.
.
امام معتزلہ اور حضرت فاطمۃ الزھراء ع پر خلیفہ ثانی کا ظلم
یہ جو بعض الناس دھوکہ دیتے ہیں عوام کو کہ فقط شیعہ ہی منفرد ہیں یہ کہنے میں کہ خلیفہ ثانی نے حضرت زہراء ع پر تشدد کیا اور انکو ضرب کیا تو انکو معلوم ہونا چاہئے کہ معتزلہ کے بہت بڑے شیخ اور انکے اولین علماء میں سے شیخ ابو اسحاق النظام البصری ۲۳۱ ھ نے اِس ظلم کو بیان کیا اور اسکے ساتھ مزید اُن مظالم کا بھی تذکرہ کیا جو خلیفہ ثانی سے نسبت رکھتے ہیں ۔
ہماری اِس بات پر بطور ثبوت پیش ہے وہ عبارت جو اہل سنت کے امام اور جلیل القدر عالم عبد القاھر بن طاھر بن محمد البغدادی ۴۲۹ ھ نے اپنی مشہور کتاب ‘الفرق بين الفرق’ ص ۱۳۳ پر نقل کی ہے جب وہ معتزلہ کے اُوپر کلام کرتے ہیں۔۔۔۔ (سکینڈ پیج ملاحظہ کیجیئے)
سکینڈ عبارت سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت میں معتزلہ فرقے کے عظیم اِمام اور متکلم جو اُنکے اولین ائمہ میں سے ہیں اور عباسی خلیفہ معتصم کے دور میں انتقال ہوا وہ مندرجہ ذیل عقائد رکھتے تھے:
۱. ابو ھریرہ لوگوں میں سب سے زیادہ جھوٹا تھا
۲. خلیفہ عمر نے روز حدیبیہ اپنے دین میں شک کیا اور روز وفات نبی ص بھی شک کیا
۳. یوم عقبہ میں رسول ص پر چھپ کر حملہ کرنے والوں میں سے ایک خلیفہ ثانی بھی تھے
۴. خلیفہ ثانی نے حضرت فاطمۃ الزہراء ع کو ضرب کیا اور انکی میراث انہیں نہیں دی
۵. صلاۃ تراویح کی بدعت شروع کرنے والے خلیفہ ثانی تھے ، اور متعة حج سے منع کرنے والے بھی اور غلاموں کا نکاح عرب عورتوں سے حرام کرنے والے بھی۔۔۔
باقی اور بھی خلاف شریعت و سنت کام انجام دیئے ۔۔۔۔
ان دو شخصیات کے اُوپر ہم ترجمہ رجال بھی پیش کیے دیتے ہیں:
۱.عبد القاھر بن طاھر بن محمد البغدادی ۴۲۹ ھ
علامہ سبکی نے طبقات شافعیہ ، ج ۵, ص ٨٦, رقم ٤٦٨ میں رقم کیا:
۔۔۔ امام عظیم القدر ، جلیل المحل ، کثیر العلم کہ اہل خراسان جنکی مفارقت سے مضطر ہوئے ۔۔۔
شیخ الاسلام ابو عثمان الصابونی نے انکو آئمہ اصول میں شمار کیا اور انکو نابغہ روزگار قرار دیا۔۔۔۔الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام ذھبی نے تاریخ الاسلام ج ۲۹, ص ۱۹۵ پر رقم کیا ہے کہ وہ آئمہ اصول میں سے تھے اور علوم میں تفنن رکھتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ زرکلی اپنی کتاب ‘الاعلام’ ج ٤, ص ٤٨ پر رقم کرتے ہیں:
عالم متفنن ، آئمہ اصول میں سے صدر اسلام سے آج تک۔۔۔۔الخ
……….
