حضرت عمر نے جناب زھراء ص کو ضرب لگائی اور محسن شہید ہوئے (کتب اہل سنت)

1
اہل سنت عالم شہر سستانی (صاحب كتاب الملل والنحل) متعزلہ کے بہت بڑے اہل سنت عالم إبراهيم بن يسار بن هانئ کا قول لکھتے ہیں کہ
📝 حضرت فلاں نے (اسکین میں نام موجود ہے) بیعت کے دن جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ پر ضرب لگائی جس سے انکے بیٹے محسن ان کے شکم میں ساقط ہوگے اور ان کے گھر کو آ گ لگائی حتی کہ اس وقت گھر میں مولا علی علیہ السلام اور مولا حسن حسین علیہ السلام اور جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ کے علاوہ کوئی نہ تھا
📚 الملل والنحل جلد 1 صفحہ 57
اہل سنت محدثین شہر سستانی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
📝 محمد بن عبدالکریم بن احمد الشہر سستانی *الشافعی الفقیہ* تھے
📚 معجم المولفین جلد 2 صفحہ 422
📝 ابو الفتح بن ابی القاسم عبدالکریم الشہر سستانی *صاحب کتاب الملل والنحل امام اور فقیہ تھے*
📚 ابجد العلوم جلد 3 صفحہ 112
محمد بن عبدالکریم الشہر سستانی مصنف الملل والنحل تفقہ بمذھب الشافعی
📚 طبقات الشافعیة جلد 1 صفحہ 597
اس سے ثابت ہوا کہ یہ اہل سنت کے امام تھے جو شافعی المذھب تھے
.
2
.
اہل سنت عالم علامہ صفدی متعزلہ کے بہت بڑے عالم إبراهيم بن يسار بن هانئ کا قول نقل کی ہے
📜 …. إبراهيم بن سيار بن هانئ البصري المعروف بالنظام بالظاء المعجمة المشددة ، قالت المعتزلة : إنما لقب بذلك لحسن كلامه نظما ونثرا ، وقال غيرهم : إنما سمي بذلك لأنه كان ينظم الخرز بسوق البصرة ويبيعها وكان ابن أخت أبي الهذيل العلاف شيخ المعتزلة ، وكان إبراهيم هذا شديد الذكاء …. يقول : أن عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتى ألقت المحسن من بطنها.
📝 حضرت ____ نے بیعت کے دن جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ پر ضر ب لگائی جس کی وجہ سے ان کے شکم میں جناب محسن سا قط ہوگئے
📚 الوافي بالوفيات – النظام المعتزلي
الجزء : ( 6 ) – رقم الصفحة : 12 ، 15
یہ نظام جسکا عقیدہ بیان ہو رہا ہے معتزلیہ کے بڑے اماموں میں سے تھا۔
ابوبکر خطیب بغدادی (المتوفی ۴۶۳ھ) نے اسکے بارے میں یوں لکھا :
📜 إبراهيم بن سيار ، أبو إسحاق النظام : ورد بغداد وكان أحد فرسان أهل النظر والكلام على مذهب المعتزلة.
📝 ابراھیم بن سیار، ابو اسحاق کنیت، نظام۔ یہ بغداد ورد ہوا اور معتزلی مذہب کے اہل نظر اور کلام کے ماہرین میں سے تھا.
📚 تاریخ بغداد – خطیب بغدادی // جلد ۶ // صفحہ ۹۴ // رقم ۳۱۳۱ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اسی طرح ابن حجر عسقلانی (المتوفی ۸۵۲ھ) نے اسکا ذکر یوں کیا ہے :
📜 إبراهيم بن سيار بن هاني النظام أبو إسحاق البصري ، مولى بنى بحير بن الحارث بن عباد الضبعي من رؤس المعتزلة .
📝 ابراہیم بن سیار بن ہانی، نظام، ابو اسحاق بصری، مولی بنی بحیر بن حارث بن عباد الضبعی، یہ معتزلہ کے سرداروں میں سے تھا۔
📚 لسان المیزان – ابن حجر عسقلانی // جلد ۱ // صفحہ ۱۶۴ // رقم ۱۷۶ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
معتزلی شیعہ نہیں بلکہ سنی العقیدہ مذھب پر ہوتے ہیں
جیسا کہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں
📜 معتزلہ خلافت ابوبکر عمر عثمان پر طعن نہیں کرتے بلکہ وہ اس پر متفق ہیں ان کی خلافت ثابت شدہ ہے
📚 منھاج السنة النبویة ص ٧٠
.
3
.
علامہ یوسف کنجی شافعی جو شیخ مفید علیہ الرحمہ کے اقوال کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں
📜 جمہور نے کہا ہے کہ جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ کے بیٹے کا نبی کریم کے بعد اسقطت ہوا جن کا نام نبی پاک نے محسن رکھا تھا
📚 کفایة الطالب ، صفحہ 413
📝 علامہ زر کلی لکھتے ہیں کہ محمد بن یوسف بن محمد ایوب عبداللہ ابن فخر الکنجی محدث من الشافعیہ اور کفایتہ الطالب ان ہی کی تصنیف ہے
📚 الاعلام ، جلد 6، صفحہ 150
📝 محمد بن یوسف کنجی ایوب عبداللہ الشافعی کفایة الطالب
📚 هدية العارفين إسماعيل باشا البغدادي ، جلد 2 ، صفحہ 127
📚 كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون ، جلد 2 صفحہ 1497
اس سے ثابت ہوا کہ یہ اہل سنت کے امام اور عالم تھے
.
4
.

