بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
.
یہاں ہم ناصبیوں کی طرف سے پھیلائے گئے جہالت پر مشتمل الزامات کا ایک ایک کر کے جواب پیش کریں گے
.
ناصبیوں کی جہالت نمبر 1
.
“سیدنا حسن بن علی نے سیدنا معاویہ سے صلح کی شرط یہ لگائی تھی کہ
وہ لوگو کے درمیان کتاب و سنت اور خلفاء راشدین کے طریقہ کے مطابق فیصلہ کریں “
جواب
ناظرین ناصبیوں نے یہاں دجل سے کام لیتے ہوئے مکمل عبارت نقل نہیں کی ۔
یہاں مولا حسن ع معاویہ سے کہہ رہے ہیں خلفائے راشدین کے طریقے پر چلو گے اور کسی کو اپنا ولی عہد نہیں بناؤ گے
ناصبیوں کے اپنے گھر کی کتاب سے ثبوت ملاحظہ کیجئے 👇🏼
ناصبیوں کی جہالت نمبر 2
جواب
جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس قدر جھوٹ و دجل سے کام لیتے ہیں یہ لوگ اور عام لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں
ہم نے نشان لگا دیا کہ یہاں منافقین کی بات ہو رہی ہے۔ جنہوں نے امام کو لوٹا۔
مگر چشتی صاحب نے مخلص شیعوں پر فٹ کر دیا۔
اور آخری لائن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ
امام کے تھوڑے شیعوں نے بچایا۔
ناصبیوں کی جہالت نمبر 3
جواب
یہاں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ
جب لوگوں نے امام حسنؑ کی تکفیر کی اور حملہ کیا
تو
آگے لکھا ہے کہ (جہاں نشان لگایا میں نے)
آپ نے اپنا گھوڑا منگوایا اس پر سوار ہوئے تو آپ کے خاص شیعہ آپ کے ارد گرد اکھٹے ہو گئے اور ہر اس شخص کو دور کرنے لگی جو آپ کی طرف برے ارادے سے بڑھ رہا تھا۔
صاف واضح ہو گیا کہ شیعہ ہر مشکل وقت میں امام کے ساتھ تھے۔
مگر ان لعنتیوں نے کہانی ہی الٹ دی۔
آخر کب تک یہ ایسے ہی جھوٹ بول کر لوگوں کو گمراہ کریں گے ، کیا جواب دیں گے اللّه کو۔
نوٹ: میں کتاب سامنے رکھ کر صحیح عبارت دکھا سکتا ہوں مگر حجت پوری کرنے کیلئے انہی کے سینڈ کیے گئے سکین پر انہیں جواب دینا چاہتا ہوں
ناصبیوں کی جہالت نمبر 4
جواب
مخلص شیعہ امام کے ساتھ بہت کم تھے ۔
اور منافق بہت زیادہ تھے
اس پر مخلص شیعہ پر طعن کیسا ؟
ناصبیوں کی جہالت نمبر 5
جواب
یہاں بھی ناصبیوں نے وہی اعتراض دوسرے سکین میں اٹھایا۔ جس کا جواب دے دیا گیا کہ جب امام حسنؑ پر معاویہ پر صلح کی وجہ سے حملہ ہوا تو آپ کو آپ کے خاص شیعوں نے ارد گرد جمع ہو کر بچا لیا۔ (انہی کے دیے گیے سکین پر نشان لگا دیا)
ناصبیوں کی جہالت نمبر 6
جواب
مخلص شیعہ امام کے ساتھ بہت کم تھے ۔
اور منافق بہت زیادہ تھے
اس پر مخلص شیعہ پر طعن کیسا ؟
ناصبیوں کی جہالت نمبر 7
جواب
یہاں بھی آپ واضح دیکھ سکتے ہیں کہ ناصبیوں نے کس قدر دجل سے کام لیا ہے
یہاں واضح طور پر ان منافقین کی بات ہو رہی ہے جو خود کو شیعہ کہتے تھے مگر امام کو قتل کرنا چاہتے تھے
ان کی بنیاد پر شیعان مخلصین پر طعن کرنا صرف و صرف جہالت ہے اور کچھ نہیں












ناصبیوں کی جہالت نمبر 8
❌ ناصبیوں کا شیعہ کتاب جلاءالعیون پر موجود روایات پر اعتراض کہ اگر معاویہ بہت غلط آدمی تھا تو امام حسنؑ معاویہ سے تحائف کیوں لیتے تھے ؟
پس امام حسنؑ کا معاویہ کی حکومت سے تحائف لینے سے ثابت ہوا کہ معاویہ کی حکومت صحیح تھی۔ ❌
جواب
.
