امام محمد بن اسماعیل بخاری (المتوفی ۲۵۶ھ) نے اس طرح نقل کیا ہے :
.
حدثنا عبد الله بن رجاء حدثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن زيد بن أرقم قال: كنت في غزاة، فسمعت عبد الله بن أبي يقول: لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا من حوله، ولئن رجعنا من عنده ليخرجن الأعز منها الأذل، فذكرت ذلك لعمي أو لعمر، فذكره للنبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم، فدعاني فحدثته، فأرسل رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم إلى عبد الله بن أبي وأصحابه، فحلفوا ما قالوا فكذبني رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم وصدقه، فأصابني هم لم يصبني مثله قط. فجلست في البيت فقال لي عمي: ما أردت إلى أن كذبك رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم ومقتك فأنزل الله تعالى: {إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَْ} فبعث إلي النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم فقرأ فقال: “إن الله قد صدقك يا زيد”.
.
زید بن ارقم نے بیان کیا کہ
.
میں ایک غزوہ ( تبوک ) میں تھا اور میں نے ( منافقوں کے سردار ) عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا کہ جو لوگ ( مہاجرین ) رسول کے پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ خود ہی رسول اللہ سے جدا ہو جائیں گے ۔ اس نے یہ بھی کہا اب اگر ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والوں کو نکال باہر کرے گا ۔ میں نے اس کا ذکر اپنے چچا ( سعدبن عبادہ انصاری ) سے کیا یا عمر بن خطاب سے۔ ( راوی کو شک تھا ) انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا ۔ آنحضرت ﷺ نے مجھے بلایا میں نے تمام باتیں آپ کو سنا دیں ۔ آنحضرت ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا ۔ ( انہوں نے قسم کھا لی کہا کہ انہوں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی تھی ۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے مجھ کو جھوٹا سمجھا اور عبداللہ کو سچا سمجھا ۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ ہوا کہ ایسا کبھی نہ ہوا تھا ۔ پھر میں گھر میں بیٹھ رہا ۔ میرے چچا نے کہا کہ میرا خیال نہیں تھا کہ آنحضرت ﷺ تمہاری تکذیب کریں گے اور تم پر ناراض ہوں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی ۔ جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے مجھے بلوایا اور اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ اے زید ! اللہ تعالیٰ نے تم کو سچا کر دیا ہے ۔
.



اردو ترجمہ میں بھی یہ موجود ہے۔



عصر حاضر کے معروف عالم الدین مصطفی العدوی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا :
یہ روایت صحیح ہے۔ اسکو امسلم اور ترمذی نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے



