صلحِ امامِ حسن ع پر شیخ الصدوق کا تبصرہ ۔

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

.

صلحِ امامِ حسن ع پر شیخ الصدوق کا تبصرہ ۔

.

اب میں ( یعنی شیخ صدوق) کہتا ہوں اللہ آپ پر رحم فرمائے جو کچھ یوسف بن مازن نے امام حسن ع اور معاویہ کے متعلق لکھا ، یہ اہل عقل و تمیز کے نزدیک جنگ بندی کے لئے معاہدہ کہا جائے گا ، آپ خود ہی دیکھ لیں انہوں نے چند سطروں کے بعد یہ کہہ دیا کہ معاویہ نے امام حسن ع سے جو معاہدہ کیا اسے پورا نہیں کیا یہ نہیں کہا کہ آپ نے ان شرائط پر اس کی بیعت کی ۔

لیکن یہ دعویٰ کرنے والے جو غلط دعوی کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا شرائط پر بیعت ہوئی مگر معاویہ نے انہیں پورا نہیں کیا

اول تو اس سے امام حسن ع پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا اور سب سے بڑی اور مستحکم دلیل جو ان بحث کرنے والوں کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہے وہ عہد ہے کہ جو آپ نے معاویہ سے لیا کہ وہ کبھی بھی اپنے آپ کو امیرالمومنین نہیں کہلوائے گا اور امام حسن ع اپنی نظر میں تو لامحالہ مومن تھے اس لئے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ معاویہ ان پر حاکم اور امیر نہ ہوگا ۔

اس لئے کہ امیر وہ ہے کہ جو حکم دے اور اس کے حکم کی تعمیل کی جائے چناچہ امام حسن ع نے اس تدبیر سے معاویہ کی امارت کو اپنی ذات پر سے ساقط کر دیا نیز امیر وہ ہوتا ہے جو کو اوپر سے امیر بنایا جائے اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ نہ اللہ نے اس کو ان پر امیر بنایا نا اللہ کے رسول ص نے اس کو ان پر امیر بنایا ۔

رسول ص نے فرمایا مال غنیمت اس کے لئے نہیں کو خود مال غنیمت بنا ہو مطلب یہ کہ اس کا معملہ ان ہوازن کے لوگوں جیسا ہے جو مہاجرین اور انصار کے لیے مال غنیمت بنے تھے اور یہ لوگ مہاجرین و انصار کے آزاد کردہ تھا ، اور رسول ص نے مال غنیمت سے انکی ابتدائی مدد فرمائی تھی اور قریش اور اہل مکہ کا معملہ بھی اہل ہوازن کا معملہ ہے اور آپ ص نے ان لوگوں پر کسی کو امیر بنایا تھا ، اور امیر بنایا اللہ کی طرف سے ہوتا ہے یا لوگوں کی طرف سے ، جیسا کہ معاویہ کے علاؤہ دوسروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امت نے اجماع کیا اور فلاں فلاں اور فلاں کو امیر بنایا تو یہ بھی امیر بنانا ہے ، بات اتنی ہے کہ یہ لوگوں کی طرف سے امیر ہے اللہ اور اس کے رسول ص کی طرف سے نہیں اور اگر چہ وہ اللہ ، رسول ص اور مومنین کی طرف سے امیر نہیں بنے مگر جن لوگوں نے انہیں امیر بنایا وہ سن کے امیر تو ہوئے اور امام حسن ع بھی مومنین کے ایک فرد تھے انہوں نے یہ شرط لگا کر کہ معاویہ خود کو امیر المومنین نہیں کہلوائے گا آپ نے معاویہ کو اپنے اوپر امیر نہیں بنایا اور کسی امیر اور اس کا حکم ماننا آپ پر لازم نہیں تھا ۔

اور اس طرح آپ نے معاویہ کی ماتحتی و محکومیت سے خود کو جدا کر لیا کہ وہ مومنین کا اور جن کے دلوں پر ایمان نقش ہے ان کا بھی امیر نہیں ہے ۔ اس لئے کہ مومنین کے اس طبقہ نے کبھی بھی اس کو اپنا امیر اور اپنے لئے اس کو واجب الاطاعت تسلیم نہیں کیا ۔ اور اس لئے کہ امام حسن خود نیکو کاروں کے امیر اور فاجروں کے قات—ل تھے۔