جواب
ناصبی قیاس کہ امام حسن نے معاویہ سے وظیفہ وصول کرکے معاویہ کی خلافت کو تسلیم کرلیا تھا۔
نواصب کی ہمیشہ سے ہی یہ کوشش رہی کے کہ کسی نہ کسی طرح معاویہ کی ملوکیت کو خلافت کا رنگ دیا جائے اور ایسے دلائل تلاش کئے جائیں کہ جس سے وہ معاویہ کی ملوکیت کو جائز ٹھہرا سکیں ۔
اسی طرح کی ایک ناکام کوشش وہ اس دلیل سے پیش کرنے لگے ہیں کہ چونکہ امام حسن (ع) نے معاویہ کی حکمرانی کے دوران اس سے وظیفہ حاصل کیا لہٰذا امام حسن کی نظر میں معاویہ کی حکمرانی جائز ہوئی۔
جواب نمبر1:
اگر ظالم کسی مظلوم سے اس کا حق چھین لے اور بعد میں اس چھینی ہوئی مقدار سے قسطوں کے طور پر تھوڑا تھوڑا حق واپس مظلوم کو دیتا رہے تو اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ظالم مظلوم کی طرف رحم دل ہوگیا ہے یا پھر مظلوم کا ظالم سے اپنے حق میں سے ملنا والا ذرہ سا حصہ قبول کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ظالم کہ پاس بچ جانے والا باقی مال جائز ہوگیا۔
مقبوضہ فلسطین کی مثال لے لیجئے جہاں ظالم و غاصب اسرایئلیوں نے فلسطین کی زمین پر قبضہ کرلیا لیکن مظلوم فلسطینیوں سے معاہدہ کے بعد اسرائیل نے فلسطین کی زمین کا کچھ حصہ دوبارہ فلسطینیوں کو دے دیا۔ اسرائیل کی جانب سے غصب شدہ زمیں کا کچھ حصہ واپس فلسطینیوں کو دینے کا مطلب یہ نہیں کہ زمیں کا باقی حصہ جو اسرائیل کے پاس ہے وہ جائز ہوگیا۔ کچھ بھی ہوجائے، اسرائیل ظالم اور فلسطین مظلوم ہی رہینگے۔
جواب نمبر2:
اللہ کے نبی موسی (ع) نے کافر فرعون کے گھر پرورش پائی اور بچپن سے ہی فرعون کے مہیا کیے گئے رزق، مال و متاع پرمنحصر رہے اس کے باوجود نبی نبی ہی رہا اور کافر کافر ہی رہا۔
اسی طرح امام حسن (ع) معاویہ کے دور میں بیت المال سے وظیفہ تسلیم کیا لیکن امام ِحق، امام ِحق ہی رہا اور ظالم ظالم ہی رہا۔
جواب نمبر3:
حضرت یوسف (ع) اللہ کے نبی تھے لیکن وہ ایک کافر بادشاہ کے گھر پر رہے، اس کے گھر کا زرق کھایا اور اس کے مال پر انحصار کیا اور ایک وقت وہ آیا جب کافر بادشاہ نے حضرت یوسف کو غلہ کا نگہبان مقرر کردیا لیکن پھر بھی حضرت یوسف اللہ کے نبی ہی رہے اور وہ بادشاہ کافر ہی رہا۔
اسی طرح اگر امام حسن (ع) نے ظالم بادشاہ سے وظیفہ تسلیم کیا تو اس میں کیا حرج ہے؟ امام امام ہی رہا اور ظالم ظالم ہی۔
جواب نمبر4:
بیت المال معاویہ کی ذاتی ملکیت نہ تھی بلکہ اس کا مقصد مسلمانوں کی فلاح و بہبود تھا اور اس بیت المال سے معاویہ نے جو کچھ بھی امام حسن کو بھیجا وہ انہوں نے اپنی ضروریات کے لئے رکھا اور باقی غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کے کام میں لائے۔
پس، امام حسن نے ایک غاصب سے غریبوں کا حق حاصل کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ مال انہی لوگوں تک پہنچے جو اس کے حقدار ہیں۔
جواب نمبر5:
اللّه نے قرآن میں اہل بیتؑ کے حصے خمس کا ذکر کیا ہے
جو صرف انہی کا حق تھا جو غیر سید کے لئے حرام ہے
حکومتِ معاویہ کا اہل بیتؑ کو خمس دینا اسکی مجبوری تھی۔
جواب نمبر6:
علمی جوابات کے بعد آیئے اب حوالہ جات کی بنا پر ناصبی قیاس کا رد کریں جو کہ ناصبیت کے اس قیاس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔
امام ِ اہل ِسنت ابو بکر الجصاص الرازی (متوفی 370 ھ)لکھتے ہیں:
📝 حسن بصری، سعید بن جبیر ، شبعی اور تمام تابعین ان ظالم (حکمرانوں) سے وظیفے لیتے تھے لیکن اس بناء پر نہیں کہ وہ ان سے دوستی رکھتے تھے اور ان کی حکومت کو جائز تصور کرتے تھے بلکہ اس لئے لیتے تھے کہ یہ تو ان کے اپنے حقوق ہیں جو ظالم و فاجر لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ان سے دوستی کی بنیاد پر یہ کام کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ انہوں نے حجاج سے تلوار کے ذریعے مقابلہ کیا چار ہزار قراء (علماء) نے جو تابعین میں سے بہترین اور فقہاء تھے عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کی قیادت میں حجاج سے اھواز کے مقام پر جنگ کی پھر بصرہ اور بعد ازاں کوفہ کے قریب فرات کے کنارے دیر جماجم کے مقامات پر حجاج سے جنگ کی ہے۔ انہوں نے عبد الملک بن مروان کی بیعت توڑ دی تھی ان (اموی حکمرانوں) پر لعنت کرتے اور ان سے تبرا کرتے تھے۔ ان سے پہلے کے لوگوں کا معاویہ کے ساتھ بھی یہی طریقہ تھا جب وہ حضرت علی کی شہادت کے بعد زبردستی حکمران بن گیا حسن اور حسین بھی (معاویہ سے)وظائف لیتے تھے بلکہ معاویہ سے اسی طرح تبرا کرتے تھے جس طرح حضرت علی معاویہ سے تبرا کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وفات کے بعد جنت اور رضوان میں لے گیا۔ چنانچہ ان (ظالم حکمرانوں) کی طرف سے عہدہ قضاء قبول کرنے اور وظائف لینے میں یہ دلیل نہیں ہے کہ یہ حضرات ان ظالموں سے دوستی رکھتے تھے اور ان کی حکومت کو جائز اعتقاد کرتے تھے۔
📚 احکام القرآن للجصاص ج 1 ، ص81 ، 82 طبع بیروت
.
