صلح امام حسن (علیہ السلام) کی شرائط

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

.

صلح کی شرائط

.

اولا: جہاں تک ہماری بات ہے تو شیعہ مصادر میں یہ شرائط صحیح سند کے ساتھ آئیں ہیں ۔

ثانیا: ہر تاریخی واقعہ کا صحیح السند روایات میں ذکر ہونا ضروری نہیں ۔

ورنہ تو بہت کثیر واقعات کا انکار کرنا پڑے گا اور سیرت و تاریخ کا ایک بہت بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا ۔اور نہ ہی تاریخی واقعات کا یہ مزاج ہے کہ انہیں احادیث کی طرح judge کیا جائے ۔

.

ذھبی لکھتے ہیں :

“واقدی ضعیف ہے ۔ مگر ہم تاریخ اور غزوات میں اس کے محتاج ہیں”

(سیر اعلام النبلا )

.

 عمر بن شاهنشاه الأيوبي (ابو الفداء) لکھتے ہیں :

“الحسن ذلک کتب الی معاویتہ و اشرط علیہ شروطا”

حسن ع نے معاویہ کو لکھا اور اس (صلح) کے لیے شرائط مقرر کیں ۔

.

طبری لکھتے ہیں :

حسن ع کو جب یہ کاغذ پہنچا تو انہوں نے اس سے پہلے معاویہ کو جو شرطیں لکھی تھیں اس سے بھی چند در چند زیادہ شرائط اس کاغذ پر عائد کی اور اپنے پاس اس معاہدے کو رکھ چھوڑا ۔

📚تاریخ الطبری ج:4 (حصہ اول) ص:26

.

مولا حسنؑ کی دیگر شرائط میں سے ایک شرط

.

ولا يسب علي وهو يسمع

📝 علی ابن ابی طالب ع کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ (امام حسنؑ) اسے سن سکتے ہوں۔

.

▪ابن عساکر نے تاریخ مدینہ الدمشق میں لکھتے ہیں:

📝 اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسين بن محمد بن سعد أنا أبو عبيد عن مجالد عن الشعبي وعن يونس بن أبي إسحاق عن أبيه وعن أبي السفر وغيرهم ۔۔۔۔۔۔۔ ولا يسب علي وهو يسمع وان يحمل إليه خراج فسا ( 3 ) ودار ابجرد ( 4 ) من ارض فارس كل عام

ترجمہ:

یعنی حسن بن علی نے جب معاویہ سے صلح کی تھی تو اس میں جو شرائط تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ “۔۔۔۔۔ اور علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا] نہیں کیا جائے گا جب کہ وہ سن رہے ہوں۔۔۔۔۔

ابن عساکر نے یہ اس شرط کا ذکر تین روایات میں کیا ہے،

جس میں سے دوسری روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ صحیح روایت ہے۔

1۔ أبو بكر محمد بن عبد الباقي: ابن جوزی [ثقہ]، الذھبی [عادل]
2۔ محمد بن العباس: البغدادی [ثقہ]، الذھبی [صدوق]
3۔ احمد بن معروف: بغدادی [ثقہ]، آلذھبی [ثقہ]
4۔ الحسين بن محمد: البغدادی [ثقہ]، الذھبی [حافظ]
5۔ محمد بن عبید: ابن حجر العسقلانی [ثقہ]، الذھبی [ثقہ]
6۔ يونس بن أبي إسحاق: ابن حجر العسقلانی [ثقہ]، الذھبی [ثقہ]
7۔ ابن اسحق الشعبہ: ابن حجر [ثقہ]، الذھبی [ثقہ، حجۃ]

الذھبی jild 3 نے یہی شرط دو روایات میں ذکر کی ہے۔ مثلا محمد ابن عبید، مجلد، الشعبی، یونس اور پھر اس نے اپے والد سے۔

امام جمال الدین المزی نے بھی یہ روایت تین اوپر والی اسناد سے نقل کی ہے۔

.

▪ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں:

📝 فاشترط أن يأخذ من بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف درهم، وأن يكون خراج دار أبجرد له، وأن لا يسب علي وهو يسمع

ترجمہ:

[الحسن] نے یہ شرائط رکھیں کہ کوفہ کے بیت المال سے پچاس لاکھ درھم کا خراج انہیں [اور انکی فوج] کے حوالے رکھا جائے اور دار ابجرد کا خراج بھی انہیں کو ملے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہ کیا جائے جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔

.

