ناصبیوں کا علامہ باقر مجلسی کی کتاب حق الیقین میں موجود روایت پر شیعوں پر طعن اور اسکی وضاحت
ہمارے مخالف اس دی ہوئی کتاب “حق الیقین” کی روایت کو لیکر ہنگامہ برپہ کیا ہوا ہے،
آئیے اس روایت کو تحقیق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔۔۔
.
سکین پیج پر موجود روایات:
وهذا ما رواه الشيخ الطوسي والنعماني عن الإمام الرضا : ” أن من علامات ظهور المهدي أنه سيظهر عارياً أمام قرص الشمس “
حق اليقين (ص 347) .
ترجمہ: شیخ طوسی اور نمانی نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ حضرت قائم عج کے ظھور کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ حضرت برہنہ بدن قرص آفتاب کے سامنے ظاھر ہونگے اور منادی ندا دیے گا کہ یہ امیرالمومنین ع ہیں واپس آئے ہیں۔۔۔۔
پہلا جواب:
غور فرمائیں کہ حق الیقین میں علامہ مجلسی نے یے واضح فرما دیا ہے کہ
انھوں نے یے روایت جناب شیخ الطوسی اور جناب نعمانی علیہ رحمہ سے لی ہے۔
تو آیئے ہم آپ کو اصلی روایت کی طرف لے چلتے ہیں جو ان دونوں کی کتب میں موجود ہے۔
.
1: شیخ الطوسی کی کتاب “الغیبہ” کے ص نمبر 440
اور
2: شیخ النعمانی کی “الغیبہ” کے ص 186:
.
پہلی روایت
سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الزَّيْتُونِيِّ وَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ لَلْحِمْيَرِيِّ [مَعاً] عَنْ أَحْمَدَ بْنِ هِلَالٍ الْعَبَرْتَائِيِّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع فِي حَدِيثٍ لَهُ طَوِيلٍ اخْتَصَرْنَا مِنْهُ مَوْضِعَ الْحَاجَةِ أَنَّهُ قَالَ لَا بُدَّ مِنْ فِتْنَةٍ صَمَّاءَ صَيْلَمٍ يَسْقُطُ فِيهَا كُلُّ بِطَانَةٍ وَ وَلِيجَةٍ وَ ذَلِكَ عِنْدَ فِقْدَانِ الشِّيعَةِ الثَّالِثَ مِنْ وُلْدِي يَبْكِي عَلَيْهِ أَهْلُ السَّمَاءِ وَ أَهْلُ الْأَرْضِ وَ كَمْ مِنْ مُؤْمِنٍ مُتَأَسِّفٍ حَرَّانَ حَزِينٍ عِنْدَ فَقْدِ الْمَاءِ الْمَعِينِ كَأَنِّي بِهِمْ أَسَرَّ مَا يَكُونُونَ وَ قَدْ نُودُوا نِدَاءً يَسْمَعُهُ مَنْ بَعُدَ كَمَا يَسْمَعُهُ مَنْ قَرُبَ يَكُونُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ وَ عَذَاباً لِلْكَافِرِينَ فَقُلْتُ وَ أَيُّ نِدَاءٍ هُوَ- قَالَ يُنَادُونَ فِي رَجَبٍ ثَلَاثَةَ أَصْوَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ صَوْتاً مِنْهَا أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ وَ الصَّوْتُ الثَّانِي أَزِفَتِ الْآزِفَةُ يَا مَعْشَرَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الصَّوْتُ الثَّالِثُ يَرَوْنَ بَدَناً بَارِزاً نَحْوَ عَيْنِ الشَّمْسِ هَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ كَرَّ فِي هَلَاكِ الظَّالِمِينَ.
(الغيبة (للطوسي)/ كتاب الغيبة للحجة، النص، ص: 440)
یے ایک طویل روایت ہے میں صرف وہ الفاظ بیان کر رہا ہوں جو ہمارا مطلوب ہے،
جب تیسری ندا آئے گی تو وہ دیکھیں گے کہ ایک جسم سورج کی طرف ابھریگا۔
آپ صاف دیکھ سکتے ہیں کہ اس روایت کے اصل متن میں کہیں بھی لفظ عاریا (برہنہ) موجود نہیں۔
.
دوسری روایات
اسی طرح شیخ النعمانی کی روایت میں بھی ہے۔
وحدثنا محمد بن همام قال : حدثنا أحمد بن مابنداد وعبدالله بن جعفر الحميري قالا : حدثنا أحمد بن هلال قال حدثنا الحسن بن محبوب الزراد قال : قال لي الرضا (عليه السلام)۔۔۔ قال : ثلاثة أصوات في رجب : أولها { ألا لعنة الله على الظالمين } ، والثاني : أزفت الأزفة يا معشر المؤمنين ، والثالث : يرون يدا بارزا مع قرن الشمس ينادي : ألا أن الله قد بعث فلانا على هلاك الظالمين۔
(الغيبة – للشیخ النعمانی ص 186)
آپ صاف دیکھ سکتے ہیں کہ اس روایت کے اصل متن میں کہیں بھی لفظ عاریا (برہنہ) موجود نہیں۔
.
