

(میرا یہ بیٹا سید ہے اور اسکی وجہ اللہ صلح کروائے گا مسلمانوں کے دو گروہوں میں)


.
اس حدیث کو حسن بن ابی الحسن بصری تابعی (ثقہ) نے روایت کیا ہے۔ اور اس سے 11 شاگردوں سے روایت کیا ہے۔
۱ – عوف بن ابی جمیلہ الاعرابی
۲ – داود بن ابی ھند
۳ – ھشام بن حسان
۴ – سہیل بن ابی صلت
۵ – یونس بن عبید
۶ – اشعت بن عبد ملک
۷ – علی بن زید بن جدعان
۸ – منصور بن زاذان
۹ – اسماعیل بن مسلم مکی
۱۰ – مبارک بن فضالہ
۱۱ – ابو موسی اسرائیل بن موسی
.

اسکو روایت کیا ہے نسائی نے اپنی سنن الکبری میں اس سند کے ساتھ :
عن محمد بن عبد الأعلى (ثقہ- المتوفی 245ھ) عن خالد بن الحارث (ثقہ ثبت 120 – 186ھ) عن عوف بن أبي جميلة (ثقہ فیہ لین 59 – 146ھ) عن الحسن أنه قال: بلغني أن رسول الله ﷺ قال للحسن بن علي:
لہذا یہ سند حسن بصری تک حسن ہے سوائے اسکے بعد مرسلاً نقل ہوئی ہے کیونکہ اس نے صیغہ مجہول (بلغنی) استعمال کیا ہے۔
.

نسائی نے سنن الکبری میں اسکو داود بن ھند اور ھشام بن حسان کے طرق کے ساتھ نقل کیا ہے، اسحاق بن راھویہ نے سہل بن ابی صلت کے طرق سے، نعیم بن حماد نے هُشيم بن بشير عن يونس بن عبيد، ان چاروں نے عن الحسن عن النبي ﷺ سے مرسلاً نقل کیا ہے۔
مرسل سند ضعیف ہوتی ہے خصوصاً حسن البصری کی مراسیل۔
.

اسکو روایت کیا ہے ابو داود، ترمذی، طبرانی، حاکم، بہیقی نے اشعت بن عبد ملک سے، احمد بن حنبل، ابو داود، ابوبکر البزار، نسائی، طبرانی اور حاکم نے حماد بن زید عن علی بن زید بن جدعان (ضعیف) سے، طبرانی، الاجری نے اسماعیل بن مسلم مکی (ضعیف متروک) سے، طبرانی نے منصور بن زاذان سے کہ عن الحسن عن أبي بكرة عن النبي ﷺ
ان میں انقطاع ہے کیونکہ حسن البصری مدلس راوی ہے اور ان میں وہ سماع کی تصریح نہیں کرتا ہے۔ لہذا روایت ضعیف قرار پائے گی۔
.

اسکو ابو داود طیالسی، علی بن جعد، طبرانی نے عن مبارك بن فضالة عن الحسن عن (سماع کی تصریح نہیں) أبي بكرة عن النبي ﷺ کے طرق سے نقل کیا ہے۔
اور احمد، ابوبکر البزار، ابن حبان نے اسی کو عن مبارك بن فضالة عن الحسن أنه قال: حدثني (سماع کی تصریح کے ساتھ) أبو بكرة عن النبي کے طرق سے نقل کیا ہے۔
اس طرق میں سماع کی تصریح دراصل مبارک بن فضالہ کے وھم کا نتیجہ ہے کیونکہ وہ اس روایت میں اضطراب کا شکار ہوگیا ہے (ایک جگہ سماع کی تصریح فرمائی ہے تو دوسری جگہ نہیں)۔ ایک جماعت نے اس روایت کو حسن بصری کی سماع کی تصریح کے بغیر نقل کیا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اس مبارک بن فضالہ کی توثیق ایک جماعت نے کی ہے لیکن ساتھ ہی اسکے حافظے پر کلام کیا ہے :
وقال العجلي: كتبتُ حديثه، وليس بالقوي.
امام عجلی نے کہا : اسکی حدیث لکھی جائے گی۔ اور یہ اتنا زیادہ قوی نہیں
وقال الساجي: كان صدوقاً مسلماً خياراً، وكان من النساك، ولم يكن بالحافظ. واتهمه جماعة من الأئمة بالتدليس
ساجی نے ککا : یہ سچا، مسلمان اور اچھا تھا۔ یہ نساکوں میں سے تھا لیکن یہ حافظ نہ تھا، اس پر ائمہ کی ایک جماعت نے تدلیس کا الزام لگایا ہے۔
قال ابن حنبل: ” كان مبارك بن فضالة يرفع حديثاً كثيراً، ويقول في غير حديثٍ عن الحسن ” قال حدثنا عمران “، ” قال حدثنا ابن مغفل “، وأصحاب الحسن لا يقولون ذلك “.
امام احمد بن حنبل نے کہا : یہ مبارک بن فضالی احادیث کو رفع کرتا (مرفوع بناتا ) اور یہ حسن بصری کی احادیث میں بولتا قال حدثنا عمران، قال حدثنا ابن مغفل اور حسن بصری کے باقی شاگرد ایسا بلکل نہ کہتے۔
اس والی مثال میں بھی یہ یہی کر رہا ہے لہذا اسکے سماع کی تصریح پر اعتماد نہیں کیا جا سکھتا ہے کیونکہ یہ ضرور اسکے اوھام کی وجہ سے ہوا ہوگا۔ لہذا مبارک بن فضالہ والے طرق میں دراصل سماع کی تصریح نہیں ہے لہذا یہ طرق بھی حسن البصری کے مدلس ہونے کی وجہ سے ضعیف ہی قرار پائے گا۔
.

