کیا امام زمان (ع) ظہور فرمانے کے بعد مسجد الحرام اور مسجد النبی کو مسمار کریں گے ؟

کیا امام زمان (ع) ظہور فرمانے کے بعد مسجد الحرام اور مسجد النبی کو مسمار کریں گے ؟

توضيح سؤال:

میں نے وہابیوں کی بعض سا‏یٹ میں دیکھا ہے کہ انھوں نے کتاب بحار الانوار سے روایت کو لکھا ہوا تھا کہ:

https://forum.twelvershia.net/imamah-ghaybah/let’s-get-to-know-the-jewish-majoosi-messiah-of-the-rafidah-(12th-imam)

روي المجلسي: (إن القائم يهدم المسجد الحرام حتي يرده إلي أساسه، والمسجد النبوي إلي أساسه).

بے شک قائم مسجد الحرام اور مسجد النبی کو مکمل طور پر مسمار کریں گے۔

📚 الغيبة للطوسي ص 282

❓کیا یہ بات صحیح ہے ؟

❓کیا واقعا ایسا ہی ہے کہ حضرت مہدی (ع) خانہ کعبہ اور مسجد النبی کو ویران کر دیں گے ؟

جواب:

.

سب سے پہلے عرض ہے کہ وھابی نے اس روایت کی سند ہی غائب کر دی ہے کیونکہ اسکو معلوم ہے اگر سند کے ساتھ اسکو نقل کرتا تو اسکو موت آجاتی اور اسکا سارا کارنامہ پہلے ہی غرق آب ہوجاتا

.

شیخ المفید ( المتوفی ۴۱۳ھ ) نے بھی اس روایت کو بغیر سند کے نقل کیا ہے

📚 حوالہ : الارشاد فی معرفہ حجج اللہ علی العباد – شیخ محمد بن محمد بن النعمان النعروف المفید // باب ذکر علامات قیام القائم // صفحہ ۵۴۱ // طبع المصطفیٰ الھند

جب کہ شیخ طوسی ( المتوفی ۴۶۰ھ ) نے اس روایت کو اپنی کتاب ” الغيبة ” میں جس سند کے ساتھ لائیں ہیں وہ اس طرح ہے :

📜 492 – عنه، عن عبد الرحمان، عن ابن أبي حمزة، عن أبي بصير، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: القائم يهدم المسجد الحرام حتى يرده إلى أساسه، ومسجد الرسول صلى الله عليه وآله إلى أساسه، ويرد البيت إلى موضعه، وأقامه على أساسه، وقطع أيدي بني شيبة السراق وعلقها على الكعبة

📚 حوالہ : كتاب الغيبة – شيخ طائفة ابوجعفر الطوسي // صفحہ ۴۷۲ // رقم ۴۹۲ // طبع مؤسسة المعارف الاسلامية

.

اسکی سند میں ایک راوی ہے جسکا نام ” علي بن ابي حمزة ” ہے اسکے بارے میں علماء الرجال کا بیان دیکھتے ہے :

شیخ النجاشی انکے بارے میں یوں فرماتے ہیں :

علي بن أبي حمزة : واسم أبي حمزة سالم : البطائني أبو الحسنمولى الانصار، كوفى، وكان قائد ابي بصير يحيي بن القاسم ، وله أخ يسمّى جعفربنأبي حمزة، روى عن أبي الحسن موسى وروى عن أبي عبداللّه عليهما السلام، ثم وقف، وهو أحد عمد الواقفة، وصنّف كتباً عدّة، منها: كتاب الصلاة، كتاب الزكاة، كتابالتفسير، وأكثره عن أبي بصير، كتاب جامع في أبواب الفقه،

أخبرنا محمد بن جعفرالنحوي في آخرين، قال: حدّثنا أحمد بن محمد بن سعيد، قال: حدّثنا محمد بنعبداللّه بن غالب، قال: حدّثنا علي بن الحسن الطاطرى، قال: حدّثنا محمد بنزياد، عنه.
وإخبرنا محمد بن عثمان بن الحسن، قال: حدّثنا جعفر بن محمد، قال: حدّثناعبيداللّه بن أحمد بن نهيك أبو العبّاس النخعى، عن محمد بن أبي عمير، وأحمد بنالحسن الميثمي جميعاً، عنه بكتبه

