.
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
.
علی خلیفہ و جانشین رسول ص
.
جب بھی اس روایت (عليٌ ولي كل مؤمن بعدي) کا ترجمہ لکھا جاتا ہے کہ
*رسول اللّه ص نے فرمایا کہ علیؑ میرے بعد تمہارا “خلیفہ” ہے*
.
تو ہم سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ نے ولی کا معنی خلیفہ کیسے کر لیا ؟
.
ہم یہاں کتب اہل سنت سے کچھ ثبوت پیش کریں گے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ولی کا معنی *حاکم و سرپرست یا خلیفہ* کے ہیں ۔
.
ولی الصر والوں کی تحریر سے نقل کر رہا ہوں۔
.

لفظ « ولي » اور اهل سنت کے خلفاء کے ہاں اس کا استعمال :
.
مسلم بن حجاج نيشابوري نے خليفه دوم سے نقل کیا ہے ، جب اميرالمؤمنين (ع) اور عباس ارث کا مطالبہ کرنے خلیفہ دوم کے پاس آیے تو خلیفہ دوم نے کہا :
.

… فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- « مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ». فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ
وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- وَ وَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا .
.

رسول خدا (صلي الله عليه وآله وسلم) کی وفات کے بعد ابوبكر نے کہا : میں رسول خدا کا ولی ہوں ، تم دونوں نے آئے اور ، اے عباس تم ! اپنے بتیجے کی میراث کا مطالبہ کر رہا تھا اور اے علی ! تم فاطمہ بنت پیغمبر کی میراث کا مطالبہ کر رہا تھا ابوبکر نے کہا : رسول خدا نے فرمایا ہے : ہم کوئی چیز ارث کے طور پر چھوڑ کر نہیں جاتے ،جو چیز ارث کے طور پر چھوڑے جاتے ہیں وہ صدقہ ہوگی ۔ تم دونوں نے اس کو جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا ۔،جبکہ اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر سچا ، دیندار اور حق کے پیرو تھا ۔۔
ابوبكر کی موت کے بعد میں نے کہا : ،
میں پیغمبر اور ابوبکر کے ولی اور جانشین ہوا
ہوں ،لیکن پھر تم دونوں نے مجھے جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اورخائن سمجھا۔۔۔۔۔ .
.

مسلم ، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ) ، صحيح مسلم ، ج 3 ص 1378 ، ح 1757 ، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ ، تحقيق : محمد فؤاد عبد الباقي ، ناشر : دار إحياء التراث العربي – بيروت .
.
اس صحیح روایت میں ، خلیفہ دوم واضح انداز میں کہہ رہا ہے ابوبکر اپنے کو « ولي » اور رسول اللہ (ص) کا جانشین اور خلیفہ سمجھتا تھا ؛ لیکن امير المؤمنين عليه السلام اور عباس نے اس ادعا کی تكذيب کی اور انہیں جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا ،جناب عمر نے بھی اپنے آپ کو رسول خدا (ص) کے ولی اور جانشین کہا لیکن جس طرح ابوبکر کے ادعا کو امیر المومنین اور عباس نے رد کیا ، عمر کو بھی جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا قرار دیا
.
ابوبكر : میں تم لوگوں کے « ولي » ہوا ہوں ۔
.
أبو بكر جب خلیفہ بنا تو اصحاب کے لئے ایک خطبہ دیا اور لفظ «ولي» کا استعمال کیا اور اپنے آپ کو «ولي امر مسلمين» قرار دیا .
.
بلاذري نے انساب الأشراف میں ، ابن قتيبه دينوري نے عيون الأخبار میں ، طبري اور ابن كثير نے اپنی تاریخ کی کتابوں میں اور اھل سنت کے دوسرے بزرگوں نے ابوبکر کے اس پہلے خطبے کو اس طرح نقل کیا ہے:
.

لما ولي أبو بكر رضي الله تعالي عنه، خطب الناس فحمد الله وأثني عليه ثم قال:

أما بعد أيها الناس فقد
وليتُكم ولستُ بخيركم .


جب ابوبكر نے
خلافت سنبھالی تو لوگوں کو ایک خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد کہا :

اے لوگو ! میں تم لوگوں کا
ولی بنا ہوں لیکن تم لوگوں سے بہتر نہیں ہوں۔

.