ناصبیوں کی جہالت نمبر 9
جواب
یہاں بھی جھوٹ سے کام لیا گیا ۔
یہاں لفظ بیعت بمعنی عہد و پیمان استعمال ہوا ہے جیسا کہ انہی کے اسکین میں بھی دیکھا جا سکتا ہے
ناصبیوں کی جہالت نمبر 10
جواب
اول تو اس سکین میں بھی صلح کی بات ہو رہی ہے بیعت کی نہیں۔
دوم یہ روایت سائب کلبی کی ہے جو کہ متروک راوی ہے۔
اگر اس راوی کی روایت انکو قبول ہے تو ہم اسی راوی سے خلیفہ دوم کا شجرہ بھی دیکھیں گے 🤭
ناصبیوں کی جہالت نمبر 11
اعتراض کیا گیا کہ
جب امام ع کو مستقبل و ماضی کا علم ہوتا ہے تو امام کو پتا کیوں نہ چلا کہ جسے وہ امیر بنا رہے ہیں وہ دھوکہ دے گا
جواب
ہم اسکا مختصر جواب یوں دیتے ہیں کہ
جب اللّه کو پتا تھا کہ ابلیس شیطان بنے گا تو سجدے کا حکم کیوں فرمایا ؟
اس طرح کے جاہلانہ اعتراض بہت سے کئے جا سکتے ہیں
.
ناصبیوں کی جہالت نمبر 12
جواب
مخلص شیعہ امام کے ساتھ بہت کم تھے ۔
اور منافق بہت زیادہ تھے
اس پر مخلص شیعہ پر طعن کیسا ؟
ناصبیوں کی جہالت نمبر 13
جواب
اس سکین میں موجود روایت کی سند یوں ہے 👇🏼
📝 جبرئيل بن أحمد ، وأبو إسحاق حمدويه وإبراهيم ابنا نصير ، قالوا : حدثنا : محمد بن عبد الحميد العطار الكوفي ، عن يونس بن يعقوب ، عن فضل غلام محمد بن راشد ،
.
ایک تو اس روایت میں محمد بن راشد مجہول ہے
📝 فضل غلام محمد بن راشد : مجهول كما قال محمد الجوهري :
📚 في المفيد من معجم الرجال – الصفحة : ( 9419 )
.
دوسرا اس میں جبرئیل بن احمد ضعیف ہے اور نا قابل اعتبار ہے
📝 جبريل بن أحمد : ضعيف ولم يوثق
📚 السيد الخوئي – معجم رجال الحديث – الجزء : ( 4 / 1 ) – رقم الصفحة : ( 352 / 285 )
.
جواب کے رد میں کہا جاتا ہے کہ جبرئیل بن احمد کثرت سے روایات نقل کرتا تھا۔
جواب الجواب
آیت اللّه خوئی فرماتے ہیں کہ اس سے اسکی ثقات ثابت نہیں ہوتی
📚 السيد الخوئي – معجم رجال الحديث – الجزء : ( 4 / 1 ) – رقم الصفحة : ( 352 / 285 )
📝 2054 – جبرئيل بن أحمد : الفاريابي : يكنى أبا محمد ، كان مقيما بكش ، كثير الرواية عن العلماء بالعراق ، وقم ، وخراسان ، رجال الشيخ في من لم يرو عنهم (ع) والكشي ، يروي عنه كثيرا ، ويعتمد عليه ، ويروى ما وجده بخطه ، ولكنك عرفت غير مرة ، إن اعتماد القدماء على رجل ، لا يدل علي وثاقته ولا على حسنه ، لاحتمال أن يكون ذلك من جهة بنائهم على أصالة العدالة.
.
ناصبیوں کی جہالت نمبر 14
جواب
اسکا جواب صرف اتنا ہے کہ یہ روایت بغیر سند کے لکھی گئی ہے۔
لہذا انکا یہ استدلال بھی باطل ہے۔
.
ناصبیوں کی جہالت نمبر 15
ناصبیوں کی جہالت نمبر 7 کا جواب دیکھ سکتے ہیں
.