اور ہم نے اصّل روایات میں یے الفاظ کہیں نہی دیکھے جو کہ ہمارے مخالف نے اعتراض کرتے ہوئے بیان کیئے ہیں۔
حق الیقین کے الفاظ اصّل میں کتابت کی غلطی لگتی ہے
حق الیقین میں اسی روایت کے چند سطروں کے بعد ایک اور روایت موجود ہے جس میں “برہنہ ہاتھ میں تلوار و نیزہ” لے کر نکلنے کا ذکر ہے۔
لگتا یہ ہے کہ کاتب کو اس “برہنہ ہاتھ” سے غلطی ہوئی ہے۔
یہ روایت اسی صفحہ 18 اور 19 پر موجود ہے۔ اسی صفحہ 19 پر چند سطروں کے بعد یہ روایت موجود ہے:
(اے اللہ) مجھ کو اس حالت میں قبر سے باہر لانا کہ میں اپنے کفن کو اپنی کمرے سے باندھے ہوں اور اپنی تلوار اور نیزہ برہنہ ہاتھ میں لیے ہوں اور اسکی (امام مہدی کی) دعوت پر لبیک کہوں۔۔۔
لہذا ثابت ہوا یہ کتابت کی غلطی ہے اعتراض کرنے سے پہلے تھوڑی تحقیق کر لیا کریں۔
دوسرا جواب
اب آتے ہیں اس روایت کی حیثیت کی طرف۔
یہ روایت ضعیف ہے
کیوں کہ اس روایت میں احمد بن حلال العبرتائی موجود ہے جس کے ضعف پر سب متفق ہیں۔
1: شیخ طوسی نے اسے “غالی و صوفی” قرار دیا ہے
رجال الطوسی، صفحہ 384
2: ایک اور جگہ اسے “ضعیف” قرار دیا ہے
الاستبصار، جلد 3، صفحہ 28
3: علامہ باقر مجلسی نے بذات خود اس احمد بن حلال کو ضعیف قرار دیا ہے۔
بحار الانوار، جلد 3، صفحہ 254
رجال المجلسی، صفحہ 154
4: سید طباطبائی، سید حمد العاملی، سید روحانی، سید بروجردی، سید سبزواری وغیرہ سب نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔
5: امام حسن عسکری نے اس پر لعنت کی ہے۔
رجال کشی جلد 2، صفحہ 816
6: علامہ حلی لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک اسکی روایات ناقابل قبول ہیں۔
خلاصۃ الاقوال صفحہ 320
لہذا انکو حق الیقین کا کافی و شافی جواب دینے کے بعد انکی صحیح بخاری سے 2 روایات پیش خدمت ہیں۔ جہاں نبی اللّه موسیٰؑ و رسول اللّه محمد ص کی توہین کی گیئی۔ توہین تو بہت سی ہیں۔ لیکن الزامی جواب کیلئے ویسی ہی روایات پیش خدمت ہیں جیسا اعتراض انہوں نے ہم پر کیا۔
.
صحیح بخاری
کتاب الصلوٰۃ
( نماز کے احکام و مسائل )
باب : ( بے ضرورت ) ننگا ہونے کی کراہیت نماز میں ہو ( یا اور کسی حال میں )
حدیث نمبر : 364
حدثنا مطر بن الفضل، قال حدثنا روح، قال حدثنا زكرياء بن إسحاق، حدثنا عمرو بن دينار، قال سمعت جابر بن عبد الله، يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينقل معهم الحجارة للكعبة وعليه إزاره. فقال له العباس عمه يا ابن أخي، لو حللت إزارك فجعلت على منكبيك دون الحجارة. قال فحله فجعله على منكبيه، فسقط مغشيا عليه، فما رئي بعد ذلك عريانا صلى الله عليه وسلم.
ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا انھوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے عمرو بن دینار نے ، انھوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( نبوت سے پہلے ) کعبہ کے لیے قریش کے ساتھ پتھر ڈھو رہے تھے ۔ اس وقت آپ تہبند باندھے ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس نے کہا کہ بھتیجے کیوں نہیں تم تہبند کھول لیتے اور اسے پتھر کے نیچے اپنے کاندھ پر رکھ لیتے ( تا کہ تم پر آسانی ہو جائے ) حضرت جابر نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کھول لیا اور کاندھے پر رکھ لیا ۔ اسی وقت غشی کھا کر گر پڑے ۔ اس کے بعد آپؐ کبھی ننگے نہیں دیکھے گئے ۔ ( معاز اللّه )