أنساب الأشراف ، ج 1 ص 254 ، اسم المؤلف: أحمد بن يحيي بن جابر البلاذري (المتوفي : 279هـ) الوفاة: 279 ، دار النشر

عيون الأخبار ، ج 1 ص 34 ، اسم المؤلف: أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفي : 276هـ) الوفاة: 276

تاريخ الطبري ، ج 2 ص 237 ـ 238 ، اسم المؤلف: لأبي جعفر محمد بن جرير الطبري الوفاة: 310 ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت .
محمد بن سعد نے طبقات میں ، سيوطي نے تاريخ الخلفاء میں ، ابن حجر هيثمي نے الصواعق میں اور دوسرے بہت سے اھل سنت کے علماء نے ابوبکر کا ایک اور خطبہ بھی نقل کیا ہے ؛ جب خلیفہ ،خلیفہ بنا تو لوگوں سے خطاب میں کہا :
.

مجھے تم لوگوں کے ولی بنایا ہے جبکہ میں اس کو پسند نہیں کرتا ۔
.

لما بويع أبو بكر قام خطيبا فلا والله ما خطب خطبته أحد بعد فحمد الله وأثني عليه ثم

قال أما بعد فإني وليت هذا الأمر

و أنا له كاره ووالله لوددت أن بعضكم كفانيه
.

الطبقات الكبري ، ج 3 ص 212 ، اسم المؤلف: محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري الزهري الوفاة: 230 ، دار النشر : دار صادر – بيروت .

تاريخ الخلفاء ، ج 1 ص 71 ، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر السيوطي الوفاة: 911 ، دار النشر : مطبعة السعادة – مصر – 1371هـ – 1952م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : محمد محي الدين عبد الحميد .

الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة ج 1 ص 37 ، اسم المؤلف: أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر الهيثمي الوفاة: 973هـ ، دار النشر : مؤسسة الرسالة – لبنان – 1417هـ – 1997م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : عبد الرحمن بن عبد الله التركي – كامل محمد الخراط .
.
ابوبكر نے عمر کو لوگوں کا « ولي » بنایا۔
.
خليفه اول نے جب یہ احساس کیا ہے اب زندگی آخری مرحلے میں ہے تو خلیفہ دوم کو اپنے بعد لوگوں کا ولی بنایا اس انتخاب میں واضح طور پر «ولي» کا لفظ استعمال ہوا ہے اس میں صحابہ کو یہ اعلان کر دیا کہ میرے بعد تم لوگوں کے ولی عمر ہے:
.
ابن حبان بستي نےاس سلسلے میں لکھا ہے :
.

… ثم رفع أبو بكر يديه فقال

اللهم وليته بغير أمر نبيك

ولم أرد بذلك إلا صلاحهم وخفت عليهم الفتنة فعملت فيهم بما أنت أعلم به وقد حضر من أمري ما قد حضر فاجتهدت لهم الرأي فوليت عليهم خيرهم لهم وأقواهم عليهم وأحرصهم علي رشدهم ولم أرد محاماة عمر… ….
.

پھر ابوبكر نے ہاتھوں کو بلند کر کے کہا :

اے اللہ میں نے عمر کو آپ کے نبی کے حکم کے بغیر ولی بنایا ہے

اور میں نے یہ کام صرف لوگوں کی بہتری اور فتنوں سے ڈرنے کی وجہ سے کیا ہے ۔ میں نے ایسا کام انجام دیا ہے کہ آپ مجھ سے بہتر جانتا ہے ۔میری موت کا وقت آپہنچا ہے ۔ لہذا لوگوں کی مصلحت کی خاطر ایسا اقدام کیا ہوں۔ اور لوگوں میں سب سے بہتر ،سب سے قوی اور لوگوں کی ہدایت کے لئے سب سے زیادہ حریص شخص کو ان کے لئے ولی قرار دیا ہوں اور عمر کو محروم کرنا نہیں چاہتا ۔۔۔
.

الثقات ، ج 2 ص 192 ـ 193 ، اسم المؤلف: محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم التميمي البستي الوفاة: 354 ، دار النشر : دار الفكر – 1395 – 1975 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : السيد شرف الدين أحمد .
ابوبكر نے فوجی کمانڈروں سے خطاب میں کہا : عمر تم لوگوں کے« ولي » ہے ۔
.
ابن اثير جزري لکھتا ہے: خليفه اول نے عمر کو اپنا جانشین بنانے کے بعد لشکر کے کمانڈروں سے خطاب کرتے ہوئے لکھا :
.

وكتَبَ إِلي أُمرَاءِ الأجنَادِ : وَلَّيْتُ عليكم عمرَ …

میں نے عمر کو تم لوگوں کا ولی بنایا ہے …
.

