بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
.
صلح امامِ حسنؑ بذبانِ امام حسنؑ
اور
صلح حسن ع کے اسباب و حالات
.
📜 وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَـهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّـٰهِ ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْـمُ○ وَاِنْ يُّرِيْدُوٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللّـٰهُ ۚ هُوَ الَّـذِىٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ○ (الانفال 61-62)
(ترجمہ)
اور اگر وہ صلح کے لیے مائل ہوں تو تم بھی مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، بے شک وہی سننے والا جاننے والا ہے. اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی.
.
ابی سعید نے امام حسنؑ سے طنزیہ لہجے میں پوچھا فرزندِ رسول اللہﷺ آپ کا معاویہ سے میل ملاپ ہو گیا تو آپؐ نے اس سے صلح کر لی؟
حالانکہ آپ کو یہ علم ہے کہ یہ حق آپؐ کا ہے اس کا نہیں ۔ معاویہ لعین باغی و گمراہ ہے؟
آپؑ نے فرمایا اے ابو سعید یہ بتاؤ کیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت نہیں ہوں؟
اور کیا میرے بزرگوار ان لوگوں کے امام نہ تھے؟
اس نے کہا ” جی ہاں“
تو آپ نے فرمایا کیا میں وہ نہیں ہوں جس کے متعلق اور جس کے بھائی کے متعلق رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
“حسنؑ و حسینؑ یہ دونوں امام ہیں خواہ کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں؟
ابی سعید نے کہا ” جی ہاں“
امامؑ نے فرمایا پھر تو میں کھڑا ہو جاؤں تو بھی امام ہوں اور بیٹھا رہوں تو بھی امام ہوں۔
اے ابو سعید میرا معاویہ سے صلح کرنے کا سبب وہی ہے جو بنیﷺ کا بنی حمزہ و بنی اشجع اور اہل مکہ سے حدیبیہ سے پلٹتے وقت صلح کا سبب تھا۔
بلکہ وہ لوگ تو سرے سے قرآن کی تنزیل کا انکار کرتے تھے
معاویہ اور اسکے اصحاب تاویل و تفسیر سے انکار کرتے ہیں
اے ابو سعید جب میں اللہ کی طرف سے امام بنا ہوں تو میں صلح کروں یا جنگ جو بھی طے کروں اس میں ناسمجھی کو دخل نہیں ہے
سنو اگر میں یہ صلح نہ کرتا تو روئے ذمین پر ہمارے شیعوں میں سے کوئی نہ بچتا۔۔۔
📚 شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص: 211
.
.اسی طرح کی روایت طبرسی نےاحتجاج میں نقل کی هے.
📝 “ايها الناس ان معاوية زعم: اني رأيته للخلافة اهلا ولم ار نفسي لها اهلا وكذب معاوية، انا أولى الناس بالناس في كتاب الله وعلى لسان نبي الله، فاقسم بالله لو ان الناس بايعوني واطاعوني ونصروني، لاعطتهم السماء قطرها، والارض بركتها، ولما طمعتم فيها يا معاوية”.
اے لوگو! معاویہ نے گمان کیا ہے کہ میں نے اس کو خلافت کے لئے اہل سمجھا اور خلافت اس کے سپرد کی ہے جبکہ معاویہ نے جھوٹ بولا ہے، میں کتاب اللہ اور رسول اللہ(ص) کے زبانی مسلمانوں کے معاملہ میں ان سے بھی زيادہ دخل دینے کا حقدار ہوں.
پس خدا کی قسم اگر لوگ میری بیعت کرتے اور میرے اطاعت گزار و فرمانبردار ہوجاتے اور میری مدد کرتے تو آسمان انہیں اپنی بارش عطا کرتا اور زمین اپنی برکت عطا کرتی اور پهر تو بھی اس میں طمع نہ کرتا اے معاویہ (یعنی تجهے جرت هی نہ هوتی خلافت کی طمع کرنے کی).
📚 طبرسی الاحتجاج جلد 2 ص 289
📚 مجلسی بحار الأنوار ج 44 ص 22
.
کتاب احکام القرآن کا مؤلف، ابن عربی، کہتا ہے:
📝 صلح امام حسن(ع) کا ایک سبب یہ تھا کہ آپ دیکھ رہے تھے کہ خوارج نے آپ کو گھیر لیا ہے اور جان گئے کہ اگر معاویہ کے خلاف جنگ جاری رکھیں اور اس جنگ میں مصروف ہوجائیں تو خوارج اسلامی ممالک کی طرف دست درازی کریں گے اور ان پر مسلط ہوجائیں گے اور اگر خوارج کے ساتھ میدان جنگ میں اتریں اور انہیں دفع کرنے میں مصروف ہوجائیں تو معاویہ اسلامی ممالک اور آپ کے قلمرو پر مسلط ہوجائے گا.