📚 حوالہ : الرجال نجاشی – احمد بن علی النجاشی // باب علی // رقم ۶۵۶ // طبع مؤسسہ النشر السلامی

شیخ ابن الغضائری انکے بارے میں یوں کہتا ہے :

علي بن أبي حمزة، لعنه اللّه أصل الوقف، وأشد الخلق عداوة للولي من بعد أبي أبراهيم عليهما السلام

📚 حوالہ : الرجال لابن الغضائری – شیخ احمد بن حسین الغضائری // حرف العین // صفحہ ۱۰۷ [۳۲] // طبع ایران

اسی طرح العلامة الحلي نے انکے بارے میں یوں لکھا ہے :

……. علي بن أبي حمزة الثمالي ، وليس هو علي بن أبي حمزة البطائني ، لأن ابن أبي حمزة البطائني ضعيف جدا ، وهذا ابن أبي حمزة الثمالي.

– …. وقال أبو الحسن علي بن الحسن بن فضال : علي بن أبي حمزة كذاب.

– …. ابن السراج ، وابن أبي سعيد المكاري ، و علي بن أبي حمزة البطائني ، كانوا من أهل الضلال.

📚 خلاصۃ الاقوال فی معرفہ الرجال – علامہ حلی // صفحہ ۱۸۱ ، ۳۶۲-۳۶۳ ، ۴۲۱ // طبع ایران

لہذا ثابت ہوا علی بن ابی حمزۃ البطائنی ضعیف ہے بلکہ کذاب ہے اور واقفیہ فرقہ سے ہے جو اس روایت کے باطل ہونے کی صریح دلیل ہے

🖋 ڈاکٹر آصف حسین

.

کیا بے شرم وہابیوں کو یہ اشکال کرتے وقت شرم نہیں آتی ؟

.

قابل توجہ ہے کہ وہابی کہ جو فرصت ملتے ہی رسول خدا (ص) کے حرم کے گنبد کو مسمار کر کے ان حضرت کی قبر مبارک کو مسجد النبی سے باہر منتقل کرنا چاہتے ہیں، اسی کام کے بارے میں انکے دین و ایمان فروش علماء نے فتوے بھی دئیے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے ان نجس وہابیوں نے چند سال پہلے شام میں رسول خدا (ص) کے بزرگ صحابی حجر ابن عدی کی قبر کو کھود کر انکی میت کو نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا اور خود انہی انسان نما حیوانوں نے مسجد الحرام میں مرمت و تعمیر کے بہانوں سے بہت سی تبدیلیاں انجام دیں ہیں، یہ بے حیا قوم کس منہ سے شیعیان پر اور خاص طور پر امام زمان (ع) پر یہ اعتراض کرتے ہیں ؟ !

ایک کہاوت ہے کہ:

جسکا اپنا مکان شیشے کا ہو، اسے دوسروں کے گھر پر پتھر مارنا زیب نہیں دیتا۔

البانی وہابی : رسول خدا (ص) کی مسجد کو ویران کر کے اسے سابقہ حالت میں پلٹانا، واجب ہے !

👈🏻 البانی وہابی مشہور عالم نے اپنی كتاب « تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد » میں لکھا ہے کہ:

📝 قلت : ومما يؤسف له أن هذا البناء قد بني عليه منذ قرون إن لم يكن قد أزيل تلك القبة الخضراء العالية.

وأحيط القبر الشريف بالنوافذ النحاسية والزخارف والسجف وغير ذلك مما لا يرضاه صاحب القبر نفسه صلي الله عليه و سلم؛ بل قد رأيت حين زرت المسجد النبوي الكريم وتشرفت بالسلام علي رسول الله صلي الله عليه و سلم سنة 1368 ه رأيت في أسفل حائط القبر الشمالي محرابا صغيرا ووراءه سدة مرتفعة عن أرض المسجد قليلا إشارة إلي أن هذا المكان خاص للصلاة وراء القبر فعجبت حينئذ كيف ضلت هذه الظاهرة الوثنية قائمة في عهد دولة التوحيد.