معجم جامع الأصول في أحاديث الرسول ، ج 4 ص 109 ، اسم المؤلف: المبارك بن محمد ابن الأثير الجزري الوفاة: 544 ، دار النشر :
ان دو روایتوں میں « خليفه » اور « ولي » کے استعمال سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اس دور میں لوگ ان دونوں لفظوں سے ایک ہی معنی مراد لیتے تھے
صحابه نے ابوبكر سے خطاب میں کہا : عُمر کو کیوں « وليّ » قرار دیا ؟
.
نہ صرف خلیفہ اول نے عمر کو خلیفہ انتخاب کرنے کے لئے «وليّ» کے لفظ کا استعمال کیا ؛ بلکہ اصحاب نے بھی ابوبکر پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں دو لفظوں «وَلِيَ» اور «خَلَّفَ» کا ایک ساتھ استعمال کیا :
.
ابن أبي شيبه لکھتے ہیں :
.

عن وكيع ، وابن إدريس ، عن إسماعيل بن أبي خالد ، عن زبيد بن الحرث ، أن أبا بكر حين حضره الموت أرسل إلي عمر يستخلفه فقال الناس : تستخلف علينا فظاً غليظاً ،

ولو قد ولينا كان أفظ وأغلظ

، فما تقول لربك إذا لقيته وقد استخلفت علينا عمر
.

المصنف ، ابن أبي شيبة ، ج8 ، ص574 ، با تحقيق سعيد محمد اللحام ، ط دار الفكر ، بيروت و تاريخ المدينة المنوّرة ، ابن شبة النميري ، ج2 ، ص671 ، با تحقيق فهيم محمد شلتوت ، ط دار الفكر ، بيروت و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج30 ، ص 413 و كنز العمال ، متقي هندي ، ج5 ، ص678.

زيد بن حارث سے نقل ہوا ہے : جب ابوبکر نے حالت احتضار کے وقت کسی کو عمر کو بلانے بھیجا تاکہ انہیں اپنا جاشنین بنائے ۔لوگوں نے کہا : آپ ایسے کو جانشین بنارہے ہو جو بداخلاق اور سخت مزاج ہے اور اگر اسے حکومت ملے اور ہمارے اوپر وہ مسلط ہوجائے وہ اور تو زیادہ سخت مزاج ہوگا اور لوگوں پر سخی کرئے گا، اگر اللہ سے ملاقات کرو تو اللہ کو کیا جواب دو گے جبکہ آپ نے عمر جیسا بد اخلاق اور سخت مزاج کو ہم پر مسلط کیا ہے اور اس کو خلیفہ بنایا ہے ؟
.
ابن تيميه حراني ، کہ جو حقیقت میں وھاہی فرقے کی فکری بنیاد ہے وہ اس سلسلے میں لکھتا ہے ۔

لما استخلفه أبو بكر كره خلافته طائفة حتي قال طلحة ماذا تقول لربك إذا وليت علينا فظا غليظا .
.

منهاج السنة ، ج7 ، ص 461 .

جب ابوبكر نے عمر کو جانشینی کے لئے انتخاب کیا تو بعض اصحاب اس انتخاب پر ناراض ہوئے ،انہیں میں سے طلحہ نے کہا : جب اللہ سے ملاقات کرو گے اور تم سے سوال ہوگا تو کیا جواب دو گے، جبکہ تم نے ایک بداخلاق اور شقی القلب انسان کو ہم پر مسلط کیا ہے ۔؟
ان دو روایتوں میں بھی «استخلفه» اور «وليت» استعمال ہوا ہے اور ایک ہی معنی کا ارادہ ہوا ہے ۔ .
.
ابن تیمیہ ایک اور جگے پر لکھتا ہے :
.

وقد تكلموا مع الصديق في ولاية عمر وقالوا ماذا تقول لربك وقد وليت علينا فظا غليظا .

اصحاب نے ابوبکر سے عمر کی جانشینی کے بارے میں گفتگو کی اور کہا : کیوں ایک سخت مزاج اور بداخلاق شخص کو ہمارے ہمارے اوپر مسلط کیا ؟ اس پر کل اللہ کو کیا جواب دو گے ؟
.