📚 ابن عربی، احکام القرآن جلد 3 صفحہ 152
.
مسلمانوں نے رسول اللہ(ص) کی ہجرت کے بعد اور اسلامی حکومت کی تشکیل سے 40 برس کے عرصے میں غزوات اور سرایا کے علاوہ خلفاء ثلاثہ کے دور میں بھی روم، ایران اور جزیرہ نمائے عرب کے پڑوسی ممالک کے ساتھ طویل المدت لڑنے کے علاوہ امیرالمؤمنین(ع) کے دور میں بھی تین بڑی اندرونی جنگیں بھی برداشت کی تھیں۔
چنانچہ ان میں جنگ و پیکار کا حوصلہ دکھائی نہيں دے رہا تھا؛ اور معدودے چند مخلص شیعیا علی(ع) اور جنگجو نوجوانوں کے علاوہ باقی مسلمان عافیت طلبی کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کو تسلیم کرچکے تھے۔
چنانچہ جب امام حسن(ع) اور آپ کے قریبی اصحاب(یعنی) حجر بن عدی اور قیس بن سعد انصاری نے عوام کو عام لام بندی کے لئے آپ کی لشکرگاہ میں آنے کی دعوت دی تو بہت کم لوگوں نے مثبت جواب دیا اور باقی لوگوں نے کوئی رغبت نہ دکھلائی.
📚 شیخ مفید ، الارشاد ج 2 ص 6
.
جب امام حسن نے دیکھا کہ صحابی رسول سلیمان بن صُرَد الخزاعي نے صلح پر خوش نہیں تو اسکے جواب میں امام ع نے فرمایا.
📜 “أنتم شيعتنا و أهل مودتنا فلو كنت بالحزم في أمر الدنيا أعمل، و لسلطانها أركض و أنصب، ما كان معاوية بأبأس مني بأسا، و لا أشد شكيمة و لا أمضی عزيمة و لكني أری غير ما رأيتم، و ما أردت بما فعلت إلا حقن الدماء”۔
“تم ہمارے شیعہ اور پیروکار، ہماری مودت کرنے والے ہو پس اگر میں دنیا کے لئے کام کرنے والا ہوتا اور تسلط جمانے اور اقتدار کے لئے کام کرتا (یعنی اقتدار کا بهوکا هوتا) تو معاویہ ہرگز مجھے سے زیادہ طاقتور، نہ تھکنے والا اور صاحب عزم صمیم نہ تھا؛ لیکن میں نے جو کچھ دیکھا وہ مختلف تھا اس سے جو تم نے دیکھا؛ اور جو کچھ میں نے کیا اس سے میرا مقصد سوائے تمہارے خون کی حفاظت کے، کچھ بھی نہ تھا.”
📚 راوندی، تنزیه الانبیاء، ص 172
📚 بحار الأنوار ج 44 ص 22-28
.
امام حسن(ع) نے معاویہ کے خلاف جنگ کے لئے لوگوں کی آمادگی آزمانے کے لئے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:
📜 “اے لوگوں معاویہ نے میری طرف صلح کا پیغام بھیجا ہے اگر تم جنگ کے لئے تیار ہو تو ہم صلح کی پیشکش کو مسترد کريں اور اپنی شمشیر کا سہارا لے کر انجامِ کار کو اللہ کے سپرد کریں؛ لیکن اگر بقاء چاہتے ہو تو صلح کی پیشکش قبول کریں اور تمہارے لئے امان حاصل کریں!” ؛ اس اثناء میں پوری مسجد سے آوازیں آنے لگیں: (یعنی بقاء، بقاء)، اور یوں انھوں نے صلح کی تائید کرلی.
📚 ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3، ص 406
.
مزید احوال شیخ مفید رح کی نقل کی گئی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے.
📝 “امام حسن(ع) کے لشکر میں تھے ایسے کوفی عمائدین جو بظاہر آپ کے تابع و فرمانبردار تھے لیکن انھوں نے خفیہ طور پر معاویہ کو خطوط لکھے اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی یقین دہانی کرائی اور اس کو اپنی جانب آنے کی رغبت دلائی اور اپنے ذمے لیا کہ جب وہ اپنا لشکر لے کر امام حسن کے لشکر کے قریب پہنچیں تو وہ آپ کو گرفتار کرکے معاویہ کی تحویل میں دیں گے یا پھر آنجناب کو اچانک گھیر کر قتل کریں گے”
📚 شیخ مفید ، ، الإرشاد ج 2 ص9
.
اس ساری صورتحال کے پیش نظر امام حسن(ع) اور آپ کے شیعہ و پیروکاروں کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ معاویہ اس صورت حال میں انہیں مدت سے کچل دیتا.
اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے آپ ع نے باغی شام کے ساتھ صلح کر لی کیونکہ وہ اپکے مقابلے میں بہتر عسکری پوزیشن میں تها اور شام کے باغیوں کی ایک کثیر تعداد اسکے جهنڈے تلے مجتمع و متحد تهی.اور شام، مصر، یمن، اور عراق کے صوبائی علاقے معاویہ کے قبضے میں جا چکے تھے..معاویہ نے ان علاقوں میں اپنی متوازی حکومت قائم کر لی..اور حکمیت کے متنازعہ فیصلہ کے بعد اپنی خلافت کا اعلان کردیا.. اور عید و جمعہ کی نمازوں میں اسکے نام سے خطبے پڑهے جارهے تهے… یعنی عملاً امت دو ٹکڑوں میں بٹ چکی..
.
ضروری وضاحت
امام حسن علیہ السلام سے متعلق ایک من گھڑت بات وہ یہ کہ رسول اللّه نے پیش گوئی کی تھی کہ امام حسن مسلمانوں دو گروہ میں صلح کرائیں گے
یہ روایت صرف سنی کتابوں سے نقل ہوئی ہے۔
شیعہ کتب میں مصادر اولیہ میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے
ہاں شیعہ متاخرین نے سنی کتب سے اسے نقل کیا ہے مثلا بحار الانوار میں یا مستدرک سفینہ البحار وغیرہ میں۔
اس لئے شیعوں کے نذدیک صرف صلح صحیح ہے، مگر یہ پیش گوئی من گھڑت روایت ہے
👈🏻 اگر رسول اللّه ص نے ایسی کوئی پیش گوئی کی ہوتی تو امام حسنؑ اپنے لوگوں کو صلح کی وضاحت کرتے ہوئے اس سے ضرور استدلال کرتے
پیش گوئی والی روایت 👇🏼
📜 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ اسْتَقْبَلَ وَاللَّهِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ مُعَاوِيَةَ بِكَتَائِبَ أَمْثَالِ الْجِبَالِ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِنِّي لأَرَى كَتَائِبَ لاَ تُوَلِّي حَتَّى تَقْتُلَ أَقْرَانَهَا. فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ ـ وَكَانَ وَاللَّهِ خَيْرَ الرَّجُلَيْنِ ـ أَىْ عَمْرُو إِنْ قَتَلَ هَؤُلاَءِ هَؤُلاَءِ وَهَؤُلاَءِ هَؤُلاَءِ مَنْ لِي بِأُمُورِ النَّاسِ مَنْ لِي بِنِسَائِهِمْ، مَنْ لِي بِضَيْعَتِهِمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِ رَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ، فَقَالَ اذْهَبَا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فَاعْرِضَا عَلَيْهِ، وَقُولاَ لَهُ، وَاطْلُبَا إِلَيْهِ. فَأَتَيَاهُ، فَدَخَلاَ عَلَيْهِ فَتَكَلَّمَا، وَقَالاَ لَهُ، فَطَلَبَا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُمَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِنَّا بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَدْ أَصَبْنَا مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَإِنَّ هَذِهِ الأُمَّةَ قَدْ عَاثَتْ فِي دِمَائِهَا. قَالاَ فَإِنَّهُ يَعْرِضُ عَلَيْكَ كَذَا وَكَذَا وَيَطْلُبُ إِلَيْكَ وَيَسْأَلُكَ. قَالَ فَمَنْ لِي بِهَذَا قَالاَ نَحْنُ لَكَ بِهِ. فَمَا سَأَلَهُمَا شَيْئًا إِلاَّ قَالاَ نَحْنُ لَكَ بِهِ. فَصَالَحَهُ، فَقَالَ الْحَسَنُ وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ يَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ، وَهْوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرَى وَيَقُولُ “ إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ”.
ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت امام حسن بصری سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما ( معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے ، تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا ( جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص تھے ) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائےگا ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی ، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے ، کہ اے عمرو ! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کر دیا ، یا اس نے اس کو کر دیا ، تو ( اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ) لوگوں کے امور ( کی جواب دہی کے لیے ) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا ، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبرگیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا ۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا ۔ آخر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے ۔ عبدالرحمٰن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز ، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو ، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو ۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں ، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں ، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں ۔ وہ کہنے لگے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں ۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔ حضرت حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا ، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔ آخر آپ نے صلح کر لی ، پھر فرمایا کہ میں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا ، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے ، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا ۔
📚 صحيح البخاري، رقم الحديث: 2704
اگر بلفرض محال اس روایت کو صحیح مان بھی لیں ہم تو کیا کیا سب مسلمانوں کے گروہ جنتی ہیں ؟
ظاہر ہے نہیں
اسلئے اس روایت سے ہمارے نزدیک مخالف گروہ کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی
.
.