*اہل سنت متعصب افراد تقیہ کے معنی جھوٹ اور منا فقت کے بیان کرتے ہیں، آئیں دیکھتے ہیں امام بخاری تقیہ کے کیا معنی بیان کررہے ہیں*
.
صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3. سورة آلِ عِمْرَانَ:
باب: سورۃ آل عمران کی تفسیر۔





قرآن مجید میں تقیہ کے جواز پر واضح آیت موجود ھے ملاحظہ فرمائیں
.
*لَا یَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَلَیۡسَ مِنَ اللّٰہِ فِیۡ شَیۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡہُمۡ تُقٰىۃً ؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفۡسَہٗ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡر…..*
ترجمہ:” مومنوں کو چاہئے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو سرپرست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے، اس کا الله سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگر تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لئے کوئی طرز عمل اختیار کرو (تو اس میں مضائقہ نہیں) اور الله تمہیں اپنے (غضب) سے ڈراتا ھے اور بازگشت الله ہی کی طرف ھے”
.
*[سورہ آل عمران آیت 28]*


.
اب اس آیت سے واضح ھے کہ جب جان و مال اور عزت و ناموس کی پامالی کا خطرہ ھو تو تقیہ کا دروازہ کھلا ھوا ھے اور یہ ایک ضرورت رہی ھے اگر ہم تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو اس کا واضح ثبوت ملتا ھے ھم آگے بطور نمونہ کچھ ثبوت نقل کریں گے
.

یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری اور امام مسلم نے اسے نقل نہیں کیا۔





اس روایت کو امام اہلسنّت امام ذہبی نے بھی صحیح کہا ہے۔






















نیز ایک اور مقام پر تقیہ کے جواز پر آیت موجود ھے ملاحظہ فرمائیں
.
*مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ وَ لٰکِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡکُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ…..*
ترجمہ؛”جو شخص اپنے ایمان کے بعد الله کا انکار کرے (اس کے لئے سخت عذاب ھے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں) لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پر الله کا غضب ھے اور ان کے لئے بڑا عذاب ھے”
.
*[سورہ نحل آیت 106]*

اب آتے ہیں پیش کردہ روایات کی تفسیر کی طرف
.
تمام مفسرین کا اتفاق ھے کہ یہ آیت [سورہ نحل آیت 106] تقیہ کے جواز پر نازل ھوئی













حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کا ایک مشہور واقعہ ھے
جب ان کے والدین کو کفر پر مجبور کیا گیا تو انہوں نے انکار کیا جس کے باعث ان کو شہید کر دیا گیا لیکن حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ نے اپنی جان بچانے کیلئے کفار کے کہنے پر زبان سے چند کلمات کہے جس کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا جب حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوئے تو گھبراتے ھوئے سارا واقعہ سنایا تو رسول الله ص نے کہا کیا تمہارا دل ایمان پر مطمئن تھا یعنی کیا تم نے دل سے ان کلمات کا اظہار کیا یا فقط زبان سے تو حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ نے کہا کہ یا رسول الله: فقط زبان سے اظہار کیا دل میں ایمان تھا تو رسول الله ص نے فرمایا: مجبوری میں تم کہہ سکتے ھو کوئی حرج نہیں ، اب یہ واقعہ تقریباً اکثر مفسرین و محدثین نے نقل کیا ھے بطور نمونہ ایک روایت پیش خدمت ھے
.
*أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمْدَانَ الْجَلَّابُ بِهَمْدَانَ، ثَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ الرَّقِّيُّ، ثَنَا أَبِي، ثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَخَذَ الْمُشْرِكُونَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ فَلَمْ يَتْرُكُوهُ حَتَّى سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ آلِهَتَهُمْ بِخَيْرٍ ثُمَّ تَرَكُوهُ، فَلَمَّا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَا وَرَاءَكَ؟ ” قَالَ: شَرٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تُرِكْتُ حَتَّى نِلْتُ مِنْكَ، وَذَكَرْتُ آلِهَتَهُمْ بِخَيْرٍ قَالَ: ” كَيْفَ تَجِدُ قَلْبَكَ؟ ” قَالَ: مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ قَالَ: ” إِنْ عَادُوا فَعُدْ ”…..*
*[هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ.]*
.
ترجمہ:”حضرت محمد بن عمار بن یاسر رضی الله عنہ کا بیان ھے کہ کفار نے حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کو گرفتار کر لیا پھر انہوں نے آپ رض کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک حضرت عمار بن یاسر رض نے رسول الله ص کی شان میں نازیبا کلمات اور ان کے بتوں کے حق میں اچھے کلمات نہیں کہہ دیئے تو پھر انہوں نے آپ کو رہا کر دیا ، جب وہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوئے تو سارا ماجرا کہہ سنایا تو آپ ص نے فرمایا: تم اپنے دل کو کیسا پاتے ھو؟ انہوں نے کہا میرا دل ایمان پر مطمئن ھے تو آپ ص نے فرمایا: اگر دوبارہ بھی ایسا کہنے کی مجبوری آن پڑے تو کہہ سکتے ھو”
.
یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کے معیار کے مطابق صحیح ھے لیکن شیخین نے اس کو نقل نہیں کیا۔
*[المستدرک علی الصحیحین / کتاب: تفسیر القرآن / حدیث 3362]*