منهاج السنة ، ج6 ، ص155 ، الناشر : مؤسسة قرطبة ، الطبعة الأولي ، 1406، تحقيق : د. محمد رشاد سالم عدد الأجزاء : 8 .
.
عمر : نے کہا میں تم لوگوں کے « وليّ » ہوں:
.
خلیفہ دوم نے بھی خلیفہ بننے کے بعد اپنی خلافت کے دوران خطبہ دیا اور اپنے کو «وليّ» اور «وليّ امر مسلمين» کہا .
.
بلاذري نے انساب الأشراف میں لکھا ہے :
.

المدائني في إسناده ، قال : خطب عمر بن الخطاب رضي الله عنه حين ولي فحمد الله وأثني عليه وصلي علي نبيه ثم قال :

إني قد وليت عليكم ،

ولولا رجائي أن أكون خيركم لكم ، وأقواكم عليكم ، وأشدكم اضطلاعاً بما ينوب من مهم أمركم ، ما توليت ذلك منكم …
.

عمر جب خلیفہ بنا تو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد وثناء اور رسول اللہ ص پر درود کے بعد کہا :

میں تم لوگوں کے ولی بنا ہوں

اگر میں مجھے اپنا تم لوگوں سے بہتر اور تو لوگوں سے زیادہ قوی ہونے کی امید نہ ہوتا تو میں تم لوگوں کا ولی نہ بنتا ۔
.

أنساب الأشراف ، ج 3 ص 412 ، اسم المؤلف: أحمد بن يحيي بن جابر البلاذري (المتوفي : 279هـ)
.
طبري نے بھی عمر کی طرف سے اپنی تقریر میں خود کو ولی بتانے کی بات کو نقل کیا ہے :
.

وقفل عمر من الشام إلي المدينة في ذي الحجة وخطب حين أراد القفول فحمد الله وأثني عليه وقال ألا إني قد وليت عليكم وقضيت الذي علي في الذي ولأني الله من أمركم إن شاء الله قسطنا بينكم .
.

عمر جب شام سے واپس پلٹا تو مدینے میں تقریر کی اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد کہا: میں تم لوگوں کا ولی بنا ہوں اور میں نے جو میری ذمہ داری ہے اس کو انجام دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.

تاريخ الطبري ، ج 2 ص 490 ، اسم المؤلف: لأبي جعفر محمد بن جرير الطبري الوفاة: 310 ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت .
.
اسی طرح طبری نے ہی نقل کیا ہے :
.

ذكر بعض خطبه رضي الله تعالي عنه … عن عروة بن الزبير أن عمر رضي الله تعالي عنه خطب فحمد الله وأثني عليه بما هو أهله ثم ذكر الناس بالله عز وجل واليوم الآخر ثم قال يا أيها الناس إني قد وليت عليكم ولولا رجاء أن أكون خيركم لكم وأقواكم عليكم وأشدكم استضلاعا بما ينوب من مهم أموركم ما توليت ذلك منكم
.

عمر نے خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد لوگوں سے کہا : اے لوگو! میں تم لوگوں کا ولی بنا ہوں اگر میں تم لوگوں سے بہترین اور قوی ترین اور زندگی کے امور میں تم لوگوں سے زیادہ سختی کرنے والا نہ ہوتا تو اس ذمہ داری کو قبول نہیں کرتا .
.

تاريخ الطبري ، ج 2 ص 572 ، اسم المؤلف: لأبي جعفر محمد بن جرير الطبري الوفاة: 310 ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت
.
ابن كثير دمشقي نے بھی نقل کیا ہے :
.

فلما اراد القفول إلي المدينة في ذي الحجة منها خطب الناس فحمد الله واثني عليه ثم قال الا اني قد وليت عليكم وقضيت الذي علي في الذي ولاني الله من امركم ان شاء الله
.

عمر نے ذی الحجۃ کے مہینے میں شام کی طرف جانے کا ارادہ کیا لہذا اپنی تقریر میں کہا : میں تم لوگوں کے ولی بنا اور جو میری ذمہ داری تھی اس کو انجام دیا ۔
.

البداية والنهاية ، ج 7 ص 79 ، اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء الوفاة: 774 ، دار النشر : مكتبة المعارف – بيروت .
عمر کا اپنے دوستوں کے چلے جانے پر افسوس :
.
جس وقت عمر چاقو سے زخمی ہوا اور یہ احساس کرنے لگا کہ اب مرنے والا ہے لہذا اپنے ان دوستوں کو یاد کرنے لگاجنہوں نے خلافت کو بنی ھاشم سے چھینے میں ان کی مدد کی تھی اور ان کے ساتھ اپنا جو عہد و پیمان تھا اس پر وفادار رہا لیکن وہ لوگ ان سے پہلے چلے گئے تھے ،اب خلیفہ دوم ان کے نام لے کر انہیں یاد کرتے ہوئے کہتا تھا : اگر یہ زندہ ہوتے تو اس کو اپنے بعد جانشین اور «ولي امر مسلمين» بناتا ۔
.
ابن قتيبه دينوري مي نويسد :
.

