.
ابن شبہ النمیری (المتوفی ۲۶۲ھ) نے اپنی سند سے نقل کیا ہے :
.
حدثنا إبراهيم بن المنذر ، قال ، حدثنا عبد الله بن وهب ، قال أخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن المسور بن مخرمة : أن عبد الرحمن بن عوف حدث : أنه حرس عمر ، فبينما هم يمشون شب لهم سراج في بيت فانطلقوا يؤمونه حتى قربوا منه ، فإذا باب مجاف على قوم فيه لهم أصوات مرتفعة ولغط ، فقام عمر فأخذ بيد عبد الرحمن ، وقال : أتدري بيت من هذا ، قال عبد الرحمن : لا ، قال : هذا بيت ربيعة بن أمية ابن خلف ، وهم الآن شرب ، فما ترى ، قال : أرى أنا قد أتينا ما نهي عنه ، قال الله تعالى : { وَلَا تَجَسَّسُوا – الحجرات : ۱۲} فانصرف عمر وتركهم
.
عبدالرحمٰن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ وہ عمر بن خطاب کے ساتھ رات کو گشت کرتے، ایک موقع پر وہ چل رہے تھے کہ ایک گھر کے چراغ نے ان کی توجہ مبذول کر لی۔ وہ اس کی طرف بڑھے یہاں تک کہ انہیں دروازے کے اندر سے اونچی آوازیں سنائی دیں۔ عمر نے عبدالرحمٰن کا ہاتھ پکڑا اور کہا کیا تم جانتے ہو یہ گھر کس کا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ عمر نے کہا کہ یہ (صحابی) ربیعہ بن امیہ بن خلف کا گھر ہے اور وہ اس وقت شراب پی رہے ہیں، تو تمہارا کیا خیال ہے؟ عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے وہی کیا جو اللہ نے ہم پر حرام کیا ہے۔ اللہ نے کہا، ’’جاسوسی نہ کرو اور ہم نے ان کی جاسوسی کی۔ عمر نے منہ پھیر لیا اور انہیں اکیلا چھوڑ دیا۔
.
تاریخ مدینہ – ابن شبہ النمیری // جلد ۱ // صفحہ ۳۸۲ // رقم ۱۲۰۰ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔



امام حاکم نیساپوری (المتوفی ۴۰۵ھ) نے اسکو اپنی سند سے نقل کیا ہے اور اسکے ساتھ یوں لکھا :
اسکی سند صحیح ہے۔
ذھبی نے اسکی موافقت میں اسکو صحیح قرار دیا ہے۔



امام طبرانی (المتوفی ۳۶۰ھ) نے اپنی سند سے نقل کیا ہے۔



امام ابن حبان (المتوفی ۳۵۴ھ) نے اسکو اپنی سند سے نقل کیا ہے۔



ابوبکر بہیقی (المتوفی ۴۵۸ھ) نے اسکو اپنی سند کے ساتھ نقل کیا۔
کتاب کے محقق نے اس روایت پر صحت کا حکم لگایا ہے۔