اہل سنت کے بزرگ عالم امام جوینی شافعی نے لکھا ہے کہ:
.
📜 ..وانّی لمّا رأیتها ذكرت ما یصنع بعدی، كانّی بها و قد دخل الذّل بیتها و انتهكت حرمتها و غصبت حقّها و منعت ارثها و كسرت جنبها و اسقطت جنینها و هی تنادی : یا محمداه…فتكون اوّل من یلحقنی من أهل بیتی فتقدم علی َ محزونة مكروبة مغمومة مغصوبة مقتولة.
📝 میں جب بھی اپنی بیٹی فاطمہ کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے بعد اس پر ہونے والے تمام مصائب یاد آ جاتے ہیں، اسکے گھر میں ذلت کو داخل کیا جائے گا، اسکے گھر کی حرمت کو پامال کیا جائے گا، اسکے حق کو غصب اور اسکو ارث سے منع کیا جائے گا، اسکا پہلو شکستہ اور اسکا بچہ سقط کیا جائے گا، اس حالت میں پکارے گی: یا محمداہ….. پس وہ میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلی ہو گی کہ جو میرے مرنے کے بعد، مجھ سے آ کر ملے گی، پس وہ میرے پاس آئے گی اس حالت میں کہ وہ بہت غمگین، دکھی اور مظلومانہ طور پر شہید کی گئی ہو گی۔
📚 فرائد السمطین، ج 2، ص 34، 35 طبع بیروت.
🔴 جوینی شافعی 🔴
📜 ابراهیم بن محمد بن الموید ابی بکر بن حمویه الجوینی صدرالدین ابوالمجامع شیخ خراسان فی وقته من اهل جوین بها رحل فی طلب الحدیث … عرفه ابن حجر فی الدرر بالشافعی…
📝 علامہ زر کلی لکھتے ہیں کہ یہ خراسان کے شیخ تھے اور ابن حجر نے ان کو الشافعی المذھب کہا ہے فرائد السمطین ان ہی کی تصنیف ہے
📚 الاعلام ، جلد 1 , صفحہ 63
📝 شیخ جمال الدین الزرندی حنفی لکھتے ہیں یہ شیخ عالم المحدث ہے ان کی کتاب پر آیمہ نے بھی اعتماد کیا ہے اور اس سے نقل کیا ہے
📚 نظم الدرالسمطین صفحہ 21
📝 علامہ زھبی لکھتے ہیں، یہ امام المحدث اور کامل عالم تھے اور فخر الاسلام تھے اور صالح دین والے تھے
📚 تذکرہ الحفاظ صفحہ 1505
🔴 علامہ جوینی شافعی المذهب تھے 🔴
.
📜 هو صدر الدین ابراهیم بن محمد بن الموید بن حمویه الجوینی ابوالمجامع ابن سعدالدین الشافعی …
📚معارج الوصول الی معرفة فضل آل ‌، تحقیق ماجد بن عطیة، ص48
.
📜صدرالدین الجوینی الشافعی، ابراهیم بن محمد
📚الوافی بالوفیات، الصفدی متوفی764، ناشر: داراحیاء التراث، بیروت، لبنان، ج6، ص 92
📜 هو صدر الدین ابراهیم بن محمد بن الموید بن حمویه الجوینی ابوالمجامع ابن سعدالدین الشافعی .
📚 طبقات الشافعیة، عبدالرحیم الاسنوی جمال الدین، متوفی 772،ناشر: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، ج1، ص217، رقم 412
📜 الحموینی الشافعی
📚الفصول المهمة فی معرفة الائمة، ابن صباغ المالکی، متوفی 855، ناشر: دارالحدیث للطباعة و النشر، ج2، ص1253
📜 ابراهیم بن محمد بن الموید بن حمویه الجوینی صدرالدین ابوالمجامع بن سعدالدین الشافعی الصوفی و سمع من عثمان بن الموفق صاحب الموید الطوسی.اجاز لبعض شیوخنا منهم ابوهریرة بن الذهبی.