اور آنحضرت کا یہ ارشاد اس امر کا موجب ہے کہ ان ابرار و نیکو کار ہستیوں پر کوئی شخص امیر بننے کی کوشش نہ کرے اور پھر امیر الابرار پر امیر بنانا تو کسی طرح بہتر و مناسب نہیں ہے ۔ علاوہ بریں اگر امام حسن علیہ السلام معاویہ سے ان شرائط پر صلح نہ بھی کرتے اور وہ خود کو امیر المومنین کہلاتا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بھی تو موجود ہے کہ قریش تمام لوگوں کے امام و سردار ہیں قریش کے نیکو کار تمام نیکو کاروں کے امام ہیں اور قریش کے بد کار و ف—جار تمام بد کاروں اور فجا—روں کے امام ہیں نیز اگر کوئی شخص اس بات کا اعتقاد رکھے کہ قریش میں سے معاویہ کی امامت در حقیقت اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی اطاعت و اتباع اس پر واجب ہے تو اس کو یہ اعتقاد رکھنا پڑے گا کہ مال خدا ہضم کر لینا اللہ کے بندوں کو اپنا غلا–م بنانا اور دین خدا میں دخل اندازی کرنا اور حکم خدا کو ترک کرنا اس کے لئے واجب ہے اور اگر وہ اپنی نظر میں واقعی مومن ہے تو اللہ تعالی نے مومنین کو نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کا حکم دیا

چنانچہ ارشاد ہوتا ہے اور تم نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو ۔ اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ پس اگر مال خدا کا ہضم کر لینا اور اللہ کے بندوں کو غلا–م بنانے اور دین خدا میں دخل کرنے کا شمار نیکی اور تقوی میں ہے تو آپ کی تاویل کے اعتبار سے معاویہ کو اپنا امام بنانا بھی آپ کے لئے جائز ہے ۔

مگر جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مال خدا پر قبضہ ان کے مقہور ہونے کی وجہ سے اور دین خدا میں دخل اندازی اہل دین کے مغلوب ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ اس کے قہر و غلبہ کی وجہ سے جس نے ان لوگوں کو غلا–م بنا رکھا ہے اور اللہ تعالی نے پہلے ہی حکم دے دیا ہے کہ مال خدا کو ناجائز تصرف اور دین خدا کو بیجا دخل اندازی سے اللہ کے بندوں کو غلام بننے سے بچاؤ تو وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نیکی ایک فا–جر کے ہاتھ میں جا کر بے بس ہو جاتی ہے اور نیکو کار لوگ فا–جروں کے ہاتھوں مغلوب ہو جاتے ہیں اور یہ محض اس لئے ہے کہ یہ لوگ ایک ایک مرد فا–جر کا فح—ش و فجو—ر و گناہ و ظلام میں تعاون کر رہے ہیں

حالانکہ اس سے ان کو منع کیا گیا ہے اور اس کے خلاف ان کو حکم دیا گیا ہے ۔

چنانچہ ایک مرتبہ سفیان ثوری سے دریافت کیا گیا ظلم کسے کہتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ سنو ظلم یہ بھی ہے کہ بانقیا کے صدقہ کا مال حیرہ لےجا کر وہاں مستحقین کو تقسیم کر دیا جائے جبکہ بانقیا میں خود مستحقین موجود ہوں. اور اگر تم یہ سوال کرو کہ امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان عہد نامہ میں اس شرط کا کیا مطلب ہو گا کہ معاویہ اپنے سامنے کسی گواہی میں آپ کو طلب نہیں کرے گا

جبکہ معاویہ پر یہ شرط عائد کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالی نے یہ کہ دیا ہے کہ جس کو واقعہ کا علم ہو اس پر گواہی دینا واجب ہے؟

اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ گواہ پر گواہی دینے کے لئے کچھ شرائط اور شریعت کی طرف سے کچھ معینہ حدود ہیں کہ جس سے تجاوز کرنا جائز نہیں اس لئے کہ اللہ تعالی کے مقرر کردہ حدود سے جو شخص تجاوز کرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا اور اس کی سب سے بڑی اور تاکیدی شرط یہ ہے کہ ایسے حاکم و قاضی کے سامنے گواہی دینی ہو جو عدل و انصاف کافیصلہ کرتا ہو اور گواہ کو اس امر کا اطمینان اور بھروسہ ہو کہ حاکم و قاضی میری گواہی کو حق تصور کرے گا اور ہماری اس گواہی سے ظلم و زیادتی کا ازالہ ہو جائے گا ۔ اگر ایسا نہیں تو پھر گواہی دینے کا فرض اس سے ساقط ہے ۔

اور امام حسن علیہ السلام کے نزدیک معاویہ امیر نہ تھا جس کو اللہ تعالی اور اس کے رسول نے امیر مقرر کیا ہو یا ایسے کسی امیر نے اسے حاکم مقرر کیا ہو جو خود منجانب اللہ ہو اور پھر امام حسن علیہ السلام کو علم تھا کہ جو امیر ہے وہی حاکم وقاضی اور جو قاضی و حاکم ہے وہی امیر بھی بنا ہے اور آپ نے یہ شرط لگا دی تھی کہ تم اپنے کو امیر المومنین نہیں کہلاؤ گے اس طرح آپ نے اس کی عمارت کو تسلیم نہیں کیا تو پھر اس کے سامنے جا کر گواہی دینا فرض کہاں رہ گیا ۔

