شیعہ کلمہ اور اذان میں علی ولی الله کیوں

*ہم شیعہ کلمہ اور اذان میں علی ولی الله کیوں کہتے ھیں؟ قرآن مجید اور کتب اہلسنت سے مختصر تحقیقی جائزہ*
.
📒تحریر:محمد ثقلین عباس📒
.
*اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ اَلَّذِي جَعَلَنَا مِنَ اَلْمُتَمَسِّكِينَ بِوِلاَيَةِ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ وَ اَلْأَئِمَّةِ عَلَيْهِمُ اَلسَّلاَمُ»»*
.
تمام مسلمان چاھے وہ اہلسنت ھوں یا شیعہ ان سب کا خدا کی وحدانیت اور جنابِ رسول خدا کے خاتم النبیین ھونے پر ایمان ھے نیز سب کا کلامِ الٰہی جو کہ خداوند متعال کا ایک معجزہ ھے اس پر بھی کامل ایمان ھے لیکن ان تمام مکاتب فکر کا آپس میں اختلاف ھونا ایک فطری عمل ھے البتہ یہ حق کسی کو حاصل نہیں کہ وہ دوسرے مسلک پر علمی گفتگو سے ہٹ کر تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ھوئے تنقید کرے اگر شیعہ الله تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول الله ص کی رسالت کے بعد علی ع کی ولایت کی گواہی دیتے ھیں تو اس میں حرج کیا ھے کیا مولا علی علیہ السلام کی ولایت ایمان کا جزو نہیں ھے؟ ویسے بھی مولا علی ع کا ذکر عبادت ھے کیونکہ رسول الله ص فرماتے ھیں:
.
*حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِیُّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏: زَیِّنُوا مَجَالِسَکُمْ‏ بِذِکْرِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِب…*
ترجمہ:”حضرت جابر بن عبد الله انصاری سےمنقول ھے رسول خدا ص نے فرمایا اپنی مجالس کو ذکر علی ابن ابی طالب ع سے مزین کرو”
.
*[ابن مغازلی ، علی ابن محمد الشافعی ، مناقب الامام علی ابن ابی طالب / الصفحہ 199]*
.
مولا علی علیہ السلام کی ولایت پر متعدد ثبوت ھیں اور تاکید بھی جن سے ہم اذان اور کلمہ طیبہ میں استدلال کرتے ھیں اسی لئے ھم مولا علی علیہ السلام کی ولایت کا اقرار کرتے ھیں اور یہ کوئی بدعت نہیں ھے کیونکہ برادرانِ اسلامی کی اذان میں بھی اضافہ موجود ھے لیکن ھم نے تو کبھی بھی تنقید نہیں کی کیونکہ اذان ایک بلاوا ھے نماز کی طرف اور واجب نہیں ھے اس کے بغیر بھی نماز پڑھی جا سکتی ھے اسی لئے اعتراض بنتا ہی نہیں ھے البتہ جنہیں مولائے متقیان علی بن ابی طالب ع کے ذکر سے تکلیف ھوتی ھے وہ اپنی آخرت کی فکر کریں کہ وہ کیا ھیں اور کس مقام پر ھیں کیونکہ جنابِ رسول خدا ص کے دور میں منافقین کی پہچان کا آسان سا کلیہ تھا وہ ذکر مولا علی ع تھا کیونکہ جب مولا علی ع کا ذکر ھوتا تو اس وقت جو منافقین ھوتے تھے وہ نکھر کر سامنے آ جاتے تھے یعنی ہمیں ہماری آسانی کیلئے یہ کلیہ دیا گیا ھے اسی لئے آج بھی یہ کلیہ موجود ھے ختم نہیں ھوا قیامت تک رھے گا اور اپلائی کرنا چاھئے تا کہ منافقین نکھر کر سامنے آ جائیں کیونکہ واضح حدیث ھے:
.
*عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال ان کنا لنعرف المنافقين نحن معشر الانصار ببغضهم علي ابن طالب…..*
“حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ھے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انصار میں سے ہیں ہم منافقوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض و عداوت کی وجہ سے پہچانتے ہیں”
.
*[فضائل الصحابہ احمد بن حنبل ، حدیث / سنن نسائي ، ج 8 ، ص 116 ، کتاب الايمان ، باب علامة الايمان / سنن نسائي ، ج 8 ، 117 ، کتاب الايمان ، باب علامة المنافق / سنن ابن ماجه ، ج 1 ، ص 42 ، المقدمه ، فضل علي رضي الله عنه بن ابي طالب رضي الله عنه ، ح 131 / مسند احمد بن حنبل ، 1 : 84 ، 95 ، 128 / مسند ابي يعلي ، 1 : 251 ، ح 291 / مسند الحميدي ، 1 : 31 ، ح 58 / المعجم الاوسط لطبراني ، ج 3 : ص 89 ، ح 2177 / مسند ابي يعلي ، ج 3 ، ص 179، ح 1602 / مجمع الزوائد ، ج 9 ، الصفحہ 132 / مسند احمد بن حنبل ، 6 : 292]*
.