أقول هذا مع الاعتراف بأنني لم أر أحدا يأتي ذلك المكان للصلاة فيه لشدة المراقبة من قبل الحرس الموكلين علي منع الناس من يأتوا بما يخالف الشرع عند القبر الشريف فهذا مما تشكر عليه الدولة السعودية ولكن هذا لا يكفي ولا يشفي وقد كنت قلت منذ ثلاث سنوات في كتابي ” أحكام الجنائز وبدعها ” ( 208 من أصلي ) :

«فالواجب الرجوع بالمسجد النبوي إلي عهده السابق وذلك بالفصل بينه وبين القبر النبوي بحائط يمتد من الشمال إلي الجنوب بحيث أن الداخل إلي المسجد لا يري فيه أي محالفة لا ترضي مؤسسه صلي الله عليه و سلم.

اعتقد أن هذا من الواجب علي الدولة السعودية إذا كانت تريد أن تكون حامية التوحيد حقا وقد سمعنا أنها أمرت بتوسيع المسجد مجددا فلعلها تتبني اقتراحنا هذا وتجعل الزيادة من الجهة الغربية وغيرها وتسد بذلك النقص الذي سيصيبه سعة المسجد إذا نفذ الاقتراح أرجو أن يحقق الله ذلك علي يدها ومن أولي بذلك منها ؟»

ولكن المسجد وسع منذ سنتين تقريبا دون إرجاعه إلي ما كان عليه في عهد الصحابة والله المستعان.

وہ چیز کہ جس پر افسوس کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ یہ عمارت چند صدیاں پہلے تعمیر کی گئی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو کب کا یہ سبز و بلند گنبد ویران ہو گیا ہوتا۔
اور یہ قبر شریف کو پیتل کی بنی کھڑیوں، نقش و نگار والے پردوں وغیرہ نے اپنے احاطے میں لیا ہوا ہے کہ خود صاحب قبر اس کام سے راضی نہیں ہے۔

بلکہ جب میں سال 1368 ہجری قمری میں مسجد نبوی کی زیارت کرنے اور رسول خدا کو سلام کرنے کے لیے گیا، قبر کی شمال کی سمت والی دیوار کے نیچے میں نے ایک چھوٹے محراب کو دیکھا کہ اسکے پیچھے ایک چبوترہ تھا کہ جو مسجد کی سطح سے تھوڑا اونچا تھا اور اسکا یہ مطلب تھا کہ یہ جگہ قبر شریف کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے مخصوص ہے، پس اسی وقت میں حیران ہو گیا کہ توحید کی حکومت کے زمانے میں یہ بت پرستی کی علامت ابھی تک کیسے باقی ہے !

میں اعتراف کرتا ہوں کہ کوئی بھی اس جگہ پر نماز پڑھنے کے لیے نہیں آیا تھا، کیونکہ اس جگہ کی ان پہرے داروں کے ذریعے سے نگرانی ہوتی تھی کہ جو لوگوں کو اس قبر شریف کے نزدیک غیر شرعی کام انجام دینے سے منع کرتے تھے اور اس کام کے انجام دینے پر سعودی عرب کی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، لیکن صرف ایسا کرنا ہی کافی نہیں ہے اور اسکا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے، میں (البانی) نے تین سال پہلے اپنی کتاب «احكام الجنائز و بدعها» میں کہا تھا کہ:

پس واجب ہے کہ مسجد نبوی اپنی سابق شکل پر واپس پلٹ آئے اور مسجد و قبر پیغمبر کے درمیان شمال سے جنوب تک ایک دیوار بنا کر فاصلہ ایجاد کیا جائے تا کہ مسجد کے اندر کوئی ایسا غیر شرعی کام انجام نہ دیا جائے کہ جس سے رسول خدا راضی نہ ہوں۔ میری رائے میں سعودی حکومت پر یہ کام کرنا واجب ہے، البتہ اگر وہ حقیقی طور پر توحید کی حمایت کرنا چاہتے ہیں تو۔ میں نے سنا ہے کہ سعودی حکومت نے مسجد کو وسیع کرنے کا حکم دیا ہے، پس شاید وہ میرے اس مشورے پر بھی توجہ کریں اور مسجد کو مغرب کی طرف اور دوسری اطراف سے وسیع کریں اور مسجد کے وسیع ہونے کی وجہ سے پیش آنے والے نقص کو کنڑول کریں۔ اگر میرا مشورہ قبول ہو گیا تو مجھے امید ہے کہ خداوند اس کام کو سعودی حکومت کے ہاتھوں انجام دے اور اس کام کے لیے ان سے بڑھ کر کون مناسب اور اہل ہو سکتا ہے ! لیکن تقریبا دو سال پہلے انھوں نے مسجد کو وسعت تو دی ہے لیکن انھوں نے مسجد کو صحابہ کے زمانے کی شکل میں تبدیل نہیں کیا۔

