وصیتِ خلافت (حدیثِ قرطاس)

ســیـد نــادر نــقـوی
.
وہابی سکالر مفتی محمد اسحاق مدنی صاحب حدیث قرطاس کے بارے میں فرماتے ہیں:
“علامہ شبلی نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ روایت (حدیث قرطاس) کا انکار کر دیں۔ مولانا مودودی نے حدیث پیش کر دی کہ نماز و روزہ کا مسئلہ تھا مگر یہ حدیث (نماز و روزہ والی) صحیح نہیں ہے اس میں راوی نعیم بن یزید مجہول ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ خلافت کا مسئلہ تھا۔ رسول الله ﷺ وآلہ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ریاست کے سربراہ بھی تھے۔ رسول اکرم ﷺ وآلہ کا خیال ہو گا کہ بعد میں امت کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائے اس لئے کسی کو اپنا جانشین مقرر کر دیا جائے تاکہ بعد میں انتشار پیدا نہ ہو۔ رسول الله ﷺ وآلہ کا یہ خیال سو فیصد درست تھا۔ بعد میں ایسا ہی ہوا۔ انصار نے اجتماع بلا لیا تاکہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ بیعت کر لی جائے بنو ہاشم حضرت عباس ؓ کی قیادت میں حضرت علی ؑ کے لئے سرگرم تھے۔ مہاجرین حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت چاہتے تھے۔ یہ سب باتیں رسول الله ﷺ وآلہ کے ذہن میں تھیں وہ اس کا حل امت کو دینا چاہتے تھے مگر بد قسمتی سے لوگ اس وقت انتشار کا شکار ہو گئے۔ وہاں پر دو پارٹیاں بن گئیں ایک جماعت کا خیال تھا کہ لکھوا لیا جائے یہ بات باعث برکت ہو گی۔ دوسری جماعت کا خیال تھا کہ رسول الله ﷺ وآلہ اس وقت تکلیف میں ہیں ہمارے لئے قرآن کافی ہے”.
(سیرت النبی ﷺ وآلہ/ صفحہ 261)