جی ہاں

.
جیسا کہ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب الإصابه میں لکھتے ہیں کہ :


پھر لکھتے ہیں کہ:







۔











ابن حجر نے لکھا ہے کہ ابن ملجم میں صحابی ہونے کی شرط پائی جاتی ہے لیکن ہم کو اسے صحابہ میں شامل نہیں کرنا چاہیے
اسی طرح ذھبی لکھتا ہے کہ













*نتیجہ*
اہل سنت کے ہاں سارے صحابہ جنتی ہیں
اور ابن ملجم صحابی ہے

× اہلسنت عالم دین ابن حزم کا فیصلہ: امیر المؤمنین ع کا قتل بھی ‘اجتہاد’ کا نتیجہ تھا×
.
ابن حزم فقیہ اہلسنت اف اندلس کا قول ملاحظہ کیجئے:





ابن تیمیہ نے نص کے مقابلہ میں اجتہاد کرتے ہوئے کہا کہ

گویا اسکا فعل اجتہادی تھا اور اگر اجتہاد غلط بھی ہو تو اجر (ثواب) ملتا ہے۔

اس امت کا سب سے بڑا بد بخت عبدالرحمان بن ملجم بھی فقیہ تھا اور اس کی فقاہت کے گواہ حضرت عمر ہیں۔
.
چنانچہ امام ذہبی لکھتے ہیں:
.
یہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے قران اور فقہ سیکھی تھی ، اس نے قرآن سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے سیکھا تھا۔ اس لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تھا:
.


.


.
ابن ملجم کا تاریخی پس منظر
ابن سعد کی تحریر کے مطابق


.
عمر بن خطاب نے اپنے ایک خط کے ذریعے عمرو عاص کو حکم دیا کہ مسجد کے پاس کی وسیع و عریض زمینوں کو ابن ملجم کے نام کریں اور اسے مصر میں معلم قرآن کی مسند پر بٹھائیں۔ عمرعاص نے اس حکم کے بعد ابن ملجم کو اپنے خاص آدمیوں میں سے قرار دیتے ہوئے خلیفہ کے حکم پر عمل کیا

.
ابن ملجم مصر میں ایک مسجد کا متولی بن گیا

.
اور مصر کے معروف لوگوں کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا شروع ہو گیا

.
بعض کا کہنا ہے کہ ابن ملجم نے معاذ بن جبل سے قرآن سیکھا اور اس کے بعد مصر میں معلم قرآن کے عنوان سے معروف ہوا۔

.
ان روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابن ملجم گروہ منافقین کے سرغنوں سے بہت گہرا تعلق رکھتا تھا اور جیسا کہ کعب الاحبار ار زید بن ثابت جو یہودی تھے خلیفہ ثانی کے نزدیک مفسر و معلم قرآن کی حیثیت رکھتے تھے ابن ملجم بھی مصر میں مفسر و معلم قرآن کے عنوان سے معروف ہو گیا۔
.
حضرت علی (ع) کے ساتھ منافقانہ بیعت
.
وہ شخص جو سن بیس ہجری (فتح مصر) سے عمرو عاص کے ساتھ ساتھ اس کے قریبی دوستوں میں سے رہا ہو، امیر المومنین (ع) کے ظاہری مسند خلافت پر آنے کے بعد کوفہ پہنچ جائے اور حضرت علی کی بیعت کرے؟!! ابن سعد اور دیگر مورخین کے نقل کے مطابق حضرت علی (ع) نے کئی بار اس کی بیعت کو قبول نہیں کیا اور اپنی شہادت کی طرف اشارہ کیا: :
.
« دعا علي بن أبي طالب الناس إلى البيعة فجاءه ابن ملجم فرده ثم جاءه فرده ثم جاءه فبايعه ثم قال علي: ما يحبس أشقاها أما والذي نفسي بيده لتخضبن هذه – وأخذ بلحيته – من هذه – وأخذ برأسه.» (12)
.
بعض مورخین نے ابن ملجم کو حضرت علی (ع) کے چاہنے والوں میں شامل کرتے ہوئے اسے جنگ صفین کے حضرت علی کے لشکر میں سے قرار دیا ہے(۱۳) حالانکہ معتبر تاریخی کتابوں سے اس کا جنگ صفین میں لشکر امیر المومنین میں ہونا ثابت نہیں ہے بلکہ اسے صرف خوارج میں سے قرار دیا گیا ہے۔

.
ابن سعد اس کام کی علت کو انتقام ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جنگ نہروان میں امام علیؑ کے ہاتھوں خوارج کی شکست کے بعد وہاں سے جان بچا کر بھاگنے والوں میں سے تین افراد عبدالرحمن بن ملجم، برک بن عبداللہ تمیمی اور عمرو بن بکیر تمیمی مکہ میں جمع ہوئے اور کافی بحث و مباحثے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک ہی وقت میں حضرت علیؑ، معاویہ اور عمرو بن عاص تینوں کو قتل کیا جائے گا۔ عبدالرحمن ابن ملجم نے حضرت علیؑ کو شہید کرنے کی
.
ذمہ داری قبول کی اور اسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے وہ کوفہ آیا اور اپنے خوارجی ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کی۔ اس دوران اس کی ملاقات شجنۃ بن عدی کی بیٹی قطام سے ہوئی پہلی نظر میں اس کا عاشق ہو گیا اور اس سے شادی کرنے کیلئے پیغام بھیجا۔ قطام جس کا باپ اور بھائی جنگ نہروان میں مارے گئے تھے، ابن ملجم کی درخواست کو قبول کرتی ہے لیکن شادی کیلئے اس نے شرط رکھ دی کہ حضرت علیؑ کو قتل کیا جائے۔
.




