کیا امام حسن کا صلح کرنا اچھے تعلقات کی دلیل ہے ؟ (کتب اہل سنت)

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

.

صلح امام حسن ع

❌ صلح امام حسن ع سے کچھ اموی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ امام حسن ع نے امیر شام سے صلح کرلی تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انکے تعلقات اچھے تھے اور امام حسن ع اپنے والد ع کے موقف سے ہم آہنگی نہیں رکھتے تھے ۔

✅ سب سے پہلے تو صلح کی حقیقت جانتے ہیں آقا دو جہاں نبی ص کی زبانی :

📜 خالد بن خالد سے یہی حدیث مروی ہے کہ حذیفہ رض نے کہا : میں نے (رسول ص سے ) عرض کیا : پھر تلوار کے بعد کیا ہوگا ؟ آپ ص نے فرمایا :
” لوگ باقی رہیں گے مگر دلوں میں ان کے فساد ہوگا اور ظاہر میں صلح “

📚 سننن ابی داؤود ، رقم : 4245

اس کی شرح میں معروف حنفی عالم ملا علی قاری امام علی ع اور معاویہ کی جنگ اور صلح حسن ع کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

📜 “رسول ص کا فرمانا کہ صلح دخن کے ساتھ ہوگی ، یعنی جب صلح ہوگی تو اس میں کدوت ہوگی”

📚 مرقاتہ المفاتیح ج:8 ص: 3392

مزید لکھتے ہیں :

📜 “حدیث کا جملہ علی دخن : یعنی دھوکہ دہی نفاق اور خیانت کے ساتھ صلح ہوگی ۔ اور الفائق میں ہے ھدن کے معنی سکون کے ہیں اور یہ ضرب المثل اس وقت پیش کی جاتی ہے جب باطن میں کجی اور ظاہر میں صلح ہو ۔

پس اس ہر یہ اشارہ دلانا مقصود ہے کہ صلح تو ہوگی مگر فساد پر مبنی ہوگی ۔ پس یہ اشارہ ہے جب حسن ع نے معاویہ کو حکومت سپرد کی ۔چنانچہ اس سے ثابت ہوا کہ حسن ع کو معاویہ کے ساتھ صلح کرنا معاویہ کو خلیفہ نہیں قرار دیتا “

📚 مرقاتہ المفاتیح ج:8 ص:3391


۔
صلح کی وجوہات اہلسنت کتب کی روشنی میں
۔
اہلسنت روایات اور انکے علما کے اقوال کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ امام حسن ع نے صلح اس وجہ سے کی کیوں کہ انکی فوج کے کچھ لوگ ان سے مخلص نہ تھے اور وہ ان سے غداری کرتے تھی اور وہ مسلمانوں میں مزید خون ریزی نہیں چاہتے تھے ۔

لہذا ایسی صورت میں وہ جنگ کرتے یا اپنا اندر کے غداروں سے نپٹتے ؟

۔
اہلسنت روایات کی روشنی میں
۔

1) ابن سعد نقل کرتے ہیں :

📜 ابوجمیلہ نے کہتے ہیں ، جب علی ع قتل ہوئے تو حسن ع انکی جگہ خلیفہ بنے ، جب وہ نماز پڑھا رہے تھے تو ایک شخص نے انکی طرف چاقو سے حملہ کیا ، حالانکہ حسن ع حالت سجدہ میں تھے، پس وہ چاقو ان کو لگا جس سے وہ ایک مہینہ بیمار رہے ۔ پھر جب بیماری سے غلو خلاصی ہوئی تو منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور کہا اے اہل عراق! اللہ سے ہمارے حق کے معاملے میں ڈرو ، ہم تمہارے حاکم ہیں اور تمہارے مہمان اہلبیت ہیں جن کے متعلق اللہ نے فرمایا
“إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً”۔
حسن ع بار بار یہ کہتے رہے یہاں تک کہ کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جو گریہ نہ کر رہا ہو ۔

📚 الطبقات الکبیر ج: 6 ص:382

2) ابن سعد نقل کرتے ہیں :

📜 ہلال بن خباب کہتا ہے کہ مدائن کے قلعے میں حسن ع کے بڑے اصحاب جمع تھے تو حسن ع نے کہا کہ اے اہل عراق ! اگر تین وجوہات نہ ہوتیں تو میں تم سے علیحدگی نہیں کرتا ۔ وہ تین وجوہات تمہارا میرے والد ع کو قتل کرنا ، تمہارا مجھ پر حملہ کرنا اور میرے مال کو لوٹنا ہے ۔

📚 الطبقات الکبیر ج:6 ص:382

3) عمرو بن دینار کہتا ہے کہ حسن ع لوگوں کو فتنہ میں ڈالنا پسند نہیں کرتے تھے ۔

چناچہ جب علی ع شہید ہوئے تو انہوں نے صلح کی اس شرط پر کہ اگر معاویہ کو کچھ ہوگیا اور امام حسن ع زندہ ہوں تو یہ عہد حکومت امام حسن ع کی طرف جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ.

