کتاب شرح نہج البلاغہ جس کا مولف ابی الحدید ہے ، جو کہ معتزلی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا جو اہل سنت فرقہ کی شاخ ہے۔
.
وقال العلامة الهمذانيُّ –رحمه الله تعالىٰ– :
“فاعلم أن المتقدمين من المعتزلة : ذهبوا إلى أن أفضل الناس بعد النبي ﷺ : أبو بكر ثمَّ عمر ثمَّ عثمان ثمَّ علي عليه السلام“
“متقدمین معتزلہ اس کے معتقد تھے کہ افضل الناس بعد النبی ابوبکر ہیں ، پھر عمر ، پھر عثمان پھر علی علیہ السلام”


شرح الأصول الخمسة، ص٧٦٦ .
.

علامہ شمش الدین الذھبی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ

محمد بن محمد ابی الحدید القاضی ابو الحسین الفقیہ الشافعی

ابن ابی الحدید فقہ الشافعی کا امام تھا

تاریخ اسلام ص ١٧٦

اہلسنت عالم “علامہ صفدی” کے بقول یہ معتزلی تھا

الوافی بالوافیات، جلد ۱۲، صفحہ ۴۶، طبع دار الاحیاء التراث العربی، بیروت

اسی طرح اہلسنت عالم “الزر کلی” کے بقول بھی معتزلی تھا۔

الاعلام، جلد 3، صفحہ 289، طبع دار العلم الملامین

خود اسکی کتاب کے شروع میں لکھا ہے کہ یہ معتزلی تھا اور اس نے اپنی کتاب کے آغاز میں ابوبکر کی بیعت کے شرعی طور پر صحیح ہونے پر معتزلی شیوخ (متقدم، متاخر، بصریون، بغدادیوں) کے اتفاق کا ذکر کیا ہے۔

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید

یعنی یہ فقہی اعتبار سے شافعی اور کلامی اعتبار سے معتزلی تھے

معتزلی شیعہ نہیں بلکہ سنی العقیدہ مذھب پر ہوتے ہیں
جیسا کہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں

معتزلہ خلافت ابوبکر عمر عثمان پر طعن نہیں کرتے بلکہ وہ اس پر متفق ہیں ان کی خلافت ثابت شدہ ہے

منھاج السنة النبویة ص ٧٠

*ابن أبي الحديد المعتزلي اپنے عقائد کی روشنی میں*
.

بقلم *سیف الاسلام النجفی*
.
قارئین کرام اھل سنت حضرات جہاں سے جواب نہیں دے پاتے ، اُس وقت کتاب یا مصنف کو جلدی سے شیعہ بنا دیتے ہیں
انہی میں ایک ابن أبي الحديد المعتزلي بھی ہے جن کو اکثر شیعہ کیا جاتا ہے

حالانکہ حقیقت اس طرح نہیں ہے

ابن ابی الحدید المعتزلی کے کافی عقائد شرح ابن حدید میں شیعہ مسلمات کے خلاف ہیں

بہت سے اہل سنت محققین نے اسے معتزلی و شافی الفقہ کہا ہے
.
علامہ عبد الحميد بن هبة الله بن محمد بن الحسين المعروف بابن أبي الحديد کے چند عقائد آپ کے پیش کرتے ہیں
*سب سے پہلے ہم ابن حدید کا عقائد خلافت ابوبکر کے بارے پیش کرتے ہیں*
.
امام ابن حدید اپنی شرح ابن حدید جلد اول میں خلافت ابوبکر کے بارے میں لکھتے ہیں

ہمارے کافی علماء متقدمین اور علماء متاخرین اورعلماء بصرہ اور علماء بغدایوں کا اتفاق ہے ابوبکر کی بیعت (خلافت) صحیح اور شرعی ہے
جی جناب آپ نے اوپر ابن حدید کا عقیدہ پڑھا ہے جس نے اپنے بزرگان کی تائید سے خلافت ابوبکر کو صحیح اور شرعی کہا
اب تو یہ بات تو کسی سے مخفی نہیں ہے جو ابوبکر کی خلافت کو صحیح اور شرعی کہے وہ شیعہ نہیں بلکہ اھل سنت ہے تو پہر ابن حدید شیعہ کیوں؟

*کیا کوئی اہل سنت برادرز شیعہ علماء متقدین یا علماء متاخرین کا خلافت حضرت ابوبکر پر اتفاق دکھا سکتے ہیں جس کا دعوی ابن حدید کر رہے ہیں؟؟*
.
*اھل سنت کی طرف سے اعتراض*
.
اگر ابن حدید شیعہ نہیں تھے تو ابوبکر سے علی کو افضل کیوں سمجھتے تھے؟
.
*جواب*
.
*قارئین پہلی بات* یہ عقیدہ صرف ابن حدید کا نہیں ہے بلکہ اکثر صحابہ اور تابعین کا ہے وہ علی علیہ السلام کو ابوبکر سمیت دیگر صحابہ پر مقدم رکھتے تھے
*دوسری بات* امام ابن حدید نے تفضیل مولا علی ع پر صحابه کے بارے دو گروہ کا ذکر کیا ہے