📚 الألباني، محمد ناصر الدين (متوفي1420هـ)، تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد، ج1، ص68، ناشر : المكتب الإسلامي – بيروت، الطبعة : الرابعة.

.

شيخ مقبل ابن ہادی الوادعی : مسجد نبوی کو رسول خدا (ص) کے زمانے والی حالت میں بدلنا، واجب ہے !

یہ یمن کا مشہور وہابی مفتی ہے، اس نے اپنی دو کتابوں میں حرم رسول خدا (ص) کے گنبد کو مسمار کرنے اور مسجد نبوی کو رسول خدا کے زمانے کی حالت میں بدلنے کے واجب ہونے کا فتوا دیا ہے۔

اس نے كتاب « رياض الجنة في الرد علي أعداء السنة » میں لکھا ہے کہ:

📝 وبعد هذا لا إخالك تتردد في أنه يجب علي المسلمين إعادة المسجد النبوي كما كان في عصر النبوة من الجهة الشرقية حتي لا يكون القبر داخل المسجد! وأنه يجب عليهم إزالة تلك القبة!

ان باتوں کے بعد آپکو یقین ہو گیا ہو گا کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ مسجد نبوی کو مشرق کی جانب سے خود رسول خدا کے زمانے کی شکل میں تبدیل کر دیں، تا کہ قبر رسول، مسجد کے اندر نہ رہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس حرم کے گنبد کو بھی مسمار کر دیں !

📚 مقبل بن هادي الوادعي، رياض الجنة في الرد علي أعداء السنة ص 275

اسی طرح اس نے اپنی دوسری كتاب « تحفة المجيب علي أسئلة الحاضر والغريب » میں لکھا ہے کہ:

📚 نحن نقول وتلكم قبة الهادي بجوارنا نتمني نتمني أن قد رأينا المساحي في ظهرها إلي أن تصل إلي الأرض ،

ہم کہتے ہیں کہ – حالانکہ گنبد پیغمبر ہمارے پہلو میں ہے – ہماری آرزو ہے، ہماری آرزو ہے، کہ ہم وہ دن بھی دیکھیں کہ جب بلڈوزر اس پر چڑھ کر اسے خاک میں ملا دیں گے !

📚 مقبل بن هادي الوادعي، تحفة المجيب علي أسئلة الحاضر والغريب، ص 406 چاپ دار الآثار صنعاء

اب وہابیوں کے ان واضح فتووں کی روشنی میں کہ واجب ہے مسجد نبوی کو تبدیل کرنا، مسجد الحرام کو عملی طور پر تبدیل کرنا اور آب زمزم کے پینے والی جگہ کو خراب کرنا وغیرہ وغیرہ، ان تمام شرمناک فتووں کے بعد وہ کیسے کہتے ہیں یہی کام کرنا امام زمان (ع) کے لیے حرام ہے !

.

.

.