▪علامہ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ الکامل میں لکھتے ہیں:

📝 وكان الذي طلب الحسن من معاوية أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة، ومبلغه خمسة آلاف ألف، وخراج دار ابجرد من فارسن وأن لا يشتم علياً، فلم يجبه إلى الكف عن شتم علي، فطلب أن لا يشتم وهو يسمع، فأجابه إلى ذلك ثم لم يف له به أيضاً، وأما خراج دار ابجرد فإن أهل البصرة منعوه منه وقالوا: هو فيئنا لا نعطيه أحداً، وكان منعهم بأمر معاوية أيضاً.

ترجمہ:

امام حسن نے امیر معاویہ سے جو امور طلب کئے تھے وہ یہ تھے کہ کوفے کے بیت المال کی تمام رقم جسکی مقدار پچاس لاکھ تھی اور فارس کے دار ابجرد کا خراج انہیں دیا جائے [تاکہ وہ اپنی فوج کا خرچ ادا کر سکیں] اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔ معاویہ نے سب و شتم سے باز رہنے کو منظور نہیں کیا۔ اسپر امام حسن نے پھر طلب کیا کہ انکو ایسے وقت میں سب و شتم نہ کیا کریں کہ وہ ا سکو سن سکتے ہوں۔ اسکو معاویہ نے قبول کیا مگر بعد میں یہ شرط بھی پوری نہ کی۔ باقی رہا دار الابجرد کا خراج تو اسے اہل بصرہ نے یہ کہہ کر روک لیا کہ وہ ہمارے مال غنیمت میں سے ہے اور وہ ہم کسی کو نہ دینگے۔ انہوں نے اس میں بھی معاویہ کے حکم سے ہی رکاوٹ ڈالی۔

.

▪امام الذھبی اپنی کتاب “العبر في خبر من غبر ” میں یہی روایت نقل کرتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔

📝 ثم كتب إلى معاوية على أن يسلم إليه بيت المال وأن لا يسب عليًا بحضرته وأن يحمل إليه خراج فسا ودارابجرد كل سنة‏.‏

ترجمہ:

امام ابن جریر طبری بھی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ امام حسن نے معاویہ سے اس شرط پر صلح کی کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے گا ایسے وقت میں جبکہ وہ اسے سن رہے ہوں۔

.

▪ امام طبری نے یہ روایت عوانہ ابن حکم [متوفی 147 ہجری] سے لی ہے۔ عوانہ نے معاویہ ابن ابی سفیان اور بنی امیہ پر دو تاریخی کتابیں لکھی تھیں۔ ان عوانہ کے متعلق ائمہ رجال کی آراء:

الذھبی: عوانہ روایات بیان کرنے میں صدوق ہیں [سر العلام النبلاء جلد 7، صفحہ 201]

امام عجلی: انہوں نے عوانہ کو اپنی کتاب “معارف الثقات” جلد 2، صفحہ 196 پر شامل کیا ہے۔

یاقوت حموی: عوانہ تاریخ اور روایات کے عالم ہیں اور ثقہ ہیں

.

▪حتی کہ ابن خلدون [جن میں کہ علی کے خلاف ناصبیت تک پائی جاتی ہے اور اس لیے مخالفین کے پسندیدہ مورخ ہیں] لکھتے ہیں

📝 فكتب إلى معاوية يذكر له النزول عن الأمر على أن يعطيه ما في بيت المال بالكوفة و مبلغه خمسة آلاف ألف و يعطيه خراج دار ابجرد من فارس و ألا يشتم عليا و هو يسمع

ترجمہ:
یعنی امام حسن نے شرط رکھی کہ علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔

[تاریخ ابن خلدون، جلد 2، صفحہ 648]

.

 ابن کثیر لکھتا ہے :

📜 آپ (حسن ع) نے شرط مقرر کی کہ آپ کوفہ کے بیت المال سے پانچ کروڑ درہم لیں گے اور آپ ع کے ہوتے ہوئے آپ ع کے والد ( علی ع) کو گالی نہیں دی جائے گی ۔

📚البدایہ والنہایہ ج:8 ص:25

.

