اس روایت کو مکمل سند کے ساتھ اہل سنت محدث امام خطیب البغدادی (المتوفی ۴۶۳ھ) نے اس طرح نقل کیا ہے :
.
فَأَخبرنَاهُ أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ الْمُقْرِئُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنِ الْفَضْلِ بِالْمَوْصِلِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي الْمُثَنَّى ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الأَسَدِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ الْخُرَاسَانِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ النَّاسَ يَكْثُرُونَ وَأَصْحَابِي يَقِلُّونَ ، وَلا تَسُبُّوا أَصْحَابِي ، لَعَنَ اللَّهُ مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي
.
ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بے شک عام لوگ زیادہ ہے اور میرے صحابہ بہت کم ہے۔ میرے صحابہ کی تنقص (گالی) مت کرو۔ اللہ کی لع نت ہو اس پر جو میرے صحابہ کی تنقص (گالی) کرتا ہے۔
.
اس روایت کو نقل کرنے بعد ہی خطیب بغدادی نے یوں نقل کیا :
.
أخبرنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَحْمَدَ الْوَاعِظُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، يَعْنِي ابْنَ عِيسَى الْوَرَّاقَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ ، قَالَ : قَالَ أَبِي : مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ لَيْسَ بِشَيْءٍ ، حَدِيثُهُ حَدِيثُ أَهْلِ الْكَذِبِ
احمد بن حنبل نے اسکی سند میں ایک راوی محمد بن الفضیل بن عطیہ کے بارے میں کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اسکی حدیث ایسی ہی ہے جیسے جھوٹے لوگوں کی حدیث ہوتی ہے۔




امام احمد بن حنبل (المتوفی ۲۴۱ھ) کا یہ قول انکی کتاب العلل میں بھی موجود ہے۔



امام عقیلی (المتوفی ۳۲۲ھ) نے اپنی کتاب الضعفاء میں اسی عبداللہ بن عمر والی روایت کو ایک اور سند سے نقل کیا اور اسکے بعد یوں لکھا :
.
وفي النهى عن سب أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أحاديث ثابتة الأسانيد من غير هذا الوجه وأما اللعن فالرواية فيه لينة وهذا يروى عن عطاء مرسل
.
اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی تنقص (گالی) نہ کرنے پر احادیث ثابت شدہ سندوں سے منقول ہے مگر اس متن کے ساتھ سے نہیں اور جہاں تک لع نت والی روایات کا تعلق ہے ان میں کمزوری ہے اور یہ عطاء سے مرسلاً نقل ہوئی ہے۔
.



لہذا ثابت ہوا کہ صحابہ کی تنقص پر اللہ کی طرف سے لعنت والی تمام روایات ضعیف ہے اور جس روایت کی صحت کی تصدیق صاحب تحریر نے فرمائی تھی وہ من گھڑت روایت ہے۔
.
.
میرے صحابہ کو برا مت کہو وغیرہ اھل سنت کتب ھی میں ان روایات کی کیا حیثیت ھے جو رسول ﷺ کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو گمراہ کیا جا رھا ھے








.
.
صحابہ پر سب کرنے کی ممانعت کے بارے میں اھل سنت کتب میں احادیث موجود ہے اور کسی انسان پر سب کرنا غیر اخلاقی بھی ہے۔ لیکن کچھ روایات ایسی ہے جنکے مطابق صحابہ پر سب کرنے والے لعنتی ہے اور جہلا ان روایات کو ان افراد کے خلاف استعمال کرتے ہیں جو صحابہ پر علمی تنقید کرتے ہیں۔ ان ہی میں سے سنن ترمذی کی ایک روایت ہے جو اس طرح ہے :
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: ”جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کو برا بھلا کہتے ہوں تو کہو: اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر پر“۔
امام ترمذی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے : یہ حدیث منکر ہے
کتاب کے محقق ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو سخت ضعیف قرار دیا ہے۔

دوسرے نسخے کے محقق زبیر علی زائی نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔

لہذا ثابت ہوا یہ حدیث سخت ترین ضعیف ہے اور اس سے استدلال ہی باطک ہے۔




.
.
کیا صحابہ کو گالی دینا موجب لعنت ہے – ایک روایت کا تحقیقی جائزہ
.
صحابہ پر سب و شتم کرنے کی ممانعت کتب اھل سنت میں آئی ہے بلکہ کسی بھی انسان پر سب کرنا غیر اخلاقی عمل ہے۔ لیکن اھل سنت منابع میں ایک حدیث آتی ہے جس کو کچھ لوگ صحابہ پر علمی تنقید کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ روایت یوں ہے :
” جس نے صحابہ پر سب کیا، اس پر اللہ، ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہو “۔
یہ حدیث تین صحابہ سے منقول ہے اور سب کی سب سخت ضعیف ہے۔

