.
برادران اہلسنت کی طرف سے توہین صحابہ پر سزا کا مطالبہ عموماً کیا جاتا ہے، میں خود اسکا حامی ہوں۔ لیکن کوئی مجھے بتائے گا ”توہین” کا کرائیٹیریا کیا ہے، اسکی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔؟
.
مثلاً۔۔سورہ حجرات کی آیت ہے، يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُـوٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَهَالَـةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْـتُـمْ نَادِمِيْنَ (6)
(اے ایمان والو! اگر کوئی”فاسق” تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو)

.
”صحابی” ولید بن عقبہ: انکو بنی مصطلق کی طرف زکواۃ جمع کرنے کیلیے بھیجا گیا۔ جس وقت قبیلہ کے لوگوں کو علم ہوا کہ پیغمبر اسلام کا نمائندہ ان کی جانب آرہا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور وہ اس کے استقبال کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔ چونکہ زمانہ جاہلیت میں ولید اور اس قبیلہ کے لوگوں کے درمیان بڑی دشمنی تھی، ولید نے یہ خیال کیا کہ یہ لوگ اسے قتل کرنے کیلئے گھروں سے باہر نکل آئے ہیں، ولید واپس ہوگیا اور پیغمبر اسلام کے پاس واپس آکر بغیر تصدیق کئے ہوئے جھوٹ بول دیا کہ یا رسول اللہ! ان لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا ہے اور وہ سب کے سب مرتد ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر رسولِ خدا کچھ پریشان ہوئے اور ارادہ کیا کہ اس قبیلہ کے لوگوں کو انتباہ کریں آپ نے انکے خلاف لشکر کشی کا حکم دیا۔ چناچہ سورہ حجرات کی آیت 6 کا نزول ہوا۔
.
اس ایت کی تفاسیر میں تمام کبار محدثین و مفسرین، مورخین اہلسنت نے اس کا مصداق ایک ”صحابی” ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو لکھا ہے!
جیسا کہ،
.
¤قاضی ابو بکر جصاص کتاب الفصول في الأصول میں لکھتے ہیں
{إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا} [الحجرات: 6] وَهُوَ: الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ۔۔۔۔
.
¤حافظ ابن حجر امام ابن عبدالبر کا قول نقل کرتے ہیں
”قال ابن عبد البر : لا خلاف بين أهل العلم بتأويل القرآن أنها نزلت فيه۔۔۔۔۔الوليد بن عقبة”
.
¤امام شوکانی اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں
”قال المفسرون : إن هذه الآية نزلت في الوليد بن عقبة بن أبي معيط”۔۔۔
.
¤حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں اس ایت کے زیل میں لکھتے ہیں۔
”وقد ذكر كثير من المفسرين أن هذه الآية نزلت في الوليد بن عقبة بن أبي معيط، حين بعثه رسول الله”
.
¤فخر الدین رازی اپنی تفسیر مفاتیع الغیب میں اس ایت کی تفسیر کے زیل میں لکھتے ہیں۔۔۔
”فِي سَبَبِ نُزُولِ هَذِهِ الْآيَةِ، هُوَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ الْوَلِيدَ بْنَ عُقْبَةَ،”
.
¤امام قرطبی اپنی تفسیر جامع احکام القران میں لکھتے ہیں۔
”فأنزل الله تعالى هذه الآية ، وسمي الوليد فاسقا أي كاذبا.”
.
¤امام بغوی اپنی تفسیر البغوی میں لکھتے ہیں۔۔
”الآية نزلت في الوليد بن عقبة بن أبي معيط”۔۔
.
¤حافظ ابن الاثیر اسد الغابہ میں ولید بن عقبہ کے حالات کے باب میں نقل کرتے ہیں۔۔۔
”قَالَ: ولا خلاف بين أهل العلم بتأويل القرآن، فيما علمت أن قَوْله عَزَّ وَجَلَّ: {إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا} أنزلت فِي الوليد بن عقبة”
.
¤الثعلبي اپنی تفسير الثعلبي الكشف والبيان عن تفسير القرآن میں نقل کرتے ہیں۔۔
”يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جاءَكُمْ فاسِقٌ بِنَبَإٍ الآية
نزلت في الوليد بن عقبة بن أبي معيط”
.