▪علامہ اسمعیل بن ابو الفداء اپنی تاریخ ابوالفداء جلد اول، صفحہ 648 پر لکھتے ہیں:

📝 وكان الذي طلبه الحسن أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة وخراج دارا بجرد من فارس وأن لا يسب علياً فلم يجبه إلى الكف عن سبّ علي فطلب الحسن أن لا يشتم علياً وهو يسمع فأجابه إِلى ذلكَ ثم لم يف له به

📝 وأن لا يسب علياً ، فلم يجبه إلي الكف عن سب علي ، فطلب الحسن أن لا يشتم علياً وهو يسمع ، فأجابه إلي ذلك ثم لم يف له به .

اس (امام حسن) نے معاویہ سے شرط رکھی تھی کہ وہ علی (ع) پر سبّ و لعن نہیں کرے گا، لیکن اس نے اس شرط پر عمل نہیں کیا، امام مجتبی نے اس سے چاہا کہ کم از کم برا بھلا نہ کہے تو اس نے قبول کر لیا، لیکن اس نے اس وعدے پر بھی عمل نہ کیا۔

📚 تاريخ أبي الفداء ، فصل في ذكر تسليم الحسن الأمر إلي معاوية ، ج1 ، ص254 ، ط دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1417 هـ .

.

📝 أن يترک سبّ أمير المؤمنين و القنوت عليه بالصلاة و أن لا يذكر عليّاً إلاّ بخير۔

📚 مقاتل الطالبيين اصفهانی: ص 26
📚 شرح نهج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 4 ص 15،

📝و قال آخرون أنه أجابه علي أنه لا يشتم علياً و هو يسمع و قال ابن الاثير: ثم لم يف به أيضا.

📚 الامامة و السياسة – ابن قتيبة الدينوري،ج 1 ص 185.

اھلسنت کے مشہور عالم دین شاہ معین الدین احمد ندوی صاحب اپنی کتاب “تاریخ اسلام” میں صلح حضرت امام حسن علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں:
.
“طبری نے دو روایتیں نقل کی ہیں۔ پہلی مستند روایت یه ہے که حضرت حسن رضي الله عنه نے تین شرطیں پیش کیں
1= کوفه کے بیت المال کل روپیه آپ کو دے دیا جائے گا
2= دار الجبرہ کا خروج آپ کے لئے مخصوص کر دیا جائے گا
3= حضرت علی رضي الله عنه پر اس طرح بر سر عام سب٘ و شتم نه کیا جائے که حضرت حسن رضي الله عنه کے کانوں تک پہنچے”.
.
(تاریخ اسلام/ جلد 1 / صفحه 285, 286)

.

مولا حسنؑ کی دیگر شرائط میں سے ایک شرط

.

صلح کا معاہدہ جن وعدوں کی بنیاد پر ہوا ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ معاویہ کے مرنے کے بعد حکومت امام حسن (ع) کو منتقل ہوجائے گی۔

📚 جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری، ج 13 ص 65 میں لکھا ہے:

📝 اني اشترطت على معاوية لنفسي الخلافة بعده

حسن نے کہا کہ معاویہ سے میں نے یہ شرط رکھی ہے کہ معاویہ کے بعد میں حکمران ہونگا۔

.

ابن ہجر عسقلانی خلافت واپس لوٹانے والی شرط کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

📜 وذكر امام محمد بن قدامة رحمته الله عليه في كتاب الخوارج بسند قوي:

امام محمد بن قدامہ نے بھی اس شرط کو کتاب الخوارج میں قوی سند کے ساتھ تحریر کیا

📚 فتح الباري، جلد 14 صفحہ532

.

📚 اسی طرح نواصب کے امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 80 میں لکھا ہے:

📝 وقد كان معاوية لما صالح الحسن عهد للحسن بالأمر من بعد

جب معاویہ نے حسن سے صلح کی تو معاویہ نے وعدہ کیا کہ اس کے بعد حسنؑ حکمران ہونگے۔

.

مولا حسنؑ کی دیگر شرائط میں سے ایک شرط

.