اسکو روایت کیا ہے بخاری، حمیدی، ابن حنبل، نسائی نے عن سفيان بن عيينة أنه قال حدثنا أبو موسى (اسرائیل بن موسی) عن الحسن أنه سمع أبا بكرة يقول: سمعت النبي ﷺ کے طرق سے
بخاری نے دوسری جگہ عن عبد الله بن محمد المُسنَدي عن يحيى بن آدم عن حسين بن علي الجعفي عن أبي موسى عن الحسن عن أبي بكرة عن النبي ﷺ کے طرق سے نقل کیا ہے۔
ابن ابی شیبہ اور احمد بن حنبل نے کتاب العلل میں اسکو عن إبراهيم بن زياد سبلان عن حسين بن علي الجعفي، عن أبي موسى عن الحسن عن النبي ﷺ کے طرق سے مرسلاً نقل کیا ہے۔
سفیان بن عیینہ والا طرق سب سے اچھا طرق ہے اس حدیث کے حوالے سے کیونکہ ایک تو اسکی ظاہری سند صحیح ہے اور دوسری یہاں حسن بصری نے ابوبکرہ سے سماع کی تصریح بھی فرمائی ہے لیکن اس میں ایک مخفی علت ہے۔ اس میں سفیان بن عیینہ وھم کا شکار ہوگیا ہے۔ اسکے دلائل یوں ہے :
.



.

.
ان سب قرائن کی نظر کے بعد اس میں کوئی شک نہیں کہ امام یحیی بن معین اور دارقطنی کے اقوال کو ترجیح حاصل ہوگی جنہوں نے حسن بصری کے سماع ی نفی کی ہے ابو بکرہ سے جنکی وفات 51 ہجری میں ہوئی۔
.

.
(ابو اسحاق سے مراد ابراھیم بن زیاد سبلان بغدادی ہے، یہ ثقہ ہے اور انکی وفات 228 ہجری میں ہوئی، حسین بن علی الجعفی کوفی ثقہ ہے، انکی وفات 203 یا 204 ہجری میں ہوئی، ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ بصری صدوق ثقہ ہے)
.
اس قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ حسین بن علی الجعفی نے اس روایت کو ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ سے سنا ، اسی سے سفیان بن عیینہ نے بھی سنا اور اس ابو موسیٰ کی روایت حسن عن نبی ﷺ سے آئی ہے اور اصلاً اس میں کسی صحابی کا ذکر نہیں اور حسن بصری کا کسی صحابی کے سماع کی تصریح تو دور کی بات ہے۔ حسین الجعفی جو سفیان بن عیینہ کے ساتھ داخل ہوا جب انہوں نے یہ روایت ابو موسیٰ سے سنی اور سفیان بن عیینہ نے اسکو حفظ نہیں کیا اور وھم کا شکار ہوکر اس میں ابوبکرہ کے واصلے کا اضافہ کیا جبکہ ابو موسیٰ نے اسکو حسن بصری سے مرسلاً نقل کیا تھا۔
.
ابن ابی شیبہ میں ابراھیم بن زیاد نے اس حدیث میں متابعت کی ہے حسین بن علی الجعفی عن ابو موسیٰ عن حسن عن نبی ﷺ سے مرسلاً روایت کرنے میں۔ پس سفیان کی روایت جہاں ابی موسیٰ عن حسن انه سمع ابا بکرۃ آیا ہے معلول ہے۔ اسی طرح وہ روایت جسکو یحیی بن آدم عن حسین بن علی الجعفی عن ابو موسیٰ عن حسن عن ابی بکرۃ سے روایت کیا گیا ہے وہ بھی معلول ہے۔
اس روایت کو اسی طرح انس بن مالک اور جابر بن عبداللہ انصاری نے نقل کیا ہے اور انکی علتین اسی کتاب میں بیان کی گئی ہے۔
.