فلما أحس بالموت قال لابنه اذهب إلي عائشة وأقرئها مني السلام واستأذنها أن أقبر في بيتها مع رسول الله ومع أبي بكر فأتاها عبد الله بن عمر فأعلمها فقالت نعم وكرامة ثم قالت يا بني أبلغ عمر سلامي وقل له لا تدع أمة محمد بلا راع استخلف عليهم ولا تدعهم بعدك هملا فإني أخشي عليهم الفتنة فأتي عبد الله فأعلمه فقال ومن تأمرني أن أستخلف لو أدركت أبا عبيدة بن الجراح باقيا استخلفته و وليته فإذا قدمت علي ربي فسألني وقال لي من وليت علي أمة محمد ؟ قلت أي ربي سمعت عبدك ونبيك يقول لكل أمة أمين وأمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح ولو أدركت معاذ بن جبل استخلفته فإذا قدمت علي ربي فسألني من وليت علي أمة محمد؟ قلت : أي ربي سمعت عبدك ونبيك يقول إن معاذ بن جبل يأتي بين يدي العلماء يوم القيامة ولو أدركت خالد بن الوليد ، لوليته فإذا قدمت علي ربي فسألني من وليت علي أمة محمد ؟ قلت أي ربي سمعت عبدك ونبيك يقول خالد بن الوليد سيف من سيوف الله سله علي المشركين … ۔
.

الإمامة والسياسة ، اسم المؤلف: أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة الدينوري الوفاة: 276هـ. ، ج 1 ص 25 ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت – 1418هـ – 1997م. ، تحقيق : خليل المنصور .
ابن خلدون نے بھی اپنے مشہور مقدمہ میں لکھا ہے :
.

لو كان سالم مولي حذيفة حيا لوليته .

اگر حذيفة کا غلام سالم زندہ ہوتا تو اس کو جانشین بناتا۔
.

مقدمة ابن خلدون ، ج 1 ص 194 ، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن محمد بن خلدون الحضرمي الوفاة: 808 ، دار النشر : دار القلم – بيروت – 1984 ، الطبعة : الخامسة .

عمر بن خطاب کا حضرت علي عليه السلام کو خلافت کے بارے میں ہدایت:
.
ابن حجر عسقلاني نے صحيح بخاري کی شرح میں عمر کی طرف سے خلافت کی ذمہ داری شورا کو منتقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ خلیفہ دوم نے شورا کے ممبروں کی نصیحت کی اور یوں کہا :
.

يا علي لعل هؤلاء القوم يعلمون لك حقك وقرابتك من رسول الله صلي الله عليه وسلم وصهرك وما اتاك الله من الفقه والعلم فان وليت هذا الأمر فاتق الله فيه ثم دعا عثمان فقال يا عثمان فذكر له نحو ذلك ووقع في رواية إسرائيل عن أبي إسحاق في قصة عثمان فان ولوك هذا الأمر فاتق الله فيه ولا تحملن بني أبي معيط علي رقاب الناس …
.

اے علي ! شاید یہ قوم آپ کے حق کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آپ کی قرابتداری کو اور ان کے داماد ہونے اور اللہ نے جو آپ کو علم اور علمی مقام عطاء کیا ہے ،ان کو یہ قوم جان لے ۔ لہذا اگر ان لوگوں کے ولی بن جائے تو تقوی اختیار کرنا ۔ اس کے بعد عثمان سے بھی گفتگو میں کہا : اگر لوگوں نے تمہیں ولی بنایا تو تقوی اختیار کرنا اور بني أبي معيط کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط نہ کرنا )
.

فتح الباري شرح صحيح البخاري ، ج 7 ص 68 ، اسم المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي الوفاة: 852 ، دار النشر : دار المعرفة – بيروت ، تحقيق : محب الدين الخطيب .