۲. ترجمۃ اِمام المعتزلة النظام
علامہ ذہبی نے تاریخ الاسلام، ج ۱۶, ص ۴۷۱ پر رقم کیا:
ابو اسحاق النظام البصری ایک متکلم اور اِمام معتزلہ تھے۔۔۔ ابنِ حزم نے انہیں معتزلہ کے اولین، عظیم اور گراں قدر شیوخ میں سے قرار دیا ہے۔۔۔الخ
خطیب بغدادی نے ‘تاریخ بغداد’ ج ۶, ص ۹۴, رقم ۳۱۳۱ پر لکھا ہے:
یہ اھل نظر و کلام تھے معتزلہ مذھب پر اور انکی کثیر تصانیف تھیں ۔ ابو عثمان جاحظ نے ان سے بہت سی حکایات نقل کی ہیں۔۔۔۔ الخ
اسی طرح زرکلی نے بھی انہیں ائمہ معتزلہ میں شمار کیا ہے
ابنِ حجر نے لسان المیزان ، ج ۱, ص ۶۶, رقم ۱۷۴ پر لکھا ہے کہ نظام ابو اسحاق البصری ائمہ معتزلہ کے رئیس تھے ۔ انکی وفات معتصم عباسی کے دور میں ہوئی ۔
شیعہ امامیہ منفرد نہیں ہیں اِس قول میں کہ خلیفہ ثانی نے حضرت فاطمہ ع کو ضرب کیا بلکہ متقدمین میں معتزلہ فرقے کے عظیم اِمام اور متکلم بھی یہی قول رکھتے تھے ۔
ایک اور نکتہ ذکر کرنا مفید ہے کہ النظام البصری کے عقائد متقدم ہیں جبکہ ابھی شیخ صدوق ، مفید ، طوسی اور کراجکی (علیہ الرحمۃ) پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ وہ احراق دار اور ضرب عمر کی روایات اور مظالم نقل کرتے۔۔۔ ثابت ہوا کہ یہ ظلم و بربریت روایات کے ذریعہ دور ائمہ اہلبیت ع سے منتقل و نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔
.
.
🔵 ابن ابی دارم متوفی ۳۵۲ھ 🔵
.
اہل سنت کے وہ مظلوم محدث جنھیں شہادت سیدہ ص کی روایت نقل کرنے پر انتہائی تنقید کا سامنا کرنا پڑا 💔
👈🏼 ابن ابی دارم کا تعلق اہل سنت محدثین سے ہے اور انہوں کی تمام زندگی اہل سنت حلقہ احباب میں گزری۔ شیعہِ علم رجال و حدیث میں کسی جگہ ابن ابی دارم کا تذکرہ نہیں ملتا۔
ابن ابی دارم اہل سنت کے اتنے بڑے محدث ہیں اتنے بڑے احادیث کے عالم ہیں کہ امام حاکم جب ان سے روایت نقل کر ہیں تو انکے نام کے ساتھ انکا لقب الحافظ بھی لکھتے ہیں۔
📚 حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۴، ص ۵۱۱۔
📚 حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۳۵۱۔
👈🏼 یاد رہے امام حاکم نے اپنی مستدرک میں شرط بخاری و مسلم پر روایات نقل کی ہیں۔
.
اسی طرح اہل سنت کے علامہ ذھبی ابن ابی دارم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
📜 الإمام الحافظ الفاضل…كان موصوفا بالحفظ والمعرفة…وقال محمد بن حماد الحافظ كان مستقيم الأمر عامة دهره
📃 یعنی ابن ابی دارم امام ، حافظ ، عالم و فاضل ہیں ، محمد بن حماد نے کہا وہ کافی عرصے تک سیدھی راہ پر رہے
📚 سیر أعلام النبلاء ج 15ص576و577و578
.
ابن ابی دارم نے جن شخصیات سے احادیث نقل کی ہیں ان میں ایک اہم شخصیت محمد بن عبد اللہ بن سلیمان حضرمی متوفی ۲۹۷ھ جن کی وثاقت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے۔ ابن ابی دارم خود کہتے ہیں میں نے حضرمی سے ۱۵۰ ہزار احادیث لکھی ہیں۔
.
مگر جیسے ہی ابن ابی دارم نے اپنے آخری ایام میں انکی محافل میں ایک سچ بولا جاتا تھا کہ
📜 إن ___ رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن
📃 فلاں نے فاطمہ (علیہا السلام) کو لات ماری جس کی وجہ سے جناب محسن سقط کر گئے۔
📚 ذہبی، محمد بن احمد، میزان الاعتدال، ج ۱، ص ۱۳۹۔
.
ذہبی کی مکمل روایت:
📜 وقال محمد بن أحمد بن حماد الكوفي الحافظ – بعد أن أرخ موته: كان مستقيم الأمر عامة دهره، ثم في آخر أيامه كان أكثر ما يقرأ عليه المثالب، حضرته ورجل يقرأ عليه: إن ____ رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن.؛
📃 محمد بن احمد بن حمال کوفی حافظ نے ابن ابی دارم کی تاریخ وفات ذکر کرنے کے بعد کہا: ابن ابی دارم ایک طویل عرصہ سیدھی راہ پر رہا لیکن اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس کے سامنے صحابہ کے نقائص بیان کیے جاتے تھے، میں ایک مرتبہ ابن ابی دارم کے پاس حاضر ہوا، تو وہ ایک شخص اس کے سامنے اس طرح تذکرہ کر رہا تھا: فلاں شخص نے فاطمہ (علیہا السلام) کو لات ماری جس کی وجہ سے جناب محسن سقط کر گئے۔

بس یہ کہنا تھا کہ ابن ابی دارم کو ان حقائق کے اعتراف میں شدید لعن طعن اور سخت الفاظ میں جرح کو برداشت کرنا پڑا۔ جیساکہ ذہبی نے امام حاکم کی نظر یہ بیان کی ہے کہ ابن ابی دارم رافضی اور غیر ثقہ ہیں۔ ذہبی نے اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکم لگایا: شَيْخٌ ضالّ مُعَثَّر؛ گمراہ پراگندہ اعتبار سے گرا ہوا شیخ ہے۔
جبکہ دوسری جگہ ابن ابی دارم کو کذاب کہا ہے۔
.
ایک اور محقق نے تمام حدود پار کر دیں اور اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ابن ابی دارم حدیثیں گھڑنے والا کذاب خبیث ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ابن ابی دارم ایک عظیم شخصیت، فنِ حدیث میں حافظ اور معرفت شناس اور حقائق کا اعتراف کرنے والا وہ عظیم محدث ہے جس نے دنیا میں لعن طعن اور سب و شتم قبول کر لیا لیکن آخرت میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کے سامنے سرخرو ہو گیا۔ ❤
👈🏼 نوٹ: اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ اپنے آخری میں رافضی ہو گئے تھے ، تو یاد رہے رافضی ہونا کوئی جرح نہیں ، بخاری و مسلم بھری پڑی ہیں رافضی راویوں سے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے انہیں رافضی و کذاب کہا ہی اسی لئے گیا کیوں کہ انہوں نے قاتل سیدہ ص و محسن ابن علی ع کا پول کھولا
.
جب تک کوئی صحابہ پر تنقید نہ کرے وہ اچھا بھی اور سچا بھی ھوتا ھے امام بھی ھوتا ھے حافظ اور فاضل بھی ھوتا ھے بھر وہ صحابہ پر تنقید کرتا ھے تو رافضی ، کذاب ، بڈھا اور خبیث بن جاتا ھے جیسے احمد بن محمد السری بن یحییٰ بن ابی دارم ؐحدث میزان الاعتدال سکین پیچ ملاحظہ فرنائیں

⚖ ظاہر ہے اہل سنت کے نزدیک ہر وہ شخص کذاب ہے جو شہادت سیدہ ص بیان کرے پھر چاہے وہ ان کا اپنا محدث حافظ ابن ابی دارم ہو یا آج کا شیعہ
.
اس راوی کا اصل نام بمظابق میزان اعتدال جلد ا نمبر ۶۶۱ ص ۲۰۵ (اردو )میں احمد بن محمد بن السری بن یحٰیی بن ابی دارم محدث جب کہ اس کی کنیت ابوبکر ھے اور یہ کوفہ کا رھنے والا ھے اس کو کئی القابات نوازا گیا ھے جیسے کذاب، جھوٹا، غیر ثقہ ھے
لیکن المستدرک حکم جلد اول ص ۶۰۲حدیث نمبر ۱۱۰۲ میں تحریر ھے کہ یہ سنت عزیزہ ھے صیحح اسناد کے ساتھ ثابت ھے لیکن شیخین نے اس نقل نہیں کیا۔
اور جلد چہارم صفحہ86، 98 حدیث نمبر 4315 اور 4330 ملاحظہ کر سکتے ھیں
اس سے ثابت ھوا کہ یہ روایت درست ھے کہ عمر نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ٹھوکر مارا اس سے جناب محسن جو اس وقت آپ کے پیٹ میں تھا ،سقط ہوا۔۔
طالب دعا