تو اب شیعہ جن کلمات کا اقرار کرتے ھیں وہ سب قرآن و حدیث سے ثابت ھیں نیز یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ھے کہ جس پر بدعت بدعت کا فتویٰ لگایا جائے جن کو اعتراض ھے پہلے وہ اپنے مکتب پر غور کریں جس کی آگے وضاحت بھی آنے والی ھے تو امیر المومنین مولا علی علیہ السلام کی ولایت کا اقرار ھمارے ایمان کا حصہ ھے جس کو ترک کرنا ممکن ہی نہیں ھے اور معترضین کو ہی اس معاملے میں غور و فکر کرنی چاھئے کیونکہ جس علی ع کی ولایت پر دین مکمل ھو رہا ھے اس ولایت کو ھم کیسے ترک کر سکتے ھیں کیا علی ع کی مخالفت کرنے والوں کو یہ نہیں پتہ کہ جنت کے سردار بھی وہی ھیں اور اگر نماز ، روزہ ، حج و دیگر عبادتیں آپ کی پوری ھیں تو پھر بھی آپ کو جنت کے دروازے پہ روک لیا جائے گا کیونکہ جنت میں داخلے کے پہلے قدم رکھنے سے ہی فوراً پہلے آپ کو روک کر ولایت مولا علی ع کا پوچھا جائے گا مثلاً:
.
*اذا کان یوم القیامۃ اوقف انا و علیُّ علی الصراط ، فمایمرُّ بنا احد الاسألناہ عن ولایۃ علی فمن کانت معہ والا القیناہ فی النار و ذلک قولہ: وَ قِفُوۡہُمۡ اِنَّہُمۡ مَّسۡئُوۡلُوۡنَ…..*
“جب قیامت کا دن ہو گا مجھے اور علی ع کو پل صراط پر بٹھا دیا جائے گا پھر جوشخص بھی گزرے گا اس سے ہم ولایت علی ع کے بارے میں پوچھیں گے اگر اس کے ساتھ ولایت علی موجود ھے تو درست ورنہ اسے آتش میں پھینک دیں گے اور یہ الله کا فرمان ھے: *انہیں روکو ان سے پوچھا جائے گا*”
.
*[فرائد السمطين ، باب 4 ، جلد 1، صفحہ 79/ حافظ الجسکانی ، شواہد التنزيل ، جلد 2 ، صفحہ 106 / گنجی شافعی ، کفاية الطالب ، باب 62 ، صفحہ247 / شيخ سليمان قندوزی الحنفی ، ينابيع المودة ، باب 37 ، صفحہ 13 ، صفحہ 282 ، حديث 51 / مناقب الخوارزمی ، باب 17 ، الصفحہ 195 / تذکرۃ الخواص ابنِ جوزی ، باب دوم ، الصفحہ 21 ، الصواعق المحرقہ ، ھیثمی ، الصفحہ 89]*
________________________________________________
🔶 *جنت کے دروازے پر شیعہ کلمہ طیبہ موجود ھے* 🔶
.
اس موضوع پر دوسرے ثبوت اور مختصر وضاحت سے پہلے ھم یہ نکتہ واضح کرتے جائیں کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے بھی شیعہ کلمہ طیبہ موجود تھا اور اب بھی ھے اور رھے گا کیونکہ جنت کے دروازے اور عرش کے پائے پر بھی یہی شیعہ کا کلمہ طیبہ موجود ھے اسی لئے ھم توحید و رسالت کی گواہی کے بعد امیر المومنین مولا علی ع کی ولایت کی گواہی دینے کے قائل ھیں بطور ثبوت اب ملاحظہ فرمائیں:
.
جنت کے دروازے اور عرش پر شیعہ کلمہ کا ثبوت :
*باب الاولمنھا مکتوب لا الٰہ الا اللّه محمد رسول اللّه علی ولی اللّه*
*باب الثانی منھا مکتوب لا الٰہ الا اللّه محمد رسول اللّه علی ولی اللّه*
*باب الثالث منھا مکتوب لا الٰہ الا اللّه محمد رسول اللّه علی ولی اللّه*
*باب الرابع منھا مکتوب لا الٰہ الا اللّه محمد رسول اللّه علی ولی اللّه*
*باب الخامس منھا مکتوب لا الٰہ الا اللّه محمد رسول اللّه علی ولی اللّه*
*باب السادس منھا مکتوب لا الٰہ الا اللّه محمد رسول اللّه علی ولی اللّه*
*باب السابع منھا مکتوب لا الٰہ الا اللّه محمد رسول اللّه علی ولی اللّه*
*باب الثامن منھا مکتوب لا الٰہ الا اللّه محمد رسول اللّه علی ولی اللّه*
.
