میرا یہ بیٹا سید ہے اور اسکی وجہ اللہ صلح کروائے گا

🎄إنَّ ابني هذا سيدٌ، ولعلَّ اللهَ أن يصلح به بين فئتين من المسلمين🎄
(میرا یہ بیٹا سید ہے اور اسکی وجہ اللہ صلح کروائے گا مسلمانوں کے دو گروہوں میں)
🔍تحقیق : صلاح الدین بن محمد الإدلبی
✒️ترجمہ و ترتیب: ذوالفقار مشرقی
.
اس حدیث کو حسن بن ابی الحسن بصری تابعی (ثقہ) نے روایت کیا ہے۔ اور اس سے 11 شاگردوں سے روایت کیا ہے۔
۱ – عوف بن ابی جمیلہ الاعرابی
۲ – داود بن ابی ھند
۳ – ھشام بن حسان
۴ – سہیل بن ابی صلت
۵ – یونس بن عبید
۶ – اشعت بن عبد ملک
۷ – علی بن زید بن جدعان
۸ – منصور بن زاذان
۹ – اسماعیل بن مسلم مکی
۱۰ – مبارک بن فضالہ
۱۱ – ابو موسی اسرائیل بن موسی
.
👈راوی نمبر 1 (عوف بن ابی جمیلہ الاعربی) :
اسکو روایت کیا ہے نسائی نے اپنی سنن الکبری میں اس سند کے ساتھ :
عن محمد بن عبد الأعلى (ثقہ- المتوفی 245ھ) عن خالد بن الحارث (ثقہ ثبت 120 – 186ھ) عن عوف بن أبي جميلة (ثقہ فیہ لین 59 – 146ھ) عن الحسن أنه قال: بلغني أن رسول الله ﷺ قال للحسن بن علي:
لہذا یہ سند حسن بصری تک حسن ہے سوائے اسکے بعد مرسلاً نقل ہوئی ہے کیونکہ اس نے صیغہ مجہول (بلغنی) استعمال کیا ہے۔
.
👈راوی نمبر 2, 3, 4, 5 (داود بن ابی ھند، ھشام بن حسان، سہل بن ابی صلت، یونس بن عبیدہ) :
نسائی نے سنن الکبری میں اسکو داود بن ھند اور ھشام بن حسان کے طرق کے ساتھ نقل کیا ہے، اسحاق بن راھویہ نے سہل بن ابی صلت کے طرق سے، نعیم بن حماد نے هُشيم بن بشير عن يونس بن عبيد، ان چاروں نے عن الحسن عن النبي ﷺ سے مرسلاً نقل کیا ہے۔
مرسل سند ضعیف ہوتی ہے خصوصاً حسن البصری کی مراسیل۔
.
👈راوی نمبر 6, 7, 8, 9 ( اشعت بن عبد الملک، علی بن زید بن جدعان، منصور بن زاذان، اسماعیل بن مسلم المکی ) :
اسکو روایت کیا ہے ابو داود، ترمذی، طبرانی، حاکم، بہیقی نے اشعت بن عبد ملک سے، احمد بن حنبل، ابو داود، ابوبکر البزار، نسائی، طبرانی اور حاکم نے حماد بن زید عن علی بن زید بن جدعان (ضعیف) سے، طبرانی، الاجری نے اسماعیل بن مسلم مکی (ضعیف متروک) سے، طبرانی نے منصور بن زاذان سے کہ عن الحسن عن أبي بكرة عن النبي ﷺ
ان میں انقطاع ہے کیونکہ حسن البصری مدلس راوی ہے اور ان میں وہ سماع کی تصریح نہیں کرتا ہے۔ لہذا روایت ضعیف قرار پائے گی۔
.
👈راوی نمبر 10 ( مبارک بن فضلہ) :
اسکو ابو داود طیالسی، علی بن جعد، طبرانی نے عن مبارك بن فضالة عن الحسن عن (سماع کی تصریح نہیں) أبي بكرة عن النبي ﷺ کے طرق سے نقل کیا ہے۔
اور احمد، ابوبکر البزار، ابن حبان نے اسی کو عن مبارك بن فضالة عن الحسن أنه قال: حدثني (سماع کی تصریح کے ساتھ) أبو بكرة عن النبي کے طرق سے نقل کیا ہے۔
اس طرق میں سماع کی تصریح دراصل مبارک بن فضالہ کے وھم کا نتیجہ ہے کیونکہ وہ اس روایت میں اضطراب کا شکار ہوگیا ہے (ایک جگہ سماع کی تصریح فرمائی ہے تو دوسری جگہ نہیں)۔ ایک جماعت نے اس روایت کو حسن بصری کی سماع کی تصریح کے بغیر نقل کیا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اس مبارک بن فضالہ کی توثیق ایک جماعت نے کی ہے لیکن ساتھ ہی اسکے حافظے پر کلام کیا ہے :
وقال العجلي: كتبتُ حديثه، وليس بالقوي.