📚 الدرر الکامنة فی اعیان المائة الثامنة، ابن حجر العسقلانی، متوفی 852، ناشر: داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ج1، ص 67و 68
.
📜 الشیخ محمد بن ابراهیم الجوینی الحموینی الشافعی الخراسانی و سمّاه فرائد السمطین فی فضائل المرتضی و البتول و السبطین
📚 ینابیع المودة لذوی القربی، شیخ سلیمان بن ابراهیم القندوزی الحنفی، متوفی 1294،ناشر: دارالاسوة للطباعة و النشر ج1ص27 ج 3، ص 270 و 271
📜 فرائد السمطین فی فضایل المرتضی و البتول و السبطین (علیهم السلام) للشیخ محمد بن ابراهیم الحموینی الشافعی
📚 فلک النجاة فی الامامة و الصلاة، علی بن محمد فتح الدین الحنفی، متوفی 1371، ناشر: موسسة دار الاسلام، ص 37
.
5
.
اہل سنت عالم علامہ مسعودی لکھتے ہیں کہ
.
📜 فانصرف عنهم فأقام أمير المؤمنين (ع) ومن معه من شيعته في منزله بما عهد إليه رسول الله (ص) فوجهوا الى منزله فهجموا عليه ، وأحرقوا بابه ، واستخرجوه منه كرها ، وضغطوا سيدة النساء بالباب حتى اسقطت ( محسنا ) وأخذوه بالبيعة فامتنع ، وقال : لا أفعل ، فقالوا : نقتلك ، فقال : ان تقتلوني فاني عبد الله وأخو رسوله ، وبسطوا يده فقبضها ، وعسر عليهم فتحها ، فمسحوا عليها وهي مضمومة ….
📝 حضرت ____ نے جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ کا دروازہ جلایا اور مولا علی علیہ السلام کو زبر دستی لے جایا گیا اور جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ کو دروازے سے دبایا گیا جس سے جناب محسن ساقط ہوگئے
📚 اثبات الوصیة جلد 1 صفحہ 154
اثبات الوصیة کے مولف ابو الحسن علی بن الحسین بن علی المسعودی فقہ الشافعیہ سے تعلق رکھتے تھے
📚 معجم المطبوعات العربیة جلد 2 صفحہ 1743
📚 طبقات الشعافعیة جلد 3 صفحہ 459
بعض نے انہیں معتزلی کہا ہے
.
6
.
امام معتزلہ اور حضرت فاطمۃ الزھراء ع پر خلیفہ ثانی کا ظلم
یہ جو بعض الناس دھوکہ دیتے ہیں عوام کو کہ فقط شیعہ ہی منفرد ہیں یہ کہنے میں کہ خلیفہ ثانی نے حضرت زہراء ع پر تشدد کیا اور انکو ضرب کیا تو انکو معلوم ہونا چاہئے کہ معتزلہ کے بہت بڑے شیخ اور انکے اولین علماء میں سے شیخ ابو اسحاق النظام البصری ۲۳۱ ھ نے اِس ظلم کو بیان کیا اور اسکے ساتھ مزید اُن مظالم کا بھی تذکرہ کیا جو خلیفہ ثانی سے نسبت رکھتے ہیں ۔
ہماری اِس بات پر بطور ثبوت پیش ہے وہ عبارت جو اہل سنت کے امام اور جلیل القدر عالم عبد القاھر بن طاھر بن محمد البغدادی ۴۲۹ ھ نے اپنی مشہور کتاب ‘الفرق بين الفرق’ ص ۱۳۳ پر نقل کی ہے جب وہ معتزلہ کے اُوپر کلام کرتے ہیں۔۔۔۔ (سکینڈ پیج ملاحظہ کیجیئے)
سکینڈ عبارت سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت میں معتزلہ فرقے کے عظیم اِمام اور متکلم جو اُنکے اولین ائمہ میں سے ہیں اور عباسی خلیفہ معتصم کے دور میں انتقال ہوا وہ مندرجہ ذیل عقائد رکھتے تھے:
۱. ابو ھریرہ لوگوں میں سب سے زیادہ جھوٹا تھا
۲. خلیفہ عمر نے روز حدیبیہ اپنے دین میں شک کیا اور روز وفات نبی ص بھی شک کیا
۳. یوم عقبہ میں رسول ص پر چھپ کر حملہ کرنے والوں میں سے ایک خلیفہ ثانی بھی تھے
۴. خلیفہ ثانی نے حضرت فاطمۃ الزہراء ع کو ضرب کیا اور انکی میراث انہیں نہیں دی
۵. صلاۃ تراویح کی بدعت شروع کرنے والے خلیفہ ثانی تھے ، اور متعة حج سے منع کرنے والے بھی اور غلاموں کا نکاح عرب عورتوں سے حرام کرنے والے بھی۔۔۔
باقی اور بھی خلاف شریعت و سنت کام انجام دیئے ۔۔۔۔
ان دو شخصیات کے اُوپر ہم ترجمہ رجال بھی پیش کیے دیتے ہیں:
۱.عبد القاھر بن طاھر بن محمد البغدادی ۴۲۹ ھ
علامہ سبکی نے طبقات شافعیہ ، ج ۵, ص ٨٦, رقم ٤٦٨ میں رقم کیا:
۔۔۔ امام عظیم القدر ، جلیل المحل ، کثیر العلم کہ اہل خراسان جنکی مفارقت سے مضطر ہوئے ۔۔۔
شیخ الاسلام ابو عثمان الصابونی نے انکو آئمہ اصول میں شمار کیا اور انکو نابغہ روزگار قرار دیا۔۔۔۔الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام ذھبی نے تاریخ الاسلام ج ۲۹, ص ۱۹۵ پر رقم کیا ہے کہ وہ آئمہ اصول میں سے تھے اور علوم میں تفنن رکھتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ زرکلی اپنی کتاب ‘الاعلام’ ج ٤, ص ٤٨ پر رقم کرتے ہیں:
عالم متفنن ، آئمہ اصول میں سے صدر اسلام سے آج تک۔۔۔۔الخ
……….
۲. ترجمۃ اِمام المعتزلة النظام
علامہ ذہبی نے تاریخ الاسلام، ج ۱۶, ص ۴۷۱ پر رقم کیا:
ابو اسحاق النظام البصری ایک متکلم اور اِمام معتزلہ تھے۔۔۔ ابنِ حزم نے انہیں معتزلہ کے اولین، عظیم اور گراں قدر شیوخ میں سے قرار دیا ہے۔۔۔الخ
۔۔۔۔۔۔
خطیب بغدادی نے ‘تاریخ بغداد’ ج ۶, ص ۹۴, رقم ۳۱۳۱ پر لکھا ہے:
یہ اھل نظر و کلام تھے معتزلہ مذھب پر اور انکی کثیر تصانیف تھیں ۔ ابو عثمان جاحظ نے ان سے بہت سی حکایات نقل کی ہیں۔۔۔۔ الخ
اسی طرح زرکلی نے بھی انہیں ائمہ معتزلہ میں شمار کیا ہے
الاعلام ، ج ۱, ص ۴۳
ابنِ حجر نے لسان المیزان ، ج ۱, ص ۶۶, رقم ۱۷۴ پر لکھا ہے کہ نظام ابو اسحاق البصری ائمہ معتزلہ کے رئیس تھے ۔ انکی وفات معتصم عباسی کے دور میں ہوئی ۔
نتیجہ:
شیعہ امامیہ منفرد نہیں ہیں اِس قول میں کہ خلیفہ ثانی نے حضرت فاطمہ ع کو ضرب کیا بلکہ متقدمین میں معتزلہ فرقے کے عظیم اِمام اور متکلم بھی یہی قول رکھتے تھے ۔
ایک اور نکتہ ذکر کرنا مفید ہے کہ النظام البصری کے عقائد متقدم ہیں جبکہ ابھی شیخ صدوق ، مفید ، طوسی اور کراجکی (علیہ الرحمۃ) پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ وہ احراق دار اور ضرب عمر کی روایات اور مظالم نقل کرتے۔۔۔ ثابت ہوا کہ یہ ظلم و بربریت روایات کے ذریعہ دور ائمہ اہلبیت ع سے منتقل و نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔
.
7
.