*تقیہ اور امام بخاری*
امام بخاری نے صحیح بخاری شریف میں كِتَاب الْإِكْرَاهِ کے نام سے پورا ایک باب باندھا ھے اور اس میں امام بخاری یہی مندرجہ بالا تقیہ والی دونوں آیات لے کر آئے ھیں اور امام حسن بصری کا قول بھی نقل کیا ھے کہ تقیہ قیامت تک جائز ھے ملاحظہ فرمائیں:
.
*وَقَالَ: {إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً} وَهْيَ تَقِيَّةٌ وَقَالَ: {إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلاَئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ} إِلَى قَوْلِهِ: {عَفُوًّا غَفُورًا} وَقَالَ: {وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا} فَعَذَرَ اللَّهُ الْمُسْتَضْعَفِينَ الَّذِينَ لاَ يَمْتَنِعُونَ مِنْ تَرْكِ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ، وَالْمُكْرَهُ لاَ يَكُونُ إِلاَّ مُسْتَضْعَفًا غَيْرَ مُمْتَنِعٍ مِنْ فِعْلِ مَا أُمِرَ بِهِ. وَقَالَ الْحَسَنُ التَّقِيَّةُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِيمَنْ يُكْرِهُهُ اللُّصُوصُ فَيُطَلِّقُ لَيْسَ بِشَيْءٍ، وَبِهِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَابْنُ الزُّبَيْرِ وَالشَّعْبِيُّ وَالْحَسَنُ. وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ»……*
.
ترجمہ:”اور سورۃ آل عمران میں فرمایا یعنی ”یہاں یہ ہو سکتا ھے کہ تم کافروں سے اپنے کو بچانے کے لئے کچھ بچاؤ کر لو ظاہر میں ان کے دوست بن جاؤ یعنی تقیہ کرو“ اور سورۃ نساء میں فرمایا ”بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ھے جب فرشتے قبض کرتے ھیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے وہ بولیں گے کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے اور ہمارے لئے اپنے قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کر دے“ آخر آیت تک۔ امام بخاری رحمہ الله نے کہا اس آیت میں الله تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو الله کے احکام نہ بجا لانے سے معذور رکھا اور جس کے ساتھ زبردستی کی جائے وہ بھی کمزور ہی ہوتا ھے کیونکہ الله تعالیٰ نے جس کام سے منع کیا ھے وہ اس کے کرنے پر مجبور کیا جائے *اور امام حسن بصری نے کہا کہ تقیہ کا جواز قیامت تک کے لئے ھے* اور ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا کہ جس کے ساتھ چوروں نے زبردستی کی ہو (کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے) اور پھر اس نے طلاق دے دی تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی یہی قول ابن زبیر، شعبی اور حسن کا بھی ہے اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ھیں”
*[ صحيح البخاري/ كِتَاب الْإِكْرَاهِ / حدیث: 6940]*
.
نیز پھر اسی روایت کا حصہ ھے جس میں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم مجبور مسلمانوں کے حق میں دعا فرما رھے ھیں یعنی مجبور وہ لوگ جو تقیہ کی حالت میں زندگی بسر کر رھے ھیں ملاحظہ فرمائیں:
*حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ” أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو فِي الصَّلَاةِ: اللَّهُمَّ أَنْجِ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَالْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، وَابْعَثْ عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ”…..*
ترجمہ:”ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے خالف بن یزید نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی ہلال بن اسامہ نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نماز میں دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عیاش بن ابی ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن الولید (رضی اللہ عنہم) کو نجات دے۔ اے الله بے بس مسلمانوں کو نجات دے۔ اے الله قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ پیس ڈال اور ان پر ایسی قحط سالی بھیج جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں آئی تھی”
*[صحيح البخاري / كِتَاب الْإِكْرَاهِ / حدیث: 6940]*
.




*حضرت عمار بن یاسر رض کا تقیہ کرنا*
اس کے علاوہ کثیر روایات ھیں جو اس پر دلالت کرتی ھیں لیکن ھم اختصار کو مد نظر رکھتے ھوئے فقط چند نمونے پیش کرتے ھیں:
.
حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کا تقیہ کرنا اہلسنت کی چند معتبر کتب احادیث و تفاسیر میں ملاحظہ فرمائیں:
.




