واضح رہے کہ فرزندِ رسول امام مہدی ( صلوۃ اللہ و سلامه علیہ) اس زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ( کما فی الروایات )
اور امام عجل اللہ تعالٰی فرجه الشريف رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اس خواہش کو پورا فرمائیں گے جو عائشہ کی قوم کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہ پہونچ پائی چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ حضور ( علیہ السلام) نے عائشہ کو خطاب فرماتے ہوئے کہا :
يا عائِشَةُ، لَوْلا أنَّ قَوْمَكِ حَديثُو عَهْدٍ بشِرْكٍ، لَهَدَمْتُ الكَعْبَةَ، فألْزَقْتُها بالأرْضِ، وجَعَلْتُ لها بابَيْنِ: بابًا شَرْقِيًّا، وبابًا غَرْبِيًّا، وزِدْتُ فيها سِتَّةَ أذْرُعٍ مِنَ الحِجْرِ، فإنَّ قُرَيْشًا اقْتَصَرَتْها حَيْثُ بَنَتِ الكَعْبَةَ.
ترجمہ : اے عائشہ ! : ’’اگر تیری قوم کا زمانہ شرک قریب کا نہ ہو تا تو میں ضرور کعبہ کو گراتا اور کعبہ کو زمین سے ملا دیتا اور پھر کعبہ کے دو دروازے بناتا اور مشرقی دروازہ دوسرا مغربی اور میں کعبہ میں سات ذرائع پتھروں کا اضافی کرتا کیونکہ قریش نے کعبہ کو چھوٹا بنایا ہے ( اس اساس کی نسبت) جہاں بنا تھا۔
مذکورہ بالا حدیث سے چند امور واضح ہوئے
1 :- آنحضرت کعبہ کو ڈھانا چاہتے تھے بالکل زمین کے برابر کرنا چاہتا تھا
2 :- پھر کعبہ کو نئے سرے سے بنانا چاہتے تھے
3 :- اس بنیاد پر بنانا چاہتے تھے جس پر وہ اوائل میں قائم تھا
4 :- اور یہ سب کرنے کی وجہ عرب قوم تھی جنہوں نے کعبہ کو چھوٹا بنا دیا تھا
5 :- آپ یہ کام اس لئے انجام نہیں دیا کیونکہ قوم نئی نئی دین الإسلام میں داخل ہوئی تھی اور آپ علیہ السلام کو قوم کے ارتداد کا خوف تھا۔
اب اگر کوئی من چلا مذکورہ بالا تمام نکات کو حذف کر دے اور کچھ اس طرح کا عنوان قائم کرے کہ :
“نعوذ باللہ رسول اللہ کعبہ کو مسمار کرنا چاہتے تھے “
تو جو اس کی جزا ہے وہی عیسی رامی صاحب کی
اب آپ اس روایت کو مکمل ملاحظہ فرمائیں جس کے ایک ٹکڑے کو نقل کر کے من پسند مطلب نکالنے کی کوشش کی گئی ہے :
“القائم يهدم المسجد الحرام حتى يرده إلى أساسه، ومسجد الرسول (ص) إلى أساسه، ويرد البيت إلى موضعه وأقامه على أساسه، وقطع أيدي بني شيبة السرّاق وعلقها على الكعبة”
ترجمہ : قائم مسجد حرام کو گرا کر اس کو اس کی اساس پر واپس لائیں گے اور مسجد کو رسول کو اس کی اساس پر قائم فرمائیں ھے
اور خانہ کعبہ کو اس کی مقام پر لائین گے اور اسے اس کی اساس پر قائم فرمائیں گے
واضح رہے روایت میں صریح الفاظ ہیں:
و أقامه على أساسه
اور قائم کعبہ کو اس کی اساس پر بنائیں گے
ایسا نہیں ہے کہ نعوذ باللہ محض کعبہ کو ڈھا کر ختم کر دیں گے اور اس کا صحفہ ارض سے نام و نشان تک مٹا دیں گے جیسا کہ ہمارے مخالف نے اپنے خبیث اردہ سے مغلوب ہوکر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
جب امام اپنے جدّ رسول خدا کی خواہش کو پورا کرتا ہوئے یہ کام انجام دیں گے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے ؟
اگر کعبہ کو ڈھا کر اس کو اساس ابراہیمی پر قائم کرنا موجب اعتراض ہے تو اسی فعل کی خواہش رکھنے والا اس کی تمنا کرنے والا بھی موجب اعتراض ہے کہ کسی فعل پر رضا دراصل اس فعل میں شرکت ہے۔
افسوس ہمارے مخالف نے دانستا یہ سب کچھ نقل کیا تاکہ عوام گمراہ ہوں اور ان کے دلوں میں شیعہ دشمنی ابھرے۔
نوٹ : ایک مومن بھائی برادر سید علی نقی نقوی صاحب کے کہنے پر یہ رد لکھا گیا ہے۔
والسلام
عبد الزھرء الغروی