*علماء بغداد اور علماء بصرہ*
.
ابن حدید المعتزلی لکہتے ہیں

(۱) علماء بصرہ اور ان کے ہم عصر یہ وہ علماء ہیں جو ابوبکر کو علی علیہ السلام پر فضیلت دیتے تھے

(۲) علماء بغدادیوں اور دیگر ہم فکر علماء یہ وہ علماء ہیں جو علی علیہ السلام کو ابوبکر اوردیگر صحابہ پر فضیلت دیتے تھے
اس کے اگے ابن حدید لکھتے ہیں

میں علماء بغداد کے ساتھ ہوں (یعنی علی علیہ السلام کو تمام صحابہ مع ابوبکر پر فضیلت دیتا ہوں)
اب سوال پیدا ہوتا ہے اگر علی علیہ السلام کو ابوبکر پر فضلیت دینا شیعت ہے تو فقط امام ابن حدید شیعہ کیوں ہے دیگر کیوں نہیں ہے؟
اس کے بعد اس ہی جلد اول اور صفحہ نمبر۹ پر جنگ جمل والوں کیلئے لکھتے ہیں

وہ عائشہ طلحہ زبیر وغیرہ توبہ تائب ہوئے
حالانکہ یہ عقدیدہ کسی شیعہ کا نہیں ہے
.

شیعہ گمان کرتے ہیں ان کا حضرت امام مھدی زندہ ہے جو آخرت میں ظھور کرے گا حالانکہ ہمارہ نظریہ (ابن حدید) کہتا ہے امام مھدی آخری زمانے میں اللہ پیدا کرے گا۔
جی جناب امام مھدی علیہ السلام کے وجود کے بارے شیعہ علی علیہ السلام کے پاس تواتر کے ساتھ روایت موجود ہیں اور امام مھدی علیہ السلام کا غیبت کبری شیعہ مسلمات میں سے ہے
.
ابوبکر کی بیعت کے شرعی
جو یہ عقیدہ رکھے کہ امام مھدی علیہ السلام پیدا ہوں گے وہ شیعہ نہیں بلکہ سنی ہے کیوں کے یہی عقیدہ اہل سنت والجماعت کا ہے
.
ابن ابی الحدید اپنی کتاب میں کہتا ہے کہ

وتزعم الشيعة انه خوطب في حياه رسول الله صلى الله عليه وآله بأمير المؤمنين، خاطبه بذلك جلة المهاجرين والأنصار، ولم يثبت ذلك في اخبار المحدثين،

“شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ حیات رسول میں علی ابن ابیطالب ع کو امیرالمومنین کہ کر خطاب کیا گیا ہے لیکن اخبار محدثین میں یہ ثابت نہیں ہے “۔

شرح نهج البلاغة – ابن أبي الحديد – ج ١ – الصفحة ١٢
ایک جگہ کہتا ہے کہ شیعہ دعوع کرتے ہیں

ودعى بعد وفاه رسول الله صلى الله عليه وآله بوصي رسول الله، لوصايته إليه بما أراده.
وأصحابنا لا ينكرون ذلك، ولكن يقولون: انها لم تكن وصيه بالخلافة،

“کہ علی ابن ابی طالب نبی ص کے بعد انکے وصی ہیں ،ہمارے علماء اس بات کا انکار نہیں کرے ہیں لیکن وہ یہ کہتے ہیں ہیں کہ یہاں وضی سے مراد خلافت نہیں ہے”۔

شرح نهج البلاغة – ابن أبي الحديد – ج ١ – الصفحة ١٣
بھلا کون سا انوکھا شیعہ ایسا ہے جو اس بات کا انکار کرے کہ حضرت علی ع واقعہ غدیر کے بعد مومنین کے امیر قرار نہیں پائے یا حضرت علی ع کو اپنا وصی بنانے سے مراد خلافت نہیں تھی
پھر ایک جگہ ابن ابی الحدید کہتا ہے کہ

كان من وسم بالخلافة قبله عدلا تقيا، وكانت بيعته بيعة صحيحة،

ابوبکر کی بیعت شرعی اعتبار سے صحیح تھی ۔

شرح نهج البلاغة – ابن أبي الحديد – ج ١ – الصفحة ١٥٧
.
ابن ابی الحدید عمر کی بھی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ

وعمر كان أتقى لله من أن يخطر له هذا،

اور عمر اللہ کیلئے زیادہ متقی تھا ۔

شرح نهج البلاغة – ابن أبي الحديد – ج ٣ – الصفحة ٩٩
.

قلت،،،،، لأنا نقول: الخبر يتضمن أن عثمان وأصحابه على الحق، وهذا مذهبنا، لأنا نذهب إلى أن عثمان قتل مظلوما، وأنه وناصرية يوم الدار على الحق، وأن القوم الذين قتلوه لم يكونوا على الحق،

“ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ عثمان اور اسکے ساتھی حق پر تھے ،اور عثمان مظلوم قتل ہوئے اور بے شک عثمان اور اسکے ساتھی (یوم الدار) حق پر تھے “۔
شرح نهج البلاغة – ابن أبي الحديد – ج ٣ – الصفحة ١٠٠
.

شیعہ اس بات کا ذکر کرتے ہیں ہیں کہ قنفذ کو بیت فاطمہ ع کی طرف بھیجا گیا
یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ وہ خود شیعہ نہیں تھا
.