¤ابن الجوزي اپنی تفسیر، زاد المسير في علم التفسير میں اس آیت کے زیل میں لکھتے ہیں۔
”نزلت في الوليد بن عقبة بن أبي معيط”
.
¤الواحدي اپنی تفسیر أسباب النزول میں سورہ حجرات ایت 6 کی تفسیر میں دلائل دینے کے بعد لکھتے ہیں۔۔۔ ”يعني الوليد بن عقبة”
.
¤حافظ ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب میں لکھتے ہیں۔۔
”نزلت في الوليد بن عقبة”
.
¤المزي اپنی کتاب تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں لکھتے ہیں۔۔۔
”ولا خلاف بين أهل العلم بتأويل القرآن فيما علمت أن قوله عزوجل: (إن جاءكم فاسق بنبأ) . نزلت فِي الْوَلِيد بْن عُقْبَة”
.
¤السمعاني اپنی تفسير السمعاني میں لکھتے ہیں
”قال: أهل التفسير : نزلت الآية في الوليد بن عقبة بن معيط”
.
¤امام أهل السنة والجماعة، ماتريدية، الاأشعرية الحنفي، صاحب تفسیر مدارك التنزيل وحقائق التأويل عبد الله بن أحمد بن محمود النسفي کہتے ہیں۔۔
”أجمعوا أنها نزلت في الوليد بن عقبة” ۔۔۔
اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ۚ لَّا يَسْتَوُوْنَ¤







.
کیا وہ شخص جو مومن ہے اس کی مانند ہے جو فاسق ہے(دونوں ہرگز) برابر نہیں ہیں۔ (سورۂ سجدہ: آیت 18)
.
تمام مفسرین ( اہلِ سنت و شیعہ) اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک روز ولید بن عقبہ بڑے غرور اور تکبر سے حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا ”خدا کی قسم! میں آپ کی نسبت زبان فصیح تر اور نیزہ تیز تر رکھتا ہوں” (یعنی کلام میں بھی اور جنگ کے ہنر میں بھی آپ سے آگے ہوں)۔ جواباً علی علیہ السلام نے اسے فرمایا ”خاموش ہوجا! تو یقیناً فاسق ہے”۔
.
حافظ زہبی اس روایت کو نقل کرکے بعد کہتے ہیں: ”قلت : اسناده قوي”
•الذهبي – سير أعلام النبلاء – ومن صغار الصحابة – الوليد بن عقبة۔ الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 414 )
.
اسکے علاوہ دیگر محدثین و مفسرین نے اس آیت کا مصداق ولید بن عقبہ کو ہی بتایا ہے!
• ابن عبد البر – الاستيعاب في معرفة الأصحاب – حرف الواو۔ باب الوليد – 2721 – الوليد بن عقبة بن أبى معيط الجزء : ( 4 ) – رقم الصفحة : ( 1553 / 1554 )
• ابن الجوزي – زاد المسير في علم التفسير – سورة السجدة : 18 الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 441 / 442 )
• الطبراني – المعجم الأوسط – باب العين – من اسمه علي۔ الجزء : ( 4 ) – رقم الصفحة : ( 133 / 134 )
• الشوكاني – تفسير فتح القدير – تفسير سورة السجدة : 12۔ تفسير قوله تعالى : ولو ترى إذ المجرمون ناكسو رؤوسهم عند ربهم ربنا أبصرنا وسمعنا۔ الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 1152 )
• ابن كثير – تفسير ابن كثير – سورة السجدة : 18 الجزء : ( 6 ) – رقم الصفحة : ( 329 )
وغیرہ وغیرہ۔۔۔
.
یہ اعزاز انہی صاحب کو حاصل ہے جنہیں دو بار قران میں فاسق کہ کر مخاطب کیا گیا۔
.
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہی صاحب خلافت عثمانی میں کوفہ کے گورنر بنائے گئے جہاں انہوں شراب کے نشہ میں دھت فجر کی نماز دو کے بجائے چار رکعت پڑہا دی! اور اپنے فاسق ہونے پر ایک بار پھر مہر ثبت کردی جبکہ شرابی کے بارے میں قران و حدیث میں انتہائی سخت وعید آئی ہے!
.
پھر اہل کوفہ خلیفہ وقت کے پاس انکی شکایت لیکر پہنچے اور گواہیاں ہوئی اور خلیفہ وقت کے حکم پر انکو حضرت علی ع نے چالیس کوڑے مارے!
.