📚 الطبقات الکبیر ج:6 ص: 384

نوٹ : یہ سب روایات اہلسنت کی کتب سے ہین لہذا ہم پر حجت نہیں ۔

❌امام حسن ع بھی صلح سے خوش نہیں تھے بس حالاے کے پیش نظر کرنی پڑی اسکا ثبوت بھی طبقات الکبیر کی روایات سے مل جاتا ہے :

📜 راوی کہتا ہے جب معاویہ کوفہ آیا تو سب لوگ اسکے حاکم ہونے پر جمع ہوگئے اور حسن ع نے بھی اسکی بیعت کی تو معاویہ کے ساتھیوں نے اس سے کہا کہ حسن بن علی ع لوگوں کی نظروں میں بہت بلند مقام رکھتے ہیں کیون کہ وہ رسول ص کے قرابت داروں میں سے ہین اور وہ کم عمر اور ناتجربہ کار ہیں تو ان سے کہو کہ وہ خطبہ دیں کیوں کہ ان کی اس چیز میں ناتجربہ کاری ہوگی اور وہ لوگوں کی نظروں میں گر جائیں گے ، تو معاویہ نے حسن ع کو حکم دیا ۔ حسن ع منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور کہاں تم مشرق اور مغرب چھان مارو تب بھی تمہیں کیوں بندا میرے اور میرے بھائی کے علاؤہ نہیں ملے گا جس کا نانا رسول ص ہو ، میں نے معاویہ کی بیعت کی ہے اور مین نے دیکھا ہے کہ مسلانوں کا خون بہانہ اس بہانے سے بہتر ہے اور میں نہیں جانتا کہ وہ شاید آزمائش ہو تمہارے لئے ایک مدت تک ( سورتہ انبیا : 111) اور ہاتھوں سے معاویہ کی طرف اشارہ کیا تو معاویہ غضبناک ہوگیا اور بے ڈھنک خطبہ دیا اور نیچے اتر گیا اور پوچھا کہ اس آیت کے نقل کرنے کا کیا مقصد تھا ؟ حسن ع نے کہا جو خدا کا مقصد تھا وہ ہی میرا مقصد تھا ۔

📚 الطبقات الکبیر ج:6 ص:383


۔
صلح کی وجوہات اہلسنت علما کی نظر میں
۔

1)امام ذھبی لکھتے ہیں :

📜 امام حسن ع نے اپنے لشکر میں کافی اختلاف کو ملاحظہ کیا اور خیر کی قلت کا جائزہ لیا ، امام حسن ع خون خرابا نہیں دیکھنا چاہتے تھے ۔ اور یہ متفق علیہ بات ہے کہ ان کے لشکر میں ایسے لوگ تھے جو فتنہ پرور اور کم ظرف تھے، اس وجہ سے لوٹ مار ہوئی اور ان کے خیمے کو لوٹ لیا گیا ۔اور ایک خارجی نے ان پر حملہ کیا جس کی وجہ سے وہ زخمی ہوئے اور شدید غم میں مبتلا ہوئے۔ اور اہل عراق کے اوپر جرح کی اور صلح کو بہتر جانا

📚 العبر فی خبر من عبر ج:1 ص:34

2) ابو الفرج ابن جوزی لکھتے ہیں :

📜 جب حسن ع نے اپنے درمیان کافی اختلاف اور تفریق کو پایا ، تو معاویہ سے صلح کی درخواست کی ۔

📚 المنتظم فی تاریخ و ملوک والامم۔ ج:5 ص:183

3) ابن حبان لکھتے ہیں :

📜 معاویہ نے حسن ع کے حوالے سے چال چلنا چاہی اور دھکمی دی کہ اگر حسن ع حکمرانی معاویہ کے حوالے نہیں کرتے تو وہ مسلمانوں کا خون بہائے گا ، انکی حرمت کو پامال کرے گا اور انہیں لوٹے گا ، پس حسن ع نے اس چیز کا اختیار کیا جو اللہ کے پاس تھی بمقابلہ جو دنیا میں تھیں .