🔵 ابن ابی دارم متوفی ۳۵۲ھ 🔵

.

اہل سنت کے وہ مظلوم محدث جنھیں شہادت سیدہ ص کی روایت نقل کرنے پر انتہائی تنقید کا سامنا کرنا پڑا 💔

👈🏼 ابن ابی دارم کا تعلق اہل سنت محدثین سے ہے اور انہوں کی تمام زندگی اہل سنت حلقہ احباب میں گزری۔ شیعہِ علم رجال و حدیث میں کسی جگہ ابن ابی دارم کا تذکرہ نہیں ملتا۔

ابن ابی دارم اہل سنت کے اتنے بڑے محدث ہیں اتنے بڑے احادیث کے عالم ہیں کہ امام حاکم جب ان سے روایت نقل کر ہیں تو انکے نام کے ساتھ انکا لقب الحافظ بھی لکھتے ہیں۔

📚 حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۴، ص ۵۱۱۔
📚 حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۳۵۱۔

👈🏼 یاد رہے امام حاکم نے اپنی مستدرک میں شرط بخاری و مسلم پر روایات نقل کی ہیں۔

.

اسی طرح اہل سنت کے علامہ ذھبی ابن ابی دارم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

📜 الإمام الحافظ الفاضل…كان موصوفا بالحفظ والمعرفة…وقال محمد بن حماد الحافظ كان مستقيم الأمر عامة دهره

📃 یعنی ابن ابی دارم امام ، حافظ ، عالم و فاضل ہیں ، محمد بن حماد نے کہا وہ کافی عرصے تک سیدھی راہ پر رہے

📚 سیر أعلام النبلاء ج 15ص576و577و578

.

ابن ابی دارم نے جن شخصیات سے احادیث نقل کی ہیں ان میں ایک اہم شخصیت محمد بن عبد اللہ بن سلیمان حضرمی متوفی ۲۹۷ھ جن کی وثاقت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے۔ ابن ابی دارم خود کہتے ہیں میں نے حضرمی سے ۱۵۰ ہزار احادیث لکھی ہیں۔

.

مگر جیسے ہی ابن ابی دارم نے اپنے آخری ایام میں انکی محافل میں ایک سچ بولا جاتا تھا کہ

📜 إن ___ رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن

📃 فلاں نے فاطمہ (علیہا السلام) کو لات ماری جس کی وجہ سے جناب محسن سقط کر گئے۔

📚 ذہبی، محمد بن احمد، میزان الاعتدال، ج ۱، ص ۱۳۹۔

.