اعتراض کا جواب اور صلح کی اصل وجہ امام حسنؑ کی زبانی
کس قدر حیران کن بات ہے کہ شیعہ مخالف لوگ احتجاج طبرسی کی ایک روایت دکھا کر کہتے ہیں،
امام حسنؑ معاویہ کو اپنے شیعوں سے بہتر سمجھتے تھے۔ شیعوں کو اپنا قاتل سمجھتے تھے۔
جب کہ
انہی کے پیش کردہ سکین میں یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ
1️⃣ امام حسنؑ کو پکڑ کر معاویہ کے حوالے کرنا چاہتے تھے (یعنی یہ معاویہ کے لوگ تھے)
2️⃣ خود کو شیعہ ظاہر کیا ہوا تھا
3️⃣ امام حسنؑ کو قتل کرنا چاہتے تھے
جیسا کہ امامؑ نے فرما رہے ہیں 👇🏼
📜 فقال: أرى والله أن معاوية خير لي من هؤلاء، يزعمون أنهم لي شيعة، ابتغوا قتلي وانتهبوا ثقلي، وأخذوا مالي، والله لئن آخذ من معاوية عهدا أحقن به دمي، وأومن به في أهلي، خير من أن يقتلوني فتضيع أهل بيتي وأهلي، والله لو قاتلت معاوية لأخذوا بعنقي حتى يدفعوني إليه سلما، والله لئن أسالمه وأنا عزيز خير من أن يقتلني وأنا أسير، أو يمن علي فيكون سنة على بني هاشم آخر الدهر ولمعاوية لا يزال يمن بها وعقبه علي الحي منا والميت.
“معاویہ میرے لئے ان لوگوں سے بہتر ہے وہ لوگ جو اپنے آپ کو میرا شیعہ و پیروکار مانتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ میرے قتل پر کمربستہ ہیں اور میرے اموال اور سامان کو تاراج کر رہے ہیں۔ خدا کی قسم اگر میں معاویہ سے اپنے خون کی حفاظت اور اپنے خاندان کی امان کا عہد و پیمان کر لوں تو میرے لئے اس سے بہتر ہے کہ یہ ظاہری شیعہ میرے خون کو بہائیں اور میرے اہلبیتؑ اور میرے بعض تابعین تباہ و برباد ہوں، خدا کی قسم! اگر میں معاویہ سے جنگ کروں تو یہی لوگ مجھے گرفتار کر کے اس (معاویہ) کے سپرد کر دیں گے۔”
📚 الاحتجاج، شیخ طبرسی، صفحہ 343، طبع قم
تبصرہ
👈🏻 جب صاف ظاہر ہے کہ یہ معاویہ کے آدمی تھے جو امام کو معاویہ کے حوالے کرنا چاہتے تھے تو مخلص شیعوں پر طعن کیسا؟
👈🏻 اس سے تو معاویہ کی اصلیت ظاہر ہو رہی ہے کہ اس نے اپنے آدمی بهيس بدل کر چھوڑے ہوئے تھے امام کو قتل یا گرفتار کرنے کیلئے۔
👈🏻 اس سے تو معاویہ کو اچھا سمجھنے والوں کی بھی اصلیت واضح ہو گیئی۔
👈🏻 اس سے تو امامؑ کے صلح کرنے کے باوجود معاویہ والے ہی امامؑ کے قاتل ثابت ہو رہے ہیں۔
👈🏻 اسی لئے جب امام ع انکی نیت سے واقف ہو گئے تو صلح کو جنگ پر ترجیح دی کیوں کہ معاویہ والے امام کی صفوں میں گھس چکے تھے۔
مزید احوال شیخ مفید رح کی نقل کی گئی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے.
