں اس وقت امام عــلی (ع) نے امام حسین( ع) کا انتخاب کیا
.
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے مُسیب بن نجبه نے اپنی بیٹی جمانه کی شادی امام حسـین ع سے کروائی ہے
.
اور اہل سنت کے عالم ابن عساکر نے لکھا امام علی( ع) نے مُسیب بن نجبه کو عبداللہ بن جعفر (ع) کا مشورہ دیا يعني یہ روایت المحاسن کے بلکل خلاف ہے
.
قارئین کرام: آپ ابن عساکر کی وہ روایت ملاحضہ کریں👇
📜 أنبأنا أبو القاسم علي بن إبراهيم ، وأبو الوحش سبيع بن المسلّم وغيرهما ، عن أبي الحسن بن نظيف المقرئ ، أنا أبو الفتح إبراهيم بن علي بن إبراهيم بن سيبخت البغدادي ، نا أبو بكر محمّد بن يحيى بن العبّاس الصولي ، حدّثني عون عن أبيه ، عن الهيثم ، نا ابن عيّاش ، عن أبيه قال :
خطب الحسن والحسين وعبد الله بن جعفر إلى المسيّب بن نجبة ابنته الحسان فقال لهم : إن لي فيها أميرا لن أعدو أمره فأتى عليّ بن أبي طالب فأخبره خبرهم ، واستشاره ، فقال له علي : أما الحسن ، فإنه رجل مطلاق وليس تحظين عنده ، وأما الحسين فإنما هي حاجة الرجل إلى أهله ، *وأما عبد الله بن جعفر فقد رضيته لك فزوجه المسيّب ابنته.*
📚 حوالہ تاریخ دمشق ج 26ص 262
قارئین کرام اس روایت سے معلوم ہوتا ہے مسیب بن نجبه نے اپنی بیٹی کی شادی عبداللہ بن جعفر( ع) سے کروائی ہے
.
اور اس کو شیعہ عالم الشیخ النمازي الشاهرودي نے بھی لکھا ہے
📜 11271- عون بن عبد اللّه بن جعفر الطيّار:من شهداء الطفّ و متشرّف بسلام الناحية المقدّسة.قيل: و هذا عون الأكبر و أمّه زينب العقيلة. و عون الأصغر مقتول يوم الحرّة و أمّه جمانة بنت المسيّب بن نجيّة الفزاري.
📜 ترجمہ: عون اصغر بن عبداللہ یوم حرہ کے دن شھید ہوئے اس کی ماں کا نام جمانه بن مسیب بن نجبه تھا
📚 حوالہ: مستدركات علم رجال الحديث الجزء : 6 صفحة : 143
.
قارئین کرام : آپ نے ملاحضہ کیا راویت المحاسن البرقی کے متن میں شدید اضطراب ہے المحاسن کی روایت میں یہ الفاظ ہیں
وَ لَكِنْ زَوِّجْهَا الْحُسَيْنَ فَإِنَّهُ خَيْرٌ لِابْنَتِكَ.
حالانکہ شیعہ اور سنی علماء نے یہی لکھا مُسیب بن نجبه کی بیٹی حسین (ع) کی بیوی نہیں بلکہ عبداللہ بن جعفر کی بیوی تھی
لحاظہ یہ چاروں روایات سنداً اور متنًا حجیت سے خالی ہے اور بلکل موضوع اور من گھڑت ہیں
🖋 تحریر وتحقیق: سیف نجفی