علیؑ خلیفہ رسول ص

.
*بسم الله الرحمن الرحيم*
.
*علیؑ خلیفہ رسول ص*
.
درج ذیل روایات جن کا صحیح ترجمہ
.
✔ *”رسول اللّه ص نے فرمایا کہ علیؑ میرے بعد تمہارا خلیفہ ہے”*
.
پہلے تو کچھ حوالہ جات نیچے ملاحظہ کیجئے۔
👈🏻 پھر انشاء اللّه صحیح دلیل سے ثابت کیا جائے گا یہ رسول اللّه کا کہنا یہ تھا کہ
.
✅ *”رسول اللّه ص نے فرمایا کہ علیؑ میرے بعد تمہارا “خلیفہ” ہے”*
۔
۔
روایات یہ ہیں 👇🏼
.
✍🏻 قال رسول الله صلى الله عليه واله وسلم
.
1️⃣ 📖 « عليٌ ولي كل مؤمن بعدي »
📚 الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار235 ، ج 6 ص 372
.
2️⃣ 📖 « هو ولي كل مؤمن بعدي »
📚 مسند أحمد بن حنبل 241 ، ج 4 ص 437
.
3️⃣ 📖 « انت ولي كل مؤمن بعدي »
📚 الطيالسي ج 1 ص 360 ح 2752
.
4️⃣ 📖 « أنت ولي كل مؤمن بعدي و مؤمنة »
📚 فضائل الصحابة ج 2 ص 684 ح1168
.
5️⃣ 📖 « أنت وليي في كل مؤمن بعدي »
📚 مسند أحمد بن حنبل ، ج 1ص330
.
6️⃣ 📖 « فانه وليكم بعدي »
📚 الإصابة في تمييز الصحابة 852 هـ، ج 6ص 623
.
7️⃣ 📖 « ان علياً وليكم بعدي »
📚 البداية والنهاية 774 ، ج 7 ص 346
.
8️⃣ 📖« هذا وليكم بعدي »
📚 السنن الكبري ج 5 ص 133
.
9️⃣ 📖 «أنك ولي المؤمنين من بعدي»
📚 تاريخ بغداد 463 ، ج 4 ص 338
.
0️⃣1️⃣ 📖 «أنت وليي في كل مُؤْمِنٍ بعدي»
📚 مسند أحمد بن حنبل 241 ، ج 1 ص 330
۔
📣 ان تمام تر روایات کا صحیح ترجمہ یہی ہے کہ
.
✅ *رسول اللّه ص نے فرمایا کہ علیؑ میرے بعد تمہارا خلیفہ ہے*
.
⚔️ اگر کوئی اعتراض کرے کہ آپ نے *ولی کا معنی خلیفہ کیوں* اور کیسے کیا؟
.
تو جناب آپ کو آپ کے گھر سے ہی *صحیح ترین کتاب سے صحیح ترین روایت* سے دلیل دیتا ہوں کہ
ایک ہی روایت میں *دو بار لفظ “ولی” آیا اور دونوں بار اسکا ترجمہ “خلیفہ”* کیا گیا۔
.
👈🏻 روایت میں حضرت عمر پہلے جناب ابوبکر کا قول نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
.
📜 فقال ابوبکر انا ولی رسول اللّه
*ابوبکر نے کہا کہ میں رسول اللّه کا خلیفہ ہوں*
.
👈🏻 پھر اسی روایت میں جناب عمر کے بارے میں لکھا گیا کہ
.
📜 فقلت انا ولی رسول اللّه
*حضرت عمر نے کہا کہ میں رسول اللّه کا خلیفہ ہوں*
.
📚 صحیح بخاری ؛ جلد سوئم صفحہ 157
.
❓ *اگر یہاں ولی کا معنی خلیفہ کیا جا سکتا ہے تو وہاں کیا تکلیف ہے؟*
۔
اسی طرح کچھ روایات تو وہ ہیں کہ جن میں خود رسول اللّه ص کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ
.
*”اے علیؑ تم میرے بعد تمام مومنین کے “خلیفہ” ہو، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں”*
.
اسکین دیکھیں
.
