سب شیخین کفر نہیں

*اہل سنت فقہ میں صحابہ کو بر ا کہنا، گا لی دینا، یہاں تک کے ق ت ل کردینا بھی اہلسنت کے نزدیک ک ف ر نہیں۔*
“سب شیخین کفر نہیں اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ کا مذہب ہے۔”
مجموعہ الفتاوی مولانا ابوالحسنات عبدالحئی لکھنوی۔
“محققین حنفیہ شیعہ تبرا گو اور منکر خلفاء ثلاثہ کو کافر نہیں کہتے۔”
فتاوی دارالعلوم دیوبند مفتی اعظم مولانا عزیز الرحمن
“صحابہ کی تکفیر کرنا گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص اہل سنت والجماعت سے خارج نہیں ہوگا۔”
فتاوی رشیدیہ مولانا رشید احمد گنگوہی
.
⚔کیا صحابہ کو گالی دینے والا رافضی کافر ہے – استاد بمقابلہ شاگرد⚔
پاکستان کے اھل حدیث محدث زبیر علی زائی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اگر ایسا کہا جائے کہ وہ سنی علوم الحدیث میں ایک مجدد کی حیثیت رکھتا ہے غلط نہ ہوگا۔ شیخ صاحب کا استدلال محققانہ ہوتا تھا اور انکے تحریروں میں حذبات و نفسیاتی رحجان بہت کم ہوتا تھا۔ لیکن انکی وفات کے بعد ہی انکے کافی شاگردوں نے اپنے استاد کے ہی اصولوں سے روگردانی کی بعض ناصبی بن گئے تو بعض منکر حدیث۔ زیل میں ھم ایک مثال پیش کر رہے ہیں :
زبیر علی زائی نے اپنے ایک فتاوی میں ایک سوال کے جواب میں یوں لکھا :
پاکستان میں جو ھندو مذھب یا بدھ مذھب وغیرھما سے تعلق رکھتے ہیں انکا ذبیچہ حرام ہے۔ جو مسلمان صحیح العقیدہ قصائی ہے انکا ذبیچہ حلال ہے۔ جو مرتدین و کفار ہے انکا ذبیچہ حرام ہے اور جو مبتدعین ( اھل بدعت) ہیں۔ اگر وہ اللہ کے نام پر حلال جانور ذبح کریں تو یہ گوشت حلال ہے۔
اھل بدعت کی روایات صحیحین میں موجود ہے مثلاً :
۱ – خالد بن مخلد : صحیحین کا راوی خالد بن مخلد ثقہ و صدوق ہے۔ جمہور محدثین نے اسکی توثیق کی ہے۔ ابن سعد نے کہا : وہ تشیع میں افراط کرنے والا تھا اور منکر احادیث بیان کرنے والا تھا (طبقات ابن سعد ۶/۴۰۶)۔
جوزجانی نے کہا : وہ صحابہ کو گالیاں دینے والا تھا۔ اپنے برے مذھب کا اعلان کرنے والا تھا (احوال الرجال ۱۰۸)۔
۲ – علی بن الجعد : صحیح بخاری کا راوی اور ثقہ عند الجمہور (صحیح الحدیث) تھا۔ اس نے سیدنا عثمان کے بارے میں کہا : اس نے بیت المال سے ایک لاکھ درھم ناحق لئے۔ اس پر یہ قسم بھی کھاتا تھا (تاریخ بغداد ۱۱//۳۶۴ و سند حسن)۔
۳ – عباد بن یعقوب : صحیح بخاری کا راوی اور موثق عند الجمہور (حسن الحدیث) تھا۔
امام ابن خزیمہ نے فرمایا : ہمیں عباد بن یعقوب نے حدیث سنائی۔ وہ اپنی رائے میں متہم تھا اور اپنی حدیث میں ثقہ (صحیح ابن خزیمہ ۱۶۹۷)۔
یہ تشیع میں غالی تھا اور سلف (صحابہ و تابعین) کو گالیاں دیتا تھا۔ دیکھئے الکامل لابن عدی (۴/۶۵۳، )
ابن حبان نے کہا : وہ رافضی تھا اور رافضیت کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا تھا (المجروحین ۲/۱۷۲)۔
حافظ ابن حجر نے کہا : صدوق رافضی (تقریب التہذیب ۳۱۵۳)۔
جب اھل بدعت (ثقہ و صدوق عندالجمہور) کی روایات مقبول ہیں تو انکا ذبیچہ بھی حلال ہے۔
⛔فتاویٰ علمیہ المعروف توضیع الاحکام – زبیر علی زائی // جلد ۱ // صفحہ ۹۴ – ۹۵ // طبع مکتبہ الفہیم یو پی ھندوستان۔
غلام مصطفی ظہیر امنپوری (جہلمی) : یہ زبیر علی زائی کا شاگرد تھا۔ ایک سوال کے جواب میں یوں فرماتے ہیں :
سوال : جو رافضی سیدنا ابوبکر اور دیگر اصحاب کو برا بھلا کہے، اسکو گائے کی قربانی میں شریک کرنا کیسا ہے ؟
جواب : ایسا رافضی کافر ہے۔ اسے جانور میں شریک نہیں کیا جا سکھتا ہے۔
⛔فتاویٰ امنپوری (قسط ۲۰۵) – مصطفیٰ ظہیر امنپوری // صفحہ ۶۔
آپ دیکھ سکھتے ہو کہ زبیر علی زائی اس رافضی کی روایات کے علاوہ اسکے ذبیچہ تک کو حلال سمجھتا تھا جو صحابہ کو گالیاں دیتا تھا اور اسکا شاگرد جذبات میِں آکر اسکی مخالفت کرتے ہوئے اب ان ہی روافض کو کافر قرار دے رہا ہے۔
اھل قبلہ اکابر اہلسنت کی نظر میں
.
آج کل کچھ لوگ اپنے مذہب سے جہالت اور لا علمی کی وجہ سے اھل قبلہ پر مختلف قسم کے فتوے لگا رہے ہیں اور اھل قبلہ کی کھل کر تکفیر کر رہے ہیں اور ستم بالا ستم یہ کہ اس کو دین کی خدمت کا نام دے رہے ہیں جبکہ ان کے اکابرین کے نزدیک اھل قبلہ مسلمان ہیں۔
ہم اہلسنت کے دو مشہور و معروف اکابر کی اعتقادی کتابوں سے اھل قبلہ کے بارے میں عقیدہ نقل کرتے ہیں:
حافظ الحدیث ابی جعفر احمد بن محمد بن سلامہ الازدی المصری الطحاوی (229 ھ _ 321 ھ) اپنی کتاب عقیدة الطحاوی میں لکھتے ہیں:
نحن لا نکفر احداً من ھل القبلة
ترجمہ: “ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتے ہیں”.
(عقیدة الطحاوی/ صفحہ 50 / عبد الحمید سواتی)
مزید صفحہ 49 پر لکھتے ہیں:
“اور ہم اپنے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے والوں کو مسلمان اور مومن کہتے ہیں”.
شاہ ولی الله دہلوی صاحب اپنی اعتقادی کتاب”العقیدة الحسنة ” میں لکھتے ہیں:
نحن لا نکفر احداً من ھل القبلة
ترجمہ: “ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتے ہیں”.
(العقیدة الحسنة / صفحہ 97 / مترجم عبد الحمید سواتی)
نوٹ: یہاں اھل قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار نہ کرتے ہو لہذا قادیانی کیونکہ ضروریات اسلام میں سے ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں اس لئے ان کا اھل قبلہ میں ہونا ان کے لئے فائدہ مند نہیں