امام عجلی نے کہا : اسکی حدیث لکھی جائے گی۔ اور یہ اتنا زیادہ قوی نہیں
وقال الساجي: كان صدوقاً مسلماً خياراً، وكان من النساك، ولم يكن بالحافظ. واتهمه جماعة من الأئمة بالتدليس
ساجی نے ککا : یہ سچا، مسلمان اور اچھا تھا۔ یہ نساکوں میں سے تھا لیکن یہ حافظ نہ تھا، اس پر ائمہ کی ایک جماعت نے تدلیس کا الزام لگایا ہے۔
قال ابن حنبل: ” كان مبارك بن فضالة يرفع حديثاً كثيراً، ويقول في غير حديثٍ عن الحسن ” قال حدثنا عمران “، ” قال حدثنا ابن مغفل “، وأصحاب الحسن لا يقولون ذلك “.
امام احمد بن حنبل نے کہا : یہ مبارک بن فضالی احادیث کو رفع کرتا (مرفوع بناتا ) اور یہ حسن بصری کی احادیث میں بولتا قال حدثنا عمران، قال حدثنا ابن مغفل اور حسن بصری کے باقی شاگرد ایسا بلکل نہ کہتے۔
اس والی مثال میں بھی یہ یہی کر رہا ہے لہذا اسکے سماع کی تصریح پر اعتماد نہیں کیا جا سکھتا ہے کیونکہ یہ ضرور اسکے اوھام کی وجہ سے ہوا ہوگا۔ لہذا مبارک بن فضالہ والے طرق میں دراصل سماع کی تصریح نہیں ہے لہذا یہ طرق بھی حسن البصری کے مدلس ہونے کی وجہ سے ضعیف ہی قرار پائے گا۔
.
👈راوی نمبر 11 (ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ) :
اسکو روایت کیا ہے بخاری، حمیدی، ابن حنبل، نسائی نے عن سفيان بن عيينة أنه قال حدثنا أبو موسى (اسرائیل بن موسی) عن الحسن أنه سمع أبا بكرة يقول: سمعت النبي ﷺ کے طرق سے
بخاری نے دوسری جگہ عن عبد الله بن محمد المُسنَدي عن يحيى بن آدم عن حسين بن علي الجعفي عن أبي موسى عن الحسن عن أبي بكرة عن النبي ﷺ کے طرق سے نقل کیا ہے۔
ابن ابی شیبہ اور احمد بن حنبل نے کتاب العلل میں اسکو عن إبراهيم بن زياد سبلان عن حسين بن علي الجعفي، عن أبي موسى عن الحسن عن النبي ﷺ کے طرق سے مرسلاً نقل کیا ہے۔
سفیان بن عیینہ والا طرق سب سے اچھا طرق ہے اس حدیث کے حوالے سے کیونکہ ایک تو اسکی ظاہری سند صحیح ہے اور دوسری یہاں حسن بصری نے ابوبکرہ سے سماع کی تصریح بھی فرمائی ہے لیکن اس میں ایک مخفی علت ہے۔ اس میں سفیان بن عیینہ وھم کا شکار ہوگیا ہے۔ اسکے دلائل یوں ہے :
.
🔸️اول : اگر واقعی میں حسن بصری نے یہ حدیث ابوبکرہ سے لی ہوتی تو وہ بلغنی والا صیغہ کیوں استعمال کرتے ؟
🔸️دوم : حسن بصری کے 9 شاگروں نے اس روایت کو حسن بصری سے مرسلاً نقل کیا ہے یا ابوبکرہ عن نبی ﷺ سے سماع کی تصریح کے بغیر نقل کیا ہے۔
🔸️سوم : اس طرق جس میں حسن بصری کے سماع کی تصریح ابو بکرہ سے ہو رہی ہے مجموعی قرائن کے خلاف ہے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انکا سماع ثابت نہیں، وہ اس لئے کیونکہ حسن بصری خراسان میں ایک مدت تک رہا اور وہ ربیع بن زیاد حارثی کے لئے کاتب کا کام کرتا تھا جو خراسان کا حاکم تھا۔ کسی نے اسکا ذکر نہیں کیا کہ اس نے ربیع کی زندگی میں ہی کتابت ترک کی ہو ۔ ربیع کی وفات 51 ہجری میں ہوئی لہذا حسن بصری 51 ہجری کے بعد ہی بصرہ آگئے اور یہ بھی معلوم ہے کہ ابوبکرہ کی وفات بصرہ میں 51 یا کچھ کے نزدیک 52 ہجری کو ہوئی تھی لہذا حسن بصری نے اس سے سماع حاصل ہی نہیں کیا۔
.