أنساب الأشراف ، ج 2 ص 259 ، اسم المؤلف: أحمد بن يحيي بن جابر البلاذري (المتوفي : 279هـ) .
عمر نے ابوموسي کو لوگوں کا « ولي » قرار دیا :
.
لفظ «ولي» سے امامت ،سرپرستی اور حکومت کا معنی ارادہ کرنا اور اسی معنی میں اس لفظ کا استعمال بہت زیادہ رائج تھا ، یہاں تک کہ خطوط اور حکومتی دستورات اوردوسرے علاقوں میں کسی گورنر وغیرہ کے تعیین اور انتخاب میں اسی لفظ کو استعمال کیا جاتا تھا ۔جیساکہ ابن كثير دمشقي نے خلیفہ دوم کی طرف سے أبو موسي اشعري کو بصرہ کے حاکم بنانے کے لئے جو خط لکھا،اس میں اس طرح نقل ہو ہے ۔
.

وكتب إلي اهل البصرة اني قد وليت عليكم أبا موسي لياخذ من قويكم لضعيفكم وليقاتل بكم عدوكم وليدفع عن دينكم … .

عمر نے اهل بصره کے لئے لکھا : بتحقیق میں نے ابوموسی اشعری کو تم لوگوں کا ولی اور حاکم بنایا ہے …
.

البداية والنهاية ، ج 7 ص 82 ، اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء الوفاة: 774 ، دار النشر : مكتبة المعارف – بيروت .
معاويه نے بھی بصره والوں سے خطاب میں کہا: میں نے عبيدالله کو تم لوگوں کا « وليّ » بنایا ہے :
.
طبري اور ابن جوزي نے نقل کیا ہے ،کہ معاوية جب عبيد الله بن زياد کو بصرہ کا گورنر بنارہا تھا تو کہا :
.

… ثم قال قد وليت عليكم ابن أخي عبيد الله بن زياد

… بتحقیق میں نے اپنے بھائی کے بیٹے ، عبيدالله بن زياد کو تم لوگوں کا وليّ قرار دیا ہے .
.

تاريخ الطبري ، ج 3 ص 245 ، اسم المؤلف: لأبي جعفر محمد بن جرير الطبري الوفاة: 310 ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت

المنتظم في تاريخ الملوك والأمم ، ج 5 ص 278 ـ 279 ، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن علي بن محمد بن الجوزي أبو الفرج الوفاة: 597 ، دار النشر : دار صادر – بيروت – 1358 ، الطبعة : الأول

اسی طرح یزید ابن معاویہ کے لئے بھی لفظ ولی بعمنی حاکم و سرپرست استعمال کیا گیا

عبد الملك مروان نے قریش سے گلہ کیا :
.
لفظ «وليّ» اسلامی تاریخ میں ایک رائج کلمہ رہا ہے اور لوگ خلفاء کی پیروی میں اس لفظ کا استعمال کرتے اور ہر حاکم اپنے آپ کو «ولي امر المسلمین» کہتا تھا۔
.
أحمد زكي صفوت نے جمهرة خطب العرب میں نقل کیا ہے كه عبد الملك بن مروان نے اپنے دور خلافت میں قریش سے خطاب میں اس طرف گلہ، شگوہ کیا :
.

فيا معشر قريش وليكم عمر بن الخطاب فكان فظا غليظا مضيقا عليكم فسمعتم له وأطعتم ثم وليكم عثمان فكان سهلا فعدوتم عليه فقتلتموه

اے قريش والو ! (جب ) عمر بن خطاب تم لوگوں کا ولی بنا وہ بہت ہی سخت مزاج تھا اور تم لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آتا تھا۔ تم لوگوں نے اس کی سنی اور اس کی اطاعت کی ، پھر عثمان تم لوگوں کے وليّ بنا ۔اس نے سختی نہیں کی لیکن تم لوگوں نے اس سے دشمنی کی اور اسے قتل کردیا ۔
.

جمهرة خطب العرب ، ج 2 ص 196 ، اسم المؤلف: أحمد زكي صفوت الوفاة: بلا ، دار النشر : المكتبة العلمية – بيروت .

مروج الذهب ، ج 1 ص 401 ، اسم المؤلف: أبو الحسن علي بن الحسين بن علي المسعودي (المتوفي : 346هـ) .

المحكم والمحيط الأعظم ، ج 1 ص 514 ، اسم المؤلف: أبو الحسن علي بن إسماعيل بن سيده المرسي الوفاة: 458هـ ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت – 2000م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : عبد الحميد هنداوي

لسان العرب ، ج 8 ص 166 ، اسم المؤلف: محمد بن مكرم بن منظور الأفريقي المصري الوفاة: 711 ، دار النشر : دار صادر – بيروت ، الطبعة : الأولي