📖 « إنه لا ينبغي أن أذهب إلا وأنت خليفتي في كل مؤمن من بعدي »
📚السنة 287 ، ج 2 ص 565
.
📖قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم لِعَلِيٍّ: ” أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَي، إِلا أَنَّكَ لَسْتَ نَبِيًّا، إِنَّهُ لا يَنْبَغِي أَنْ أَذْهَبَ إِلا *وَأَنْتَ خَلِيفَتِي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِي* “
📚 السنة، ج2، ص565، تحقيق: محمد ناصر الدين الألباني
👈🏻 الالبانى يقول سنده حسن
.
📖أَمَا تَرْضَي أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَي، إِلا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ؟ ثُمَّ قَالَ: *أَنْتَ خَلِيفَتِي، يَعْنِي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِي*
📚 سنن النسائي ج 1، ص50
.
*نتیجہ*
.
یعنی رسول اللّه ص کہ بعد یقینی طور پر کوئی نبی ہوتا تو وہ علیؑ ہوتے۔ مگر کیوں کہ نبوت ختم ہو چکی اسلئے یقینی طور پر اگر کوئی رسول اللّه ص کا خلیفہ و جانشین ہے تو وہ علیؑ ہیں۔
.
رسول الله (ص) کے قول «من بعدي/میرے بعد» کی اہمیت — [بلا تبصرہ]
وہابیوں کے شیخ الاسلام، ابن تیمیہ (المتوفی 728ھ) کی ایک کتاب “العقیدة الواسطیة” ہے جس میں ابن تیمیہ نے مختلف عقائد اسلامی پر اپنی سوچ کے تحت بحث کی ہے۔ ابن تیمیہ اور اسکے روحانی شاگرد، محمد بن عبد الوہاب (المتوفی 1792ء) کے نظریات کے حامل ایک عالم/مفتی، صالح بن عبد العزیز آل الشیخ، جو کہ سعودیہ عرب کے وزیر برائے اسلامی امور بھی رہ چکے ہیں، نے اس کتاب کی شرح “اللآلئ البهية شرح العقيدة الواسطية” لکھی ہے۔
اپنی اس شرح عقیدہ واسطیہ میں صحابہ کرام میں خلفائے راشدین کو نہ ماننے والوں کے رد کی ذیل میں ابن تیمیہ کے ایک قول کی شرح کرتے ہوئے صالح بن عبد العزیز لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کی خلافت (حکومت) کے حوالے سے اہل سنت علماء میں دو نظریات ہیں:
(1) کہ آپ کو رسول (ص) نے اپنے عہد (دور) ہی میں ولی/خلیفہ بنا دیا تھا اور اس پر نصوص بھی موجود ہیں، اور
(2) دوسرا یہ کہ رسول (ص) نے خود انہیں ولی/خلیفہ اپنے عہد میں نہیں بنایا بلکہ بعد میں اصحاب کرام کا ان پر اجماع ہوگیا اور انکی بیعت کی گئی۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ شارح، صالح بن عبد العزیز لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کے ولی/خلیفہ پر بہت سے نص (حکم رسول ص) موجود ہیں جن میں سے ایک یہ (اہل سنت) حدیث «اقتدوا باللذين من بعدي أبي بكر وعمر/میرے بعد ابو بکر و عمر کی پیروی کرو» ہے…
شارح نے اس (اہل سنت) حدیث سے دلیل یہ قائم کی ہے کہ اس میں رسول اکرم (ص) کے الفاظ «من بعدي/میرے بعد» کا تعلق بعد رسول (ص)، انکی خلافت کے معاملے سے ہے… یعنی رسول اکرم (ص) کی وفات کے بعد، انکی غیر موجودگی میں انکی خلافت (نیابت) سے ہے!