بحوالہ:
*[فرائد السمطین ، جلد 1 ، الصفحہ ، 239_240_140_141_143 / ینابیع المودة ، سلیمان قندوزی الحنفی ، جلد 1 ، الصفحہ 25_109 ، جلد 2 ، الصفحہ 244_275_280_292_295_296_301_302_ 390 ، جلد 3 ، الصفحہ 508 / المودة القربیٰ سید علی ہمدانی ، الصفحہ 11_91_121_127_164 / در السمطین ، جمال الدین الحنفی المدنی ، الصفحہ 153_155_156 / تفسیر درالمنثور ، جلال الدین السیوطی ، جلد 3 ، تفسیر سورہ الانفال آیت 62 ، الصفحہ 620 / مناقب الامام علی ، ابن المغازلی ، الصفحہ 131 / کفایتہ الطالب ، الکنجی الشافعی ، الصفحہ 110 / کوکبِ دری ، صالح کشفی الترمذی السنی الحنفی ، الصفحہ 226 / مناقب الخوارزمی ، الصفحہ 144 / ذخائر العقبی ، امام طبری ، الصفحہ 124 / جواہر المطالب ، شمس الدین الدمشقی الشافعی ، جلد 1 ، الصفحہ 92 / شواہد التنزیل الحافظ الکبیر ، الجسکانی الحنفی ، جلد 1 ، الصفحہ 224_225_226_227_228]*
اب یہاں یہ نکتہ تو واضح ھو گیا اب ھم اس کی مزید قرآن و حدیث سے مختصر وضاحت کرتے ھیں۔
________________________________________________
📔 *کلمہ طیبہ اور اذان میں امیر المومنین مولا علی علیہ السلام کی ولایت کا اقرار کیوں ضروری ھے؟* 📔
.
ھم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اذان اور کلمہ میں حضرت امیر المومنین مولا ع کی ولایت کی گواہی نہ دینے والے معاذ الله اسلام سے خارج ھیں کیونکہ کلمہ شھادت سب کا ایک ہی ھے لیکن مولا علی علیہ السلام کی ولایت کا اعتقاد رکھنا واجب ھے نیز ھمارے فقہاء کی کثیر تعداد کا یہی نظریہ ھے اور رہا ھے کہ اذان میں امیر المومنین مولا علی ع کی ولایت کا اقرار کرنا مکتبِ تشیع کا شعار ھے اسی لئے ھمارے ہاں اقرار ولایت کیا جاتا ھے لیکن بطور شعار ھم اس ولایت کے اقرار کو کبھی ترک نہیں کر سکتے کیونکہ اذان مستحب ھے اس کیلئے ان مخصوص شرائط کا ھونا ضروری نہیں ھے جو نماز کیلئے مخصوص ھیں اسی لئے اگر کوئی مولا علی علیہ السلام کی ولایت کی گواہی دے بھی رہا ھے تو وہ بھی قرآن و حدیث سے ثابت ھے کیونکہ کلمہ طیبہ قرآن مجید میں ایک ساتھ کہیں نہیں ھے بلکہ الگ الگ ھے یعنی کسی ایک جگہ لا الہ الا الله اور کسی دوسری جگہ محمد رسول الله مثال کے طور پر:
.
*لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ (سورہ محمد آیت 19)*
*مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ (سورہ فتح آیت 29)*
.
اب یہ کلمہ طیبہ بنا اسی طرح جب ھم علی ولی الله کہتے ھیں تو وہ بھی مختلف قرآنی آیات اور حدیث سے ثابت کیونکہ مولا علی علیہ السلام کی ولایت پر ایمان لانا بھی واجب ھے اور الله تعالیٰ اور جنابِ رسول خدا ص نے بھی اس کی بہت تاکید کی ھے اب الله تعالیٰ قرآن مجید میں آیت ولایت میں تین شخصیات یعنی تیسری مولا علی علیہ السلام کی ولایت واضح کر رھے ھیں اور ایک حکم جاری کر رھے ھیں:
.
*اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ…..*
“تمہارا ولی تو صرف الله اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں”
*(المائدہ آیت 55)*
.
اب ملاحظہ فرمائیں :
*عن عمار بن ياسر رضي الله عنه، يقول : وقف علي عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه سائل و هو راکع في تطوّع فنزع خاتمه فأعطاه السائل، فأتي رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فأعلمه ذلک، فنزلتْ علي النبي صلی الله عليه وآله وسلم هذا الآية : (إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اللهُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَ هُمْ رَاکِعُوْنَ) فقرأها رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ثم قال : من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه…*
.