• صحيح مسلم
كِتَاب الْحُدُود ِ۔ باب حَدِّ الْخَمْرِ: حدیث نمبر: 4457
• صحيح بخاري
كتاب مناقب الأنصار۔ بَابُ هِجْرَةِ الْحَبَشَةِ: حدیث نمبر: 3872
• سنن ابي داود۔
كتاب الحدود: باب الْحَدِّ فِي الْخَمْرِ: حدیث نمبر: 4480
.
اور غالباً اسی وجہ سے یہ صاحب علی ع سے عناد رکھتے تھے، حضرت عثمان رض کے قتل ہونے بعد پہلے معرکہ جمل میں علی کے خلاف لشکر کا حصہ بنے،پھر یہ ولید صاحب شام میں معاویہ کے پاس چلے گئے اور باغی گروہ کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا!
.
”فاسق” کی تعریف۔۔۔
.
اصطلاح میں فاسق اس شخص کو کہتے ہیں جو حرام کا مرتکب ہو یا واجب کو ترک کرے یا اطاعتِ الٰہی سے نکل جائے۔ غیر عادل شخص کو بھی فاسق کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے اور حدودِ شرعی کو توڑنے والا بھی فاسق کہلاتا ہے۔
.
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی دو طرح کی ہے: ایک کلی اور دوسری جزوی۔ کلی اور واضح نافرمانی کفر ہے جس میں کوئی شخص اللہ کی نافرمانی کو درست جانتا ہے، جبکہ جزوی نافرمانی فسق ہے جس میں ایک شخص دین الٰہی اور شریعتِ محمدی کی تصدیق بھی کرتا ہے مگر خواہشات نفس میں پڑ کر شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی بھی کر دیتا ہے، ایسا کرنے والے کو فاسق کہتے ہیں۔
.
الفسق:- في اللغة عدم إطاعة أمر الله وفي الشرع ارتكاب المسلم كبيرة قصدا أو صغيرة مع الإصرار عليها بلا تأويل۔
یعنی ”فسق، لغت میں اللہ کے حکم کی عدم تعمیل کو کہتے ہیں اور شرع میں اس سے مراد کسی مسلم کا بغیر تاویل کے قصداً گناہِ کبیرہ کا ارتکاب یا گناہِ صغیرہ پر اصرار ہے”۔
.
(قواعد الفقه: 141/2)
.
قران میں تو اصحاب محمد ص کا زکر ان صفات کے ساتھ کیا گیا۔۔۔
.
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ )
.
ترجمہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر تو سخت مگر آپس میں رحم دل ہیں۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے کثرت سجدہ کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر امتیازی نشان موجود ہیں۔ ان کی یہی صفت تورات میں بیان ہوئی ہے اور یہی انجیل میں ہے جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی اور اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی اس وقت وہ کسانوں کو خوش کرتی ہے۔ تاکہ کافروں کو ان کی وجہ سے غصہ دلائے۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ (سورۃ الفتح/ 29)
.
پھر ولید بن عقبہ جیسے کیونکر اس جماعت کا حصہ ہوسکتے ہیں؟ یا پھر اہلسنت نے صحابہ کرام اور ” صحابۂ کرائم” کی تفریق ہی مٹا دی ہے؟ اور انکی غلط کاریوں کی فضول تاویلات کرتے ہیں!
.
ایک بار پھر مجھے سمجھائیں کہ توہینِ صحابہ کس چیز کا نام ہے؟
یا پھر اس قسم کے لوگ صحابہ میں شمار ہی نہیں ہوتے!
.
کیونکہ بنصِ قران ایک صحابی(عند السنہ) کا فاسق ہونا ثابت ہے۔ کیا ان آیات و تفاسیر کا پڑھنا اور اس شخص کے کبائر کو بیان کرنا توہین صحابہ کے زمرے میں آتا ہے؟
.
اور اگر ان تمام حرکات پر تنقید کے بجائے ”سکوت” کرنا لازم ہے تو قران نے سکوت کیوں نہیں کیا؟
.
اس آیت سے ”کلھم عدول” کا عقیدہ بھی باطل قرار پاتا ہے کیونکہ اللہ نے خبر لانے والے کی خبر کی تحقیق و تصدیق کا حکم دیا ہے چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو، نہ کہ بلا تحقیق قبول کرنے کا اصول۔۔!
.