صلح نامے میں امام حسن(ع) نے معاویہ سے کہا تھا کہ تم اپنا ولی عہد مقرر نہیں کرو گے

اب دیکھتے ہیں کہ

کیا معاویہ نے اس شرط پر عمل کیا؟

یزید کو خلیفہ بنانے کیلئے معاویہ کے اقدامات

معاویہ بن ابی سفیان نے یزید کو خلیفہ بنانے کیلیے کیا کیا اقدم کیے؟

.

اہل سنت کی تاریخ کی کتابوں میں یزید کو خلیفہ بنانے کیلیے معاویہ نے جو اقدمات انجام دییے ہیں وہ مختلف طریقوں سے بیان ہویے ہیں ، معاویہ نے اپنے اس مقصد تک پہنچنے میں کویی کمی نہ کی۔

مثال کے طور پر مندرجہ ذیل واقعات کی طرف توجہ فرماییں۔

.

ابن ہجر مکی امام حسن ع کو معاویہ کو صلح والا خط نقل کرتے ہیں جس میں تمام شرائط کا ذکر ہے کہ معاویہ نظام خلفا راشدین کے طریقے پر چلائے گا ، اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کرے گا ۔ وغیرہ ۔

📚 الصواعق المحرقہ ص: 364

.

1️⃣ جس وقت معاویہ کی بادشاہت مستقل ہوگیی اور اس کی حکومت سب کیلیے ثابت ہوگیی تو اس کو یہ فکر لاحق ہویی کہ اپنے بیٹے کو ولیعہد بنایے اور اس کے لیے بیعت لوگوں سے بیعت لے۔ اور اپنے خاندان میں حکومت کی تاسیس کرے ۔

اسی غرض سے وہ مسلسل سات سال تک یزید کی بیعت کیلیے لوگوںکی رضایت حاصل کرنے میں جٹا رہا ۔ اپنے سے نزدیک لوگوں کو ہدیہ اور تحفہ دیتا تھا اور دور والوں کو اپنے سے نزدیک کرتا تھا

📚 العقد الفريد 2 : 302 [4 / 161]

.

کبھی اس مسلے کو دبا دیتا تھا اور کبھی لوگوں کے سامنے ظاہر کرتا تھا اور اس طرح وہ یزید کی بیعت کیلیے راستہ ہموار کرتا رہا۔

ابو عمر ”کتاب الاستیعاب“ میں لکھتا ہے

📝 امام حسن علیہ السلام کی زندگی میں معاویہ نے یزید کی بیعت کیلیے اشارہ کیا تھا اورلوگوں کے کانوں میں ڈال دیا تھا ۔

لیکن امام حسن (علیہ السلام) کی شہادت تک اس نے اس کا کھلے عام اعلان نہیں کیا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ بھی ظاہر نہیں کیا۔

📚 الاستيعاب 1 : 142 [ القسم الأوّل/391 ، شماره 555]

.

2️⃣ جس وقت معاویہ کے حکم سے مختلف شہروں سے گروہ اور تمام جماعتیں دمشق میں جمع ہوگییں اور ان کے درمیان ”احنف بن قیس“ بھی موجود تھے، معاویہ نے ”ضحاک بن قیس قھری“ کو بلایا اور اس سے کہا :

📝 «اذا جلستُ على المنبر وفرغتُ من بعض موعظتی وکلامی فاستاذنّی للقیام ، فاذا اذنتُ لک فاحمد الله تعالى واذکر یزید ، وقل فیه الّذی یحقّ له علیک من حسن الثناء علیه ، ثمّ ادعنی الى تولیته من بعدی ، فانّی قد رایت واجمعت على تولیته ، فاسال الله فی ذلک وفی غیره الخیره وحسن القضاء»

جب میں منبر پر چلا جاوں اور اپنی تقریر کی کچھ نصیحتوں کو بیان کرلوں تو تم مجھ سے بات کرنے کی اجازت طلب کرنا اور جب میں اجازت دیدوں تو خدا کی حمد کرنا اور یزید کو بلانا اور اس کی تعریف و توصیف بیان کرنا اور یہ بیان کرنا کہ اس کا تمہارے اوپر کیا حق ہے ، پھر مجھ سے درخواست کرنا کہ میں اس کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کردوں۔ کیونکہ میں نے اس کو ولیعہد بنانے کا ارادہ کرلیا ہے اور خدا وند عالم سے اس میں اور اس کے علاوہ میں بھلایی اور نیک کام کی دعا کرتا ہوں۔