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ ایک سائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کھڑا ھوا ، آپ رضی اللہ عنہ نماز میں حالتِ رکوع میں تھے اُس نے آپ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی کھینچی ، آپ رضی اللہ عنہ نے انگوٹھی سائل کو عطا فرما دی حضرت علی رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم ص کے پاس آئے اور آپ ص کو اُس کی خبر دی ، اس موقع پر آپ ص پر یہ آیتِ کریمہ نازل ھوئی : (بے شک تمہارا ولی الله اور اُس کا رسول ہی ھے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ھیں جو نماز قائم کرتے ھیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ھیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ھیں) آپ ص نے اس آیت کو پڑھا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ھوں اُس کا علی مولا ھے ، اے الله! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ”
.
بحوالہ:
*[طبراني ، المعجم الاوسط ، 7 : 129، 130، رقم : 6228 / احمد بن حنبل ، المسند ، 1 : 119 / احمد بن حنبل ، المسند ، 4 : 372 / حاکم ، المستدرک ، 3 : 119، 371 ، رقم حديث : 4576_5594 / طبراني ، المعجم الکبير ، 4 : 174، رقم : 4053 / طبراني ، المعجم الکبير ، 5 : 195، 203، 204، رقم : 5068، 5069، 5092، 5097 / طبراني ، المعجم الصغير ، 1 : 65 / هيثمي ، مجمع الزوائد ، 7 : 17 / هيثمي ، موارد الظمآن : 544، رقم : 2205 / خطيب بغدادي ، تاريخ بغداد ، 7 : 377 / خطیب بغدادی نے یہ حدیثِ مبارکہ ’تاریخِ بغداد 12 : 343 میں مَن کنتُ مولاہ فعليّ مولاہ کے الفاظ کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے بھی نقل کی ھے / ابن اثير ، اسد الغابه ، 2 : 362 / ابن اثير ، اسد الغابه ، 3 : 487 / ضياء مقدسي ، الاحاديث المختاره ، 2 : 106، 174، رقم : 480 ، 553 / حسام الدين هندي ، کنزالعمال ، 11 : 332، 333، رقم : 31662]*
.
تو اب قرآن کی ایک آیت اور احادیثِ نبوی ص سے ولایتِ امیر المومنین مولا علی ع کی اہمیت واضح ھوگئی اب ھم ذیل میں موجود جملوں کا ایک ایک نقطہ واضح کرتے ھیں اور اس کو مزید روایات سے ثابت کرتے ھیں:
.
*اَشّہَد اَنَّ امیٓرَالْمُومنیّنَ وَ اِمْامَ الْمُتّقینَ عَلیٗ وَْلِی اللّهِ وَصیُّْ رَسوُلِ الله و خَلیفَۃُ بِلا فَصل*
🔶اب یہاں پہ حضرت امام علی ابن ابی طالب ع کیلئے استعمال کئے گئے ان کلمات کو ھم تین کلمات میں تقسیم کرتے ھیں:
.
*1_ امیٓرَالْمُومنیّنَ وَ اِمْامَ الْمُتّقینَ*
*2_ عَلیٗ وَْلِی اللّهِ*
*3_ وَصیُّْ رَسوُلِ الله و خَلیفَۃُ بِلا فَصل*
.
اب ملاحظہ فرمائیں ان کلمات کا ثبوت اہلسنت والجماعت کی معتبر کتب و روایات کی روشنی میں:
________________________________________________
📓 *علی ع امیٓرَالْمُومنیّنَ وَ اِمْامَ الْمُتّقینَ کا ثبوت* 📓
.
حدیثِ نبوی ص:
*حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ اَسْعَدْ بنِ زُرَارة قٰالَ: قٰالَ رسول اللّٰہِ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِنْتَھَیْتُ اِلٰی رَبِّی، فَأَوْحٰی اِلیَّ (اَوْ اَخْبَرَنِی) فِی عَلِیٍ بثلَاثٍ: اِنَّہُ سَیِّدُ الْمُسْلِمِیْنَ وَ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ وَ قَائِدُ الْغُرَّ الْمُحَجَّلِیْنَ…..*
.
“عبد الله بن اسعد بن زرارہ کہتے ھیں کہ پیغمبر اکرم ص نے فرمایا کہ شبِ ِمعراج جب میں اپنے پروردگار عزّ و جلّ کے حضور پیش ھوا تو مجھے حضرت علی ع کے بارے میں تین باتوں کی خبر دی گئی جو یہ ھیں کہ علی مسلمانوں کے سردار ھیں ، متقین اور عبادت گزاروں کے امام ھیں اور جن کی پیشانیاں پاکیزگی سے چمک رہی ھیں اُن کے رہبر ھیں”
.
