امام حسین ع عمر سے کہا میرے بابا کے منبر سے اتر جائیں

.
امام الحافظ عمر بن شبہ النمیری م262ھ رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: ” أَتَيْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقُلْتُ: انْزِلْ عَنْ مِنْبَرِ أَبِي وَاذْهَبْ إِلَى مِنْبَرِ أَبِيكَ، قَالَ: «إِنَّ أَبِي لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْبَرٌ» ، وَأَجْلَسَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ، وَفِي يَدِي حَصًى فَجَعَلْتُ أُقَلِّبُهُ، فَلَمَّا نَزَلَ ذَهَبَ بِي إِلَى مَنْزِلِهِ فَقَالَ لِي: «يَا بُنَيَّ مَنْ عَلَّمَكَ هَذَا؟» قُلْتُ: مَا عَلَّمَنِيهِ أَحَدٌ، قَالَ: «أَيْ بُنَيَّ حَلَفْتُ تَغْشَانَا حَلَفْتُ تَأْتِينَا» قَالَ: فَأَتَيْتُهُ يَوْمًا وَهُوَ خَالٍ بِمُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْبَابِ لَمْ يَدْخُلْ فَرَجَعَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ يَرْجِعُ رَجَعْتُ، فَلَقِيَنِي عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ ذَلِكَ فَقَالَ: «أَيْ بُنَيَّ لَمْ أَرَكَ أَتَيْتَنَا» ، قُلْتُ: قَدْ جِئْتُ وَأَنْتَ خَالٍ بِمُعَاوِيَةَ فَرَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَرْجِعُ فَرَجَعْتُ، قَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ بِالْإِذْنِ مِنَ ابْنِ عُمَرَ، إِنَّمَا أُثْبِتَ فِي رُءُوسِنَا مَا هَدَى اللَّهُ وَأَنْتُمْ، وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ “
.
امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں ایک دفعہ میں (بچپن میں) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جب وہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے میں نے ان سے کہا میرے بابا کے منبر سے اتر جائیں اپنے والد کے منبر پر جائیں تو سیدنا عمر نے فرمایا : میرے باپ کا تو کوئی منبر نہیں!! پھر انہوں نے مجھے وہاں اپنے پاس منبر پر بٹھا لیا میرے ہاتھ میں کنکریاں تھیں میں ان سے کھیلنے لگا جب انہوں نے خطبہ مکمل کیا تو میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر لے گئے اور مجھ سے کہا اے میرے بیٹے تمہیں یہ بات کس نے سکھائی ؟؟ میں نے کہا مجھے یہ بات کسی نے بھی نہیں سکھائی پھر انہوں نے فرمایا اے میرے بیٹے ہمارے پاس آیا جایا کرو
امام حسین فرماتے ہیں پھر میں ایک دن سیدنا عمر کے پاس گیا جب وہ حضرت معاویہ کے ساتھ گفتگو میں مشغول تھے عبداللہ بن عمر کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ملی وہ دروازے سے واپس جانے لگے جب میں نے انہیں جاتے ہوئے دیکھا تو میں بھی واپس چلا گیا اسکے بعد سیدنا عمر مجھ سے ملے اور کہا بیٹا میں نے تمہیں ہمارے پاس آتے نہیں دیکھا میں نے کہا میں آیا تھا آپ جناب معاویہ کے ساتھ اکیلے میں گفتگو میں مشغول تھے میں نے جب ابن عمر کو واپس پلٹتے دیکھا تو میں بھی واپس چلا گیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ عبداللہ سے زیادہ حق دار ہیں پھر اپنے ہاتھ سے اپنے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ جو ہمارے سروں پر قائم ہیں یہ اللہ عزوجل کے بعد آپ ہی کی بدولت ہیں!! ۔
( كتاب تاريخ المدينة لابن شبة 3/799 وسندہ صحیح )
امام شمس الدین ذھبی م748ھ رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ۔
( كتاب سير أعلام النبلاء – ط الرسالة 3/285 )
امام ابن حجر عسقلانی م852ھ رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ۔
( كتاب الإصابة في تمييز الصحابة 2/69 )
طبقات ابن سعد کے محقق محمد بن صامل اسلمی نے اسکی سند کو صحیح قرار دیا ۔
( كتاب الطبقات الكبرى – متمم الصحابة – الطبقة الخامسة 1/394 )
مطالب العالیہ کے محققین نے اسکی سند کو صحیح قرار دیا ۔
( كتاب المطالب العالية محققا 15/760 )
اس اثر سے سیدنا امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی اہلبیت علیہم السلام سے محبت بلکل واضح ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے پر امام حسین علیہ السلام کو ترجیح دی اور کہا کے ہمارے سروں پر عزتیں اللہ کے بعد آپکی بدولت قائم دائم ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ و اہلبیت علیہم السلام کا محب بنائے آمین