❌ ناصبیوں کا اعتراض اور اسکا جواب ❌
اعتراض 👇🏼
یہاں ہم کچھ روایات پیش کریں گے جس کے مطابق شیعوں کا بارہواں امام غبیت میں وفات پا چکا ہے
۱) مشہور صوفی حسن بن منصور الحلاج جسکا عقیدہ امامی شیعہ تھا وہ کہتا ہے بارھواں امام غار میں وفات پا چکا ہے اور کوئی امام اب نہیں آے گا جبکہ قیامت قریب ہے
حوالہ کتاب الرافضۃ آل نوبخت عباس اقبال اشتیابی الصفحۃ ۱۳۹
۲) قاضی نور اللہ تستری جو کسی تعارف کا محتاج نہیں اور شیعوں نے اسکو شہید ثالث کا لقب دے رکھا ہے وہ منصور الحلاج کے عقیدے کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ امامی شیعہ تھا
حوالہ کتاب الرافضۃ مجالس المومینین قاضی نور اللہ تستری الصفحۃ ۴۵۶
۳) ابو سہل بن اسمائیل بن علی بن نوبخت جو کہ ملت رافضہ کے کبار علماء میں سے تھا وہ بارھواں امام کے متعلق ایسا عقیدہ رکھتا تھا جو پہلے کسی نے بیان نا کیا وہ کہتا تھا بارہواں امام مہدی بن حسن غار میں مر چکا ہے ۔۔۔!!!
حوالہ کتاب الرافضۃ الفھرست ابن ندیم الصفحۃ ۴۵۱
👈🏻 مکمل پوسٹ انتہائی توہین آمیز تھی اسلئے پوسٹ میں موجود 3 عدد روایات جو لکھی گئی تھی صرف وہ share کر کے انکا رد پیش کر رہا ہوں
.
جواب
✅ منصور حلاج جو کہ ایک صوفی العقیدہ شخص تھا۔
اہل سنت میں آج بھی ولی اللّه مانا جاتا ہے۔
جسے اپنے کفریہ کلیمات انالحق کی وجہ سے سولی پر لٹکا دیا گیا تھا۔
کتب شیعہ میں مولا امام مہدی عج کی زبانی منصور الحلاج پر لعنت کی گئی ۔
ملاحظہ فرمائے 👇🏼
📜 فلأن السفير الثالث لمولانا صاحب الأمر (صلوات الله عليه) وهو الحسين بن روح (عليه السلام) قد لعن الحلاج صراحة بقوله لأم كلثوم بنت السفير الثاني (عليه السلام ورضوان الله عليها) في مجريات محادثة بينهما في شأن اللعين الشلمغاني: ”فهذا كفر بالله تعالى وإلحاد، قد أحكمه هذا الرجل الملعون في قلوب هؤلاء القوم ليجعله طريقا إلى أن يقول لهم بأن الله تعالى اتحدّ به وحلّ فيه! كما يقول النصارى في المسيح عليه السلام، ويعدو إلى قول الحلاج لعنه الله“.
📚 غيبة الطوسي ص405
📜 شيخنا المفيد (رضوان الله تعالى عليه) الذي لم ينل هذا اللقب إلا من قبل الإمام صاحب العصر (صلوات الله عليه) وكان قد حظي برسالتيْن مكتوبتين بخط يد الإمام إليه والذي كتب الإمام على قبره بيتين من الشعر في رثائه.. كان قد صنّف كتابا خاصا في الرد على الحلاج اللعين وأصحابه.
📚 ذكره النجاشي في رجاله ص401
missing
📜 شيخنا الطبرسي (رضوان الله تعالى عليه) وكذا جمهرة علمائنا المتقدّمين والمتأخرين ذكروا أن توقيعا شريفا من صاحب العصر (عليه السلام) قد خرج بلعن الحلاج، فقالوا: ”وكذا كان أبوطاهر محمد بن علي بن بلال، والحسين بن منصور الحلاج، ومحمد بن علي الشلمغاني المعروف بابن أبي العزاقري، لعنهم الله، فخرج التوقيع بلعنهم والبراءة منهم جميعا، على يد الشيخ أبي القاسم الحسين بن روح رحمه الله“.