📚 الثقات از ابن حبان ج:2 ص:305

سنن ابی داؤد کی اس حدیث سے صلح کی حقیقت اور امیر شام کی نیت واضح جاتی ہے :

📜 خالد بن معدان سے روایت ہے کہ مقدام بن معدیکرب ، عمرو بن اسود اور قبیلہ بنو اسد کا ایک آدمی معاویہ بن ابوسفیان کے ہاں آئے ۔ معاویہ نے مقداد رض سے کہا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ حسن بن علی ع وفات پاگئے ہیں ؟ مقدام نے کہا : “انا للہ وانہ الیہ راجعون ” تو فلاں (معاویہ) نے کہا کہ کیا تم اسکو محبت سمجھتے ہو ؟ تو مقدام نے کہا میں اس کو مصیبت کیوں نہ سمجھوں جبکہ رسول ص نے فرمایا کہ حسین ع مجھ سے ہے اور حسن ع علی ع سے ہے ۔ مگر میں آج تمہیں غصہ دلا کر رہوں گا اور کچھ تمہیں سنا کر رہوں گا تاکہ تمہیں برا لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

📚 سنن ابی داؤود رقم : 4131

نوٹ : مسند احمد 17189 میں فلاں کی جگہ معاویہ کا نام بھی موجود ہے ۔

درج ذیل علما نے اس حدیث پر صحیح کا حکم لگایا :

🛑 علامہ البانی
🛑 حمزہ احمد الزین
🛑 نبیل بن منصور
🛑 عصام موسی
🛑اثیوبی

دیکھیے اس کی شرح میں دارلسلام والے کیا لکھتے ہیں :

📜 “صحابہ کرام حق بات کہنے میں برے جری تھی ۔ حضرت مقدام رض کو معاویہ کی عمارت سے کوئی خوف نہ آیا اور بےدھرک حق بات کہہ دی

📚 سنن ابی داؤد ج:4 ص:194

اسکی شرح میں محدث شرم الحق عون المعبود میں لکھتے ہیں :

📜 “افسوس صدا افسوس معاویہ پر کہ وہ اہلبیت کی قدر و منزلت نہیں جانتا یہاں تک کہ اس نے جو کو کہا بلاشبہ حسن بن علی ع کی موت بہت بڑے مصائب میں سے تھی “

عون المعبود حدیث نمبر : 4131

اب تو اس سے امیر شام کی صلح کی حقیقت واضح ہوگئی اور اسکی نیت جس بھی پول کھل گیا ۔ کہ امام حسن ع نے تو اسکو صحابی رسول سمجھ کر اسپر اعتبار کیا اور مسلمانوں کا خون بچایا اور بدلہ میں اس نے حسن ع کے ساتھ کیسا رویہ رکھا ۔

اس سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ کہ جو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صلح بغیر شرائط کے ہوئی اس میں انکا بھی رد ہے ۔ کیوں کہ معاویہ کا کہنا ” حسن ع کا مرنا کوئی مصیبت ہے ؟”
یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صلح مین شرط تھی کہ معاویہ کے مرنے کے بعد حسن ع دوبارہ خلیفہ ہوں گے ۔ تبھی تو امیر شام نے خوشی کا اظہار کیا ۔

اب بعض لوگ امام حسن ع کی صلح کی وجہ سے امیر شام کو خلیفہ اور نیک شخص بنا کر پیش کرتے ہیں تو انکے لئے حضرت سفینہ کا یہ قول ہی کافی ہے :

📜 “خلافت تیس سال تک ہوگی “

📚 ” یہ لوگ ( بنو امیہ) جھوٹ بولتے ہیں بلکہ انکی اپنی بادشاہت بدترین بادشاہت ہے “

📚 اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ خلافت راشدہ تیس سال تک چلی لہذا یہ انکا دعوی کہ امیر شام خلیفہ ہوگیا اپنے ہی منہج کے خلاف ( جیسا کہ ملا علی قاری نے بھی وضاحت کر دی اوپر)

.

اچھے تعلقات؟

.

امام حسن(ع) کے مطابق خلافت ان کا حق تھا اور معاویہ چور تھا

.

اہل سنت شیخ مفتی کمال الدین بن طلحہ الشافعی (متوفی 682 ھ) اپنی کتاب مطالب السئول، ج 2 ص 17 میں جنگ بندی کے بعد امام حسن (ع) نے جو خطبہ دیا لکھا ہے:

📝 اے بندگان ِخدا، تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے میرے نانا کی ذریعے تم لوگوں کی ہدایت کی اور جہالت سے بچایا اور گمراہی کی پستی سے بلند کیااور کفر کی ذلت کی بعد تمہیں عزت بخشی اور قلت کے بعد تمہیں کثرت عطا کی۔

پس، معاویہ نے میرے ساتھ ایسی چیز پر جھگڑا کیا ہے جو میرا حق ہے نہ کہ معاویہ کا ۔

پس میں نے امت کی فلاح و بہبود کی خاطر عفوودرگزر کیا ہے اور تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ میں جس کسی کے ساتھ صلح کرونگا تم بھی کروگے اور جس کسی کے ساتھ میں جنگ کرونگا تم بھی کروگے
پس میں نے یہ مصلحت دیکھی ہے کہ میں معاویہ کے ساتھ صلح کرلوں اور جنگ بندی کرلوں۔