بحوالہ:
*[ابنِ عساکر تاریخ دمشق ، باب شرح احوالِ امام ج 2 ، ص 256 حدیث 772_259 / ذہبی ، کتاب میزان الاعتدال ، صفحہ 64 ، شمارہ 211 / ابن مغازلی ، کتاب مناقب ، حدیث 126_147، صفحہ 104 /ہیثمی ، کتاب مجمع الزوائد ، جلد 9 ، صفحہ121 / حاکم ، کتاب المستدرک ، جلد 3 ، صفحہ 138، حدیث 99 ، بابِ مناقب ِعلی / گنجی شافعی ، کتاب کفایة الطالب ، باب 45 ، صفحہ 190 / شیخ سلیمان قندوزی حنفی ، کتاب ینابیع المودة ، صفحہ 245 ، باب 56 ، صفحہ 213 / حافظ ابو نعیم ، کتاب حلیة الاولیاء ، جلد 1، صفحہ 63 / خوارزمی ، کتاب المناقب ، صفحہ 229 / ابن اثیر ، کتاب اسد الغابہ ، جلد1، صفحہ 69_جلد 3 ،صفحہ 116 / متقی ہندی ، کنز العمال ، جلد 11، صفحہ 620 ، موٴسسة الرسالہ بیروت]*
.
*نوٹ:* المستدرک علی الصحیحین میں *لفظ امام المتقین* ھے اور روایت بھی صحیح ھے:
.
*[امام حاکم کی المستدرک علی الصحیحین کی سند کے مطابق یہ روایت صحیح ھے حدیث نمبر 4668]*
________________________________________________
📓 *امام علی ع کیلئے عَلیٗ وَْلِی اللّه کا ثبوت* 📓
.
ھم نے ولایت کو اوپر قرآن مجید سے بھی ثابت ھے نیز اب جناب رسول الله ص امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب ع کی ولایت کے متعلق فرماتے ھیں:
.
*اَنَّ النَّبِی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم قٰالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ، اَلَّلھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عٰادٰاہُ….*
.
“جنابِ رسول خدا صلى الله عليه و اله وسلم نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں ، اُس کا علی مولا ھے ، پروردگار! تو اُس کو دوست رکھ جو علی ع کو دوست رکھے اور تو اُس کو دشمن رکھ جو علی ع سے دشمنی رکھے”
.
*[ابن عساکر ، تاریخ دمشق ، باب شرح حالِ امام علی ، جلد 2 ، ص 30 ، حدیث 532 / احمد بن حنبل ، المسند ، جلد 4 ، ص 281 ، حدیث 12، جلد 1، ص 250 ، حدیث 950 ،961، 964 / حاکم ، المستدرک ، حدیث 8 ، باب مناقب ِعلی ، جلد 3 ، صفحہ 110_116 / سیوطی ، تفسیرالدرالمنثور ، جلد 2 ، صفحہ327 _ جلد 5 ، صفحہ 180 / تاریخ الخلفاء صفحہ 169 / ابن مغازلی ، مناقب ، حدیث 36 ، صفحہ 18_24_26 اشاعت اوّل / ہیثمی ، کتاب مجمع الزوائد ، جلد 9 ، صفحہ 105_108_164 / ابن ماجہ سنن ، جلد 1، صفحہ 43 ، حدیث 116 / الاستیعاب ، ج 3 ، ص 1099 ، روایت 1855 / ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ ، جلد 7 ، صفحہ 335_344_366 / شیخ سلیمان قندوزی حنفی ، ینابیع المودة ، باب 4 ، صفحہ 33 / گنجی شافعی ،کتاب کفایة الطالب ، باب1، صفحہ 58 / نسائی ، کتاب الخصائص ، حدیث 8 ، صفحہ 47 _حدیث 75 ، صفحہ 94 / ابن اثیر ، اسدالغابہ ، جلد 4 ، صفحہ 27 _ ج 3 ، ص321 _ ج 2 ، ص397 / ترمذی ، حدیث 3712 ، جلد 5 ، صفحہ 632_633]*
.
اب امیر المومنین مولا علی علیہ السلام کی ولایت کے متعلق کثیر قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ ھیں ھم نے تو فقط ایک آیت سے استدلال کیا ھے۔
________________________________________________
📓 *مولا علی کیلئے وَصیُّْ رَسوُلِ الله و خَلیفَۃُ بِلا فَصل کا ثبوت* 📓
.
*ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا یَحْیَى بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ أَبِی عَوَانَةَ، عَنْ یَحْیَى بْنِ سُلَیْمٍ أَبِی بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم لِعَلِیٍّ: أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلا أَنَّکَ لَسْتَ نَبِیًّا، إِنَّهُ لا یَنْبَغِی أَنْ أَذْهَبَ إِلا وَأَنْتَ خَلِیفَتِی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِی..*
.