[نوٹ: اہل سنت کی اس حدیث (میرے بعد پیروی کرو…) کی سند و سچائی پر بحث ہمارا موضوع نہیں ہے، ہمارے لئے یہ اہم ہے کہ (مبینہ) قول رسول (ص) کے الفاظ «من بعدی/میرے بعد» سے کیا دلیل لائی گئی ہے]
عبارت اور اسکا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں (بلا تبصرہ):
وأبو بكر اختلف أهل العلم هل ولي الخلافة بعهد من رسول الله (ص) أم ولي الخلافة بالتفاق الصحابة وإجماعهم عليه أو هي بيعة الصحابة له؟
من أهل العلم من قال: بل هو بعهد ونص؛ لأن النبي (ص) قال: «اقتدوا باللذين من بعدي أبي بكر وعمر»…
وقال طائفة: بل هذا محتملة، ولو كان هذا العهد واضحا لما اختلف الصحابة – رضوان الله عليهم – بعد وفاة النبي (ص) في مسألة من يلي الخلافة، فقد تنازعو ولو كانت المسألة بعهد لما تنازعوا. فعلى هذا القول كانت ببيعة واجتماع وليست بعهد.
وهذا هو القول الثاني رجحه طائفة أيضا من المحققين من أهل العلم.
والصواب في ذلك عندي أن هذا ان مسألة أجتمع فيها هذا وهذا، أجتمع فيها العهد واجتمعت فيها البيعة والاجتماع،
فالعهد النصوص فيه كثيرة، والنبي (ص) أوصى بأبي بكر، وأمر بأن يؤمهم في الصلاة، والأمر بالاقتداء به، بل قال: «اقتدوا باللذين من بعدي أبي بكر وعمر»، فما معنى قوله: «من بعدي» ألا مسألة الخلافة…
ترجمہ:
اور حضرت ابوبکر کے بارے اہل علم میں اختلاف ہے کہ کیا وہ عہد رسول الله (ص) سے ولیِ خلافت ہیں یوں کہ صحابہ کا ان پر اتفاق و اجماع تھا یا پھر صحابہ نے (بعد عہد رسالت) انکی بیعت کی تھی؟
جو اہل علم کہتے ہیں: یہ عہد (رسالت) سے ہے اور نص (حکم) ہے، کیونکہ نبی (ص) نے فرمایا: «میرے بعد (من بعدي) ابو بکر و عمر کی پیروی کرو»…
گروہ (اہل سنت) کہتا ہے: اسکا احتمال ہے، اگر یہ عہد (رسالت) میں واضح ہوتا تو صحابہ – رضي الله عليهم – نبی (ص) کی وفات کے بعد خلافت کس کو جائے، اس میں اختلاف نہ کرتے، تنازعہ ہوا اور اگر یہ مسئلہ عہد (رسالت) میں (طے ہوا) ہوتا تو تنازعہ نہ ہوتا، پس اس قول کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ ایسا (یعنی حضرت ابوبکر بطور ولیِ خلافت) عہد (رسالت) سے نہیں ہیں، (بعد عہد رسالت) انکی بیعت ہوئی اور اس پر سب (صحابہ) جمع ہوئے۔
اور یہ دوسرا قول ہے جسکو بھی گروہ (اہل سنت) میں سے اہل علم کے محققین نے اہمیت دی ہے۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں یہ (عہد رسالت) اور یہ (بعد عہد رسالت) ملتے ہیں، معقول یہ ہے کہ (صحابہ) عہد (رسالت) میں (ابوبکر پر) جمع ہوگئے اور اسی میں بیعت ہوئی، عہد (یعنی عہد رسالت میں جمع ہونے) پر بہت سے نصوص (احکامات) ہیں، نبی (ص) نے حضرت ابوبکر کو منتخب کیا، اور انکو (حضرت ابوبکر کو) حکم دیا کہ وہ انکی (صحابہ کی) امامت کروائیں، اور انکو (صحابہ) کو حکم دیا کہ وہ انکی پیروی کریں،
بلکہ آپ (ص) نے فرمایا: «اقتدوا باللذين من بعدي أبي بكر وعمر/میرے بعد ابو بکر و عمر کی پیروی کرو»، پس کیا معنی ہیں آپ (ص) کے اس قول «من بعدي/میرے بعد» کے سوائے مسئلہِ خلافت کے…
حوالہ: اللآلئ البهية شرح العقيدة الواسطية، ج 2، ص 447-446، دار العاصمة – رياض