اہل سنت محدث دہلوی حضرت عمر کے سیدہ فاطمہ ع کے گھر کو جلانے کی دھمکی دینے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
.

پھر لکھتا ہے کہ





.
اور پاکستان میں وہابیوں کے سب سے بڑے شیخ الحدیث غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری مصنف ابن أبي شيبة کی روایت جس میں عمر بن خطاب بیت سیدہ فاطمہ ع کو جلانے کی دھمکی دیتا ہے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دے کر عمر کی اس فعل کی یہ توجیہ پیش کرتا ہے کہ




کیا اہلسنت اس بات پر اپنے ممدوح کی مزمت میں دو حرف کہ سکتے ھیں؟
جو دھمکی والی بات کو ھی اہمیت نہیں دیتے۔ وہ احراق بیت والی بات کیسے تسلیم کرسکتے ھیں؟
.
۱) شاہ عبدالعزیز دہلوی ( علیہ ما علیہ ) لکھتا ہے
هر گاه بر ترک جماعت که از سنن موکده است و فایده آن عاید بنفس مکلف است فقط و هیچ ضرری از ترک آن به مسلمین نمیرسد پیغمبر صلی الله علیه وسلم تهدید فرموده باشد باحراق بیوت در این قسم مفسده که شراره های آن تمام مسلمین بلکه تمام دین را برسد چرا تهدید باحراق بیوت جایز نباشد
جب رسول ص نے ترک نماز با جماعت پر جو سنت موکدہ ہے اور جسکا فائدہ عام مسلمانوں کو نہیں اسکے ترک کرنے پر ترک کرنے والوں کو انکے گھر جلا – نے کی تہدید فرمائی تو پھر ایسے فسا – د ( کہ جو حضرت علی ع کے گھر میں ہورہا تھا ) جس سے پوری ملت اسلامیہ کے متاثر ہونے کا خطرہ اور دین کو ملیا میٹ کرنے کا سامان ہو تو ایسی سازش گاہ ( یعنی سیدہ فاطمہ ع کے گھر ) کو جلا — نے کی دھمکی کیوں جائز نہیں ہوسکتی ؟


۲) قاضی عبد الجبار متعزلی شافعی ( علیہ ما علیہ ) نے لکھا
وأما ما ذکره من حدیث عمر فی باب الإحراق، فلو صح لم یکن طعنا على عمر لأن له أن یهدد من امتنع من المبایعة، إرادة للخلاف على المسلمین
اگر یہ حدیث کہ جس میں عمر کے گھر جلا — نے کی دھمکی کا ذکر ہے ، صحیح ہوتی تو بھی اس میں عمر پر کوئی اعتراض نہیں تھا کیوں کہ عمر کو حق حاصل تھا کہ وہ ان لوگوں کو دھمکی دے جو مسلمانوں میں اختلاف پیدا کر رہے تھے ۔