اس روایت کو سلفی عالم ناصر الدین البانی نے حسن قرار دیا۔

اس روایت کی مکمل سند طبرانی نے معجم الکبیر میں نقل کی ہے۔



اس روایت کی سند میں “عبداللہ بن خراش” سخت ضعیف ہے بلکہ اس پر کذب کی جرح بھی آئی ہے۔



لہذا ثابت ہوا کہ ابن عباس سے یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔ البانی کا اسکو حسن قرار دینا عجیب مسئلہ ہے۔



خطیب بغدادی نے اپنی سند سے اسکو انس بن مالک سے نقل کیا ہے۔



لیکن اس سند میں ایک راوی جو انس سے روایت کر رہا ہے ” ابو شبۃ الجوھری، انکا پورا نام یوسف بن ابراھیم تمیمی۔
ابو حاتم الرازی نے انکے بارے میں کہا : یہ ضعیف حدیث ہے، منکر حدیث ہے اور عجائبات نقل کرتا تھا۔

لہذا انس بن مالک سے یہ روایت سخت ضعیف ہے۔



العقیلی نے اپنی سند سے عبداللہ بن سیف کے ترجمے میں اسکو نقل کیا ہے۔
روایت نقل کرنے سے پہلے اسکے ایک راوی عبداللہ بن سیف کے بارے میں یوں لکھتا ہے :
اس نے مالک بن مغول سے ایسی احادیث نقل کی جو محفوظ نہیں ( جن میں غلطی تھی) اور یہ مجہول تھا۔
پھر آگے لکھتا ہے :
اور صحابہ کو سب نہ کرنے پر کافی احادیث ہیں اس روایت کے بغیر۔ جہاں تک تعلق لعنت کا ہے۔ جن روایات میں لعنت آئی ہے وہ عطاء سے مرسلاً نقل ہوئی ہیں۔



یہی بات ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب میں لکھی ہے کہ ابن عمر سے یہ ثابت نہیں بلکہ اصل میں یہ عطاء سے مرسلاً نقل ہوئی ہے (عبداللہ بن سیف نے غلطی سے اسکو عبداللہ بن عمر کی طرف منسوب کیا)۔




یہ روایت ابن ابی عاصم نے کتاب السنۃ میں نقل کی ہے۔
کتاب کے محقق باسم بن فیصل الجوابرہ نے حاشیہ پر لکھا ہے :
اسکی سند مرسل ہے (ضعیف کی ایک قسم)۔



نوٹ : کتاب کے محقق نے حاشیہ پر یہ بھی لکھا کہ اسکے اور شواھد موجود ہے لیکن شواھد کا جائزہ ھم نے اوپر ہی لے لیا ہے۔ ایک ان میں ایک موضوع روایت ہے اور ایک سخت ضعیف۔
لہذا ثابت ہوگیا کہ ان الفاظ کے ساتھ کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔
.
.
مستدرک للحاکم میں موجود صحابہ پر سب نہ کرنے والی ایک روایت کا جائزہ
.
حاکم نیساپوری نے اپنی سند سے نقل کیا کہ عبدالرحمان بن سالم بن عتبۃ بن عویم بن ساعدہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عویم بن ساعدہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :
” بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے چن لیا ، اور میرے لۓ میرے اصحاب کو چن لیا ، پس ان میں سے بعض کو میرے وزیر ، میرے مددگار اور میرے سسرالی رشتہ دار بنایا ۔ پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت ۔ قیامت کے دن نہ اس کا کوئ فرض قبول ہوگا نہ نفل “
حاکم (جو تحکیم میں متساہل) تھے انہوں نے اس پر صحت کا حکم لگایا۔
ذھبی نے بھی آنکھ بند کرکے اسکی موافقت کی۔



عرض ہے کہ اس میں دو علتیں ہیں جنکی وجہ سے یہ روایت ضعیف قرار پائے گی

ابن حجر عسقلانی نے اسکو تقریب میں مجہول قرار دیا۔




ابو حاتم الرازی نے اسکے بارے میں بولا کہ اسکی احادیث صحیح نہیں۔



انکے بارے میں یہی جرح بخاری سے بھی آئی ہے۔
یہ روایت ابن ابی عاصم نے اپنی کتاب میں لائی ہے اور کتاب کے محقق باسم بن فیصل جوابرہ نے اسکی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔



دوسرے نسخے کے محقق ناصر الدین البانی نے بھی اسکو ضعیف قرار دیا ہے۔




ناصر الدین البانی نے اپنی دوسری کتاب میں بھی اسکو ضعیف قرار دیا ہے۔



نور الدین ھیثمی نے بھی اس روایت کے بارے میں لکھا کہ : اسکے راویوں کو میں نہیں جانتا (مجہول)۔



لہذا ثابت ہوا یہ روایت ضعیف ہونی کی وجہ سے مردود ہے۔