🔸️اسکی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حسن بصری نے بصر آنے پر صرف ان صحابہ سے سماع حاصل کیا جنکی وفات 57 ہجری یا اسکے بعد کی ہے مثلاً حسن بصری نے عبداللہ بن مغفل سے سماع حاصل کیا جسکی وفات 57 ہجری کو ہوئی ، سمرہ بن جندب سے سماع حاصل کیا جسکی وفات 58 ہجری کو ہوئی، ابو برزہ اسلمی سے حاصل کئا جسکی وفات 60 ہجری کو ہوئی۔ ابن مدائنی کے مطابق اس نے عائد بن عمرو سے سماع حاصل ہی نہیں کیا جو 61 ہجری میں فوت ہوگئے تھے، ابو حاتم کے نزدیک اسکا سماع معقل بن یسار ثابت نہیں جسکی وفات 60 ہجری میں ہوئی، جہاں تک عمران بن حصین کا تعلق ہے جسکی وفات 52 ہجری میں ہوئی اس سے بھی سماع کی نفی ائمہ محدثین کی ایک جماعت نے کی ہے مثلاً یحیی بن سعید القطان، ابن مدائنی، ابن معین، احمد بن حنبل اور ابو حاتم۔
.
ان سب قرائن کی نظر کے بعد اس میں کوئی شک نہیں کہ امام یحیی بن معین اور دارقطنی کے اقوال کو ترجیح حاصل ہوگی جنہوں نے حسن بصری کے سماع ی نفی کی ہے ابو بکرہ سے جنکی وفات 51 ہجری میں ہوئی۔
.
🔸️اس سفیان بن عیینہ والے طرق کے علل (ضعف) کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے اور شک یقین میں تبدیل ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو سفیان بن عیینہ کے ساتھ سماع حدیث کے لے ابو موسیٰ کے پاس آئے انہوں نے انکی روایت کردہ سند کو اسکی خطا قرار دیا ہے۔ احمد بن حنبل نے اپنی کتاب العلل و معرفہ الرجال میں روایت کیا ہے کہ ان سے ابراھیم بن زیادہ سبلان نے نقل کیا ہے کہ حسین الجعفی نے فرمایا کہ ابو موسی نے خبر دی کہ حسن بصری نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا یہ بیٹا یعنی حسن بن علیؑ سید ہے، اور اسکی وجہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح ہوگی۔ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے ان (حسین الجعفی) سے پوچھا کہ سفیان بن عیینہ اسکو عن ابی بکرۃ سے روایت کرتا ہے۔ پس انہوں نے جواب دیا : اللہ کی قسم اس نے اس روایت کو حفظ نہیں کیا ہے۔ میں سفیان کی موجودگی میں ابو موسیٰ کے پاس داخل ہوا اور وہ اپنے دروازہ پر تھا۔
.
(ابو اسحاق سے مراد ابراھیم بن زیاد سبلان بغدادی ہے، یہ ثقہ ہے اور انکی وفات 228 ہجری میں ہوئی، حسین بن علی الجعفی کوفی ثقہ ہے، انکی وفات 203 یا 204 ہجری میں ہوئی، ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ بصری صدوق ثقہ ہے)
.
اس قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ حسین بن علی الجعفی نے اس روایت کو ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ سے سنا ، اسی سے سفیان بن عیینہ نے بھی سنا اور اس ابو موسیٰ کی روایت حسن عن نبی ﷺ سے آئی ہے اور اصلاً اس میں کسی صحابی کا ذکر نہیں اور حسن بصری کا کسی صحابی کے سماع کی تصریح تو دور کی بات ہے۔ حسین الجعفی جو سفیان بن عیینہ کے ساتھ داخل ہوا جب انہوں نے یہ روایت ابو موسیٰ سے سنی اور سفیان بن عیینہ نے اسکو حفظ نہیں کیا اور وھم کا شکار ہوکر اس میں ابوبکرہ کے واصلے کا اضافہ کیا جبکہ ابو موسیٰ نے اسکو حسن بصری سے مرسلاً نقل کیا تھا۔
.
ابن ابی شیبہ میں ابراھیم بن زیاد نے اس حدیث میں متابعت کی ہے حسین بن علی الجعفی عن ابو موسیٰ عن حسن عن نبی ﷺ سے مرسلاً روایت کرنے میں۔ پس سفیان کی روایت جہاں ابی موسیٰ عن حسن انه سمع ابا بکرۃ آیا ہے معلول ہے۔ اسی طرح وہ روایت جسکو یحیی بن آدم عن حسین بن علی الجعفی عن ابو موسیٰ عن حسن عن ابی بکرۃ سے روایت کیا گیا ہے وہ بھی معلول ہے۔
اس روایت کو اسی طرح انس بن مالک اور جابر بن عبداللہ انصاری نے نقل کیا ہے اور انکی علتین اسی کتاب میں بیان کی گئی ہے۔
.
🌼خلاصہ کلام : یہ ابوبکرۃ والی روایت دراصل معلول ہے اور علت اس میں ارسال ہے۔ یہ حسن بصری کے مراسیل میں سے ہے جو ضعیف ہوتی ہے۔ انس بن مالک والی روایت کی سند بھی خراب ہے اور جابر والی سند بھی ضعیف ہے۔ لہذا یہ حدیث ضعیف ہے۔