📝 “امام حسن (ع) کے لشکر میں تھے ایسے کوفی عمائدین جو بظاہر آپ کے تابع و فرمانبردار تھے لیکن انھوں نے خفیہ طور پر معاویہ کو خطوط لکھے اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی یقین دہانی کرائی اور اس کو اپنی جانب آنے کی رغبت دلائی اور اپنے ذمے لیا کہ جب وہ اپنا لشکر لے کر امام حسن کے لشکر کے قریب پہنچیں تو وہ آپ کو گرفتار کرکے معاویہ کی تحویل میں دیں گے یا پھر آنجناب کو اچانک گھیر کر قتل کریں گے”
📚 شیخ مفید الإرشاد ج 2 ص9
.
ثانیا: یہ روایت جو موصوف نے نقل کی ہے مرسل ہے۔
علامہ طبرسی قرنِ سادس (چھٹی قرن) کے علماء میں سے ہیں اور وہ روایت نقل کر رہے ہیں زید بن وھب الجھني سے جو کہ اصحاب امیر المومنین (صلوت اللہ و سلامہ علیہ ) میں سے ہیں
جیسا کہ “رجال الطوسی” میں اسماء من روی عن امیر المومنین کے ذیل میں ان کا نام مرقوم ہے
زید بن وھب الجُھَني ،کوفيٌّ
کہاں صحابئ امیر المومنین اور قرن سادس کا عالمِ دین اس بُعدِ زمانی کے جان لینے کے بعد روایت کو مرسل کہنا بھی ایک طرح کا تکلف معلوم ہوتا ہے
ناصبیوں کی جہالت نمبر 16
روایت یوں ہے 👇🏼
جب جناب حسن نے ( امیر المومنین ) معاویہ کی بیعت کرلی ، تو میں جناب حسن کے پاس آیا ، وہ اپنے گھر کے صحن میں چند لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے
میں نے جاتے ہی کہا :
اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے تجھ پر سلام ہو ،
انہوں نے مجھے وعلیکم السلام کہا ، اور کہنے لگے آؤ سواری سے اترو ،
میں سواری سے اترا ، اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔
ہمارا جواب
ویسے اگر اس پوسٹ کا جواب نا بھی دیا جائے تو کوئی حرج نہیں
کیوں کہ
انہی کے دئے گیے سکین میں واضح نظر آ رہا ہے کہ
یہ روایت ابن ابی الحدید سے نقل ہوئی اور اس نے نقل کی ابو الفرج اصفہانی سے۔ (نشان لگا دیے ہیں)
ہم کئی بار یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ابو الفرج اصفہانی مروان بن حکم کی نسل کا تھا اور درباری کاتب تھا مروان کا۔
ہم انشاء اللّه اسکا جواب ابو الفرج اصفہانی کی اصّل کتاب کا سکین لگا کر رد پیش کرتے ہیں۔ اور روایت کی سندی اصلیت بھی دکھاتے ہیں۔
جواب
پہلے اسکی سند کی بات کر لیتے ہیں۔
روایت ہے کہ
سفیان بن اللیل کہتا ہے کہ میں حضرت حسنؑ کے پاس۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.
اول تو سفیان بن اللیل خود اہل سنت کے ہاں مجہول و ضعیف ہے (سکین نیچے دیکھ سکتے ہیں)
دوم شیعوں کے ہاں روایت مجہول ہے۔
جیسا کہ شیعہ کتب میں سفیان بن اللیل یوں روایت کرتا ہے کہ
📝 قال الكشي: (50) سفيان بن أبي ليلى الهمداني. (روى عن علي بن الحسن الطويل، عن علي بن النعمان،
عن عبد الله ابن مسكان، عن أبي حمزة،
عن أبي جعفر عليه السلام، قال: جاء رجل من أصحاب الحسن عليه السلام، يقال له سفيان بن أبي ليلى
وهو على راحلة له، فدخل على الحسن عليه السلام، وهو مختب (محتب) في فناء داره،
فقال له: السلام عليك يا مذل المؤمنين !