اس کے بعد عبدالرحمن بن عثمان ثقفی ، عبداللہ بن مسعده فزاری، ثور بن معن سلمی اور عبداللہ بن عصام اشعری کو بلایا اور ان کو حکم دیا کہ جب ضحاک کی بات ختم ہوجایے تو تم لوگ کھڑے ہوکر اس کی بات کی تصدیق کرنا اور اس کو یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے دعوت دینا۔

اس کے بعد معاویہ نے خطبہ پڑھا اور ان سب لوگوں نے معاویہ کے حکم کے مطابق یزید کی بیعت کیلیے بولنا شروع کردی.۔

اس کے بعد معاویہ نے ضحاک کو کوفہ کا گورنر اور عبدالرحمن کو الجزیزہ کا گورنر بنانے کا اعلان کیا ۔

اسی دوران احنف بن قیس نے کھڑے ہو کر کہا :

اے امیر المومنین ، تم ہم سب سے زیادہ یزید کے شب و روز، ظاہر و باطن، اور اس کی رفت و آمد سے واقف ہو اگر تمہارے عقیدے کے مطابق یزید خدا کی رضا اور امت کی اصلاح کیلیے بہتر ہے تو لوگوں سے مشورہ نہ کرو، اور اگر اس کے علاوہ کچھ اور جانتے ہو تو اس کو دنیا کا مالک نہ بناو ، کیونکہ تم آخرت کی طرف جانے والے ہو اوراس دنیا میں تمہارے نیک کام ہی باقی رہیں گے،

اور یہ بات بھی جان لو کہ اگر یزید کو امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے اوپر مقدم کیا تو تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کیسی شخصیتیں ہیں اور ان کا کیا عقیدہ ہے پھر اس کے بعد خدا کے سامنے تمہارے پاس کو یی عذر نہیں ہوگا ، ہم تو فقط کہنا چاہیے : سمعنا و اطعنا، غفرانک ربنا و الیک المصیر

📚 الإمامة والسياسة 1 : 138 ـ 142 [1/143 ـ 148]

.

مولا حسنؑ کی دیگر شرائط میں سے ایک شرط

.

صلح نامے میں امام حسن(ع) نے معاویہ سے کہا کہ تم تمام شیعیان علی کی جان، مال اور ناموس کی حفاظت کرو گے اور ان کے سارے حقوق کی رعایت کرو گے۔

اب دیکھتے ہیں کہ

کیا معاویہ اور شیعان معاویہ نے علی(ع) کے شیعوں کے ساتھ کیا کیا ؟

نوٹ: معاویہ کی حکومت میں کیا کچھ ہوتا تھا اسکی تفصیل پھر کبھی دی جائے گی۔ فلحال صلح کی شرط کے حوالے سے معاویہ کی کارکردگی پر مختصر حوالہ جات 👇🏼

.

ابن ابی الحديد نے کہا ہے کہ:

📝 معاویہ نے سرکاری طور پر حکم دیا کہ جہاں پر شیعان علی کو دیکھو اس کو قتل کر دو۔

اگر دو بندے گواہی دیں کہ فلاں بندے کا علی سے تعلق و رابطہ ہے تو اس بندے کی جان اور مال کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

.

ایک نمونے کو ابن اثیر نے نقل کیا ہے:

📝 معاویہ نے ساری مملکت میں سرکاری طور پر حکم نامہ جاری کیا کہ ، اگر دو بندے گواہی دیں کہ فلاں بندے کا علی سے تعلق و رابطہ ہے یا فلاں بندہ علی کا شیعہ ہے تو اس کے وظیفے کو بیت المال سے ختم کر دو۔

کہا جاتا ہے کہ چھے مہینے میں 80 ہزار علی کے شیعوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا کہ جن کا جرم فقط علی(ع) کا شیعہ ہونا تھا۔

.

ابو سوار عدوی کہتا ہے کہ:

سمرة بن جندب نے ایک دن صبح کے وقت میرے 47 رشتے داروں کو قتل کیا کہ جو سارے حافظ قرآن تھے۔

📚 ابن اثير در الكامل في التاريخ الكامل في التاريخ ج 3 ص 229 .

.

