اہل سنت کے پہلے دو خلفاء کا اپنی بیویوں کے ساتھ سلوک

اہل سنت اپنے پہلے دو خلفاء کی بڑی تعظیم کرتے ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہےانکا مزاج بہت خراب تھا خصوصاً عورتوں کےحوالے سے ان دونوں کا رویہ اپنی بیویوں کے حوالے سےکچھ اسطرح ہے :
.
⚡ابوبکر بن قحافہ اپنی بیوی کو گالیاں دیتا تھا :
.
محمد بن اسماعیل بخاری (المتوفی ۲۵۶ھ) نے اس طرح نقل کیا ہے :
.
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، ” جَاءَ أَبُو بَكْرٍ بِضَيْفٍ لَهُ أَوْ بِأَضْيَافٍ لَهُ فَأَمْسَى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا جَاءَ قَالَتْ لَهُ أُمِّي : احْتَبَسْتَ عَنْ ضَيْفِكَ أَوْ عَنْ أَضْيَافِكَ اللَّيْلَةَ ، قَالَ : مَا عَشَّيْتِهِمْ ؟ فَقَالَتْ : عَرَضْنَا عَلَيْهِ أَوْ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا أَوْ فَأَبَى ، فَغَضِبَ أَبُو بَكْرٍ فَسَبَّ وَجَدَّعَ وَحَلَفَ لَا يَطْعَمُهُ ، فَاخْتَبَأْتُ أَنَا ، فَقَالَ : يَا غُنْثَرُ فَحَلَفَتِ الْمَرْأَةُ لَا تَطْعَمُهُ حَتَّى يَطْعَمَهُ ، فَحَلَفَ الضَّيْفُ أَوِ الْأَضْيَافُ أَنْ لَا يَطْعَمَهُ أَوْ يَطْعَمُوهُ حَتَّى يَطْعَمَهُ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : كَأَنَّ هَذِهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ، فَدَعَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلَ وَأَكَلُوا فَجَعَلُوا لَا يَرْفَعُونَ لُقْمَةً إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا ، فَقَالَ : يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا ؟ فَقَالَتْ : وَقُرَّةِ عَيْنِي إِنَّهَا الْآنَ لَأَكْثَرُ قَبْلَ أَنْ نَأْكُلَ فَأَكَلُوا ، وَبَعَثَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَنَّهُ أَكَلَ مِنْهَا
.
عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے بیان کیا کہ ابوبکر اپنا ایک مہمان یا کئی مہمان لےکرگھر آئےپھر آپ شام ہی سے نبی کریم ﷺ کے پاس چلے گئے، جب وہ لوٹ کر آئے تو میری والدہ نے کہا کہ آج اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر آپ کہاں رہ گئے تھے۔ابوبکر نے پوچھا کیا تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایاانہوں نے کہا کہ ہم نے تو کھانا ان کے سامنے پیش کیا لیکن انہوں نے انکار کیا۔ یہ سن کر ابوبکر کو غصہ آیا اور انکو گالیاں دی اور ان پر برس پڑھا اور قسم کھا لی کہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں تو ڈر کےمارے چھپ گیا تو آپ نےپکارا کہ اے پاجی! کدھر ہےتو ادھر آ میری والدہ نےبھی قسم کھا لی کہ اگر وہ کھانا نہیں کھائیں گےتو وہ بھی نہیں کھائیں گی اس کےبعد مہمانوں نےبھی قسم کھا لی کہ اگر ابوبکر نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گے۔ آخر ابوبکر نے کہا کہ یہ غصہ کرنا شیطانی کام تھا،پھر آپ نےکھانا منگوایا اور خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھایا (اس کھانے میں یہ برکت ہوئی) جب یہ لوگ ایک لقمہ اٹھاتے تو نیچے سے کھانا اور بھی بڑھ جاتا تھے۔ ابوبکر نے کہا: اے بنی فراس کی بہن! یہ کیا ہو رہا ہے، کھانا تو اور بڑھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک! اب یہ اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ جب ہم نےکھانا کھایا بھی نہیں تھا۔پھر سب نے کھایا اور اس میں سےنبی کریمﷺکی خدمت میں بھیجا، کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بھی اس کھانے میں سے کھایا۔
.
📚حوالہ : [ تسہیل بخاری جلد سوم صحفہ ۴۴۴ نمبر ١٠٧٦ ]
⚡عمر بن خطاب اپنی بیوی کو آدھی رات کو مارتا تھا :
.
ابن ماجہ قزوینی (المتوفی ۲۷۵ھ) نے اس طرح نقل کیا ہے :
.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، والْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ الطَّحَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُسْلِيِّ ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: ضِفْتُ عُمَرَ لَيْلَةً، فَلَمَّا كَانَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ قَامَ إِلَى امْرَأَتِهِ يَضْرِبُهَا، فَحَجَزْتُ بَيْنَهُمَا، فَلَمَّا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ، قَالَ لِي: يَا أَشْعَثُ احْفَظْ عَنِّي شَيْئًا سَمِعْتُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَا يُسْأَلُ الرَّجُلُ فِيمَ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ، وَلَا تَنَمْ إِلَّا عَلَى وِتْرٍ، وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ۔
.
اشعث بن قیس کہتےہیں کہ میں ایک رات عمر بن خطاب کا مہمان ہوا، جب آدھی رات ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو مارنے لگے، تو میں ان دونوں کے بیچ حائل ہوگیا، جب وہ اپنے بستر پہ جانے لگے تو مجھ سے کہا: اشعث! وہ بات جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے تم اسےیاد کرلو”شوہر اپنی بیوی کو مارےتو قیامت کےدن اس سلسلے میں سوال نہیں کیاجائے گا، اور وتر پڑھے بغیر نہ سوؤ“ اور تیسری چیز آپ نے کیا کہی میں بھول گیا۔
📚حوالہ: [ سنن ابن ماجہ جلد سوم روایت ١٩٨٦ ]
اسکی سند حسن ہے۔
لہذا آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا ان دونوں کی سیرت اس قابل ہے کہ اسکی اتباع کی جائے ؟