فقال له الحسن عليه السلام: انزل ولا تعجل فنزل فعقل راحلته في الدار وأقبل يمشي حتى انتهى إليه، قال: فقال له الحسن عليه السلام: ما قلت ؟
قال: قلت السلام عليك يا مذل المؤمنين !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال: الله (قال الله) قال:
فقال الحسن عليه السلام: والله لا يحبنا عبد أبدا ولو كان أسيرا في الديلم إلا نفعه الله بحبنا، وإن حبنا ليساقط الذنوب من بني آدم كما يساقط الريح الورق من الشجر). وعن البحار نحو ذلك.
.
یہ روایت ضعیف و مرسل ہے علی بن الحسن الطویل مجہول ہے
أقول: هذه الرواية ضعيفة بالارسال وجهالة علي بن الحسن الطويل، فلا يمكن الاستدلال بها على مدح الرجل
ولا على قدحه.
اذا الروايه ضعيفه من وجهين
الوجه الاول : الروايه مرسله
الوجه الثاني : علي بن الحسن الطويل مجهول
📚 المجلد التاسع صفحه رقم 156-157
.
سند کے علاوہ بھی اگر دیکھا جائے تو کیا
1ـ کیا امام حسن ع کے ساتھ سب کے سب لوگ شیعہ تھے؟ جبکہ خوارج تک جیسے لوگ بھی امام حسن ع کے ساتھ تھے
2ـ اگر وقعی شیعہ بھی ہوں تو بھی ہمارا تو یہ عقیدہ ہی نہیں کہ جو بھی صحابی ہوگیا یا جو بھی شیعہ ہوگیا بس وہ رضی اللہ ہوگیا وغیرہ بلکہ ہم تو اس کے کردار پر جاتے ہیں اگر صحیح ہے تو ابولؤلؤ رض بھی تابعی مومن ہے اور اگر کردار صحیح نہیں تو عبد اللہ بن ابی بھی لعنتی ہے
3ـ صحابہ بھی نبی پاک کی کھلم کھلا مخالفت کرتے تھے یہاں تک کہ ام المومنین نے فرمادیا کہ اللہ ایسے صحابہ پر غضبناک ہو جو نبی پاک کی نافرمانی کر رہے ہیں
اور نبی پاک کو بھی صحابہ نے بے عدالتی کا الزام لگایا۔۔۔
غنیمت کی تقسیم کے معاملے میں ایک صحابی بڑی بے حیائی سے کہا ہے کہ انصاف کر عدالت کر تو نبی پاک نے فرمایا:
بدبخت ہوں (معاذاللہ) اگر عدالت نہ کروں تو۔۔۔
📚 صحيح البخارى (11/ 247، )
📜 3138 – حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا قُرَّةُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ – رضى الله عنهما – قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – يَقْسِمُ غَنِيمَةً بِالْجِعْرَانَةِ إِذْ قَالَ لَهُ رَجُلٌ اعْدِلْ . فَقَالَ لَهُ « شَقِيتَ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ایک راہ حل نکالتے ہیں:
ہم اس شخص پر لعنت کرتے ہیں جس نے امام حسن ع کو کہا مذل المومنین
اور آپ بھی لعنت کریں اس صحابی پر جس نے نبی پاک پر بے عدالتی کا الزام لگایا۔
مذل المومنین پر لعنت کرنے سے ہمارے مذہب پر کوئی اثر نہیں پرٹا جبکہ تو ہوشیار رہنا کیوں کہ تیرے مذہب کی عمارت ہی اجمعین پر کھڑی ہے!
.
ناصبیوں کی جہالت نمبر 17
امام حسن و حسین نے معاویہ کی بیعت کی
جواب
روایت ضعیف
جس روایت کو ناصبی بطور استدلال پیش کرتے ہیں کہ حسنین ع نے معاویہ کی بیعت کی وہ روایت ضعیف ہے جس میں ٣ مجہول راوی ہیں.. جس سے احتجاج جائز نہیں..