ذہبی کی مکمل روایت:

📜 وقال محمد بن أحمد بن حماد الكوفي الحافظ – بعد أن أرخ موته: كان مستقيم الأمر عامة دهره، ثم في آخر أيامه كان أكثر ما يقرأ عليه المثالب، حضرته ورجل يقرأ عليه: إن ____ رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن.؛

📃 محمد بن احمد بن حمال کوفی حافظ نے ابن ابی دارم کی تاریخ وفات ذکر کرنے کے بعد کہا: ابن ابی دارم ایک طویل عرصہ سیدھی راہ پر رہا لیکن اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس کے سامنے صحابہ کے نقائص بیان کیے جاتے تھے، میں ایک مرتبہ ابن ابی دارم کے پاس حاضر ہوا، تو وہ ایک شخص اس کے سامنے اس طرح تذکرہ کر رہا تھا: فلاں شخص نے فاطمہ (علیہا السلام) کو لات ماری جس کی وجہ سے جناب محسن سقط کر گئے۔

بس یہ کہنا تھا کہ ابن ابی دارم کو ان حقائق کے اعتراف میں شدید لعن طعن اور سخت الفاظ میں جرح کو برداشت کرنا پڑا۔ جیساکہ ذہبی نے امام حاکم کی نظر یہ بیان کی ہے کہ ابن ابی دارم رافضی اور غیر ثقہ ہیں۔ ذہبی نے اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکم لگایا: شَيْخٌ ضالّ مُعَثَّر؛ گمراہ پراگندہ اعتبار سے گرا ہوا شیخ ہے۔
جبکہ دوسری جگہ ابن ابی دارم کو کذاب کہا ہے۔

.
ایک اور محقق نے تمام حدود پار کر دیں اور اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ابن ابی دارم حدیثیں گھڑنے والا کذاب خبیث ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ابن ابی دارم ایک عظیم شخصیت، فنِ حدیث میں حافظ اور معرفت شناس اور حقائق کا اعتراف کرنے والا وہ عظیم محدث ہے جس نے دنیا میں لعن طعن اور سب و شتم قبول کر لیا لیکن آخرت میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کے سامنے سرخرو ہو گیا۔ ❤

👈🏼 نوٹ: اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ اپنے آخری میں رافضی ہو گئے تھے ، تو یاد رہے رافضی ہونا کوئی جرح نہیں ، بخاری و مسلم بھری پڑی ہیں رافضی راویوں سے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے انہیں رافضی و کذاب کہا ہی اسی لئے گیا کیوں کہ انہوں نے قاتل سیدہ ص و محسن ابن علی ع کا پول کھولا

.

جب تک کوئی صحابہ پر تنقید نہ کرے وہ اچھا بھی اور سچا بھی ھوتا ھے امام بھی ھوتا ھے حافظ اور فاضل بھی ھوتا ھے بھر وہ صحابہ پر تنقید کرتا ھے تو رافضی ، کذاب ، بڈھا اور خبیث بن جاتا ھے جیسے احمد بن محمد السری بن یحییٰ بن ابی دارم ؐحدث میزان الاعتدال سکین پیچ ملاحظہ فرنائیں

⚖ ظاہر ہے اہل سنت کے نزدیک ہر وہ شخص کذاب ہے جو شہادت سیدہ ص بیان کرے پھر چاہے وہ ان کا اپنا محدث حافظ ابن ابی دارم ہو یا آج کا شیعہ

.

اس راوی کا اصل نام بمظابق میزان اعتدال جلد ا نمبر ۶۶۱ ص ۲۰۵ (اردو )میں احمد بن محمد بن السری بن یحٰیی بن ابی دارم محدث جب کہ اس کی کنیت ابوبکر ھے اور یہ کوفہ کا رھنے والا ھے اس کو کئی القابات نوازا گیا ھے جیسے کذاب، جھوٹا، غیر ثقہ ھے
لیکن المستدرک حکم جلد اول ص ۶۰۲حدیث نمبر ۱۱۰۲ میں تحریر ھے کہ یہ سنت عزیزہ ھے صیحح اسناد کے ساتھ ثابت ھے لیکن شیخین نے اس نقل نہیں کیا۔
اور جلد چہارم صفحہ86، 98 حدیث نمبر 4315 اور 4330 ملاحظہ کر سکتے ھیں
اس سے ثابت ھوا کہ یہ روایت درست ھے کہ عمر نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ٹھوکر مارا اس سے جناب محسن جو اس وقت آپ کے پیٹ میں تھا ،سقط ہوا۔۔

طالب دعا