.
مُغِیرَہ بن شُعبَہ رسول خدا کے ان اصحاب میں سے ہے جو بیعت الرضوان میں موجود تھا۔ اور یہ مسجد کوفہ کے منبر پر امام علیؑ کو لع ن کرتا تھا۔
.
اور کچھ نا سبی کہتے ہیں صحابہ کو برا نہ کرو ۔ جو لوگ صحابہ کو گا لیاں دینے کو کف ر اور دینے والوں کو کا فر کہتے ہیں وہ مغیرہ کے بارے میں کیا فرمائیں گے ؟
.
لاکھ بل پاس کروا لیں ، ہم ایسے منا فق کو صحابی نہیں مانتے اور نہ ہی ایسے منا فق کی عزت کر سکتے ہیں نہ ہی کریں گے جو علی ع کو برا بھلا کہتا ہو۔ ہم کل بھی لانت کرتے تھے اور آج بھی لانت کرتے ہیں۔
.
سلفی محدث علامہ البانی اپنی حدیث کی کتاب میں نقل کرتے ہیں
.

.

.
اسکی مکمل سند مستدرک الحاکم میں ہے اور وہ یوں ہے
.
حدثنا أبو بكر محمد بن داود بن سليمان ، ثنا عبد الله بن محمد بن ناجية ، ثنا رجاء بن محمد العذري ، ثنا عمرو بن محمد بن أبي رزين ، ثنا شعبة ، عن مسعر ، عن زياد بن علاقة ، عن عمه ، أن المغيرة بن شعبة سب علي بن أبي طالب فقام إليه زيد بن أرقم ، فقال : يا مغيرة ، ألم تعلم أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ” نهى عن سب الأموات ، فلم تسب عليا وقد مات ؟ ” هذا حديث صحيح على شرط مسلم ، ولم يخرجاه هكذا ، إنما اتفقا على حديث الأعمش ، عن مجاهد ، عن عائشة ، أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال : ” لا تسبوا الأموات ، فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا ” .
.
اس روایت کے سارے راوی ثقہ اور صدوق ہیں
.
پہلا راوی : ابوبکر محمد بن داؤد بن سلیمان
امام حاکم فرماتے ہیں : ثقہ مامون
الدارقطنی فرماتے ہیں : ثقہ فاضل
جلال الدین سیوطی: ثقہ فاضل
.
دوسرا راوی
عبدللہ بن محمد بن ناجیه
خطیب بغدادی نے کہا : ثقہ ثبت
ذھبی نے کہا : الامام الحافظ الصادق
.
تیسرے راوی
رجاء بن محمد العذدی
ابن حجر نے کہا : ثقہ
ابن ابی عاصم نے کہا : ثقہ
امام نسائی نے کہا : لا باس به
.
چوتھا راوی
عمرو بن محمد بن ابی رزین
امام حاکم نے کہا : صدوق
ابن حجر نے کہا : صدوق رہما اخطا
عبدالباقی نے کہا : صالح
.
باقی راویان بخاری اور مسلم کے راوی ہیں۔
.
اس بنا پر اس روایت پر صحیح کا حکم لگے گا یا کم سے کم حسن لذاتہ کا، جسکے شواہد مل جانے سے یہ روایت صحیح کے درجے پر چلی جاتی ہے۔
یہ روایت مختلف اسناد سے مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد اور طبرانی میں بھی درج ہے۔
.








ابن حبان نے اپنی سند سے نقل کی ہے کہ عبدالرحمان بن اخنس نے بیان کیا کہ وہ مسجد میں تھا اور مغیرہ بن شعبہ نے علی ابن ابی طالبؑ کا ذکر کیا اور اس پر سب و شتم کرنے لگا۔ اس پر سعید بن زید کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔الخ



اب اسی روایت کو اسی سند کے ساتھ ابو داود نے بھی اپنی سنن میں نقل کیا لیکن وہاں مغیرہ کا نام نہیں لیا گیا ہے بلکہ اسکے بدلے لکھا ہے کہ ایک آدمی نے علی بن ابی طالبؑ کا ذکر کیا۔





اب عیسی ترمذی نے اپنی جامع میں اس سے ایک قدم آگے نکلا اور انہوں نے پورے قصے کو ہی حذف کیا ہے جہاں مغیرہ بن شعبہ علی بن ابی طالبؑ پر سب و شتم کر رہا تھا۔