ابن ابي الحديد نے ایک بہت ہی درد ناک بات لکھی ہے کہ:

📝 حتّي إنّ الرجل ليقال له زنديق أو كافر أحبّ إليه من أن يقال شيعة علی۔

اگر کسی کو کہا جاتا کہ تم زندیق یا کافر ہو تو یہ اس کے لیے بہتر تھا کہ اس کو علی(ع) کا شیعہ کہا جائے۔

📚 شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد ج 11 ص 44

.

علی بن جهم اپنے باپ کو لعنت کرتا تھا کہ اس نے کیوں میرا نام علی رکھا ہے۔

📝 كان يلعن أباه، لم سمّاه عليّاً۔

📚 لسان الميزان ،ج4 ، ص 210 .

.

ابن حجر کہتا ہے کہ:

📝 كان بنو أمية إذا سمعوا بمولود اسمه علي قتلوه، فبلغ ذلك رباحاً فقال هو علي، و كان يغضب من علي، و يحرج علي من سماه به۔

بنی امیہ جب بھی سنتے تھے کہ فلاں نو مولود بچے کا نام علی ہے تو وہ اسکو قتل کر دیتے۔

📚 تهذيب التهذيب ،ج 7 ، ص 281

.

اہلسنت کے علما نے اپنی کتب معاویہ کا ان شرائط کو توڑنے کا بھی ذکر کیا ہے ۔ اب کیا وہ سب ہمارے ایجنٹ تھے ؟

.

معاویہ نے صلح کی ایک شرط بھی پوری نہیں کی

.

📜 كل شرط شرطته فتحت قدمی۔

معاویہ نے کہا تمام شرائط میرے قدموں کے نیچے ہیں۔

📚 أبو الفرج الأصبهاني – مقاتل الطالبيين – عصر بني أمية
4 – الحسن بن علي – ذكر الخبر في بيعته بعد وفاة أمير المؤمنين علي (ع)
وتسليمه الأمر إلى معاوية والسبب في وفاته
الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 77 )

📚 ابن أبي الحديد – شرح نهج البلاغة
الجزء : ( 16 ) – رقم الصفحة : ( 46 )

.

معاویہ جب کوفہ میں آیا تو سب سے پہلے اس نے یہی کہا تھا کہ:

📜 إنی واللّه ما قاتلتكم لتصلّوا و لا لتصوموا و لا لتحجّوا و لا لتزكوا إنّكم لتفعلون ذلک. و إنّما قاتلتكم لأتأمّر عليكم، و قد أعطاني اللّه ذلک و أنتم كارهون۔

میں نے اس لیے صلح نہیں کی کہ تم لوگوں سے کہوں کہ نماز پڑھو، زکات دو اور حج کرو بلکہ میں یہ چاہتا تھا کہ تم لوگوں پر سوار ہو کر تم پر حکومت کروں۔

📚 مقاتل الطالبين ص 45،
📚 شرح ابن ابي الحديد ج 16 ص 15

.

ابو الفرج العربی نقل کرتے ہیں :

📜 معاویہ نے خطبہ دیا اور کہا کہ جو کچھ میں نے شرائط لگائیں تھیں جس میں نظام میں الفت چاہتا تھا، اور اللہ نے اب تفریق کو ختم کیا ، جتنی شرائط میں نے عائد کی تھیں اور جن کو لازم جانا تھا وہ سب مردود ہیں ۔

📚 تاریخ مختصر الدول ص:108

.

علامہ مقدسہ معاویہ کے جملوں کو نقل کرتے ہیں:

📜 معاویہ نے کہا کہ میں نے شرائط کو اس وقت لازم کیا تھا جس وقت لوگوں میں تفریق تھی اور میری اس سے خواہش ان کو محبت کے نظام میں باندھنا تھا اور اللہ نے اب امور کو جمع کیا اور تفریق کو ختم کیا، پس جتنی شرائط میں نے عائد کی تھیں اور ان کو لازم جانا تھا وہ سب میرے ان دو قدموں کے نیچے ہیں

📚 البدا والتاریخ ج: 5 ص: 237

 امام ابن الاثیر لکھتے ہیں :

جب حسن ع نے معملے کو الگ ہوتے دیکھا ( معملے میں بگاڑ دیکھا) تو معاویہ کو خط لکھا اور شرائط بیان کیں

📚 کامل فی تاریخ ج:3 ص:281