.
.
*امام شافعی اور تقیہ*
.
علامہ نظام الدین نیشاپوری تقیہ پر بحث کرتے ھوئے اہلسنت والجماعت کے مشہور امام اور فقہ شافعی کے بانی امام شافعی رح کے بارے میں نقل کرتے ھیں:
*ومنها أن الشافعی جوز التقیة بین المسلمین کما جوّزها بین الکافرین محاماة على النفس. ومنها أنها جائزة لصون المال على الأصح کما أنها جائزة لصون النفس…..*
“امام شافعی نے مسلمانوں کے درمیان تقیہ کو جائز قرار دیا ھے جیسا کہ کافروں کے درمیان تقیہ جان کی حفاظت کی خاطر جائز ھے ، جیسا کہ اپنی جان کی حفاظت کے لئے تقیہ جائز ھے اسی طرح مال کی حفاظت کے لئے تقیہ جائز ھے”
.
*[تفسیر غرائب القران و رغائب الفرقان / علامہ نظام الدین نیشاپوری ، جلد 2 ، صفحہ 140 / دار الکتب العلمیة]*



*امام حسن بصری کے نزدیک تقیہ قیامت تک جائز ھے*
.
اہلسنت کی متعدد کتب میں امام حسن بصری کا قول موجود ھے کہ تقیہ قیامت تک جائز ھے بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
.
*وروى عوف عن الحسن أنه قال: التقیة جائزة إلى یوم القیامة. وهذا أرجح عند الأئمة…..*
“عوف نے حسن بصری سے روایت نقل کی ھے حسن بصری نے کہا کہ تقیہ قیامت تک جائز ھے اور یہی ائمہ کے ہاں راجح ھے”
.
*[صحیح بخاری ، جلد 3 ، کتاب الاکراہ ، صفحہ 812 / تفسیر غرائب القران و رغائب الفرقان ، علامہ نظام الدین النیشاپوری ، جلد 2 ، صفحہ141 ، دار الکتب العلمیة / تفسیر ابن کثیر ، حافظ ابن کثیر ، تفسیر سورہ آل عمران آیت 28 ، پارہ 3 ، الصفحہ 419 / تفسیر درالمنثور ، امام جلال الدین السیوطی ، تفسیر سورہ آل عمران آیت 28 ، جلد 2 ، صفحہ 47 / تفسیر قرطبی امام ابو عبد الله محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی ، جلد 2 ، صفحہ 577 ، تفسیر سورہ آل عمران آیت 28 / تفسیرِ کبیر ، فخرالدین رازی ، تفسیر سورہ آل عمران آیت 28 ، جلد 8 ، صفحہ 14]*












حدیث : لا دين لمن لا تقية له – اہل سنت مصادر سے
.
* لا ایمان لمن لا تقیہ لہ * یہ ایک ایسا قول ہے جس کو لے کر شیعوں کے خلاف مولوی حضرات بڑا پروپیگنڈا کرتے ہیں اور یہ بات باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شیعہ کا دین بجز تقیہ کے کچھ اور نہیں لیکن کیا ان ملاؤں کو معلوم ہے کہ بالکل یہی قول ان کی کتب میں بھی موجو د ہے۔
.
چنانچہ ابن ابی شیبہ نقل کرتے ہیں:





کیا کہینگے اہلسنت اپنے چوتھے خلیفہ کے بیٹے کے بارے ، کیا انہوں نے بھی کذب و نفاق (بقول اہلسنت تقیہ کذب و نفاق ہے) کو جائز قرار دیا
.
اہل سنت محدث شیرویۃ بن شہردار بن شیرویہ (المتوفی ۵۰۹ھ) نے اپنی کتاب میں یوں نقل کیا :


حاشیہ پر محقق نے اسکی مکمل سند نقل کی ہے ابن حجر عسقلانی کی کتاب “كتاب زهر الفردوس – الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس (۴/۲۴۴) ” سے اس طرح نقل کی ہے :




اس روایت کو حمزہ بن یوسف السھمی (المتوفی ۴۲۷ھ) نے بھی اس حدیث کو حارث الجرجانی کے احوال میں اسی سند سے نقل کیا ہے لیکن وہاں مطبوع نسخے میں غلطی سے ” تقية ” کے بدلے ” ثقة ” لکھا گیا ہے۔
الحارث الجرجاني صاحب راية علي بن أبي طالب





الفردوس بمأثور الخطاب کے قلمی نسخوں میں صاف طور پر لفظ تقیہ ہی آیا ہے جیسا کہ جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية والے نسخے میں صاف طور پر دیکھا جا سکھتا ہے۔ اسکا عکس لگایا گیا ہے اور اس مخطوط کا پی ڈی ایف یہاں ڈاونلوڈ ہو سکھتا ہے۔

.





شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اعتراف حقیقت کرتے ہوئےہیں:
“باید دانست تقیہ دراصل مشروع است بدلیل آیت قرآنی”
جاننا چاہئے کہ تقیہ کرنا دراصل مشروع(عین شریعت) ہے اس قرآنی آیت کے دلیل کی بنا پر۔
(تحفہ اثنا عشریہ صفحہ368 طبع دہلی ہند)