بہتر ہے حضرات و علمائے اہلسنت پہلے خود اتفاق کرلیں کہ ”توہین صحابہ” کس چیز کا نام ہے۔۔۔
.
يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَـرْضَوْا عَنْـهُـمْ ۖ فَاِنْ تَـرْضَوْا عَنْـهُـمْ فَاِنَّ اللّـٰهَ لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِيْنَ ( توبہ:96)
یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے خوش ہو جاؤ، اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو بھی اللہ ان فاسقں سے راضی نہیں ہوتا۔
.
تحریر عین ۔غین
.
ولید بن عقبہ شرابی تھا
.
شرابی کی حد کا بیان
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّانَاجِ، سَمِعْتُحُضَيْنَ بْنَ الْمُنْذِرِ الرَّقَاشِيَّ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ فَيْرُوزَ الدَّانَاجُ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُضَيْنُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: لَمَّا جِيءَ بِالْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ إِلَى عُثْمَانَ قَدْ شَهِدُوا عَلَيْهِ، قَالَ لِعَلِيٍّ: دُونَكَ ابْنَ عَمِّكَ، فَأَقِمْ عَلَيْهِ الْحَدَّ، فَجَلَدَهُ عَلِيٌّ، وَقَالَ: جَلَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ، وَجَلَدَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ، وَجَلَدَ عُمَرُ ثَمَانِينَ، وَكُلٌّ سُنَّةٌ .
.
جب ولید بن عقبہ کو عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا اور لوگوں نے ان کے خلاف گواہی دی، تو عثمان رضی اللہ عنہ نے علی کرم اللہ وجہہ سے کہا: اٹھئیے اور اس پر حد جاری کیجئے، چنانچہ علی کرم اللہ وجہہ نے ان کو کوڑے مارے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس کوڑے لگائے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چالیس کوڑے لگائے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کوڑے لگائے، اور ان میں سے ہر ایک سنت ہے ۱؎۔
.
Reference
Book: Sunnan e Ibn e Maja
Volume: سنن ابن ماجہ-جلد سوم
Subject: The Chapters on Legal Punishments
Chapter:
Reference: English reference : Vol. 3, Book 20, Hadith 2571 Arabic reference : Book 20, Hadith 2668
Hadith: Authentic
کتاب؛ سنن ابن ماجہ
جلد؛ سنن ابن ماجہ-جلد سوم
مضامیں: حدود کے احکام و مسائل
باب؛ شرابی کی حد کا بیان
تخریج؛ «صحیح البخاری/الحدود ۴ (۶۷۷۳)، صحیح مسلم/الحدود ۸ (۱۷۰۷)، سنن ابی داود/الحدود ۳۶ (۴۴۸۰،۴۴۸۱،۴۴۷۹)،(تحفة الأشراف:۱۰۰۸۰،۱۳۵۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۸۲،۶۴۰،۱۴۴)، سنن الدارمی/الحدود ۹ (۲۳۵۸)
حدیث؛ صحیح
.
ولید بن عقبہ عثمان رضی اللہ عنہ کے اخیافی بھائی تھے، اور ان کے دور خلافت میں کوفہ کے عامل تھے، انہوں نے لوگوں کو صبح نماز فجر چار رکعتیں پڑھائیں، اور بولے: اور زیادہ کروں؟ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم ہمیشہ زیادتی ہی میں رہے جب سے تم حاکم ہوئے، یہ عقبہ بن ابی معیط کا بیٹا تھا جس نے نبی کریم ﷺ پر اونٹنی کی بچہ دانی لا کر ڈال دی تھی، جب آپ ﷺ سجدہ میں تھے، ولید بن عقبہ نے شراب پی کر نشہ کی حالت میں نماز پڑھائی، آخر لوگوں کی شکایت پر معزول ہو کر مدینہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر کیا گیا، شرابی کی حد کوئی معین نہیں، امام کو اختیار ہے خواہ چالیس کوڑے مارے یا کم یا زیادہ، خواہ جوتوں سے مارے، صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی تھی، آپ ﷺ نے اس کو چالیس کے قریب چھڑی سے مارا، راوی نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا، جب عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے لوگوں سے رائے لی، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: سب حدوں میں جو ہلکی حد قذف ہے، اس میں اسی (۸۰) کوڑے ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بھی شراب میں اسی کوڑے مارنے کا حکم دیا