*اسناده حسن ورجاله ثقات رجال الشیخین غیر ابی بلج واسمه یحیی بن سلیم بن بلج. قال الحافظ: «صدوق ربما اخطأ»*
[کتاب السنہ الحافظ ابی بکر احمد بن عمرو بن ابی عاصم ، حدیث 1222 / ناصر الدین البانی ، حدیث 1188]
*ناصر الدین البانی نے اس روایت کو حسن کہا ھے۔*
اس کے علاوہ کثیر روایات میں مندرجہ ذیل الفاظ موجود ھیں:
*أنتَ أخِي‌، وَ وَزِيري وَ وارِثِي وَ خَلِيفَتِي مِن بَعدِي….*
“تم میرے بھائی ، وزیر اور وارث اور میرے بعد میرے جانشین ھو”
*[کفایۃ الطالب ، گنجی شافعی، ص 205]*
.
نیز کثیر روایات میں اس طرح بھی نقل ھوا ھے:
*إنّہ ھذا أخي ووصيّي وخليفتي فيكم، فاسمعوا لہ وأطيعوا….*
“یقینا یہ میرے بھائی اور وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ و جانشین ہیں پس ان کی بات سنو اور اطاعت کرو”
.
لہذٰا اگر کوئی ولایت کا اقرار کر رہا ھے تو اس پر فتویٰ لگانے سے پہلے غور کرنا چاہئے کیونکہ ھمارا ایک ایک جملہ قرآن و حدیث سے ھے جن کو بدعت کے نعروں کا شوق پہلے وہ اپنے ہاں موجود کتب کھول کر بھی پڑھ لیا کریں کیونکہ بنی امیہ نے اذان میں جن کلمات کا اضافہ کیا تھا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ھے سب محفوظ ھے۔
________________________________________________
📘 *برادرانِ اسلامی کی موجودہ اذان* 📘
.
برادرانِ اسلامی کے وہ لوگ جو حقائق سے واقف ھیں اور محبانِ اھلبیت ع ھیں انہوں نے کبھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ شیعہ اذان میں اضافہ کیوں کرتے ھیں کیونکہ وہ اس سے واقف ھیں کہ اضافہ سے کچھ نہیں ہوتا اور اس سے بھی واقف ھیں کہ یہ اضافہ ھم نے بھی کیا ھوا ھے اسی لئے جو لوگ دوسروں پر تنقید کرتے ھیں پہلے وہ اپنے عقائد پر بھی غور فرمائیں کہ ان کی اذان بھی اضافہ پر مبنی تو نہیں نیز اس سے ہٹ کر اہلسنت کتب میں اذان کی 19 فصول ھیں اور اہلسنت بھائیوں کی موجودہ اذان الصلواۃ خیر من النوم چھوڑ کر 15 کلموں پر مشتمل ھے اور کچھ نے پھر ترجیح کہہ کر ان کو پورا کرنا شروع کر دیا لیکن اب ملاحظہ فرمائیں:
.
🔶روایت نمبر 1_🔶
*اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن همام بن يحيى، عن عامر بن عبد الواحد، حدثنا مكحول، عن عبد الله بن محيريز، عن ابي محذورة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:” الاذان تسع عشرة كلمة، والإقامة سبع عشرة كلمة”. ثم عدها ابو محذورة تسع عشرة كلمة وسبع عشرة…..*
.
ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: *اذان کے انیس کلمے* ہیں، اور اقامت کے سترہ کلمے“، پھر ابومحذورۃ رضی اللہ عنہ نے انیس اور سترہ کلموں کو گن کر بتایا”
*[إسناده حسن صحیح]*
*[سنن النسائی / بَابُ: كَمِ الأَذَانُ مِنْ كَلِمَةٍ / 631]*
.
🔶روایت نمبر 2_🔶
نیز جامع ترمذی میں بھی یہ روایت موجود ھے:
*حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا عفان، حدثنا همام، عن عامر بن عبد الواحد الاحول، عن مكحول، عن عبد الله بن محيريز، عن ابي محذورة، ان النبي صلى الله عليه وسلم ” علمه الاذان تسع عشرة كلمة والإقامة سبع عشرة كلمة…..*
.
ابو محذورہ رضی الله عنہ سے روایت ھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں *اذان کے انیس کلمات* اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے”
.
[ *قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح* وابو محذورة اسمه: سمرة بن معير، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا في الاذان، وقد روي عن ابي محذورة انه كان يفرد الإقامة]
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ھے ، بعض اہل علم اذان کے سلسلے میں اسی طرف گئے ہیں ، ابو محذورہ سے یہ بھی روایت ھے کہ وہ اقامت اکہری کہتے تھے۔
*[سنن الترمذی / باب: مَا جَاءَ فِي التَّرْجِيعِ فِي الأَذَانِ / حدیث 192]*
.
🔶روایت نمبر 3_🔶
نیز مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ھے جس سے یہ انیس فصول ثابت نہیں ھوتی البتہ قیاس کا سہارا لیتے ہوئے ھمارے برادران نے کافی کوشش کی انیس فصول ثابت کرنے کیلئے لیکن پھر بھی یہ روایت پیش خدمت ھے:
.
*حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ قَالَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ قَالَ حَدَّثَنَا مَكْحُولٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَيْرِيزٍ أَنَّ أَبَا مَحْذُورَةَ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَّنَهُ الْأَذَانَ تِسْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً وَالْإِقَامَةَ سَبْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَالْإِقَامَةُ مَثْنَى مَثْنَى لَا يُرَجِّعُ…..*
.
“حضرت ابومحذورہ سے مروی ھے کہ نبی ص نے خود مجھے اذان کے انیس اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے اور فرمایا چار مر تبہ اللہ اکبر کہنا، دو مرتبہ اشھدان لاالہ الا اللہ کہنا، دو مرتبہ اشھد ان محمد الرسول اللہ کہنا پھر دو دو مرتبہ حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کہنا پھر دو مرتبہ اللہ اکبر کہنا اور پھر لا الہ الا اللہ کہنا اور اقامت کے کلمات دو دو مرتبہ ہیں اور ان میں ترجیح نہیں ھے”
*[مسند امام احمد / جلد 9 / باب: حضرت ابومحذورہ کی حدیثیں / حدیث نمبر: 7105_1242]*
.
اس کے علاوہ یہ روایت المصنف ابن ابی شیبہ اور مشکوة المصابیح و متعدد دیگر کتب میں موجود ھے۔ تو اب ھمارے برادرانِ اسلامی کی موجودہ اذان یہ ھے:
.
*اَللّهُ اَکبَرُ _ 4 مرتبہ*
*اَشْهَدُ اَنْ لا اِلَهَ إِلاَّ اللّهُ _ 2 مرتبہ*
*اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّهِ _ 2 مرتبہ*
*حَیَّ عَلَی الصَّلاةِ _ 2 مرتبہ*
*حَیَّ عَلَی الْفَلاحِ _ 2 مرتبہ*
*اَللّهُ اَکبَرُ _ 2 مرتبہ*
*لا اِلَهَ إِلاَّ اللّهُ _ 1 مرتبہ*
.
اب یہ ٹوٹل 15 فصول بنتی ھیں انیس تو ھیں نہیں نیز اگر الصلواۃ خیر من النوم بھی شامل کریں تو بھی 17 بنتی ھیں لیکن سوچنے کی بات تو یہ ھے کہ اذان پورے پانچ وقت کی ایک جیسی ہی ھوتی ھے لیکن یہاں تو چار اوقات کی ایک جیسی اور ایک میں الصلواۃ خیر من النوم شامل ھو گیا خیر ھم اس بحث میں نہیں جاتے لیکن اب ھم اگر بالفرض ان 19 فصول سے استدلال کریں لیکن ھم کرتے ہی نہیں ھیں کیونکہ ھماری 20 فصول ھوتی ھیں جو اس وقت شامل ھیں لیکن پھر بھی اگر استدلال ھوتا تو اس سے یہ ثابت ھوتا ھے:
.
*اَللّهُ اَکبَرُ _ 4 مرتبہ*
*اَشْهَدُ اَنْ لا اِلَهَ إِلاَّ اللّهُ _ 2 مرتبہ*
*اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّهِ _ 2 مرتبہ*
*اَشْهَدُ أَنَّ عَلِیاً وَلِی اللّهِ _ 2 مرتبہ*
*حَیَّ عَلَی الصَّلاةِ _ 2 مرتبہ*
*حَیَّ عَلَی الْفَلاحِ _ 2 مرتبہ*
*حَیَّ عَلی خَیرِ الْعَمَلِ _ 2 مرتبہ*
*اَللّهُ اَکبَرُ _ 2 مرتبہ*
*لا اِلَهَ إِلاَّ اللّهُ _ 1 مرتبہ*
.
اب یہ پوری انیس فصول بنتی ھیں اور یہ بھی افسوس کی بات ھے کہ برادرانِ اسلامی نے *حی علی خیر العمل* بھی ترک کر دیا جو کہ ثابت بھی ھے اور متعدد اہلسنت محققین نے اس پر تبصرہ بھی کیا ھے بطور نمونہ کچھ ثبوت پیش خدمت ھیں:
.
*”عبد اللہ بن عمر سے منقول ھے کہ وہ اذان میں حیی علیٰٰ خیر العمل کہا کرتے تھے”*
*[إسناده صحیح]*
[المصنف ابنِ ابی شیبہ / حدیث 2253]
.
*”امام زین العابدین (ع) جب اذان دیتے اور حی علیٰٰ الفلاح پر پہنچتے تو آپ حیی علیٰٰ خیر العمل پڑھتے اور فرماتے کہ اذان اول یہی ھے”*
*[إسناده صحیح]*
[المصنف ابنِ ابی شیبہ / حدیث 2255]
________________________________________________
📘 *اہلسنت محققین کا حی علی خیر العمل پر تبصرہ* 📘
.