قارئین ناصبی دو اسکین جات پیش کرتا ہے جسمیں یہ اعتراضات ہیں
اول:
شیعہ کتاب الارشاد میں شیعہ محدث شیخ مفید لکھتا ہے کہ ابن ملجم نے مولا علی رض کی بیعت کی تھی اور مولا علی رض نے ابن ملجم سے اس بیعت کو نبھانے کا عہد بھی لیا تھا اور جب اس نے مولا علی رض سے ایک سواری کا مطالبہ کیا تو مولا علی رض نے ابن ملجم کو ایک اشقر نامی گھوڑا تحفہ میں دیا


دوم:
جب ابن ملجم لعنی کو حضرت علی رض پر حملہ کے بعد گرفتار کیا گیا تو امام حسن رض نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا اے ابن ملجم بدبخت لعنتی تو نے امیر المومنین کو قتل کردیا ہے کیا یہ ان احسانات کا بدلہ ہے جو امیر المومنین رض نے تم پر کئے تھے ابن ملجم خاموش کھڑا تھا پھر حضرت علی رض نے انکھیں کھولیں اور فرمایا اے ابن ملجم کیا میں تیرا ایک اچھا امام نہیں تھا کیا میرے تم پر احسانات بھلانے کے قابل تھے؟


جواب: اس سے موصوف ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ “ابن ملجم شیعہ تھا” اور اس “شیعہ” نے امیر المومنین علیہ السلام کو شہید کیا لیکن یہاں کہی بھی ایسی بات نہیں لکھی بلکہ امیر المومنین علیہ السلام کے احسانات جو “ابن ملجم” پر کئے تھے تو اس سے اس کا “شیعہ” ہونا تو دور کی بات ہے “بلکہ اس کا مسلمان ہونا بھی ثابت نہیں” کیونکہ رسول ﷺوآلہ نے ایک غیر مسلم یہودی حکمران کا تحفہ لیا بھی اور ایلچی کے ہاتھ ایک چادر بھی بھجوائی الفاظ روایت یوں ہیں:

حوالہ : [صحیح مسلم – رقم ۱۳۹۲]
یاد رہے کہ یہ ایلچی رسول ﷺوآلہ سے مصالحت کرنے ہی آیا تھا اور اس کے بعد رسول ﷺوآلہ نے ایک تحریر بھی لکھ کر دی اور جزیہ وغیرہ کے معاملات بھی طے ہوئے۔ دیکھئے علامہ مبارکپوری بھی یہی بات اپنی شہرت آفاق سیرت میں لکھتے ہیں:

حوالہ: [ الرحیق المختوم – ص ۳۷۰ و دیگر سیرت کی کتب ]
تبصرہ: قارئین کافروں کو بھی تحفہ وغیرہ دئے جاتے ہیں تو اس سے ان کے اسلام کا اثبات نہیں ہوتا، چنانچہ اگر “ابن ملجم ملعون” کو امام علیہ السلام نےکچھ دیاتو یہ اسلام کی وہ بہترین تعلیمات کے مطابق تھاکہ جس میں لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک کا عمومی حکم ہے۔ جب ہی رسولﷺوآلہ نے ابن ابی مشہور منافق کے مرنے کے بعد بھی اہلسنت کی روایات کے مطابق اپنی چادر دی۔



عظیم شیعہ محدث و فقیہ جناب شیخ مفید نے اپنی مشہور زمانہ کتاب الارشاد میں ابن ملجم کی موت کے بارے میں نقل کیا ھے
قال فلما قضی امیر المومنین ع و فرع اھلہ من دفنہ جلس الحسن ع وامر أن یوتی بابن ملجم فجی بہ فلما وقف بین یدیہ قال لہ یا عدو اللہ قتلت امیر المومنین واعظمت الفساد فی الدین ثم امرہ فضربت عنقہ واستومیت ام الھیثم بنت الاسود النخیعة لتسۏلی احراقھا فوھبھا لھا فاحرقتھا بالنار
۔ آپ کی شہادت کے بعد ابن ملجم کو قصاص کی خاطر امام حسنؑ کے پاس لایا گیا اور انھوں نے بھی تلوار کے ایک ہی وار سے اس سے قصاص لیا اور یہ واقعہ 21 رمضان المبارک کو پیش آیا۔ اور ام الہیثم ابو اسود نخعی کی بیٹی نے اس کے جنازے کو آگ لگائ تھی
الارشاد فی معرفتہ بحجج اللہ علی العباد ج 1 ص 22