تبصرہ

امام حسن (ع) کے اس خطبہ سے ثابت ہوا کہ آپ (ع) معاویہ کو خلافت کا اہل و حقدار نہیں سمجھتے تھے بلکہ معاویہ کو ظالم و غاصب سمجھتے تھے لیکن بعض مصلحت کے تحت امام ِوقت نے دشمن سے صلح کرلی بالکل اسی طرح جس طرح رسول اللہ (ص) نے کفار کے ساتھ مصلحت کے تحت صلح کرلی تھی۔ پس، جس طرح کسی کو حق نہیں کہ وہ رسول اللہ (ص) کی صلح پر تنقید کرے بالکل اسی طرح کسی کو حق نہیں کہ وہ رسول اللہ (ص) کے نائب و امام ِوقت حسن (ع) کی صلح پر کسی قسم کی کوئی تنقید کرے اور یہ رنگ دے کہ امام حسن (ع) کی صلح کا مطلب یہ ہوا کہ امام حسن (ع) کے نزدیک معاویہ کوئی بہت نیک و اہل شخص تھا۔

.

معاویہ کے متعلق امام حسن کی رائے

.

.

.

امام اہل سنت، امام ابن حجر عسقلانی نے صحیح سند کے ساتھ حق کو کھول کر رکھ دیا ۔
✅ امام حسن علیہ السّلام نے معاویہ کو ایک خط کے جواب میں لکھا ۔
“بعد المصالحة” وكان الحسن ابن علي قد سار يريد المدينة، فكتب إليه معاوية يدعوه إلى قتال فروة، فلحقه رسوله بالقادسية أو قريباً منها، فلم يرجع وكتب إلى معاوية: لو آثرت أن أقاتل أحداً من أهل القبلة لبدأت بقتالك، فإني تركتك لصلاح الأمة وحقن دمائها.
صلح کے بعد امام حسن مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے معاویہ نے امام حسن کے پیچھے قاصد کو خط دے کر بھیجا جس میں معاویہ نے امام حسن کو خوارج سے جنگ کرنے کے لیے واپس آنے کا کہا تھا امام حسن ابھی قادسیہ کے مقام پر ہی پہنچے تھے کہ قاصد خط لے کر آپ تک پہنچ گیا امام حسن نے خط پڑھنے کے بعد معاویہ کو جواب میں لکھا: میں نے تجھ سے فقط مسلمانوں کا خون بچانے کی خاطر صلح کی ہے اگر میں نے اہل قبلہ میں سے کبھی کسی کے ساتھ جنگ کا ارادہ کیا تو اُس کی ابتدا تجھ سے کروں گا.
۔
۔
✅ امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کی طرف سے بھیجے ہوئے دھمکی آمیز خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا ۔
فكتب إليه الحسين: أتاني كتابك وأنا بغير الذي بلغك عني جدير، والحسنات لا يهدي لها إلا الله، وما أردت لك محاربة ولا عليك خلافا، وما أظن لي عند الله عذرا في ترك جهادك، “”أي ما أجب الله أنني لم أقاتلك”” وما أعلم فتنة أعظم من ولايتك أمر هذه الأمة.
میں اپنے بھائی کے کیے ہوئے معاہدے پر قائم ہوں ہر نیکی کا راستہ اللہ سمجھاتا ہے فلحال میرا تم سے جنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ، مگر تیرے خلاف جہاد نہ کرنے کا کوئی بہانہ مجھے اللّٰہ کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لیے سمجھ نہیں آ رہا “”یعنی میں اللّٰہ کو کیا جواب دوں گا کہ جو میں نے تم سے جہاد کیوں نہیں کیا”” اور یہ جو تم نے لکھا کہ میں کسی فتنے میں نہ پڑ جاؤں تو میرے علم کے مطابق اس سے بڑا فتنہ اور کوئی نہیں کہ تیرے جیسا شخص اس امت کا سربراہ بن گیا ہے.
✅امام اہل سنت امام ابن اثیر جزری/ الکامل، ص ٢٧٥
✅امام اہل سنت امام ذھبی/ سير اعلام النبلاء ،ج٢ ص٢٩٤
✅امام اہل سنت امام بلاذری/ أنساب الاشراف، باب ، مبايعة الحسن و معاوية، ص ٢٨٨
✅امام اہل سنت امام حافظ ابی قاسم المعروف ابن عساکر/ تاریخ مدینہ دمشق، ج ١٤ ص٢٠٦
✅امام اہل سنت امام محمد بن سعد الزھری/ طبقات ابن سعد، ج٦،ص٤٢٣
✅امام اہل سنت امام ابن کثیر / البداية والنهاية ٨.١ مع الفهارس ج٤ ص،١٦٩
✅امام اہل سنت امام ذھبی / تھذیب الکمال في أسماء الرجل، ج٦ ص٤١٤
.
.
.