اہلسنت والجماعت کے متعدد محققین نے حی علی خیر العمل کے حوالے سے تبصرہ کیا ھے ، اب ھم یہاں بطور نمونہ پیش کرتے ھیں:
.
🔶ابن حزم کا تبصرہ:🔶
*”حضرت عبداللہ بن عمر اور ابو امامہ سہل بن حنیف سے منقول ھے کہ وہ اذان میں حیی علیٰٰ خیرالعمل کہا کرتے تھے جو شخص اقوال صحابہ کو تسلیم کرتا ھے اسے چاہیئے کہ اس مسئلہ میں ابن عمر کے قول کو اختیار کرے اس لئے کہ ایسی بات ھے جو قیاس سے نہیں کہی جا سکتی اور یہ قول ابن عمر سے صحیح ترین سند کے ساتھ ثابت ھے”*
(المحلیٰ ، ابن حزم ، جلد 3 ، الصفحہ 161)
.
🔶امام شوکانی کا تبصرہ:🔶
امام شوکانی اپنی کتاب نیل الاوطار میں تبصرہ کرتے ھوئے کہتے ھیں:
.
*”اھلبیت ع کا مذہب حیی علی ٰخیر العمل کو ثابت کرتا ھے اور وہ حیی علی الفلاح کے بعد ھے اور اس کو مہدی نے بحر میں ایک قول شافعی کی طرف نسبت کیا ھے مگر وہ اس کے خلاف ھے جو کتب شافعیہ میں ھے اس لئے ہم نے ان کتب میں یہ بات نہیں پائی اور اس روایت پر امام عز الدین نے شرح بحر میں اور دوسرے علماء نے جن کو کتب شافعیہ پر اطلاع ھے اعتراض کیا ھے اور اس کلمہ کے قائلین نے کتب اھلبیت ع سے استدلال کیا ھے ، مثل امالی ، احمد بن عیسیٰ ، تجرید و احکام و جامع آل محمد کے جن میں اس کلمے کا اثبات رسول اللہ تک با اسناد ھے، اور انہوں نے اسکے ساتھ سند پکڑی ھے جو بیہقی نے سنن کبریٰٰ میں با اسناد صحیح عبدالله بن عمر سے روایت کی ھے کہ وہ اذان میں اکثر اوقات حیی علیٰ خیر العمل کہتے تھے اور اُُسی میں امام زین العابدین ع سے مروی ھے کہ پہلی اذان یہی ھے (یعنی جو نبی ص کے وقت میں تھی ) اور محب طبری نے اپنی کتاب الاحکام میں زید بن ارقم سے روایت کرتے ھیں کہ وہ اذان میں یہ کلمہ کہتا تھا ، محب طبری نے کہا ھے کہ اس کو ابن حزم اور سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ابی امامہ بن سہل بدری سے مرفوعا نبی ص سے روایت کیا ھے کہ حیی علیٰ الفلاح کے بعد حیی علی ٰٰخیر العمل کہتے تھے اور دوسرے کسی راوی نے بجز طریقہ اھلبیت ع کے مرفوعا نبی ص سے اس طرح کی روایت نہیں کی ، اور کہا ھے کہ بیہقی نے ایک حدیث حیی علیٰ خیر العمل کے نسخ میں لکھی ھے لیکن وہ ایسے طریق سے مروی ھے جس کی مثل سے نسخ ثابت نہیں ہوتا”*
(نیل الاوطار ، شوکانی ، جلد 2 ، الصفحہ 44)
________________________________________________
قارئین محترم!
.
بدعت بدعت کے فتویٰ جاری کرنے سے پہلے یہ غور کر لینا چاہئے کہ اذان میں اضافہ کیوں ھے اس کے ادلہ کیا ھیں آیا کہ اذان میں اس لفظ کا اضافہ بدعت ھے بھی یا نہیں اگر صرف بدعت بدعت سے کام چلانا ھے تو پھر آپ کی نہ تو تراویح بچتی ھے نہ ہی اذان ، نہ ہی طلاقیں صحیح ھوں گی نہ ہی دوسرا نکاح صحیح ھو گا نیز جب بارش یا کوئی مصیبت ھوتی ھے تو آپ اذان میں کیوں کہتے ھیں کہ الصلواۃ فی بیوتکم لہٰذا اگر ذکر علی ع بدعت ھے تو پھر یہ وغیرہ وغیرہ بھی بدعت شمار ھوں گی تو اب یہ سمجھنا بھی ضروری ھے کہ جس ولایت پر دین مکمل ھوا ھے اس کا اذان جیسی مستحب چیز میں اقرار کیسے بدعت ھو گا کیونکہ اذان ایک ندا ھے نماز کی طرف اس میں اس طرح کے الفاظ کا اضافہ مانع نہیں ھے۔