اس لئے کہ گواہی دینے کی جو شرط تھی وہ ختم ہو گئی اور جو نہ امیر ہے اور نہ حاکم و قاضی پر اس کا فیصلہ بھی لغو اور بیکار ہے اور اس کے سامنے گواہی دینا بھی لغو اور عبث ہے ۔

اور اگر تم یہ سوال کرو کہ امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان معاہدہ میں اس شرط کا کیا مطلب کہ معاویہ شی—-عان علی کا ذرا بھی تعاقب نہ کرے گا؟

تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ امام حسن علیہ السلام کو یہ علم تھا کہ یہ قوم تاویل کو اپنے لئے جائز تصور کرے گی اور اس تاویل میں اس امر کا جواز پیدا کرے گی کہ وہ لوگ جس کا بھی چاہیں خو—ن بہائیں اگر چہ اللہ نے اس کے بہانے کو منع کیا ہو اور وہ لوگ جس کا چائیں خو—ن نہ بہائیں اگر چہ اللہ نے اس کے خو—-ن بہانے کا حکم دیا ہو ۔ تو امام حسن علیہ السلام نے چاہا کہ شی—عان علی کے لئے معاویہ کے اس تاویل کے فساد اور بطلان ظاہر کر دیں جس طرح آپ نے یہ شرط رکھ کر کہ وہ خود کو امیرالمومنین نہ کہلائے گا اس کی امارت کو باطل اور اسے فاسد قرار دے دیا اور آپ نے یہ شرط رکھ کر کہ معاویہ آپ اور آپ کے شیعوں میں سے کسی کو کسی گواہی و شہادت میں طلب نہیں کرے گا

لہذا اس طرح معاویہ کا اقتدار اور اس کا دائرہ کار امام حسن اور مومنین کے سوا دوسرے لوگوں پر رہ گیا اور اس کا دائرہ کار بخت نصر کی مانند ہو گیا اور آپ ان کے حضرت دانیال کی مانند تھے یا معاویہ کا دائرہ کار عزیز مصر کے مانند ہوا اور آپ ان کے درمیان حضرت یوسف کے مانند تھے۔ اور حضرت علی کے دونوں فرزندوں حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام جو مال سواریوں پر لا کر معاویہ کی طرف سے آتے تھے اسے لے لیا کرتے تھے مگر اپنے اوپر یا اپنے اہل و عیال پر اس میں سے ذرا بھی صرف نہیں کرتے تھے ۔

شبیہ بن نعامہ کا بیان ہے کہ حضرت علی ابن الحسین ع بہت زیادہ داو و دہش کیا کرتے تھے جب ان کی وفات ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ مدینہ کے چار سو خاندانوں کی پرورش اس طرح کیا کرتے تھے کہ لوگوں کو پتا نہ چلتا تھا ۔ اور اگر کہنے والا کے کہ یہ دیکھئے یہ ابن سیرین کی حدیث ہے کہ ، انس بن سیرین سے انہوں نے کہا کہ بیان کیا مجھ سے حضرت حسن بن علی علیہ السلام نے جس دن وہ ز–خمی کر دئے گئے تھے کہ حابرسا اور جاہلقا کے درمیان کوئی شخص ایسا نہیں جس کا جد نبی ص ہو سوائے میرے اور بھائی کے ۔ مگر میری رائے یہ ہوئی کہ امت محمدی کے درمیان صلح ہو جائے حالانکہ میں اس کازیادہ حقدار ہوں تو ہم نے معاویہ سے بیعت کر لی اور شاید یہ ایک مدت تک لوگوں کے لئے اور آزمائش ہو ۔ اب میں کہتا ہوں کہ کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ انس کیسے کہہ رہے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام جس دن ز–خمی کر دئیے گئے یہ نہیں کہا کہ جس دن بیعت کی اس لئے کہ ان کے نزدیک بھی در حقیقت یہ بیعت نہ تھی بلکہ یہ ایک جنگ بندی تھی جیسا کہ دشمنان خدا اور دوست داران خدا کے درمیان ہوا کرتی ہے ان کے درمیان مطابقت نہیں ہوا کرتی ۔

چنانچہ امام حسن کی یہ رائے ہوئی کہ تلو–ار روک لی جائے اپنے اور معاویہ کے درمیان اپنی مجبوری کے پیش نظر جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ رائے ہوئی کہ تلوار روک لی جائے اپنے اور ابوسفیان و سہیل بن عمر کے درمیان اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس صلح پر مجبور نہ ہوتے تو صلح ہر گز نہ کرتے ۔

 

 [ علل الشرائع ، باب : 159 ، 1/281 ]