📚 الاحتجاج للطبرسي ج2 ص290
کتب شیعہ میں منصور الحلاج پر لعنت کی گئی ۔
امام زمانہ ع نے خود اپنی توقیعی میں منصور حلاج پر لعنت کی۔
صرف منصور حلاج ہی نہیں آئمہ ع نے ہر صوفی پر لعنت کی ہے
📜 نقل الشیخ مفید علیہ رحمہ محمد بن محمد بن النعمان،عن محمد بن الحسین بن ابی الخطاب عن علی بن محمد الھادی علیہ السّلام
فی جملة حديث طويل قال
الصوفيه كلهم مخالفونا وطريقهم معايرة لطريقنا وان هم الا نصارى او مجوس هذه الامتة
امام علی نقی الھادی علیہ السلام فرماتے ہیں سب صوفی ھمارے مخالف ھیں اور انکا راستہ ھم اھل بیت کے راستے سے جدا ھے اور یہ لوگ امت کے نصاری ومجوسی ھیں
حدیث صحیح
سند حدیث
📚 حوالہ جات
1-ھدیقة الشيعه مقدس اردبيلى
2-نهج الحق علامه حلى
3-تصيح الاعتقاد شيخ مفيد عليه رحمه
4-رساله فى رد حلاج شيخ مفيد عليه رحمه
5-مستدرك الوسائل طبرسی علیہ رحمہ
6-رجال نجاشی موجود شیخ مفید سند ھذا☝
امام صادق فرماتے ہیں صوفی فاسد العقیدہ ہیں
اسی طرح ایک غیرمقلد وہابی عالم جناب زبیرعلی زئی صاحب منصور حلاج کے مطلق لکھتے ہیں
زبیرعلی زئی صاحب اپنے رسالے
📚 ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ۲۱کے صفحہ نمبر۷ پرلکھتے ہیں:
📝 “حسین بن منصور الحلاج، جسے جاہل لوگ منصور الحلاج کے نام سے یاد کرتے ہیں، کا مختصر و جامع تعارف درج ذیل ہے:
1️⃣۔ حافظ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ:
اسے زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے علم کی کوئی چیز روایت نہیں کی۔ اُس کی ابتدائی حالت (بظاہر) اچھی تھی، عبادت گزاری اور تصوف (کا اظہار کرتا تھا) پھر وہ دین (اسلام) سے نکل گیا، جادو سیکھا اور (استدراج کرتے ہوئے) خرق عادت چیزیں لوگوں کو دکھائیں، علماء کرام نے فتویٰ دیا کہ اس کا خون (بہانا) جائز ہے لہٰذا اسے ۳۱۱ھ میں قتل کیا گیا۔
(میزان الاعتدال: ج ۱،ص ۵۴۸)
2️⃣ حافظ ابن حجر العسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ:
لوگوں کا اس (حسین بن منصور الحلاج) کے بارے میں اختلاف ہے، اکثریت کے نزدیک و ہ زندیق گمراہ (تھا) ہے۔
📚 (لسان المیزان: ج ۲، ص ۳۱۴، والنسخۃ المحققۃ ۵۸۲/۲)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ: میری رائے میں حلاج کی حمایت ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں کرتا جو اس کی اس بات کے قائل ہیں جس کو وہ عین جمع کہتے ہیں اور یہی اہل وحدت مطلقہ کا قول ہے اس لئے تم ابن عربی صاحب فصوص کو دیکھو گے کہ وہ حلاج کی تو تعظیم کرتے ہیں اور جنید کی تحقیر کرتے ہیں۔
📚 (لسان المیزان: ج ۲، ص ۳۱۵)
3️⃣۔ جلیل القدر امام ابو عمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا بن یحییٰ البغدادی (ابن حیویہ)ؒ فرماتے ہیں کہ:
جب حسین (بن منصور) حلاج کو قتل کے لئے (جیل سے) نکالا گیا تو لوگوں کے ساتھ میں بھی (دیکھنے کے لئے) گیا، میں نے لوگوں کے رش کے باوجود اُسے دیکھ لیا، وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا:”تم اس سے نہ ڈرنا، میں تیس (۳۰) دنوں بعد تمہارے پاس دوبارہ (زندہ ہوکر) آجاؤں گا“ پھر وہ قتل کر دیا گیا۔
📚 (تاریخ بغداد: ج ۸، ص ۱۳۱ ت ۴۲۳۲ و سندہ صحیح، المنتظم لابن الجوزی ۴۰۶/۱۳ وقال:”وھذا الإسناد صحیح لاشک فیہ“ لسان المیزان ۳۱۵/۲ وقال:’’وإسناد ھا صحیح‘‘)
4️⃣۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ:
جمہور مشائخِ تصوف اور اہلِ علم (علمائے حق) کے نزدیک حلاج نیک لوگوں میں سے نہیں تھا بلکہ زندیق (بہت بڑا ملحد و گمراہ) تھا۔
📚 (مجموع فتاویٰ: ج ۸، ص ۳۱۸)
اللہ رب العالمین کا شکر ہے، حلاج کو زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیاگیاتھا۔
📚 (مجموع فتاوی: ۱۰۸/۳۵)
شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں کہ: اور اسی طرح جو شخص حلاج کے قتل کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ (شخص) دینِ اسلام سے خارج ہے۔
📚 (مجموع فتاویٰ: ج۲، ص ۴۸۶)
5️⃣ حافظ ابن الجوزیؒ نے اس (حسین بن منصور) کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے ’’القاطع المحال اللجاج القاطع بمحال الحلاج‘‘۔
📚 (المنتظم: ۲۰۴/۱۳)
ابن جوزی فرماتے ہیں: بے شک وہ جھوٹا باطل پرست تھا۔
.
تیسرا حوالہ جو ابن ندیم کی کتاب الفھرست کا دیا گیا ۔
اول تو ان سے گزارش ہے کہ
کتاب الفہرست کا مولف ابن ندیم معتزلی تھا شیعہ نہیں تھا۔
متعزلی اہل سنت سے نکلا ہوا فرقہ ہے۔
دوسرا یہ کہ کتاب کے اس صفحہ پر یہ روایت نہیں ملی۔
یعنی یہ بلکل ہی جھوٹ ہے ۔
سکین 👇🏼👇🏼