*حضرت امام حسنؑ نے اپنے جنازے سے بھی امت کے درمیان خون ریزی نہ ہونے دی*

.

آئمہ اہلبیتؑ کو یہ طرہ امتیاز حاصل ہے کہ ہمارے ہر امام نے امت کی وحدت کو ملحوظ خاطر رکھا اور کبھی کسی امام نے نہ تو وحدت کو توڑنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس قسم کی کسی کوشش کو کبھی سپورٹ فراہم کی۔
آئمہؑ نے رسول اللہ (ص) کا حقیقی وارث ہونے کا حق ادا کیا اور رسول اللہ کی امت کو کبھی آپسی لڑائی میں مبتلا نہیں ہونے دیا۔ آئمہؑ نے اس بات کا اس حد تک خیال رکھا کہ حتی اپنے جنازوں کو بھی امت کی وحدت یا آپسی لڑائی کو بنیاد نہیں بننے دیا۔
حضرت امام حسن مجتبیؑ کےمتعلق ہمیں ملتا ہے کہ جس وقت انہیں زہر دیا گیا تو امامؑ نے اپنی وصیت میں اپنے جنازے کے متعلق وصیت اس طرح سے کی:
*فإذا قضيت فغمضني وغسلني وكفني واحملني على سريري إلى قبر جدي رسول الله صلى الله عليه وآله لاجدد به عهدا، ثم ردني إلى قبر جدتي فاطمة بنت أسد رحمة الله عليها فادفني هناك. وستعلم يا ابن أم أن القوم يظنون أنكم تريدون دفني عند رسول الله صلى الله عليه وآله فيجلبون في منعكم عن ذلك، وبالله أقسم عليك أن تهريق في أمري محجمة دم*
*ترجمہ:*
“جب میں گزر جاوں تو آپ میری آنکھیں بند کرنا، غسل و کفن دینا اور میرے تابوت کو اٹھا کر میرے نانا رسول خدا کی قبر کے پاس لے جانا تا کہ میں ان سے تجدید عہد کر لوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اے میرے ماں جائے! عنقریب آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ دنیا گمان کرے گی کہ آپ لوگ مجھے رسول اللہ کے پاس دفن کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ اس کے لئے جمع ہو کر آپ لوگوں کو اس سے روکیں گے۔ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں اس سے کہ میرے معاملے میں تھوڑا سا خون بھی بہے۔”
چنانچہ جب امام حسنؑ کے جنازے کو رسول اللہ کی قبر مبارک کے پاس لے کر جایا گیا تو کچھ لوگوں نے امام (ع) کو رسول اللہ کے پاس دفن ہونے سے روکا۔ اس پر ابن عباس (رض) نے مروان کو اس طرح سے تنبیہ کی:
*ولو كان وصى بدفنه مع النبي صلى الله عليه وآله لعلمت أنك أقصر باعا من ردنا عن ذلك، لكنه عليه السلام كان أعلم بالله ورسوله وبحرمة قبره من أن يطرق عليه هدما كما طرق ذلك غيره، ودخل بيته بغير إذنه*
*ترجمہ:*
“اگر انہوں (امام حسنؑ) نے وصیت کی ہوتی کہ انہیں رسول اللہ کے ساتھ دفن کیا جائے تو تجھے معلوم ہو جاتا کہ تیرے بازو ہمیں روکنے پر کتنے کوتاہ ہیں۔ لیکن آنجنابؑ اللہ، اس کے رسول اور ان کی قبر کی حرمت کو بہتر جانتے تھے کہ وہ اس میں توڑ پھوڑ کرتے جس طرح ان کے غیر نے کی تھی۔ وہ حضور کے گھر میں ان کی اجازت کے بغیر داخل ہوئے تھے۔”
اس کے بعد امام حسینؑ نے فرمایا؛
*والله لولا عهد الحسن إلي بحقن الدماء، وأن لا أهريق في أمره محجمة دم، لعلمتم كيف تأخذ سيوف الله منكم مأخذها، وقد نقضتم العهد بيننا وبينكم، وأبطلتم ما اشترطنا عليكم لانفسنا “. ومضوا بالحسن عليه السلام فدفنوه بالبقيع عند جدته فاطمة بنت أسد بن هاشم بن عبد مناف رضي الله عنها وأسكنها جنات النعيم*
*ترجمہ:*
“خدا کی قسم! اگر حسنؑ کی طرف سے مجھے خون کے محفوظ رکھنے کی وصیت نہ ہوتی اور یہ کہ میں ان کے مقابلے میں تھوڑا سا خون بھی نہ بہنے دوں تو تم جان لیتے کہ اللہ کی تلواریں تم میں اپنی جگہ کس طرح لیتی ہیں۔ تم نے ہمارے اور تمھارے درمیان جو عہد تھا اسے توڑ ڈالا اور اس شرظ کو جو اپنے نفوس کے بارے میں ہم نے لگائی، ختم کر دیا۔
پھر امام حسنؑ کو لے کر چلے اور انہیں ان کی جدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبدالمناف کے پاس دفن کر دیا۔”
📚 خلاصہ از، الارشاد، شیخ مفید، جلد # 2، صفحہ # 17 تا 19، طبع موسسہ آل البیتؑ